"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

242 22 22
                                    

قسط نمبر 7:
تحسین راجپوت📝

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اسکا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے

ناصر کاظمی

ھدا پیروں تک آتا سیاہ پلین فراک میں ملبوس ساتھ چوڑی دار پاجامہ پہنے "ووڈ ہاٶس" کی چھت پر ٹہل رہی تھی۔ تراشیدہ گولڈن بال کندھوں پر بکھرے تھے، آنکھیں ویران تھیں۔ جنوری ختم ہونے کو تھا اور فروری کے شروع ہونے میں دو دن باقی تھے۔۔اور پھر اسکی کلاسس اسٹارٹ ہو جانی تھیں۔۔فارس کو گٸے ہوۓ تقریباً دو ماہ ہونے کو آۓ تھے۔۔
"وہ چلا تو گیا ہے لیکن اپنے ساتھ کی طلب میرے دل میں بڑھا گیا ہے، یہ دل میری کیوں نہیں سنتا، صرف اسی کے راگ الاپتا ہے افف" وہ منہ میں بڑبڑاٸی تھی۔۔اس نے ریلنگ پر سختی سے ہاتھ جماۓ تھے، اس لوہے کی بے حد ٹھنڈی ریلنگ نے اس کے گلابی ہاتھوں کو چند لمحوں میں سرخ کیا تھا۔۔نظریں آسمان پر جمی تھیں۔۔
"کیونکہ دل ہمہ وقت اسی کی چاہ کرتا ہے تو اسکی طلب کیسے ختم ہو ھدا نور اور جب طلب بڑھتی ہے تو دل کو کہیں سکون میسر نہیں آتا، بس دل چاہتا ہے کہ محبوب نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہو " پاس ہی کوٸی بڑبڑایا تھا۔۔پھر خود ھدا نے اپنے بے تحاشا دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔۔اور فلک پہ پھیلے چارسُو نیلے رنگ کو دیکھ رہی تھی۔۔جیسے کسی کی تلاش کر رہی ہو، جیسے وہ آسمانوں میں کہیں چھپ کر بیٹھا ہو، جو دکھاٸی نہ پڑتا ہو۔۔۔
ھدا نے چلتے چلتے گہری سانس ٹھنڈی فضا کے سپرد کی تھی۔۔
ریلنگ سے ہٹ کر اب نیچے جاتی سیڑھیوں پہ آ بیٹھی تھی، نظریں ہنوز آسمان پہ ٹکی تھیں،
"اور پھر محبوب بھی وہ ہونا چاہیے نا جسکو فنا نہ ہو فنا تو دنیا کی ہر چیز کو ہے وہ چاہے انسانی رشتے ہوں یا جان سے عزیز محبوب، عشق تو پھر لازوال سے ہونا چاہیے جسے کبھی زوال نہ آۓ جو روح میں موجود بے چینیوں کو ختم کرے وہ تو پھر ایک ہی "ذات" ہے کیا مجھے اسکا عشق مانگ لینا چاہیے" دل نے پھر سے حلق کے قریب بڑبڑاہٹ کی تھی۔۔۔ھدا کا دل پسلیوں میں سکڑ کر سمٹا تھا۔۔اس نے سر جھٹکا تھا۔
اسے یاد تھا کہ صرف دو بعد فارس کی سالگرہ ہے، وہ اس دن ہر کام اسکی پسند کا کرنا چاہتی تھی۔اور اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہتی تھی۔جانتی تھی بے شک دل میں کسی اور کو بساۓ ہوۓ ہے لیکن اسکے نکاح میں ”میں“ ہوں، وہ اس رشتے کو فراموش نہیں کر سکتا۔۔جلد یا بدیر لوٹ آٸیگا بس شرط یہ ہے کہ میرا بن کر لوٹے۔۔۔مجھ میں کسی اور کی شبیح تلاش نہ کرے۔۔
نکاح بھی کیسا پاکیزہ رشتہ ہے عورت کو یقین دلا دیتا ہے کہ وہ بے شک دیر سے لوٹے لیکن پلٹے گا ضرور۔۔۔
دور کہیں عشا کی اذانیں شروع ہو گٸیں تھیں اور وہ نیچے آ گٸی تھی جانتی تھی کہ اس ذات کے سوا دل کا درد کوٸی دور نہیں کر سکتا۔۔۔بے شک وہی ذات ٹوٹے ہوۓ دلوں اور بکھرے ہوۓ وجود کو سمیٹ سکتی ہے۔۔۔

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt