"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

412 28 10
                                    

                             قسط نمبر 4:
                          تحسین راجپوت📝

آویزہ کیا کر رہی ہو تم؟؟ چھوڑو میرا بازو دماغ سٹھیا گیا ہے تمہارا ہاں؟؟ ہالے اس سے اپنا بازو چھڑواتے ہوۓ بولی تھی۔۔جبکہ آویزہ اسے کلاس روم سے کھینچتے ہوۓ کالج کے عقبی حصے میں لے آٸی تھی جہاں طالبعلموں کا رش قدرے کم تھا۔۔۔
اب بتاٶ مجھے کیوں کیا اس اکڑو ہیرو نے نکاح اپنی کزن سے؟؟ اس میں اتنی ہی اکڑ تھی بس جو وہ اپنی محبت کو بھی اپنے نام نہیں کروا سکا ہاں۔۔۔وہ کیا سمجھتا ہے خود کو، میری ہالے کے ساتھ اس طرح کریگا وہ، میں جان لے لوں گی اسکی۔۔۔وہی آویزہ جو ہالے کو فارس کے نام سے چھیڑا کرتی تھی آج اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے ہو تو ختم کر ڈالے اسے۔۔۔
آویزہ غصے سے بھرا سرخ چہرہ لیے چکر کاٹتے ہوۓ چیخ رہی تھی۔۔۔جبکہ ہالے کالج کے صحن کی طرف بنی سڑھیوں پر جا بیٹھی تھی۔۔اور اپنی پٹھانی حسینہ کے چہرے پر غصہ دیکھ رہی تھی۔۔۔جو اب اسکی ہی طرف آ رہی تھی۔۔
تم نے اسکا گریبان کیوں نہیں پکڑا ہالے کیوں؟؟ وہ چیخی تھی۔۔۔
تم نے اس سے اپنی محبت کا حساب کیوں نہیں مانگا؟؟ کیوں تم نے اسے کسی اور کا ہونے دیا جو ازل سے تمہارے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا کیوں؟؟ آویزہ غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
وہ ازل سے میرے مقدر میں تھا ہی نہیں آویزہ، اور پھر نصیب کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہالے اپنے نرم اور پر سکون لہجے میں بولی تھی۔۔
جو مقدر میں نہیں ہوتا پھر اس انسان کی لا حاصل محبت کیوں دل میں نرم شبنمی پھوار کی طرح اترتی ہے اور پھر روح کو کھوکھلا اور گہری اذیت سے دو چار کر کے رخصت ہو جاتی ہے۔۔کیوں ہالے یہ تو پھر قسمت کی نا انصافی ہے۔۔۔آویزہ اپنے بیزار لہجے میں اب قدرے آرام سے بولی تھی۔۔۔
کیونکہ سچی محبت کو شروع سے ہجر حاصل ہے،وصل بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔۔ہالے  گہرے دکھ میں لپٹی آنکھوں کو بند کرتے دیوار سے ٹیک لگاتے بولی تھی۔۔اسکی سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی۔۔
خدا کی قسم ہالے میں اس جذبے سے ابھی تک نا آشنا ہوں، لیکن میں تمہارا غم اپنے سینے میں محسوس کر رہی ہوں، اور میرا اس جذبے سے وعدہ ہے میں کبھی اسے خود پر حاوی نہیں ہونے دونگی۔۔میں روح میں اترتے اس جام کو کبھی اپنی رگوں میں اترنے نہیں دونگی کبھی نہیں،آویزہ اسے گلے سے لگاتی بولی تھی۔۔
اسکی بات پہ ہالے کے چہرے پر غم بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔۔اس نے بے اختیار آویزہ کے لبوں پر اپنی ہتھیلی رکھی تھی۔۔
یہ بے اختیاری جذبہ ہے، اسکو قسم نہ ڈال، یہ  ٹھنڈی اور میٹھی چاشنی کی طرح روح میں سرایت کرے گا اور رگوں کو ایسی اذیت سے دو چار کریگا کہ وہ تکلیف نہ نگلی جا سکے گی اور نہ اگلی جا سکے گی، اسے چیلنج مت کرو آویزہ، اس ان دیکھے جذبے کو نہ للکارو میری جان، یہ تباہ کر دیتا ہے، میں تمہیں اس تکلیف میں نہیں دیکھ سکوں گی جس سے میں دو چار ہوں۔۔۔ہالے آنسو پیتی گہری سانسیں بھرتی بے حد تکلیف میں بولی تھی۔۔۔آویزہ کی آنکھوں سے بہتی گنگا میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔۔اپنی واحد دوست کی تکلیف پہ وہ دوہری اذیت سے دو چار تھی۔۔۔
وہ اسے گلے لگاۓ بے تحاشا رو رہی تھی۔۔جبکہ ہالے اپنے آنسوٶں کو بمشکل کنٹرول کر رہی تھی، کیونکہ وہ مزید آنسو نہیں بہانا چاہتی تھی لیکن کون جانے یہ ان دیکھا دشمن جسے محبت کا نام دیا جاتا ہے، نا جانے کب، اور کیسی اذیت سے دو چار کرتا ہے کہ سنانسیں سینے میں اٹکنے لگتی ہیں۔۔۔
اپنے ڈھیروں آنسوٶں کو اندر اتارنے کے بعد ہالے نے اسے خود سے الگ کیا تھا۔
ارے، ایبٹ آباد کی رہنے والی، اپنے حریفوں کو ہر میدان میں ہرانے والی میری پٹھانی، پڑھاٸی میں ذرا نالاٸق اور اپنی نت نٸی شرارتوں سے سب کی ناک میں دم کرنے والی اتنی سی بات پہ رو رہی ہے، ہاں شرم آنی چاہیے تمہیں آویزہ دراب خان شرم۔۔۔۔ہالے نے اسے اسی کے انداز میں شرم دلانی چاہی تھی جس میں اکثر وہ اسے دلایا کرتی تھی۔۔۔وہ نا چاہتے ہوۓ بھی ہنس دی تھی۔۔۔
آویزہ نے ہنستے ہوۓ اسکے کندھے پر اپنا بھاری ہاتھ جڑا تھا۔۔۔
ارے خان کا بچی، یہ کندھا میرا اپنا ہے جس پر تم نے اپنا مَن کا بھاری ہاتھ جڑا ہے، اسکا بدلہ ہم لے کر رہے گا اسی لیے ابھی ہماری پیٹ پوجا کرواٸی جاۓ، ہالے نے اسے مزید ہنسانے کے لیے اسی کے پٹھانی لہجے میں چھیڑا تھا۔۔۔وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑی تھیں۔۔۔
پھر آویزہ ہالے کا ہاتھ تھامے کیفے کی طرف بڑھی تھی اور ہر بڑھتے قدم کے ساتھ اس نے عہد کیا تھا کہ وہ ہالے کے دل سے اس زخم کو ہمیشہ کے لیے نکال دے گی۔۔۔
انہوں نے کیفے میں داخل ہو کر کرسیاں سنبھالی تھیں۔۔۔

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"Where stories live. Discover now