"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

425 34 17
                                    

                          قسط نمبر 5
                        تحسین راجپوت📝

واشنگٹن ڈی سی میں برفباری کا عروج تھا۔تاحدِ نگاہ سفیدی کا راج تھا۔روٸی کے نرم گالوں سی سفید برف کا لبادہ اوڑھے ہر شے اداس نظر آ رہی تھی۔سڑک کے دونوں اطراف میں لگے درختوں کی شاخیں بھی برف سے ڈھکی ہوٸی تھیں۔
"پھول نگری" کی سیاہ جیپ تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی جسکی منزل "پھول نگری" ہی تھی۔۔مصطفیٰ کو ہاسپٹل سے ڈسچارج مل گیا تھا۔۔
مصطفیٰ لگثرری جیپ کی پچھلی سیٹ پہ اس انداز سے لیٹا ہوا تھا کہ باہر کا منظر صاف دکھاٸی دے رہا تھا۔۔۔وہ سفید چادر میں لپٹی ہر چیز کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔۔
اسکا دل ناجانے کیوں بے حد اداس تھا۔حسین جمالیاتی آنکھوں میں عجیب سے وحشت چھاٸی تھی۔ اسے اپنے دل کی طرح ہر چیز یاسیت زدہ دکھاٸی دے رہی تھی۔۔
میری اس برف کے تودے کے نیچے سانسیں کیسے چل رہی تھیں؟؟
اگر میرے دوستوں کو میرا ہاتھ دکھاٸی نہ دیتا؟ تو میں وہیں مر کھپ جاتا اور کسی کو کوٸی فرق بھی نہ پڑتا۔۔۔
میں جو شروع سے خود کو ہی "اون" کرتا آیا ہوں۔اپنے نفس کی مانتا آیا ہوں، جو جی میں آیا کرتا رہا ہوں۔۔۔
پھر مجھے ان مشکلات سے نکالنے والا کون رہا ہے؟؟
کیا وہ جو ”کلمہ“ میرے دل میں بہت دور کہیں چھپا ہوا ہے، جسے میں آج تک زبان پر نہیں لا پایا۔۔
کیا یہ اسکی طاقت ہے جس نے مجھے دوبارہ زندگی بخشی ہے؟؟
یا وہ کلمہ جس پاک ذات کا ہے جسے میں نے کبھی یاد نہیں کیا، "میں تو اسے بھول چکا ہوں کیا وہ مجھے یاد کرتا ہے"
کیا اس طاقت نے بچایا ہے مجھے میری سانسیں کیوں نہیں چھینیں اس نے؟؟ اسکی آنکھ سے ایک قطرہ نکل کر کنپٹی میں جذب ہوا تھا۔۔
اسے اپنا پرانا ایکسیڈینٹ یاد آیا تھا جس میں بھی اس نے موت کو بے حد قریب سے دیکھا تھا۔اور موت کے دہانے سے وہ واپس آیا تھا۔۔۔
پھر مجھے بچانے والا کون تھا وہاں بھی اور اس وحشیانہ برفباری میں بھی؟؟ بہت سے سوالات اسکے ذہن میں گڈ مڈ ہو رہے تھے۔۔۔
جب لگثرری سیاہ جیپ کے ٹاٸر پھول نگری کے خوبصورت بڑے آہنی گیٹ کے سامنے چرچراۓ تھے۔۔
اور اسکی سوچوں کا سلسلہ بھی یکدم ٹوٹا تھا۔۔۔گاڑی پھول نگری کی اندرونی سیاہ روش پر چلتے ہوۓ پورچ میں جا کر رکی تھی۔۔
گیٹ کے اندر لان میں شاٸستہ بیگم اپنی آنکھوں میں آنسو لیے موجود تھیں۔ اور اسکے دونوں بھاٸی بھی اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔
ملازمین اور احمر نے اسے سہارا دے کر گاڑی سے باہر نکالا تھا۔
وہ ماں کی طرف بڑھا تھا۔شاٸستہ بیگم نے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔پھر وہ اپنے بھاٸیوں سے ملا تھا۔اسکا بازو بالکل بھی حرکت نہیں کر رہا تھا۔
شاٸستہ بیگم کے آنسو دیکھ کر مصطفیٰ کے آنسو دل پر گرے تھے۔کچھ بھی تھا وہ اپنی ماں کو پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔اس نے ضبط سے اپنے آنسو اندر اتارے تھے۔۔
اور ماں کو گلے لگا کر بتایا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔اگر تھوڑا بہت درد ہے بھی تو وہ جلد ٹھیک ہو جاٸیگا۔۔
وہ جو کچھ دیر پہلے سوچ رہا تھا کہ اگر وہیں برف کے تودے تلے دبے اسکی سانسیں تمام ہو جاتیں تو کسی کو فرق نہیں پڑنا تھا لیکن وہ یقینناً غلط تھا  کیونکہ ماٶں کو فرق پڑتا ہے۔۔اولاد کو سوٸی بھی چبھ جاۓ تو ماٶں کا کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے۔۔۔
پھر احمر اور اسکے بھاٸی اسے نرمی سے تھامے اسکے کمرے میں لاۓ تھے اور اسے دبیز بیڈ پر لٹایا تھا۔۔
شاٸستہ بیگم نے ملازمہ کے ہاتھ سوپ منگوایا تھا اور خود اسکی پیشانی سے بال ہٹا کر شفاف پیشانی کو چوما تھا۔۔

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"Where stories live. Discover now