"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

373 34 11
                                    

قسط نمبر 3:
تحسین راجپوت📝

تجھ سے بچھڑے ہیں مگر عشق کہاں ختم ہوا
یہ وہ جیتی ہوٸی بازی ہے جو ہاری نہ گٸی
تُو ہے وہ خواب جو آنکھوں سے اتارا نہ گیا
تُو وہ خواہش ہے جو ہم سے کبھی ماری نہ گٸی

فارس آدھے گھنٹے سے غصے اور غم کے ملے جلے تاثرات لیے اپنے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔۔۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ساری دنیا کو ختم کر ڈالے، جو اس سے اسکی محبت چھین رہے تھے۔۔۔
سیاہ آنکھیں غصے اور غضب سے سرخ ہو چکی تھیں۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے آخر۔۔۔کیا۔۔؟؟ ایک طرف وہ پری وِش تھی جبکہ دوسری طرف اسکی پوری فیملی!!!
ابھی رات کو تو ہی اس نے ہالے سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے دل سے ہر خدشے کو نکال دے۔۔وہ اس محبت کو دنیا کے سامنے اجڑنے نہیں دے گا۔۔۔لیکن دادو کے اچانک فیصلے نے اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی تھی۔۔۔
بھاٸی کیا میں اندر آ جاٶں؟؟؟ تبھی دروازے پر عنایہ نے دستک دی تھی۔۔۔
فارس نے خود کو تھوڑا سا نارمل کیا تھا اور اسے اندر بلایا تھا۔۔۔
ہاں آ جاٶ گڑیا۔۔۔۔اس نے گہری سانس خارج کرتے ہوۓ اسے اندر آنے کی اجازت دی تھی۔۔۔
بھاٸی۔۔۔۔وہ ڈرتے ڈرتے بولی تھی۔۔۔
بھاٸی یہ دادو نے کیا فیصلہ کیا یہ۔۔یہ۔۔۔وہ ضبطِ غم سے بول نہیں پا رہی تھی۔۔۔
جب سب کچھ طے تھا پھر ایسا کیوں، کیوں عنایہ۔۔۔وہ جانتی ہیں کہ تم لوگ میری کمزوری ہو ماما میری کمزوری ہیں اس لیے وہ۔۔۔۔اس طرح کا گھٹیا فیصلہ کر رہی ہیں۔۔۔لیکن میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں کیسے۔۔میں کیسے اپنے جیتے جاگتے ضمیر کو مار کر، اپنی محبت کو مار کر ھدا کو اپنا لوں کیسے؟؟؟۔وہ شدتِ جذبات سے بول نہیں پا رہا تھا۔۔۔اس نے اتنی زور سے وال گلاس پر مکا مارا تھا کہ اسکا شیشہ کرچی کرچی ہو کر لان میں گرتا نظر آیا تھا۔۔۔فارس کا شدتِ ضبط سے برا حال تھا۔۔۔
بھاٸی۔۔۔۔عنایہ چیخی تھی۔۔۔۔وہ دوڑتی ہوٸی اسکے پاس آٸی تھی اور اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟؟ یہ وقت ہوش سے کام لینے کا ہے۔۔۔آپی کی بارات آنے والی ہے گھر مہمانوں سے بھرا پڑا ہے اور آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔۔وہ روتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔اور اپنے دوپٹے سے اسکے ہاتھ سے بہتا خون روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
تو اور کیا کروں کیسے ہالے کی محبت کو اپنے دل سے نکال پھینکوں، کیسے اس لڑکی کو اپنے لیے حلال بنا لوں جسے ہمیشہ چھوٹی بہن سمجھتا آیا ہوں اور کیسے ہالے کی آنکھوں سے ان خوابوں کو نوچ ڈالوں کیسے۔۔۔۔وہ رو رہا تھا۔۔۔وہ انتیس سال کا مرد آنسوٶں سے رو رہا تھا۔۔۔۔عنایہ اسکے خون سے بھرے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔اور رو رہی تھی۔۔۔۔
بھاٸی اب آپکو ہالے کی آنکھوں سے وہ خواب نوچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی جنہیں وہ خود اپنے ہاتھوں سے ختم کر چکی ہے۔۔۔وہ گہری سانس بھرتے روتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔۔
فارس نے ضبط سے سرخ پڑتی آنکھیں اٹھا کر نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔
ہاں بھاٸی دادو نے پتہ نہیں کیا کہا ہے اس سے، کہ وہ واپس جانے کے لیے تیار کھڑی ہے، میرے لاکھ پوچھنے پر بھی اس نے نہیں بتایا مجھے۔۔۔۔وہ اپنے دوپٹے سے اسکے ہاتھ سے بہتا خون روکنے کی ایک ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔
آخر کتنوں کی زندگیاں برباد کرینگی دادو آخر کتنے لوگوں کی۔۔۔۔وہ بے بسی سے بولا تھا۔۔۔۔
جبھی جہانگیر صاحب شکستہ دل لیے فارس کے روم میں آۓ تھے۔۔۔
بابا آپ کیوں نہیں بولے آخر کیوں؟؟ دادو نہیں سمجھ رہی کہ انکے اس فیصلے سے کتنے دلوں کا خون ہو رہا ہے۔۔۔۔وہ سنجیدہ لہجے میں باپ سے مخاطب تھا۔۔۔جہانگیر صاحب نے نظریں چراٸی تھیں۔۔۔
وہ شکستہ خوردہ سے کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھے تھے۔۔۔۔
بیٹا زندگی کبھی کبھار ہمارے سامنے بے حد کٹھن موڑ لے آتی ہے، جہاں انسان چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔تمہاری ماں نے اس گھر کو جنت بنا ڈالا ہے بیٹا لیکن اسکی سزا ختم ہونے میں نہیں آ رہی صرف اس لیے کہ اس نے مجھ سے محبت کی شادی کی تھی۔۔۔۔اسکا صرف قصور اتنا ہے۔۔میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں ایک اور زینب کے احساسات کو ڈوبنے سے بچا لو۔۔۔وہ غم زدہ لہجے میں بول رہے تھے۔۔۔۔
لیکن بابا میں کیسے؟؟ فارس نے انکے سامنے گھٹنے ٹیکے تھے اور انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔۔
جہانگیر صاحب بیٹے سے نظریں چرا رہے تھے اور عنایہ پاس کھڑی رو رہی تھی۔۔۔۔
اپنے باپ کو معاف کر دینا بیٹا میں اس عمر میں تمہاری ماں اور بہنوں کو خوار نہیں کر سکتا۔۔۔۔وہ اپنے آنسو چھپاتے باہر نکلے تھے۔۔۔۔
پیچھے فارس تہی دامن بیٹھا رہ گیا تھا۔۔۔
بھاٸی ہم ھدا سے بھی تو بات کر سکتے ہیں نا۔۔۔۔ہو سکتا ہے وہ بھی اس رشتے کو قبول نہ کرنا چاہتی ہو، اور پھر وہ بھی تو دادو کی لاڈلی ہے ہو سکتا ہے وہ دادو کو منا لے۔۔۔۔وہ بولی تھی۔۔۔۔
لاڈلا تو میں بھی تھا انکا۔۔۔ کیا، کیا انہوں نے میرے ساتھ۔۔۔وہ تلخی سے بولا تھا۔۔۔
بھاٸی ہم ایک کوشش تو کر سکتے ہیں۔۔۔وہ لہجے میں امید سموتے بولی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے عنایہ تم جاٶ میں کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔وہ اٹھتے ہوۓ بولا تھا۔۔
لیکن بھاٸی پہلے ہاتھ پہ کچھ باندھ لیں بہت خون بہہ رہا ہے۔۔۔کانچ ہاتھ میں گھس گیا ہے۔۔۔وہ اسکے غصے سے ڈرتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
فارس نے بس سر ہلایا تھا اور کمرے سے چلا گیا تھا۔۔۔پیچھے کھڑی عنایہ کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا اسے تو اپنا بھاٸی اور ہالے دونوں سے بہت محبت تھی۔۔۔اور وہ ان دونوں کی گہری محبت کی واحد گواہ تھی۔۔۔۔
فارس کو دادی جان کے فیصلے سے اتنا دکھ تھا کہ اس کے سامنے جو چیز آ رہی تھی تو ٹھوکروں کی زد پہ تھی۔۔وہ غصے سے ھدا کے کمرے کی طرف آ رہا تھا۔۔۔

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"Where stories live. Discover now