"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

By Tehseenrana456

4.1K 261 135

پاکیزہ محبتوں میں گندھی تحریر۔۔۔ محبت چیز کیا ہے؟؟ کیا عشق حاصل ہو جاتا ہے۔۔۔؟؟ کیا حاصل اور کیا لا حاصل آخر... More

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

412 28 10
By Tehseenrana456

                             قسط نمبر 4:
                          تحسین راجپوت📝

آویزہ کیا کر رہی ہو تم؟؟ چھوڑو میرا بازو دماغ سٹھیا گیا ہے تمہارا ہاں؟؟ ہالے اس سے اپنا بازو چھڑواتے ہوۓ بولی تھی۔۔جبکہ آویزہ اسے کلاس روم سے کھینچتے ہوۓ کالج کے عقبی حصے میں لے آٸی تھی جہاں طالبعلموں کا رش قدرے کم تھا۔۔۔
اب بتاٶ مجھے کیوں کیا اس اکڑو ہیرو نے نکاح اپنی کزن سے؟؟ اس میں اتنی ہی اکڑ تھی بس جو وہ اپنی محبت کو بھی اپنے نام نہیں کروا سکا ہاں۔۔۔وہ کیا سمجھتا ہے خود کو، میری ہالے کے ساتھ اس طرح کریگا وہ، میں جان لے لوں گی اسکی۔۔۔وہی آویزہ جو ہالے کو فارس کے نام سے چھیڑا کرتی تھی آج اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے ہو تو ختم کر ڈالے اسے۔۔۔
آویزہ غصے سے بھرا سرخ چہرہ لیے چکر کاٹتے ہوۓ چیخ رہی تھی۔۔۔جبکہ ہالے کالج کے صحن کی طرف بنی سڑھیوں پر جا بیٹھی تھی۔۔اور اپنی پٹھانی حسینہ کے چہرے پر غصہ دیکھ رہی تھی۔۔۔جو اب اسکی ہی طرف آ رہی تھی۔۔
تم نے اسکا گریبان کیوں نہیں پکڑا ہالے کیوں؟؟ وہ چیخی تھی۔۔۔
تم نے اس سے اپنی محبت کا حساب کیوں نہیں مانگا؟؟ کیوں تم نے اسے کسی اور کا ہونے دیا جو ازل سے تمہارے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا کیوں؟؟ آویزہ غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
وہ ازل سے میرے مقدر میں تھا ہی نہیں آویزہ، اور پھر نصیب کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہالے اپنے نرم اور پر سکون لہجے میں بولی تھی۔۔
جو مقدر میں نہیں ہوتا پھر اس انسان کی لا حاصل محبت کیوں دل میں نرم شبنمی پھوار کی طرح اترتی ہے اور پھر روح کو کھوکھلا اور گہری اذیت سے دو چار کر کے رخصت ہو جاتی ہے۔۔کیوں ہالے یہ تو پھر قسمت کی نا انصافی ہے۔۔۔آویزہ اپنے بیزار لہجے میں اب قدرے آرام سے بولی تھی۔۔۔
کیونکہ سچی محبت کو شروع سے ہجر حاصل ہے،وصل بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔۔ہالے  گہرے دکھ میں لپٹی آنکھوں کو بند کرتے دیوار سے ٹیک لگاتے بولی تھی۔۔اسکی سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی۔۔
خدا کی قسم ہالے میں اس جذبے سے ابھی تک نا آشنا ہوں، لیکن میں تمہارا غم اپنے سینے میں محسوس کر رہی ہوں، اور میرا اس جذبے سے وعدہ ہے میں کبھی اسے خود پر حاوی نہیں ہونے دونگی۔۔میں روح میں اترتے اس جام کو کبھی اپنی رگوں میں اترنے نہیں دونگی کبھی نہیں،آویزہ اسے گلے سے لگاتی بولی تھی۔۔
اسکی بات پہ ہالے کے چہرے پر غم بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔۔اس نے بے اختیار آویزہ کے لبوں پر اپنی ہتھیلی رکھی تھی۔۔
یہ بے اختیاری جذبہ ہے، اسکو قسم نہ ڈال، یہ  ٹھنڈی اور میٹھی چاشنی کی طرح روح میں سرایت کرے گا اور رگوں کو ایسی اذیت سے دو چار کریگا کہ وہ تکلیف نہ نگلی جا سکے گی اور نہ اگلی جا سکے گی، اسے چیلنج مت کرو آویزہ، اس ان دیکھے جذبے کو نہ للکارو میری جان، یہ تباہ کر دیتا ہے، میں تمہیں اس تکلیف میں نہیں دیکھ سکوں گی جس سے میں دو چار ہوں۔۔۔ہالے آنسو پیتی گہری سانسیں بھرتی بے حد تکلیف میں بولی تھی۔۔۔آویزہ کی آنکھوں سے بہتی گنگا میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔۔اپنی واحد دوست کی تکلیف پہ وہ دوہری اذیت سے دو چار تھی۔۔۔
وہ اسے گلے لگاۓ بے تحاشا رو رہی تھی۔۔جبکہ ہالے اپنے آنسوٶں کو بمشکل کنٹرول کر رہی تھی، کیونکہ وہ مزید آنسو نہیں بہانا چاہتی تھی لیکن کون جانے یہ ان دیکھا دشمن جسے محبت کا نام دیا جاتا ہے، نا جانے کب، اور کیسی اذیت سے دو چار کرتا ہے کہ سنانسیں سینے میں اٹکنے لگتی ہیں۔۔۔
اپنے ڈھیروں آنسوٶں کو اندر اتارنے کے بعد ہالے نے اسے خود سے الگ کیا تھا۔
ارے، ایبٹ آباد کی رہنے والی، اپنے حریفوں کو ہر میدان میں ہرانے والی میری پٹھانی، پڑھاٸی میں ذرا نالاٸق اور اپنی نت نٸی شرارتوں سے سب کی ناک میں دم کرنے والی اتنی سی بات پہ رو رہی ہے، ہاں شرم آنی چاہیے تمہیں آویزہ دراب خان شرم۔۔۔۔ہالے نے اسے اسی کے انداز میں شرم دلانی چاہی تھی جس میں اکثر وہ اسے دلایا کرتی تھی۔۔۔وہ نا چاہتے ہوۓ بھی ہنس دی تھی۔۔۔
آویزہ نے ہنستے ہوۓ اسکے کندھے پر اپنا بھاری ہاتھ جڑا تھا۔۔۔
ارے خان کا بچی، یہ کندھا میرا اپنا ہے جس پر تم نے اپنا مَن کا بھاری ہاتھ جڑا ہے، اسکا بدلہ ہم لے کر رہے گا اسی لیے ابھی ہماری پیٹ پوجا کرواٸی جاۓ، ہالے نے اسے مزید ہنسانے کے لیے اسی کے پٹھانی لہجے میں چھیڑا تھا۔۔۔وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑی تھیں۔۔۔
پھر آویزہ ہالے کا ہاتھ تھامے کیفے کی طرف بڑھی تھی اور ہر بڑھتے قدم کے ساتھ اس نے عہد کیا تھا کہ وہ ہالے کے دل سے اس زخم کو ہمیشہ کے لیے نکال دے گی۔۔۔
انہوں نے کیفے میں داخل ہو کر کرسیاں سنبھالی تھیں۔۔۔

**************
جہانگیر ولا میں صبح کی نیم روشنی کی پو پھوٹ رہی تھی، نومبر کا خنکی بھرا آغاز ہو چکا تھا، موسم میں ہلکی ہلکی سردی محسوس کی جا رہی تھی گزشتہ رات یقینناً فارس اور ھدا کے لیے بہت بھاری تھی، ھدا نے یہ رات باقی ہر رات کی طرح تڑپتے ہوۓ گزاری تھی فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے وہ محبت کی مضبوط دیواروں میں بندھی تھی اور اب ایک مضبوط رشتے میں بندھ چکی تھی لیکن کون جانے یہ حسین رشتہ اپنے اندر کتنی کھوکھلی دیواریں لیے موجود تھا۔۔۔وہ فجر کے بعد لان میں آ گٸی تھی، ہر سُو گہرا سناٹا چھایا تھا۔ صرف ھدا ہی بد روحوں کی طرح لان میں نم اوس پڑتی گھاس پر ننگے پاٶں چل رہی تھی۔۔
اس نے بلیو پلین شرٹ کے ساتھ واٸٹ کیپری زیب تن کر رکھی تھی، ساتھ نرم میرون شال کندھوں پر اوڑھ رکھی تھی۔۔
وہ نیلے فلک کی جانب دیکھتی گزرے ہوۓ کل کو سوچ رہی تھی، نا جانے اس ایک دن میں کیا کیا ہو گیا تھا، وہ لمحات اسکے دل پر ہمیشہ کے لیے منعکس ہو گٸے تھے،
وہ پاگل، بنجارن اپسرا فارس کی محبت کے لیے بے اختیار تھی۔ اسکا دل پر کوٸی اختیار نہیں تھا، وہ اپنے دل کے سامنے بے بس تھی بہت بے بس!!!
جبھی فارس بلیو جینز کے ساتھ سفید شرٹ پہنے ہاتھ میں سیاہ بیگ تھامے گھر کے داخلی دروازے سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا، ھدا نے دور سے اسے دیکھا تھا۔اسکا دل کسی انجانے خوف سے کانپا تھا۔۔۔
وہ کہیں جا رہا تھا تو کہاں؟ کیوں؟؟ اس کے دل کو بے شمار سوالات نے گھیرا تھا۔۔
وہ دوڑتی ہوٸی اسکی جانب آٸی تھی وہ جو گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا اسے اس طرح اپنی طرف آتا دیکھ کر فارس کی کشادہ پیشانی پر شکنوں کا جال بنا تھا اور آنکھوں میں ناگواری کی لکیر واضح دکھاٸی دے رہی تھی۔۔۔جبکہ ھدا نے اپنی گلابی ہوتی آنکھوں سے اسکے اس روپ کو بھی آنکھوں میں سمایا تھا۔۔۔۔۔دل تیز دھڑک تھا جیسے ہمیشہ فارس کی موجودگی میں مدھم ہوتی سانسیں تیز دھڑکا کرتی تھیں۔۔۔
فارس؟؟ وہ اپنے نرم لہجے میں گویا ہوٸی تھی ایک ہاتھ کی گلابی مخروطی انگلیاں دوسرے ہاتھ سے دبا رہی تھی۔۔
یہ نہیں پوچھوں گی کہ کہاں جا رہے ہیں؟ بس اتنا بتاتے جاٸیں کہ لوٹ آٸیں گے نا؟؟ وہ سوال کا حق نہیں رکھتی تھی پھر بھی زبان کسی انجانے خدشے کا خوف پالے بول اٹھی تھی۔۔
جنہیں اپنوں کی خود غرضی اور کڑے فیصلوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاۓ، اور من چاہے فیصلے کروا لیے جاٸیں وہ پلٹ آنے کے لیے نہیں جایا کرتے ھدا بی بی۔۔وہ اسے ناگواری سے گھورتے ہوۓ گویا ہوا تھا۔۔۔لہجے میں گہری تپش شامل تھی۔۔
میں نے ایسا کبھی نہیں چاہا تھا فارس، میں تو آپ کے لیے بے حد خوش تھی، ہاں آپکی محبت میرے دل میں بہت دیر سے پنہاں ہے، میرا دل میرے اختیار میں نہیں ہے فارس۔۔وہ نرمی سے بولی تھی ہاں لہجے میں آنسوٶں کی ملی جلی آمیزش شامل تھی۔۔۔
بس کرو ھدا نور بس، جہانگیر ولا کی بیٹیاں اتنی آزار کب سے ہو گٸیں کہ اپنے منہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتی پھریں، اپنے وقار سے نیچے مت گرو ھدا۔۔۔وہ غصے سے بولا تھا، ارد گرد صبح کا گہرا سناٹا چھایا تھا۔۔۔فارس کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔۔۔ھدا نے اپنی سانسوں کا گلا گھونٹا تھا وہ اسے کیسے بتاتی کہ اسکا دل اسکے اختیار سے باہر ہے۔۔۔
ٹھیک ہے فارس، میں کچھ نہیں کہوں گی آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی ہو گا بس اس گھر کو چھوڑ کر نہ جاٸیں، اس وِلا کو اپنی سانسوں کی مہک سے محروم نہ کریں فارس، جس گھر کے شیرازے کو تاٸی جان نے اپنے کٸی سالوں کی ریاضت سے جوڑا ہے ۔دادو، تایا ابا، تاٸی اماں کا خیال کر لیں پلیز۔۔یہ ظلم نہ کریں اسکے آنسو نرم گالوں پر بہہ نکلے تھے وہ جان گٸی تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے جا رہا ہے۔۔۔اسی لیے اسکا دل چیخ اٹھا تھا۔۔۔
میرا فیصلہ نہیں بدل سکتا دادو کو بتا دینا کہ فارس جہانگیر انکی اس دولت کو اور انکی ہونہار چہیتی نازک سی پوتی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا ہے۔۔۔کبھی نہ واپس آنے کے لیے، وہ اسکی طرف جھک کر بولا تھا۔۔۔ھدا تڑپ اٹھی تھی۔۔۔
اگر میری دعاٶں میں اثر ہوا تو آپ ضرور واپس آٸینگے فارس، میں آپکو اپنی دعاٶں کے حصار سے کبھی آزاد نہیں کرونگی کبھی نہیں، وہ چیلنج کرتے لہجے میں بولی تھی۔۔۔لہجے میں ضد کی آمیزش تھی۔۔۔
اور میں بھی دعا کرونگا کہ میں اس گھر میں کبھی واپس نہ آ پاٶں، اور تمہیں میں بد دعا دیتا ہوں کہ تم مس ھدا نور میرا ساتھ تو کیا میری خاک بھی نہ پاٶ، وہ گاڑی میں بیٹھتا گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔
میں ساری زندگی، اپنی آخری سانس تک آپکا انتظار کرونگی فارس، یاد رکھیے گا میرے نام کے ساتھ آپکا نام جڑ چکا ہے مجھے یقین ہے کہ قدرت یہ رشتہ آپکو کبھی بھلانے نہیں دے گی۔۔۔۔وہ گاڑی کے شیشے سے چلاّٸی تھی۔۔۔فارس نے اسے غور سے دیکھا تھا۔۔۔
میری طرف سے تم بھاڑ میں جاٶ ھدا۔۔۔وہ غصے سے چلایا تھا اور گاڑی زن سے بھگا لے گیا تھا۔۔۔۔
پیچھے وہ محبت کی بازی میں ہار گٸی تھی۔۔۔
وہ عشق میں ہوتی جھلی اپسرا اس ان دیکھی طاقت میں رل گٸی تھی۔۔۔
ھدا کی نظروں نے دور تک اسکی گاڑی کو دیکھا تھا۔۔۔پھر وہ دل پر ہاتھ رکھے وہیں نیچے گھاس پہ بیٹھ گٸی تھی۔۔۔
آنکھیں خشک تھیں، اس چھوٹی سی لڑکی نے شفاف آسمان کی طرف شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔
لیکن وہ ذات جسکا نام محبت تھا وہ مسکراٸی تھی۔۔۔جو دور کہیں دو روحوں ملاپ کروا چکی تھی اس کے لیے اس فانی دنیا میں کروانا کہاں مشکل تھا۔۔۔۔

تمہیں یقینِ محبت نہیں ہے، حیرت ہے
خدا کا حکم محبت ہے، ”کن“ محبت ہے

بچھڑتے وقت فقط مسکرا کے دیکھا تھا۔۔
میں اسکو ”بول“ نہ پایا کہ ”سن“ محبت ہے۔۔“

*************
مصطفیٰ۔۔۔۔۔مصطفیٰ۔۔۔۔مصطفیٰ۔۔۔کینال ہڈ بریج پر اسی ایک نام کی گونج تھی۔لیکن بپھرے سمندر اور تیز چلتی ہواٶں کے شدید شور میں میسن اور جیمز کی آوازیں دب رہی تھیں۔۔۔وہ دونوں پاگلوں کی طرح اسی طرف بھاگ رہے تھے جس طرف مصطفیٰ گرا تھا اور قسمت کی ستم ظریفی یہ تھی کہ وہاں برف باری شروع ہو چکی تھی۔۔اور تھوڑی دیر بعد اسکی شدت میں اضافہ ہو جانا تھا۔۔۔
میسن اور جیمز کی سانسیں شدید سردی کی وجہ سے اکھڑنے لگی تھیں، لیکن پھر بھی وہ اپنے دوست کو بچانا چاہتے تھے۔۔۔
وہ اس جگہ پر پہنچ چکے تھے جہاں مصطفیٰ برف کے نیچے دبا تھا۔۔۔اسکا سارا شریر برف کے نیچے آ چکا تھا میسن نے جھک کر اسکے سینے سے برف ہٹا کر اسکی سانسیں ٹٹولی تھیں جو بے حد آہستہ چل رہی تھیں۔۔۔ان دونوں نے جلدی سے اسکے وجود سے برف کو ہٹانا شروع کیا تھا، برف کا بھاری تودا اسکے وجود پر گرا تھا جسے ہٹانے کے لیے میسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔۔انہوں نے اس  ٹھٹھرتی سردی میں اس تودے کو بمشکل ہٹایا تھا۔۔۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ اسے وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوۓ تھے۔۔۔
مصطفیٰ کی گھنی پلکیں بند تھیں، اس جمالیاتی حسن والے مصطفیٰ کے حسین چہرے سے خون بہہ کر کھنڈر کی مانند جم چکا تھا۔۔۔چہرے کے ساتھ ساتھ پورا جسم سردی اور برف کی وجہ سے اکڑ چکا تھا۔۔چہرے کا رنگ گہرا نیلا ہو رہا تھا۔۔۔نبض بہت رک رک کر چل رہی تھی۔۔۔وہ دونوں اسے شدید پریشانی کے عالم میں اٹھا کر کیب کی طرف پہنچے تھے۔۔۔
انہوں نے مصطفیٰ کو کیب میں ڈالا تھا اور کچھ ہی دیر میں کیب واشنگٹن کی شفاف سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔۔۔
جیمز نے کیب ڈراٸیور سے پانی لے کر مصطفیٰ کے منہ میں ڈالا تھا۔۔۔مصطفیٰ نے وہ پانی باہر الٹ دیا تھا۔۔۔اس نے پھر سے پانی ڈالا تھا جسکے چند قطرے مصطفیٰ نے حلق سے نیچے اتار لیے تھے اور چند ابکاٸی کی صورت باہر آ گٸے تھے۔۔۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے میں وہ مصطفیٰ کو لیے بریج کے قریبی ہسپتال میں داخل ہو رہے تھے، مصطفیٰ کا وجود اسٹریچر پر ہچکولے کھا رہا تھا، آنکھیں محض چند گھنٹوں میں اندر دھنس گٸی تھیں، ہونٹ شدید نیلے ہو رہے تھے، ڈاکٹرز اور نرسز اسے جلد از جلد ایمرجنسی میں لے گٸے تھے۔۔۔
پیچھے کھڑے جمیز اور میسن نے ایک دوسرے کو پریشانی سے دیکھا تھا اور اب وہ احمر اور اعظم صاحب کو فون کر رہے تھے۔۔۔
*************
لاہور میں رات گہری ہو رہی تھی، ہالے اپنی کتابیں سمیٹنے کے بعد عشا کی نماز کے لیے اٹھی تھی جب
زینب بیگم اسکے کمرے میں آٸی تھیں۔۔۔وہ بھی شاید عشا ادا کر کے آٸی تھیں، جبھی آتے ہی آیات پڑھ پڑھ کر اس پر پھونک رہی تھیں۔۔
میری ہالے کیسی ہے؟؟ انہوں نے مشفقانہ مسکراہٹ سے پوچھا تھا۔۔۔
میں ٹھیک ہوں ماما آپ کیسی ہیں؟؟ وہ شاٸستگی سے بولی تھی۔۔۔
کالج کیسا رہا؟؟ اور آویزہ بیٹی کیسی ہے؟؟ وہ پوچھ رہی تھیں۔۔
کالج بھی اچھا رہا اور پٹھانی حسینہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔۔۔آویزہ کا ری ایکشن یاد کر کے اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔
زینب بیگم نے دل ہی دل میں اپنی بیٹی کی نظر اتاری تھی جسکی براٶن چاکلیٹ رنگ آنکھوں میں کستوری کشش تھی جو ہر دیکھنے والے کو ضرور ٹھٹھکاتی تھی۔۔۔اور پھر آیات پڑھ کر اسکے بالوں پر ہاتھ پھیرا تھا اور ماتھا چوما تھا۔۔۔
انکے اس عمل سے ہالے کے چہرے پر آسودہ سی مسکراہٹ چھاٸی تھی۔۔۔جو ہمیشہ ہوتی تھی۔۔۔
ہالے میں جانتی ہوں تمہارا دل بہت بری طرح گھاٸل ہے، مجھے لگتا کہیں نہ کہیں میں اور تمہاری خالہ تمہاری مجرم ہیں بیٹا۔۔وہ اسے اپنے ساتھ بیڈ پر بٹھاتی ہوٸی بولی تھیں۔۔۔آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔۔
ماما وہ شخص میرے نصیب میں نہیں تھا، میں نے نصیب کا لکھا قبول کر لیا ہے لیکن یہ دل کی تکلیف اب بس جاتے جاتے ہی جاٸیگی، وہ خشک آنکھیں لیے سنجیدگی سے بولی تھی۔۔۔
آپ دعا کیجیے گا میرے لیے کہ میں اس تکلیف سے آزاد ہو جاٶں۔۔میرے دل میں پلتا یہ کرب رخصت ہو جاۓ۔۔۔ہالے تلخی سے بولی تھی۔۔۔
انہوں نے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھیں۔۔
ایک بات کہوں ماما کیوں والدین بچپن میں ہی بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ فلاں کی نسبت فلاں سے طے ہے، یہ غلط ہے ماما۔۔۔
پھر جانتی ہیں کیا ہوتا ہے لڑکپن سے جوانی تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ ایک اور احساس ساتھ پروان چڑھتا ہے، وہ ہوتا ہے محبت کا احساس، چاہے جانے کا احساس، ایک ہی شخص کو سوچنے، اسی کا ہو جانا حتیٰ کہ بچوں کا پور پور ایک دوسرے کی چاہت میں ڈوب جاتا ہے۔۔اور پھر۔۔وہ شاید آنسوٶں کو پینے کے لیے خاموش ہوٸی تھی۔۔۔
اور پھر وہیں وہ رشتہ ختم کر دیا جاتا ہے، میں کہوں گی ماما کہ یہاں والدین غلط ہوتے ہیں۔۔جانتی ہیں کتنی تکلیف، کتنے کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔رگوں میں ایسی اذیت سرایت ہو جاتی ہے کہ انسان اس تکلیف سے ادھ موا ہو جاتا ہے، پھر وہ زخم نہ کسی کو دکھاۓ جاتے ہیں، اور نہ ہی انکے چھید زندگی بھر بھرتے ہیں۔۔۔ہالے کا لہجہ نا چاہتے ہوۓ بھی سخت ہو گیا تھا، تلخیوں نے ڈیرے جما لے تھے۔۔۔
کمرے میں گہرا سکوت چھا گیا تھا۔۔۔
زینب بیگم خاموشی سے آنسو بہا رہی تھیں۔۔۔اب وہ بیٹی کو کیا بتاتیں کہ انہوں نے تو اسکا بھلا ہی سوچا تھا انجان تھیں کہ قسمت ایسا پلٹا کھاۓ گی اور نازک دلوں پر اچانک سے قیامت آ برسے گی۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہالے نارمل ہوٸی تھی۔۔۔
سوری ماما، میں معذرت چاہوں گی کہ میں کچھ زیادہ ہی بول گٸی۔۔۔وہ سپاٹ سے لہجے میں بولی تھی۔۔۔آنکھیں خشک تھیں لہجہ ویران سا تھا۔۔۔
چلو آجاٶ کھانا کھاتے ہیں، میں نے اپنی بیٹی کے لیے اسکی پسندیدہ سندھی بریانی بناٸی ہے۔۔۔وہ اسے ساتھ لگاتے بولی تھیں۔۔
ٹھیک ہے آپ چلیں میں نماز ادا کر کے آتی ہوں۔۔۔۔
وہ کمرے کے ساتھ ملحقہ واشروم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
پیچھے کھڑی زینب بیگم اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں۔۔۔

*************
ھدا بھاٸی کہاں گٸے ہیں کچھ تو تمہیں پتہ ہو گا نا؟؟ ھدا جو لان میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی۔۔اس نے سرخ شکوہ کناں نظروں سے عنایہ کو دیکھا تھا۔۔
یار یہ آپ سب لوگ صبح سے مجھ سے ہی کیوں یہ سوال کر رہے ہیں۔۔۔کہ آپکے بھاٸی کہاں گٸے ہیں۔۔میرے سے انکے تعلقات کب سے اتنے مضبوط ہو گٸے ہیں کہ وہ مجھے آگاہ کرینگے۔۔۔ھدا تپ ہی تو گٸی تھی۔۔۔صبح سے جس کو بھی پتہ چل رہا تھا کہ فارس گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے ہر کوٸی اسی سے دریافت کر رہا تھا۔۔۔
ھدا میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ تم ناراض ہو جاٶ۔۔۔۔عنایہ نے اسے برہم ہوتے دیکھ کر صلح جو انداز میں کہا تھا۔۔۔
میں مانتی ہوں عنایہ وہ میری وجہ سے ہی گٸے ہیں، لیکن میرا یقین کرو میں نے انہیں چاہا ضرور ہے لیکن کبھی آپ سب کو ہرٹ کرنا نہیں چاہا تھا، جو میری تکلیف ہے وہ کیوں کسی کو نظر نہیں آ رہی۔۔۔۔میری سانسیں کس طرح چل رہی ہیں صبح سے یہ میں ہی جانتی ہوں۔۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو چھلکے تھے۔۔۔۔
عنایہ اٹھ کر اسکے پاس آٸی تھی۔۔اور اسے ساتھ اپنے لگایا تھا۔۔
کیوں رو رہی ہو ھدا، بھاٸی آ جاٸیں گے واپس، سب ٹھیک ہو جاٸیگا تم پریشان نہ ہو۔۔۔وہ اسے دلاسہ دیتے ہوۓ چپ کروا رہی تھی۔۔۔
وہ واپس نہیں آٸینگے عنایہ، انکی آنکھوں میں میرے لیے بے تحاشا نفرت تھی، حد سے زیادہ بیزاری تھی، یہ سب میرے لیے ہوتا تو بھی ٹھیک تھا لیکن وہ ہم سب سے بری طرح متنفر ہیں، وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں شاید۔۔۔۔وہ آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی تھی۔۔
کبھی کبھی سب اپنی جگہ پر ٹھیک ہوتے ہیں ھدا، بس وقت برا ہوتا ہے، حالات سازگار نہیں ہوتے، قدرت اپنی جگہ سب ٹھیک کر رہی ہوتی ہے لیکن ہم انسان بہت بے صبرے ہوتے ہیں، جو معاملات میں چھپی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔۔۔عنایہ گہرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
فارس ٹھیک ہیں اپنی جگہ پہ، جانتی ہو جس انسان سے اسکی محبت چھین لی جاۓ، فیصلہ کسی اور کے حق میں سنا دیا جاۓ، اس تکلیف کو مجھ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے، شدتِ تکلیف سے ھدا کا لہجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔۔۔
سب ٹھیک ہو جاٸیگا ھدا  ان شاء اللہ، چلو اندر آٶ باہر بہت ٹھنڈ ہو رہی ہے، اٹھو شاباش، عنایہ نے اسے پچکارتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔
آپ چلیں عنایہ آپی میں کچھ دیر مزید بیٹھوں گی یہاں۔۔۔وہ دھیرے سے بولی تھی۔۔۔
اوکے جلدی آجانا۔۔۔وہ کہتے ہوۓ اندر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔
*************
اگلی صبح وہ کالج کے لیے تیار ہو رہی تھی، لمبے سلکی بالوں کو پونی میں قید کیا تھا، آنکھوں میں جیسے کوٸی کانچ سا چبھا تھا، ساری رات سو ہی نہیں پاٸی تھی، قسمت کی ستم ظریفی پر بے حد دکھ تھا اسے لیکن اللہ کی رضا جان کر لبوں پر قفل لگا لیا تھا۔۔۔
ماما، بابا کو سلام کرنے کے بعد وہ اپنے لیے جوس انڈیلنے لگی تھی،
ہالے میری جان کیسا ہے میرا بیٹا، کالج کیسا چل رہا ہے؟ اور ہماری آویزہ بیٹی کیسی ہے؟؟ یوسف صاحب نے لاڈ سے پوچھا تھا۔۔۔
پیارے بابا آپکا بیٹا بھی ٹھیک ہے، اور کالج تو بہت اچھا جا رہا ہے اب تو پیپرز آنے والے ہیں، وہ بھی لاڈ سے بولی تھی۔۔
اور وہ تو پوری آفت ہے بابا مجال ہے جو کسی کو بخش دے، میں عاجز آ جاتی ہوں اسکی حرکتوں سے لیکن وہ باز نہیں آتی۔۔وہ کھلکھلاتے ہوۓ انہیں آویزہ کے بارے میں آگاہ کر رہی تھی۔۔۔
ہالے بیٹا مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سے؟؟ فیصلہ آپکا ہی ہو گا۔۔۔چند رسمی جملوں کے بعد یوسف صاحب بولے تھے۔۔۔
ابھی تو میں کالج کے لیے لیٹ ہو رہی ہوں، شام میں بات کرتے ہیں۔۔۔وہ جلدی جلدی چاۓ کے سِپ لیتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
ہالے آرام سے پیو بیٹا، زبان جل جاٸیگی، زینب بیگم نے اسے ٹوکا تھا۔۔
اور اگر میں کالج ٹاٸم پہ نہ پہنچی تو وہ مجھے پورا جلا دے گی ماما۔۔۔وہ بیگ اور کتابیں اٹھاتے ہوۓ باہر کی جانب بھاگی تھی۔۔۔پیچھے بیٹھے یوسف صاحب اور زینب بیگم نے اسے بہت سی دعاٶں سے نوازا تھا۔۔۔
وہ کالج پہنچی تو وہ پٹھانی پھولے ہوۓ سرخ گالوں کے ساتھ سرخ سیب کھانے میں مصروف تھی۔۔اور ہالے کو خشمگیں نگاہوں سے گھور رہی تھی۔۔۔
تم پھر سے لیٹ ہو آج ہالے، اور سنو آج تین ٹیچرز تو آۓ نہیں تو اسکا مطلب آج تو بہت مزا آنے والا ہے۔۔۔آویزہ ارد گرد دیکھتی اپنی آنکھوں میں شرارت سموۓ بولی تھی۔۔
خبردار آج تم نے کوٸی ایسی ویسی حرکت کی، پہلے ہی پورے کالج کی ناک میں دم کر رکھا ہے تم نے۔۔۔ہالے اسے گھورتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
اوہ۔۔۔میڈم ہیلو یہ چاکلیٹی آنکھوں کا حسن کسی اور کو دکھانا، مجھ پر نہیں چلنے والا، اور چلو آٶ کیفے چلتے ہیں مجھے ناشتہ کرنا ہے۔۔۔۔وہ آویزہ ہی کیا جو کسی کی بات کا اثر کر لے۔اور ویسے بھی اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہالے کو اس سارے ٹراما سے باہر نکالے گی۔۔۔
کیا مطلب ہے ناشتہ کرنا ہے یہ جو کھڑے کھڑے اپنے منہ جتنے بڑے دو سیب کترے ہیں کیا یہ ناشتے میں نہیں آتے!!!ہالے نے اسے حیرانگی سے پوچھا تھا۔۔۔
یار سیب ناشتے میں کہاں آتے ہیں یہ تو امو جان کہتی ہیں کہ ویسے ہی صبح اٹھ کر کھاتے ہیں صحت اچھی رہتی ہے۔۔۔وہ آنکھ مارتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔جبکہ ہالے اسکے دماغ اور پیٹ سے بڑی تنگ تھی۔۔۔۔
چلو اب پہلے تمہارا پیٹ ہی بھر لیا جاۓ۔۔۔ہالے مصنوعی غصے سے اسے دیکھتے ہوۓ کیفے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
وہ جیسے ہی کیفے پہنچی، وہاں فرسٹ اٸیر کی دو لڑکیاں ناشتہ کر رہی تھیں اور باقی کیفے تقریباً خالی تھا۔۔۔ہالے تو خاموشی سے ایک ٹیبل کی طرف بڑھ گٸی تھی لیکن آویزہ کی آنکھوں میں شرارت اتر چکی تھی کیوں کہ اسے دو لڑکیوں کی میز پر چاکلیٹس اور چیونگم سے بھری باسکٹ نظر آ چکی تھی۔۔جو شاید کسی کی برتھڈے کا تحفہ تھا۔۔۔لیکن اب جو ہونے والا تھا وہ صرف آویزہ کا دل ہی جانتا تھا۔۔۔
جبکہ ہالے خاموشی سے ناشتے کا آرڈر دے چکی تھی۔۔۔
آویزہ اپنی میز پر اسطرح بیٹھی تھی جہاں سے اسے وہ دونوں لڑکیاں صاف دکھاٸی دیں سکیں۔۔۔پراٹھوں پر ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان دونوں کو دیکھ رہی تھی اور ہالے اسکی آنکھوں میں پنہاں شرارت پڑھ چکی تھی۔۔۔
ادھر۔۔۔۔ناشتے پر توجہ مرکوز کرو خبردار اب ان دو معصوموں کو تنگ کیا تو۔۔۔ہالے تھوڑا رعب دار لہجے میں بولی تھی جبکہ آویزہ کا قہقہہ پڑا تھا۔۔۔
کیا ہالے جی، یہ ہوتی ہے سچی دوستی جو پہلے ہی جان لے کہ دوست کیا کرنے والی ہے۔۔۔وہ منہ نیچے کرتے ہوۓ ہنستے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
تمہیں پتہ اب میں کیا کرنے والی ہوں۔۔۔بس دیکھتی جاٶ۔۔۔دو پراٹھے ٹھونسنے کے بعد اب وہ چاۓ پی رہی تھی۔۔۔
آویزہ یاد رکھنا، اگر تم نے اب کچھ کیا تو پرنسپل سے شکایت کرنے والی تمہاری بیسٹی ہالے نور ہو گی سمجھ گٸی۔۔۔ہالے اسے روکنے کے لیے دھمکی دے رہی تھی۔۔لیکن آویزہ جانتی تھی کہ ہالے نور ایسا کبھی نہیں کرے گی اس لیے ان دونوں لڑکیوں پر توجہ جماۓ بیٹھی تھی۔۔۔
آپی ہم زرا آتے ہیں آپ ہماری چیزوں کا خیال رکھنا، کچھ ہی دیر بعد ان میں سے ایک لڑکی نے ان دونوں سے معصومیت سے کہا تھا۔۔۔
جی بیٹا ہم ضرور خیال رکھیں گے ڈونٹ وری۔۔۔ہالے کے بولنے سے پہلے آویزہ بول پڑی تھی۔۔۔اور اپنی ہنسی کو بری طرح ضبط کر رہی تھی۔۔۔
ان کے جانے کے بعد ہالے کو سنے بغیر آویزہ نے جلدی جلدی چاکلیٹس سے بھری ہوٸی باسکٹ اٹھاٸی تھی اور ہالے کو ایک ہاتھ سے گھسیٹتی ہوٸی کیفے سے باہر لے آٸی تھی۔۔۔دونوں کا ہنس ہنس کے برا حال تھا۔۔۔۔
حد ہے آویزہ ویسے شرم تو نہیں آتی تمہیں۔۔۔ہالے کھلکھلاتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
بس تمہاری یہی مسکراہٹ دیکھنے کے لیے یہ پرینک کیا ہے ورنہ تمہیں تو پتہ ہے میں کسی کو تنگ نہیں کرتی۔۔۔۔وہ چاکلیٹ باسکٹ تھامے کالج کے پچھلے لان میں آٸی تھیں۔۔۔شرارت آنکھوں سے عیاں تھی۔۔۔
اور پھر وہاں بیٹھی سب لڑکیوں کو اس نے چاکلیٹس اور چیونگم بانٹ دی تھیں، ہالے کا ہنس ہنس کے برا حال تھا۔۔۔آویزہ تو ویسے ہی مستیوں میں شریک تھی۔۔۔ہالے بھی اسکے ساتھ ہو گٸی تھی۔۔۔
ابھی بارہ بھی نہیں بجے تھے کہ آویزہ کو پھر سے بھوک نے ستایا تھا۔۔۔وہ مسکین سی شکل بنا کر ہالے سے کیفے جانے کا بولی تھی۔۔۔جس پر ہالے کا غصہ عود آیا تھا۔۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا اتنی موٹی بھینس بن جانا تم نے ٹھونس ٹھونس کے۔۔۔۔ہالے باقاعدہ ہاتھ کے اشاروں سے بتاتی ہوٸی بولی تھی۔۔۔
دیکھو میرا خوبصورت سراپا دیکھ کر کوٸی نہیں کہہ سکتا کہ میں اتنا کھاتی ہوں، اور تم میرے نوالے کیوں گن رہی ہو ہاں۔۔۔وہ اسے گھور کر بولی تھی۔۔۔
نٸیں بہن تم مجھے یہ بتاٶ کہ صبح کے دو سیب، دو پراٹھے ایک کپ چاۓ اور پھر ان معصوموں کے ڈھیروں چاکلیٹس کھانے کے بعد تمہارا پیٹ نہیں بھرا۔۔۔۔ہیں؟؟؟ ہالے روہانسی ہو گٸی تھی۔۔۔
جبکہ اسکی شکل دیکھ کر آویزہ کے چہرے پر گہری مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔
پہلی بات یہ کہ دنیا میں نا ایک ہی معصوم بندی ہے وہ ہے تمہاری یہ پٹھانی آویزہ، اور دوسری بات اب میرا معصوم دل چاٹ مصالحہ ڈال کر فراٸیز کھانے کو چاہ رہا ہے تو میں کیا کروں؟؟ تمہیں کہاں تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔ وہ چہرے پر ناجانے کونسی معصومیت سجاۓ بولی تھی کہ ہالے کا دل پگھل گیا تھا اور اسے لیے پھر سے کیفے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

***************

واشنگٹن کے ہسپتال کی شفاف ٹاٸیلز پر چکر کاٹتے احمر کی ٹانگیں شل ہو گٸیں، دل میں انجانے وسوسے جنم لے رہے تھے، اعظم صاحب بے حد پریشانی کے عالم میں ایمرجنسی کے باہر کھڑے تھے۔۔دل کسی بری خبر کو سننے سے بہت خوفزدہ تھا۔۔۔اور اندر بیڈ کی سفید چادر پر آنکھیں موندے لیٹا مصطفیٰ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھے۔۔۔وہ ایک بار پہلے بھی بہت زیادہ کوکین اور الکوحل کی زیادتی کی وجہ سے ہسپتال جا چکا تھا، تب بھی خدا کے کسی کرشماتی معجزے نے اسکی زندگی بخشی تھی اور آج وہ پھر موت کے دہانے پر کھڑا تھا، باہر کھڑے والدین اور احمر کی اذیت بیان سے باہر تھی۔۔۔
جبھی ڈاکٹرز نے بتایا تھا کہ برف کے تودے کا بھاری حصہ باٸیں بازو پر گرنے سے بازو کی ہڈی ٹوٹ گٸی ہے، پلیٹس ڈال کر آپریٹ کر دیا گیا ہے لیکن کچھ عرصے تک بازو کام نہیں کر سکے گا۔۔۔جب تک بازو کا دوسرا آپریشن نہیں کر دیا جاتا۔۔۔۔
بیٹے کی حالت سن کر اعظم صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہے تھے اور احمر کی ضبط سے آنکھیں لال ہوٸی تھیں۔۔۔
آپ پریشان نہ ہوں انکل وہ ٹھیک ہو جاٸیگا، احمر نے انہیں دلاسہ دیا تھا۔۔۔وہ انہیں اندر روم میں لے آیا تھا جہاں مصطفیٰ کو شفٹ کیا گیا تھا۔۔۔
وہ ہوش میں تھا لیکن آنکھیں ہنوز بند تھیں۔۔۔
مصطفیٰ صاحب نے ہاتھ سے اپنے بیٹے کے بال سنوارے تھے، چہرے پر جا بجا پٹیاں تھیں اور گہری سانس خارج کی تھی۔۔۔
مصطفیٰ نے دھیرے سے پلکیں وا کی تھیں، سامنے بابا کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں آنسو آۓ تھے۔۔۔
آخری بار جب اسی طرح وہ ہسپتال میں تھا اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آٸندہ کبھی ایسی کوٸی حرکت نہیں کرے گا۔۔۔لیکن وہ وعدہ خلاف نکلا تھا۔ وہ اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ نہیں نبھا پایا تھا اسی لیے وہ رو پڑا تھا۔۔۔۔
سوری بابا، مجھے معاف کر دیں۔۔وہ نحیف زدہ سرگوشی میں بولا تھا۔۔۔جبکہ اعظم صاحب نے اسکے آنسو پونچھے تھے۔۔۔
تم ٹھیک ہو جاٶ گے پریشان مت ہو۔۔۔وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے اسی لیے اسے تسلی دے رہے تھے۔۔۔اور پھر باہر نکل گٸے تھے جبکہ احمر اسکے زخموں کی پرواہ کیے بغیر اس سے لپٹ گیا تھا۔۔۔۔دونوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آۓ تھے۔۔۔
جتنا تُو ہمیں ذلیل کرتا ہے نا کمینے خدا کرے تجھے تجھ سے بھی زیادہ بری اولاد نصیب ہو پھر تجھے احساس ہو گا کہ تکلیف کیا ہوتی ہے۔۔۔۔احمر اس سے الگ ہوتے اسے کوس رہا تھا۔۔۔آنکھوں میں آنسو لیے اسے گالیاں دے رہا تھا۔۔۔اور پھر اسکا ماتھا چوم رہا تھا۔۔۔۔مصطفیٰ کے چہرے پر آسودہ سی مسکراہٹ بکھری تھی۔۔
تو جلدی ٹھیک ہو جا پھر تیرا دوسرا بازو میں نے خود توڑ دینا ہے، کیونکہ میرے بہت سے بدلے ہیں تیری طرف جنہیں چکتا کرنا ہے۔۔۔احمر اسے مصنوعی لہجے میں ڈانٹ رہا تھا۔۔
زندگی میں کچھ حادثے ہونا بہت ضروری ہیں، جو دل پر گہرا وار کرتے ہیں، جس سے احساس کا مادہ انسان میں جنم لیتا ہے پھر اسے اپنے ساتھ جڑے رشتوں کی تکلیف نظر آنا شروع ہوتی ہے۔۔۔وہ جاننا شروع کرتا ہے کہ میں خود تو تکلیف میں ہوں ہی، میرے ساتھ جڑے خون اور دل کے رشتے مجھ سے بھی زیادہ اذیت میں مبتلا ہیں۔۔۔
اور یہی شاید مصطفیٰ کے ساتھ ہوتا نظر آ رہا تھا۔۔۔

*************
خود کو پڑھتی ہوں
چھوڑ دیتی ہوں
روز اک ورق موڑ دیتی ہوں
کانپتے ہونٹ، بھیگی پلکیں
بات ادھوری ہی چھوڑ دیتی ہوں۔۔

ھدا فارس۔۔۔فارس ھدا۔۔۔۔FH، HF۔۔۔۔۔ایک ہفتہ چوبیس گھنٹے پینتالیس سیکنڈ۔۔۔

فارس کو جہانگیر ولا چھوڑے ایک ہفتہ ہو گیا تھا، وقت کتنی جلدی گزرتا ہے اندازہ ہی نہیں ہوتا لیکن ھدا کے لیے تو ایک ایک پل صدیوں برابر تھا وہ اسی لمحے کی گرفت میں تھی جب وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔۔نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی رات کے تین بجے وہ اپنے روٹھے رانجھے ساٸیں کی راہ میں محوِ انتظار تھی،
ابھی تو ایک ہفتہ گزرا تھا نا جانے محبت کے انتظار کی کتنی ساعتیں باقی تھیں۔۔۔
ھدا آج پھر اپنی ڈاٸری کے اوراق پلٹ کر اپنی مخروطی انگلیوں سے اپنا اور اس دشمنِ جاں کا نام لکھ رہی تھی، محبت کی شدت کا حملہ آج پھر دل پہ کہر برسا رہا تھا۔۔۔باہر موسمِ سرما کی پہلی بارش برس رہی تھی، فضا میں خنکی اتر چکی تھی اور رات کی فسوں خیزی میں تیز ہواٶں سے پتوں کے گرنے اور دروازے بجنے کی آوازیں بے حد خوف زدہ کر رہی تھیں، اوپر سے اس ظالم کی یاد دل پر پہرے بٹھاۓ کنڈلی مارے بیٹھی تھی۔۔۔
گلابی حسین آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔باہر مینہ برس رہا تھا اور اندر اس ستم مسیحا کی یاد بے چین کر رہی تھی۔۔۔
وہ گلاس وال سے اپنے گھر کے لان کا پچھلا حصہ دیکھ رہی تھی، گھنے درختوں پر گرتا بارش کا پانی نیچے والے پتوں کو سیراب کر رہا تھا، وہ کتنی ہی دیر وہاں کھڑی رہی تھی۔۔۔اسے فارس کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ یاد آ رہا تھا۔۔۔
اچانک ہی ھدا نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھی اس گھر میں نہیں رہے گی۔۔وہ بھی ان فضاٶں میں سانسیں نہیں لے گی جن فضاٶں سے اسکی سانسیں محروم ہیں۔۔۔وہ وارڈروب کی طرف بڑھی تھی اس نے جلدی جلدی اپنے کپڑے اور کچھ ضرورت کی چیزیں بیگ میں رکھی تھیں، پھر اپنی کتابیں اور اپنی ڈاٸریز جو وہ بچپن سے لکھتی آٸی تھی جن کے ہر ورق پر فارس کا نام لکھا تھا وہ بھی اس نے اپنے چھوٹے بیگ میں رکھی تھیں۔۔۔۔
صبح زیب تن کرنے کے لیے اس نے اپنا جوڑا نکال کر بیڈ پر رکھا تھا، شاور لینے اور وضو کرنے کی غرض سے وہ واشروم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔
نوافل اور بہت ساری دعاٸیں مانگنے کے بعد اس نے جاۓ نماز سمیٹا تھا۔۔پھر کافی بنانے کی غرض سے کچن میں آٸی تھی۔۔۔
آنکھوں میں ہوتے درد کی پرواہ کیے بغیر وہ کافی مگ میں انڈیل کر اپنے روم میں آ گٸی تھی اور خود کو تیار کر رہی تھی کہ کیسے ماما اور بابا کو ہینڈل کرنا ہے۔۔۔۔

***********
رات برستی ہوٸی بارش نے موسم کو مزید نکھار دیا تھا۔۔سردی تھوڑی بڑھ گٸی تھی۔۔ھدا نے واٸٹ جینز کے ساتھ گھٹنوں تک آتا ریڈ فراک زیب تن کیا تھا گلے میں ریڈ اسکارف کو رومال کی طرح لپیٹا تھا اور بازٶوں پر گرم اسکن شال اوڑھی تھی۔۔۔گولڈن خوبصورت بالوں کو شانوں پر کھلا چھوڑ دیا تھا۔۔اپنے کمرے کو آخری نظر دیکھا تھا۔۔۔نوری جو اسکی خاص ملازمہ تھی۔۔۔اسکو بیگز نیچے لے جانے کو بولا تھا۔۔۔
وہ ہاتھ میں موباٸل تھامے نیچے آٸی تھی۔۔سب اسے حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔۔۔وہ سب کی نظروں کو اگنور کرتی اپنے بابا کے پاس آٸی تھی۔۔۔
بابا مجھے اجازت دیں، اس گھر میں میری سانسیں ٹوٹنے لگی ہیں، میرا دم سینے میں گھٹنے لگا ہے، میں مزید ان فضاٶں میں اپنی جلتی ہوٸی سانسوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔۔۔۔اس لیے مجھے اجازت دیں پلیز۔۔۔۔وہ گلابی پڑتی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ گہری نظروں سے اپنی بہادر اور جذبوں میں کھری بیٹی کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
ھدا آپ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر کیوں جا رہی ہیں بیٹا، کیا وہ شخص ہی سب کچھ تھا آپ کیلیے، ہم آپکے کچھ نہیں لگتے۔۔۔صدیق صاحب کے بولنے سے پہلے ہی شاٸستہ بیگم بول پڑی تھیں۔۔۔
ماما آپکی جگہ کوٸی نہیں لے سکتا، لیکن میری تکلیف کو سمجھیں آپ۔۔اگر میں یہاں رہی تو میری سانسیں بند ہو جاٸینگی ماما۔۔۔میرا عشق مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں اس جگہ پر سانس لوں جو جگہ اس کے وجود سے خالی ہے۔۔۔وہ گہری سانس بھرتے اپنے نرم لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
لیکن پھر بھی بیٹا ہم آپکو کیسے اجازت دیں جانے کی۔۔۔آپ نہیں سمجھ رہیں باہر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔۔وہ روتے ہوۓ بولی تھیں۔۔
ماما میں کونسا دور جا رہی ہوں اسلام آباد والے فارم ہاٶس جا رہی ہوں۔۔۔۔اور پھر جب آپ بلایا کرینگی میں آ جایا کرونگی۔۔۔۔ھدا انکا ہاتھ چومتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے پھر نوری کو ساتھ لے جاٸیے آپ۔۔۔میں آپکی تکلیف سمجھ سکتا ہوں۔۔۔
صدیق صاحب نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
ھدا سب سے ملنے کے بعد اپنی تاٸی اماں کے سامنے کھڑی تھی جو اسے آنکھوں میں آنسو لیے دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
مجھے معاف کر دیں تاٸی اماں،جب سے وہ گھر چھوڑ کر گٸے ہیں مجھے اپنا آپ مجرم سا لگنے لگا ہے۔۔۔اور سب سے بڑی مجرم آپکی میں ہوں جن سے انکا بیٹا دور چلا گیا ہے۔۔۔وہ زبیدہ بیگم کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔۔۔زبیدہ بیگم نے اسے سینے سے لگا لیا تھا۔۔۔۔
میری بچی۔۔۔۔رونا نہیں ہے بس۔۔۔۔وہ اسکے آنسو صاف کر رہی تھیں۔۔۔یہ آزماٸش ہے اور جلد ختم ہو جاٸیگی۔۔۔وہ لوٹ آٸیگا نا پھر ایک دن بھی اسلام آباد نہیں رہنے دونگی اپنی بیٹی کو۔۔۔۔وہ اسے دوبارہ گلے سے لگاتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
مجھے معاف کر دیں تاٸی اماں پلیز۔۔۔۔ھدا انکے ہاتھ چوم رہی تھی۔۔۔پھر وہ مختار بیگم کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
میں نہیں جانتی اس رات فارس کو کیا پتہ لگا تھا، اور آپ نے ہالے جیسی پاک دامن لڑکی کو کیا کہا تھا لیکن آپکے دیے ہوۓ زخموں کی سزا شاید مجھے بھگتنی ہے دادو۔۔۔پتہ نہیں یہ سزا کب ختم ہو گی یا پھر کبھی ختم نہیں ہو گی یا پھر سانسوں کی ڈور ٹوٹنے تک چلتی ہی رہے گی۔۔۔لیکن پھر بھی میں یہ کہوں گی کہ وقت پہ معافی مانگ لیجیے گا یہ نا ہو کہ زندگی تمام ہو جاۓ، چلتی ہوں اجازت دیجیے۔۔مختار بیگم نے چھوٹی سی لڑکی کو اتنی بڑی بات کہتے سنا تھا۔۔۔پھر کچھ بھی کہے بغیر مختار بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔اور اسکا ماتھا چوما تھا۔۔۔
پھر وہ لاٶنج سے گزرتے ہوۓ پورچ میں آٸی تھی جہاں ڈراٸیور گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔
ھدا کاڑی میں سوار ہو گٸی تھی۔۔۔اور گاڑی نے جہانگیر ولا کے آہنی سیاہ گیٹ کو پار کر لیا تھا۔۔۔۔

***********

ہالے ایک خوشگوار دن گزار کر گھر آٸی تھی، نماز ادا کرنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے لیٹی تھی جبھی فون بج اٹھا تھا۔۔۔آویزہ کا نمبر دیکھ کر اسکے لبوں پر مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔۔
اب کیا کوٸی الٹا کام رہ گیا تھا باقی جو تمہاری جان کو سکون نہیں ہے۔۔۔وہ سلام دعا کیے بغیر بولی تھی۔۔۔
بندہ کوٸی سلام لیتا ہے، کوٸی دعا دیتا ہے، پھر اپنی ہانکتا ہے لیکن میں بھول گٸی ہالے نور کو تہذیب کا پتہ ہی نہیں۔۔۔سکھانی پڑے گی اب۔۔آویزہ کھلکھلاتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
اب پھوٹو کیا مسٸلہ ہے؟؟ ہالے نے اسکی بات کو اگنور کیا تھا۔۔
یار مسٸلہ کوٸی نہیں ہے تمہیں ایک خبر دینی ہے ہمارے کالج کا ٹور جا رہاہے اگلے ماہ، اور وہ بھی وادی کالام اور ایبٹ آباد۔۔ہاۓ میرا سوہنا شہر ایبٹ آباد۔۔۔بہت مزا آنے والا ہے میں تو ابھی سے سوچ کر پرجوش ہورہی ہوں افففف۔۔۔۔آویزہ نان سٹاپ شروع ہو چکی تھی۔۔۔۔
بس۔۔۔بس۔۔۔ لڑکی بریک پہ پاٶں رکھو۔۔۔ویسے مجھے کوٸی دلچسپی نہیں ہے تو مجھے کیوں بتا رہی ہو۔۔۔۔ہالے بیزار سے لہجے میں بولی تھی۔۔۔
ایویں دلچسپی نہیں ہے، تمہارے تو اچھے بھی جاٸینگے اور خبردار جو تم نے انکار کیا۔۔۔ میں اٹھا کر لے جاٶنگی۔۔۔سمجھی تم۔۔۔ہاۓ بہت ہی کوٸی مزا آنے والا ہے۔۔۔۔وہ اسے ڈانٹتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
اف آویزہ تمہیں پتہ ہے نا میرا دل نہیں کرتا کہیں بھی جانے کو، میں نہیں جا رہی۔۔۔۔ہالے نے سیدھا انکار کر دیا تھا۔۔۔
میں انکار نہیں سن رہی ہالے، بالکل بھی نہیں۔۔۔وہ زور سے بولی تھی۔۔۔
میں انکار کر چکی ہوں آویزہ۔۔۔۔ہالے نے جواب دیا تھا۔۔۔۔
تمہارے انکار کو آویزہ کچھ نہیں جانتی تم سیدھی طرح سے چل رہی ہو سمجھی۔۔۔وہ دھمکی دینے والے انداز میں بولی تھی۔۔۔
اچھا مجھے سوچنے دو پھر دیکھتے ہیں۔۔۔اور اب فون رکھو حد ہے پہلے ہی سارا دن دماغ چاٹ لیتی ہو اور پھر گھر جا کے بھی سکون نہیں ہے تمہیں۔۔۔ہالے نے اسے ڈپٹا تھا۔۔۔
اور میں تمہیں کس طرح برداشت کرتی ہوں یہ ابھی تمہیں نہیں پتہ، ہوں دماغ چاٹ لیتی ہو۔۔۔۔آویزہ اسکی نقل اتارتے ہوۓ بولی تھی۔۔
تو کیا مطلب ہے نہیں کرتی ہو ایسا، بلکہ صرف میرا ہی نہیں پورے کالج کا۔۔۔ہالے نے اسے پھر سے چھیڑ دیا تھا۔۔۔۔
ہاں دماغ تو کھا لیتی ہوں یار۔۔۔وہ معصومیت سے بولی تھی۔۔۔ لیکن تم دیکھو میری وجہ سے تمہیں پورا کالج جاننے لگ گیا ہے۔۔کتنا فیم ملا تمہیں لیکن تم تو ٹھہری صدا کی نا شکری عورت۔۔۔وہ ڈراٸے فروٹس کھاتے بولی تھی۔۔۔۔
ایسے فیم سے نا اللہ کی پناہ ہے ویسے۔۔۔ہالے نے کانوں کو ہاتھ لگاۓ تھے۔۔۔
اچھا باۓ آویزہ بابا بلا رہے ہیں مجھے۔۔۔میں آتی ہوں۔۔۔وہ فون رکھتے بولی تھی۔۔۔۔اور بابا کے کمرے کی طرف جانے سے پہلے وہ کچن کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

************

ہالے نے دو مگ چاۓ بنانے کے ساتھ کیک بیک کیا تھا۔۔۔ٹرے میں سجاۓ وہ چیزیں لیے یوسف صاحب کو لان میں لے آٸی تھی۔۔۔
ہاۓ بابا کتنی ٹھنڈ ہو گٸی ہے افف۔۔۔وہ اپنے گرد سیاہ گرم شال لپیٹتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
جی بیٹا اب تو سردی بڑھنی ہی ہے، اسی لیے کہہ رہا تھا کمرے میں ہی پی لیتے ہیں۔۔۔لیکن مانتی کہاں ہو تم اور پھر بیمار پڑ جاٶ گی نہیں بھٸی میں اپنی دوست کو بیمار نہیں دیکھ سکتا۔۔۔وہ کیک کھاتے ہوۓ لاڈ سے بولے تھے۔۔۔اور وہ انکے اس انداز پر مسکراٸی تھی۔۔۔
ان باپ بیٹی کا ریلیشن بہت کمال کا تھا وہ دونوں گہرے دوست بھی تھے۔۔۔
ارے نہیں بابا جو مزا چاۓ کا یہاں باہر سردی میں پیارے سے لان میں بیٹھ کے پینے کا ہے وہ کمرے میں کہاں۔۔۔وہ مزے سے بولی تھی۔۔۔
آپ یہ بھی لیں نا۔۔۔وہ ڈراٸی فروٹس انکے سامنے رکھ رہی تھی۔۔۔
لان میں کچھ دیر گھمبیر خاموشی چھا گٸی تھی۔۔۔
جی بابا آپ نے کوٸی بات کرنی تھی مجھ سے؟؟ وہ کچھ دیر بعد بولی تھی۔۔۔
جی بیٹا آپکے لیے ایک بہت اچھا پروپوزل آیا ہے۔۔۔میں چاہتا ہوں میں اپنی بیٹی کو ہستا ہوا دیکھ لوں زندگی کا کوٸی بھروسہ نہیں ہے۔۔۔وہ کچھ دیر چپ کر گٸے تھے۔۔۔
ہالے بھی خاموشی سے چاۓ کے گھونٹ حلق سے نیچے اتار رہی تھی۔۔۔
آپ مصطفیٰ کو جانتی ہیں نا، آپکے ماموں اعظم کا بیٹا!!!! تمہارے ماموں کی پوری فیملی تم سے بہت پیار کرتی ہے۔۔۔تم بہت خوش رہو گی وہاں بیٹے۔۔۔وہ دھیرے دھیرے اسے بتا رہے تھے۔۔انکے لہجے میں مان چھلک رہا تھا۔۔۔وہ خاموشی سے چپ بیٹھی سن رہی تھی۔۔۔
وہ لوگ اگلے ماہ پاکستان آ رہے ہیں۔۔۔مجھےاپنا فیصلہ بتا دینا بیٹا۔۔وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے بولے تھے۔۔۔ہالے نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ سے انکی جانب دیکھا تھا۔۔۔اور پھر بولی تھی۔۔
بابا مجھے آپکے فیصلے پر کوٸی اعتراض نہیں ہے، میں اللہ کی رضا میں راضی ہوں۔۔۔وہ نرم لہجے میں بولی تھی۔۔۔
بیٹا جو کچھ بھی ہوا میں جانتا ہوں سب کچھ اتنی جلدی بھلا دینا بہت مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے بیٹا۔۔۔مجھے اللہ پہ یقین ہے وہ آپکو بہت خوشیوں سے نوازے گا۔۔۔۔وہ کہتے ہوۓ اندر کی طرف بڑھ گٸے تھے۔۔۔۔پیچھے بیٹھی ہالے سوچ رہی تھی کہ وہ سب کچھ بھلانا سچ میں بہت مشکل ہے۔۔۔
اس انسان کو اور اسکی یادوں کو بھلانا ناممکن ہی تو ہے بابا۔۔۔ہالے نے سرگوشی کی تھی۔۔۔۔وہ پھر سے گہری سوچوں میں گم ہو گٸی تھی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر گریبان میں جذب ہوا تھا۔۔

ہم ٹھیک ہیں صاحب
بس آنکھوں پر نہ جاٸیے آپ

اور پاس پڑی چاۓ ٹھنڈی ہو رہی تھی۔۔۔

مسلسل سوچوں سے سسکتا ہوں میں
ذہن کو جسم۔۔۔۔ پر۔۔۔۔رحم کیوں نہیں آتا

**************
(جاری ہے)

پیارے قارٸین اپنی قیمتی آرا سے آگاہ کیجیے!!!

Continue Reading

You'll Also Like

7.6K 16 4
انسان جتنا بھی چاہے اپنے ماضی سے بھاگے لیکن اس کا ماضی ہمیشہ اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ ہم جتنا بھی کر لیں لیکن ہماری پرانی یادیں ہمارا دامن نہیں چھوڑت...
383 27 6
یہ کہانی ہے نایاب حسام بہرام اور زرناب کی یہ کہانی ہے محبت کی ضبط کی جزبات کی قربانی کی خوشیوں کی۔ انشاءاللّٰہ یہ میری نئی کہانی آپ سب کو بہت اچھی ل...
2.6K 267 25
What is love? And where love's gonna lead them?? Will they be able to show to each other? Dua and Muneeb.. With an amazing love story. .kya muhabat a...
2.2K 95 6
اسمك : هي فتاة جميلة جدا جدا أيضا هي مصاصة الدماء كانت تعيش مع والديها لكن لقد ماتوا في حادث مرور عندما كان عمرها سنتين لون عيونها ازرق و أخضر هي بار...