Rasam E Wafa ✔️

By komal_Khursheed

54.3K 2.5K 919

یہ کہانی ہے ایسے دوستوں کی جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے ساتھی کا ساتھ نہیں چھوڑتے اور ہر صورت وفا نبھا... More

پیش لفظ
Episode ~1 ✔️
Episode ~2✔️
Episode ~ 4 ✔
Episode ~ 5 ✔
Episode ~ 6 ✔
Episode ~ 7 ✔
Episode 8 ✔
Episode ~9 ✔
Episode ~ 10 ✔
Episode~ 11 ✔
Episode ~12 ✔
Episode ~13 ✔
Episode ~14 ✔
Episode ~ 15 ✔
Episode ~ 16 ✔
Episode ~ 17 ✔
Episode ~18 ✔
Episode ~ 19 ✔
Episode ~ 20 ✔
Episode ~ 21 ✔
A/N
Episode ~22 ✅
Episode 23 ✅
Last Episode

Episode ~3 ✔

1.7K 114 23
By komal_Khursheed

This Episode has been edited. If u find any more mistake or something else in it, let me know 😘♥️

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

"بھائی! ۔۔۔"
ایک عجیب سے خواب نے اُسے ہڑبڑا کے نیند سے جاگنے پہ مجبور کیا تھا۔ جب وہ اُٹھی تو ناہموار سانسوں کے ہمراہ پورا وجود پسینے میں شرابور تھا، جبکہ وہ خود روئے جا رہی تھی۔
"شفاء!۔۔۔ کیا ہوا ہے شفاء۔۔۔ تم رو کیوں رہی ہو؟۔۔۔"
امایہ شفاء کو یوں روتے دیکھ کر ایک دم پریشان ہو کر اُس کے پاس چلی آئی جبکہ امایہ کو دیکھ کر شفاء کے رونے میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
"مایا۔۔۔ میں نے۔۔۔ بہت عجیب اور۔۔۔ اور۔۔۔اور بُڑا خواب دیکھا ہے، بہت عجیب۔۔۔ میں نے دیکھا کہ۔۔۔ سعدان بھائی۔" وہ ہجکیوں کے دوران اپنی خواب بتانے ہی والی تھی کہ امایہ نے وہیں روک دیا۔
"بس شفاء چُپ ہو جاؤ۔۔۔ اپنے بُڑے یا عجیب خواب کبھی کسی کو نہیں بتانے چاہیئے۔ میرے ایک استاد کہتے تھے خواب آسمان اور زمین کے درمیان معلق ہوتے ہیں۔ اِن کو جس رُخ میں دوسروں کے سامنے پیش کیا جائے' تعبیر بھی ویسے ہی سامنے آتی ہے۔ اِسی لئے ہمارا دین کہتا ہے اپنے خواب صرف اُسی کے سامنے پیش کرو جو اس کی تعبیر کا علم رکھتا ہو۔۔۔۔ جہاں تک بات رہی سعدان بھائی کی تو یہ خواب تمہاری فضول سوچوں اور وہموں کا نتیجہ ہے۔ نہ تم فضول سوچو اور نہ تمہیں فضول خواب آئیں۔"
امایہ نے اپنے کا ہاتھ کا دباؤ اس کے ہاتھ پہ بڑھا کر اُسے حوصلہ دیا تھا اور ساتھ میں بہت خوبصورتی سے اپنا عندیہ بھی اُسے سمجھایا تھا۔
لیکن شفاء کے تفکر میں زرا بھی فرق نہ آیا۔ نجانے کیا چیز تھی جو شفاء کو سکون نہیں لینے دے دہی تھی۔ جو ہر چیز سے لاعلم ہونے باوجود آنکھوں سے آنسو متواتر گرتے جا رہے تھے۔
"کیا ہو گیا ہے شفاء؟۔۔۔ یہ صرف ایک خواب ہی تو تھا سب ٹھیک ہے' ابھی تھوری دیر پہلے ہی تو بات ہوئی ہے ڈیڈی کی سعدان بھائی سے تم فضول میں اپنا اور میرا خون خشک کر رہی ہو۔" اب کہ امایہ نے اُسے سختی سے جھڑکا مگر مقابل پہ کوئی خاص اثر نہ ہوا۔
"شفاء قابو رکھو اپنے آپ پہ کیا ہو گیا ہے یار؟ چلو اٹھو!۔۔۔ تھوڑی دیر جا کر آرام کرو۔ تم رات بھی صحیح سے نہیں سوئی تھی اور صبح بھی جلدی اٹھ گئی ہو۔ چلو۔۔۔"
شفاء کی حالت دیکھ کر امایہ بھی تفکر میں مبتلا ہوئی۔ شفاء كو آرام کا کہہ کر وہ خود کچن میں اِس کے لئے کچھ کھانے کے لینے چلے گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"حسین باہر کی تمام صورتحال تمہارے حوالے ہم پیچھے کے راستے سے گھر کے اندر داخل ہوں گے۔ ہر چیز کے بارے میں ہم تمہیں ساتھ ساتھ انفارم کرتے جائیں گے۔ تم سب کو باہر ریڈی رکھنا جیسے ہی میں سگنل دوں۔ تم پلان کے مطابق کاروائی کرو گے۔"
حسین كو سمجھانے کے بعد وہ باقی سب کی جانب پلٹا تھا۔
"خیال رہے کہ ہماری جانب سے پیش رفت میں پہل نہیں ہونی چاہیئے۔ ہماری فوقیت اِسی بات پہ ہو گی کہ آپریشن امن کے ساتھ مکمل ہو دوسری پارٹی سرنڈر کر کے گھر خالی کر دے۔ لیکن اگر دوسری جانب سے ہم پہ کوئی وار کیا گیا جو کہ انہوں نے کرنا ہے تو ہم بھی جوابی کاروائی کریں گے۔"
وہ کوئی دس بار ایک ہی بات سب كو دُہرا چکا تھا۔ حسین كو بتانے کے بعد اِس نے پِھر سے سب كو سمجھایا تھا اور اب سب كو ہی بار بار ایک ہی بات سُن کے اُکتاہٹ محسوس ہوئی تھی۔ شایان کا نمبر ملاتے ہوئے اِس نے سب کے چہروں پہ چھائی بیزاری کو صاف محسوس کیا تھا مگر کوئی خاص توجہ دینا ضروری نہ سمجھا۔
"ہاں شانی اور کتنی دیر؟۔۔۔" دوسری طرف سے کال رسیور ہوتے ہی رسانیت سے بولا۔
"بس بھائی میڈیا کی ٹِیم اُدھر پہنچنے ہی والی ہو گی وہ کب کے نکل چکے ہیں۔"
"ہاں آ گئی۔۔۔ اللہ نگہبان! ۔۔۔"
ہادی نے سامنے سے نیوز چینل کیD.S.N.G وین كو آتے دیکھتے ہی رابطہ منقطع کیا۔
کال منقطع کرتے ہی اُس نے اپنے ساتھیوں كو سگنل دیا اور زیرِ لب اللہُ اکبر کہہ کر اندر کی جانب قدم بڑھا دئیے۔
باہر سے حسین اور باقی پولیس کے افراد نے چاروں اطراف سے گھر كو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ حسین نے باہر سب کچھ سنبھال رکھا تھا مگر اندر سے وہ ہادی کے کیلئے كافی فکرمند تھا۔ ایک دم سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئی تھیں جو پِھر مسلسل بڑھتی گئی تھیں۔
ایک دم سے زور دَار آواز آئی تھی۔
"جی تو ناظرین ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی
ہمارا نیوز چینل سب سے پہلے آپ كو یہ خبر پہنچاتا چلے کہ گرین ٹاؤن کے ایک رہائشی علاقے میں قبضہ مافیہ کے کچھ مسلحہ افراد نے ناجائز طور پر ایک گھر پہ قبضہ كر رکھا تھا۔ پولیس کو اطلاع ملتے ہی یہاں چھاپہ مارا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے یہاں اور بھی کئی قسِم کے غیر قانونی کام کئے جا رہے ہیں یہ مسلح افراد اور بھی کئی قسم کے غیر قانونی کاموں اور اسٹریٹ کرائم جیسے جرائم میں ملوث رہ چکے ہیں۔"
"ناظرین ہم آپ كو تازہ ترین اپڈیٹس دیتے چلیں کہ اب یہاں پہ ایک خطرناک قسم کا پولیس مقابلہ شروع ہو چکا ہے اور جس حساب سے اسلحے کا اِسْتِعْمال کیا جا رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سكتا ہے کہ دوسری جانب بھی کوئی معمولی گروہ نہیں ہے۔"
نیوز کا نمائندہ اپنے نیوز چینل كو سراہتے ہوئے حالات کی سنگینی کے بارے میں مطلع کئے جا رہا تھا۔ اس بات سے بے خبر مقابلے میں ملوث تمام اہلکاروں کے گھر والے ٹی وی کے آگے بیٹھے اپنے اپنے گھروں کے چراغوں کے لئے کتنے فکر مند ہو چکے تھے۔
ایک دم سے زور دَار آواز آئی تھی ٹی۔وی پہ نظر آتی سکرین بھی ایسا لگتا تھا جیسے ہِل سی گئی ہو۔ آواز کی شدت سے وہ نمائندہ بھی اپنے آپ کو گرنے سے محفوظ نہ رکھ سکا تھا۔ آسمان کی طرف بہت تیز روشنی اُٹھی تھی ساتھ ہی دھواں ہی دھواں پھیلنا شروع ہوا تھا۔ دھوئیں کے باعث حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل ہوا تھا۔ آیا کہ یہ کرکیر حملہ تھا یا کچھ اور۔۔۔۔
"جی ناظرین جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آسمان کی جانب ہر جگہ دھواں ہی دھواں اُٹھتا نظر آ رہا ہے یہ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دھماکا تھا جو ایس۔ پی صاحب کی گاڑی پہ کرایا گیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ یہ مسلح افراد پہلے سے ہی پولیس کی آمَد سے واقف تھے اور ان کا نشانہ ایس۔پی صاحب اور اُن کے ساتھی اہلکار تھے۔"
ساتھ ہی کیمرے کا رُخ سامنے سے آتی مزید گاڑیوں کی طرف ہوا تھا۔
"جی تو ہم بتاتے چلیں کہ پولیس کی مزید بھاری نفری یہاں پہنچ چکی ہے اور گھر کے اندر جانے کی کوششیں جاری ہیں، ایسے حالات میں ہم صرف دعا ہی كر سکتے ہیں کہ اللہ اِس مُلک کے محافظوں كو اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔"
"آمین!۔۔۔ جی فیصل آپ اپنا بہت بہت خیال رکھیں اور ہمارے ساتھ لائن پہ موجود رہیں۔۔۔ ٹی-وی پہ نظر آتی نیوز اینکر نے اب اپنا رخ سکرین کی جانب کیا تھا۔ جی ناظرین ہم آپ كو تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کر رہے تھے اور مزید کرتے رہیں گے مگر یہاں وقت ہوا ہے ایک بریک کا لیتے ہیں ایک بریک۔"
نیوز اینکر بول رہی تھی اور وہ سب سُن رہے تھے بلکے سُننے کے ساتھ ساتھ سُن بھی ہو رہے تھے۔
"میں کہتی تھی نا آپ کو مت جانے دیں اِسے سروس میں مگر آپ میری سُنتے ہی کہاں تھے۔ ابھی ہمارے پرانے زخم ابھج تک نہیں بھرے کہ۔۔۔ وہ کچھ کہتے کہتے چُپ ہوئی تھیں۔
"میرا ایک ایک بچہ ہے۔ سلیمان صاحب اب وہ بھی پتا نہیں کس حال میں ہو گا۔ پتا کریں اُس کا۔"
عافیہ بیگم کا رُو رُو کے بُڑا حال تھا۔ حالت تو سلیمان صاحب کی بھی ایسی ہی تھی مگر وہ اپنے آپ كو سنبھالے ہوئے تھے۔
ہدیٰ الگ اپنے آنسوؤں پہ بند باندھنےکی ناكام کوششیں كر رہی تھی۔ ان کے لئے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا مگر وہ ابھی تک اس سب کا عادی نہ بنا سکے تھے۔ ایسی خبر ہر بار اُن کو پہلے سے زیادہ متفکر کرتی تھی۔
"بابا بھائی کا موبائل بند آ رہا ہے۔"
ہُدیٰ بار بار ہادی کا نمبر ٹرائی كر رہی تھی جو مسلسل بند آ رہا تھا۔
"لاؤ میں حسین كو ڈائل کرتا ہوں۔"
سلیمان صاحب نے ہدیٰ سے موبائل لیتے حسین كو ڈائل کیا۔
"اِس کا بھی موبائل بند جا رہا ہے۔"
شایان كو فون كر کے پُوچھتا ہوں وہ صحیح صورت حال جانتا ہو گا ٹی وی پہ تو کچھ صحیح سے بتاتے بھی نہیں۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمان مصطفیٰ کے گھر کی جانب آؤ تو یہاں شایان کی جبریل سے الگ کلاس لگی ہوئی تھی، سب ہی ہادی کیلئے پریشان تھے۔ وہ ہادی كو بہت سمجھاتا تھا مگر وہ کسی کی نہیں سنتا تھا اِس معاملے میں وہ ہمیشہ کوئی نا کوئی دلیل دے کر چُپ كرا دیتا تھا۔
زمان صاحب اور باقی بھائی الگ ہادی کے لئے دعائے خیر میں لگے ہؤئے تھے، سب ہی اِس کے لیے پریشان تھے۔
"تم مجھے بتا نہیں سکتے تھے ہادی ایم۔این-اے کے بیٹے کے خلاف پولیس مقابلہ کرنے والا ہے۔"
جبریل بھی كب سے ہادی کا نمبر ٹرائی كر رہا تھا جو مسلسل آف تھا۔ اُس نے غصے میں موبائل صوفے پہ پھینکتے ہؤئے جارِحانَہ انداز میں شایان سے پوچھا تھا۔
"بھائی یقین کریں میں خود انجان تھا یہ تو مجھے ابھی کال آئی اور پتا چلا کہ اُس گھر پر ایم۔این۔اے بختیار شاہ کے بیٹے کا قبضہ تھا۔"
شایان الگ پریشان اور شرمندہ نظر آ رہا تھا اُس كو بھی ہادی اتنا ہی پیارا تھا جتنا سب كو اور شایان کا تو اُس سے دُہرا رشتہ بھی تھا۔
"اب تمہاری شرمندگی سے کیا ہو گا؟۔۔۔ تم بتا دیتے تو شاید میں اُسے اس کیس سے پیچھے ہو جانے پہ مجبور كر لیتا۔"
"شایان کہنا چاہتا تھا کہ بھائی اللہ کی زات کے سِوا کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اُن کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹا دے، مگر صورتحال دیکھ کر وہ کہہ نا سکا۔"
جبریل کی الگ جان نکل رہی تھی اور جان نکلتی بھی کیسے نہ اِس کا جان سے عزیز دوست اور بھائی پتا نہیں اِس وقت کس حالت میں تھا کوئی رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا اور نیوز کے مطابق حملہ بھی اُسی پہ ہوا تھا، سب کی زُبان پہ ایک ہی دعا تھی کہ وہ اور اُس کی ٹیم سب خیر سے ہو۔
اکثر لوگ اپنے پیاروں کیلئے دُعا کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پیاروں کے ساتھ دوسروں کے پیارے بھی ہیں جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر آپ کی جان کی حفاظت کر رہے ہیں، تو جب اپنے پیاروں کی دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائیں تو ساتھ میں دوسروں کے پیاروں کیلئے بھی دُعا کر دیا کریں یقین جانئے اس میں آپ کے پیسے بالکل نہیں لگیں گے، مگر کیا پتا اللہ کس کی دُعا سے کس کے نصیب کھول دے اسی لیے دُعا کرتے رہا کریں یہ مفت تحفہ ہوتا ہے جو کسی کو بھی، کسج بھی وقت دیا جا سکتا ہے۔
شایان کا موبائل بجا تھا۔ اُس نے نکال کے دیکھا تو سلیمان صاحب کا فون تھا۔ اُس نے پریشانی سے جبریل کی جانب دیکھا۔
جس نے اسے اصل صورتحال بتانے سے منع كر کے تسلی دینے كو کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امایہ كو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ خبر وہ شفاء كو کیسے پہنچائے کہ شفاء کی سعدان کی طرف پریشانی غلط نہیں تھی، وہ اُس کا وہم نہیں تھا۔ ابھی ابھی عزیز نیازی کا فون آیا تھا۔ جس میں سعدان کی موت کی اطلاع دی گئی تھی۔
امایہ پریشان تھی کہ کیسے بتائے مگر بتانا تو تھا اور یہ ہمت کسی اور کو نہیں اِسی كو کرنی تھی۔
شفاء کھڑکی سے سر ٹکائے باہر دیکھتے ہوئے اپنی سوچوں میں گُم تھی۔ اُس کے شفاف چہرے پر کچھ نہ جانتے ہؤئے بھی عجیب سا ملال اور پریشانی تھی، شاید اسی کو خون کی کِشش کہتے ہیں۔ جس میں سات سمندر پار لوگوں کو بھی آپس میں جوڑ کر رکھنے کی طاقت ہوتی ہے۔
"شفاء!۔۔۔"
امایہ نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ كر اسے بہت ہمت سے متوجہ کیا تھا۔
"ہوں؟۔۔۔" وہ چونکی
"شفاء جو کچھ میں تمہیں کہنے جا رہی ہوں وہ تمہیں بہت حوصلے سے سننا ہو گا۔" اُس نے تہمید باندھی۔
"کیا بات ہے مایا تمہاری باتوں سے مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"
شفاء اِس کی تہمید باندھنے کے انداز پہ اُلجھ سی گئی۔
امایہ نے اپنے خشک ہونٹوں پہ زُبان پھیر كر انہیں تر کرنے کی کوشش کی۔
"شفاء ہمیں ابھی اور اسی وقت گاؤں کے لیے نکلنا ہے۔ وہ۔۔۔۔ سعدد۔۔۔ وہ۔۔۔ سعدان بھائی کا مرڈر ہو گیا ہے۔"
کہتے ہی اُس نے رُکی ہوئی سانس بحال کی۔ اُس کی آنکھوں سے کب کے رُکے آنسوؤں نے بند توڑ کے گرنا شروع كیا تھا۔ امایہ کا کوئی بھائی نہ تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور ماں بھی پیدا کرتے ہی اسے تنہا كر کے خود دُنیا کی زندگی سے آزاد ہو کے جا چکی تھی مگر سعدان كو دیکھ كر اسے ہمیشہ ایک بھائی کا احساس ہوتا تھا سعدان نے اسے بھی ہمیشہ چھوٹی بہنوں کی طرح سمجھا تھا اور ہمیشہ مل کے سر پہ پیار دے کے بھائی کی شفقت کا احساس دلایا تھا۔
جبکہ اس کی بات سن کر شفاء کے کانوں میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا تھا۔ اُس نے ایک دم امایہ سے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور اُسے پڑے دھکیلا۔
"کیا بکواس ہے مایا۔۔۔ مجھے ایسا مذاق قطعی نہیں پسند اور یہ تم جانتی ہو۔"
"شفاء یہ مذاق نہیں ہے یہی سچ ہے۔ بھائی اب ہم میں نہیں رہے۔"
یہ کہتے ہؤئے امایہ کے رونے میں اور بھی روانی آ گئی تھی۔
"کہہ دو کہ۔۔ کک۔۔۔ کہ ت۔۔ تم جھوٹ بول رہی ہو۔" کہتے کہتے وہ زمین پہ گڑتی چلے گئی تھی۔
اُس کی آواز میں لڑکھراہٹ واضح تھی، امایہ كو اُس پہ ترس آ رہا تھا مگر وہ مجبور تھی۔
"کاش کہ یہ واقعی ایک مذاق ہی ہوتا۔"
شفاء كو سمبھالنا امایہ کے لیے بہت مشکل تھا۔
"اٹھو ہمیں گاؤں جانا ہے۔" کچھ لمحے تک جب شفاء نے کوئی حرکت نہ کی اور ایسے ہی بیٹھی رہی تو امایہ نے اسے بڑی طرح جنجھوڑا۔
شفاء کے پاؤوں کے نیچے سے زمین کھسک چکی تھی اُس کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔
اُس کے کانوں میں امایہ کا کہا ہوا جملہ گونج رہا تھا اور زبان پہ بےتاثر انداز میں ایک ہی بات رواں تھی۔
"بھائی چلے گئے، وہ مجھے چھوڑ کے چلے گئے۔۔۔ وہ اپنی شفاء کو چھوڑ کے چلے گئے۔۔۔"
وہ رونا چاہتی تھی مگر رُو نہیں پا رہی تھی، وہ چیخنا چاہتی تھی مگر چیخ نہیں پا رہی تھی، وہ سب کچھ تہس نہس كر دینا چاہتی تھی مگر خود میں ہمت نہیں پا رہی تھی۔
امایہ نے كب اُس کا بیگ پیک کیا اُس كو کپڑے بدلنے کا کہا وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔اُس کے ذہن میں جسے کوئی فلم چل رہی تھی۔
" شفاء! ۔۔۔"
"شفاء! ۔۔۔"
سعدان آفیس سے آ کر مسلسل اِسے پکارے جا رہا تھا۔ وہ جو کچن میں کام کر رہی تھی زچ ہو کر باہر کو آئی۔
"اوہو بھائی کیا مسئلہ ہو گیا ہے جو چیخی جا رہے ہو؟۔۔۔" کچن سے نکلتے اُس نے ہاتھ میں سالن والا چمچہ ایسے ہی پکڑ رکھا تھا۔
"اِسے رکھ کر اِدھر آؤ اور یہ دیکھو میں تمہارے لئے کیا لایا ہوں۔" اُس نے مخملی ڈبہ شفاء کے آگے کیا تھا۔ سالن والا چمچہ ایک طرف رکھ کر شفاء نے اُسے احتیاط سے کھولا۔ وہ گولڈ کی ایک باریک سی چین تھی جس میں نازک سا گول لاکٹ لٹک رہا تھا جو نہایت ہی نفیس لگ رہا تھا۔
"واؤ!۔۔۔ بھائی اِٹس جسٹ بیوٹیفُل!۔۔۔ مگر نہ تو آج میرا برتھ ڈے ہے نہ ہی رزلٹ۔۔۔ پھر اس عنایت کس خوشی میں؟۔۔۔"
"کیونکہ آج مجھے میری پہلی تنخواہ ملی ہے۔ اور یہ میں اپنی بہن کے لئے اپنی فرسٹ سیلری سے لایا ہوں۔" شفاء کے کنفیوژ سے چہرے پہ سعدان کی بات سے ایک دلکش مسکراہٹ در آئی تھی، جس پہ سعدان نے شفاء کو بری محبت سے اپنے ساتھ لگایا اور اس کے گردن میں پہنی چین کی تعریف کرنے لگا۔
امایہ نے شفاء كو گاڑی میں بیٹھنے کا کہا تھا مگر وہ تو کہیں اور ہی گُم تھی۔
"شفاء بیٹا ہاسٹل میں اپنا بہت خیال رکھنا کوئی بھی کام ہو مجھے فوراً فون کیا کرنا۔ اور اگر دل نہ لگے تو مجھے فوراََ بتا دینا میں تمہیں ہاسٹل سے واپس گھر لے جاؤں گا۔" یہ شفاء کا ہاسٹل میں پہلا دن تھا۔ اور اُس کے نروس چہرے کو دیکھ کر سعدان فوراََ سے اِسے واپس لے جانے کا بہانا ملا تھا۔
"اللہ کا نام لیں بھائی۔۔۔" اُس نے نروس پن چھپاتے ہوئے کوفت سے ماتھا پیٹا۔
"اللہ اللہ کر کے تو دادا جان سے پرمیشن ملی ہے اور آپ ابھی سے واپسی کی باتیں کر لیں۔"
عزیز نیازی کی گاڑی اب گاؤں کے جانب رواں تھی۔
"شفاء میں کوشش کروں گا کہ تمہیں جلدی لینے آؤں۔ پھر ہم دونوں بہن بھائی مل کر دادا جان کو سرپرائز دیں گے۔"
"شفاء یار اٹھو نا پلیز۔۔۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے یار کباب فرائی كر دو ساتھ میں چائے بھی بنا دو پلیز میری پیاری سی بہن نہیں۔۔ اُٹھ جاؤ نا!۔۔۔" وہ اس کے سر پہ کھڑا اسے زور زور سے ہلا کے جگا رہا تھا۔
"بھائی یہ کونسا وقت ہے کھانے کا رات کے تِین بج رہے ہیں مجھے سونے دیں۔"
شفاء نے رضائی واپس منہ پہ لیتے بدمزا ہو کر کہا۔
"یار پلیز بنا دو نا مجھے بھوک لگی ہے کل بہت ضروری کیس کی ہیرنگ ہے۔ میں نے ابھی کیس مزید سٹڈی کرنا ہے۔" اس کے بار بار چارو نا چار اُسے منہ بنا کر اٹھنا ہی پڑا تھا۔
عزیز نیازی پیچھے بیٹھی شفاء كو تسلی دینے کی کوشش كر رہے تھے، مگر اس کا انداز بے تاثر اور سپاٹ تھا۔ اُس کی حسیات جیسے مفلوج ہو چکی تھیں۔
"شفاء اپنا بہت خیال رکھنا بِلا ضرورت کہیں مت جانا۔"
گاڑی اب ان کے گاؤں کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ شفاء نے سامنے باغ کی جانب دیکھا جہاں اِس کا پورا بچپن گزرا تھا۔
سعدان چھوٹی سی شفاء کا ہاتھ تھامے باغ میں لئے اِسے گھوم رہا تھا، وہ دونوں ساتھ ساتھ کچھ گُنگُنا بھی رہے تھے۔
ہم پھول ہیں، اِس چمن کے۔
ہم خوشبو ہیں، ان پھولوں کی۔
ہم جگنو جیسے چمکتے ہیں۔
ہم بارش جیسے برستے ہیں۔
اِس نے ساکت نظروں سے نظروں سے اوجھل ہوتے باغ کی جانب دیکھا۔ سعدان اِس كو بہت دور جاتے نظر آیا تھا۔ بہت دور، جہاں سے واپسی ناممکن تھی۔
گاڑی ابراہیم الہیٰ کی لال حویلی کے آگے ایک جھٹکے سے رُکی تھی۔
"شفاء ہم دادا جان كو اِس بار ایک دم سے گاؤں آ کے سرپرائز دیں گے۔" حویلی میں قدم رکھتے یہ فقرہ ایک بار پھر اِس کے کانوں میں گونجا تھا۔
آہ سرپرائز۔۔۔۔ یہ سرپرائز ہی تو دیا تھا سعدان نے۔۔۔ اور وہ بھی ایسا جو دادا جان اور شفاء کبھی نہ بھولنے والے تھے۔ یہ ایسا سرپرائز تھا جو شفاء کی مسکان اور حویلی کی رونقیں دونوں اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا۔
اس كو دیکھ کر گاؤں کی عورتیں اس کے پاس آئیں تھیں اور آگے بڑھ بڑھ کر اس کو گلے لگا كر پیار كر رہی تھیں، کوئی اسے دلاسہ دے رہا تھا تو کوئی اسے جھنجوڑ کر ہوش دلا رہا تھا، مگر وہ تو بس اپنے بھائی کے پاس بیٹھی اُس کے بےجان وجود كو دیکھے جا رہی تھی۔
وہ چاہتی تھی وہ اپنے بھائی كو پکڑے اُس کے ہاتھوں كو چومے جن ہاتھوں كو پکڑ کے اُس نے چلنا سیکھا تھا۔ بچے ماں باپ کی گود میں پروان چرتے ہیں۔ وہ اپنے بھائی اور دادا کی گود میں کھیلی اور بڑی ہوئی تھی، وہ ان ہاتھوں كو پکڑنا چاہتی تھی مگر ہمت نہیں پا رہی تھی۔ وہ اپنے بھائی كو اِس میٹھی نیند سے جگانا چاہتی تھی مگر جگا نہیں پا رہی تھی۔ اور جگاتی بھی تو کیسے وہ تو اب ابدی نیند سو چکا تھا، ہمیشہ کے لیے وہاں چلا گیا تھا جہاں پہ سعدان جیسے لوگوں کے لئے اللہ نے سکون ہی سکون رکھا ہے۔
وہ سعدان کے چہرے كو دیکھتے جیسے پِھر سے کہیں کھو سی گئی تھی۔
"شفاء' شفاء!۔۔۔ پلیز میرے کپڑے پریس كر دو مجھے لیٹ ہو رہی ہے۔" سعدان اپنے کپڑے پکڑے شفاء کے ترلے لے رہا تھا مگر مقابل پہ فرق ہی نہ پر رہا تھا۔ وہ آرام سے صوفے پہ بیٹھی ریموٹ پکڑے ٹی۔وی پہ چینلز بدل رہی تھی۔
"دادا جان' پلیز اس سے آپ ہی کہیں نا یہ کپڑے پریس کر دے۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔"
"کیا ہے بھائی میں نہیں كر رہی خود ہی کرو۔"
"یار پلیز كر دو نا پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔ آتے ہوئے پکا تمہاری فیورٹ والی آئس کریم لیتے ہوئے آؤنگا۔" آئسکریم کی لالچ پہ اُس نے ناچاہتے ہوئے بھی کپڑے پکڑے اور کمرے کی جانب چلے گئی، مگر جاتے جاتے وہ سنائی کرنا نہ بھولی تھی۔
"دادا جان جلدی سے شادی کرائیں اپنے پوتے کی۔ تنگ آ گئی ہوں میں اِن کے کاموں سے، جلدی سے بیوی لائیں ان کی تا کہ میری تو جان چھوٹے۔"
اور اب چُھوٹ گئی تھی شفاء کی جان۔۔۔ اس کے ہر کام سے، کوئی بتاتا تو صحیح کہ اِس بہن کو اپنے بھائی سے ترلے کرانا کتنا پسند تھا۔ وہ تو جان بوجھ کر ایسا کرتی تھی۔ وہ سعدان كو اُٹھا کر کہنا چاہتی تھی کہ اُٹھو مجھے کام دو میں كروں، مگر اب سعدان کوئی کام نہیں دینے والا تھا۔ وہ اس کو اپنے کاموں سے ہمیشہ کی چُھٹی دے کر جا چکا تھا۔ کسی نے شفاء كو بازوؤں سے تھام کر زور سے جھنجھوڑا تھا۔
"شفاء ہوش کرو۔ آخری بار اپنے بھائی كو دیکھ لو پِھر یہ چہرہ کبھی نہیں دِکھے گا، جا رہا ہے وہ بہت دور، کبھی واپس نہ آنے کے لئے غور سے دیکھ لو اِس چہرے کو اور ہمیشہ کے لئے اپنی یادوں میں قید کر لو۔۔۔"
"کچھ آدمی آگے آئے تھے تاکہ میت كو لے جا سکیں۔ ایسے میں شفاء كو جیسے امایہ کی بات نے ہوش دلایا تھا۔"
"نہیں۔۔۔ نہیں، کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا میرے بھائی كو، کوئی نہیں جگائے گا اِن کو۔" وہ پاس کھڑے آدمیوں کو کہتی عورتوں کی جانب پلٹی تھی۔
"اور آپ لوگ۔۔۔ کیوں شور کر رہی ہیں ایسے؟۔۔۔ دیکھ نہیں رہے بھائی سو رہا ہے۔ وہ کتنے دن کا تھکا ہوا اب جا کر سکون کی نیند سویا ہے۔ آپ لوگوں کی آوازیں اُس کی نیند میں مخل پیدا کریں گی۔ سونے دیں اُسے اُس کی نیند خراب نہ کریں۔"
وہ سب کو اونچی آواز میں خبردار کرتی اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ اُسے سنبھالنا مشکل سے مشکل تر ہو گیا تھا۔ عزیز نیازی کے اشارے پہ لوگ آگے بڑھے تھے۔ ایسے میں آس پڑوس کی عورتیں بھی آگے بڑھ کر امایہ کے ساتھ شفاء کو سنبھالنے کی کوششیں کر رہی تھیں۔ اُس کی چیخیں ہر کسی کا دِل چِیر رہی تھیں۔
ہر کوئی ان بہن بھائیوں کی محبت سے واقف تھا ان کے درمیان دوستی اور محبت کی مثالیں ہر کوئی دیتا تھا۔ مگر كون جانتا تھا کے اِس محبت کی عمر اتنی چھوٹی سی ہو گی۔
کچھ لوگ آگے آئے تھے اور کلمہَ شہادت کی صدا بلند کرتے سعدان كو لے گئے تھے اُس کی اُس آرام گاہ کی جانب جہاں اُس نے تا قیامت رہنا تھا۔
جبکہ شفاء اپنے بھائی كو جاتے دیکھ كر روتے روتے ہی امایہ کے بازوؤں میں جھول گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوش قسمتی سے دھماکے سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا تھا، مگر نیوز چینلز كو کچھ بتایا نہیں گیا تھا اِس لئے سب كو غلط فہمی تھی کے ایس۔پی اور اُس کی کچھ نفری دھماکے کے دوران موقع پہ موجود تھی۔ مقابلے کے درمیان ہادی كو بھی بہت سی چوٹیں آئیں تھیں، مگر صد شُکر کہ اُس کی ٹِیم کے باقی سب افراد کی طرح اُس کو بھی صرف چھوٹی موٹی چوٹیں ہی آئیں تھیں اور سب ہی بڑے نقصان سے محفوط رہے تھے۔ اُس کے بازو پہ ایک گولی لگی تھی اور ایک گولی اُس کی گردن كو چھو کہ گزری تھی جس نے اُس کی گرددن کا تھوڑا سا گوشت چِیڑ کر رکھ دیا تھا۔
ہادی نے گھر میں سب كو اپنی خیریت کی اطلاع پہنچا دی تھی مگر اپنے زخموں کا کسی كو نہیں بتایا تھا۔ پولیس موبائل کی کچھ گاڑیاں مکمل طور پہ تباہ ہو چکی تھیں۔ جنہیں میڈیا پہ چلا چلا کر ہوا بنانا پولیس کی کی خود کی سازشوں میں سے ایک تھا مگر اس خبر نے سب کے گھر والوں کو بہت پریشان کر دیا تھا۔
اِس کا قبضہ مافیہ کے خلاف آپریشن کامیاب گیا تھا۔ جس سے اِس کی ترقی کے چانسس بڑھ گئے تھے، اِس کی چوٹوں اور محنت كو دیکھ كر اِس كو تِین دن کا ریلیف دیا گیا تھا۔ اِس کی واپسی رات کے تین سے چار بجے کے قریب ہوئی تھی۔ اِس کا خیال تھا سب سو چکے ہوں گے مگر جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا۔ عافیہ بیگم کی ابتر حالت دیکھ کر اِسے ماحول کی سنجیدگی کا بَخُوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ اِس نے سب كو جاکر گلے لگا كر اپنی خیریت کا بتایا اور صرف گردن کا زخم دکھا کر تسلی دی۔ بازو پہ لگنے والی گولی وہ جان بوجھ کر گول کر گیا تھا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے فی الحال اِس نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی تھی چونکہ عافیہ بیگم اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے رونے کا پروگرام ملتوی کر کے کمرے میں جا چکی تھیں۔
سب کے چلے جانے کے بَعْد اِس نے بھی اپنے کمرے کا رخ کیا۔ اپنے کمرے میں آ كر اِس نے جیکٹ اتاری اور بستر پہ بڑے دھیان سے لیٹ گیا وہ بہت تھک گیا تھا۔ اِس كو اِس وقت گرم چائے کی طلب تھی مگر کسی كو کہنا نہیں چاہ رہا تھا، آگے ہی اُس کی وجہ سے سب پریشان رہے تھے۔ اتنے میں ہی دروازہ کھٹکا تھا۔
"یس۔"
ہدیٰ گرم ہلدی والے دودھ اور دوائی کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ کھٹکنے کی آواز پہ ہادی نے نامحسوس سے انداز میں اپنے بازو پہ چادر ڈال لی تھی۔
"ارے یار اِس کی کیا ضرورت تھی میں ٹھیک تھا۔" وہ تکان زدہ آواز میں بولا۔
"نظر آ رہا ہے مجھے کتنے ٹھیک ہیں آپ۔"
ہدیٰ کی آواز بھی اِس کی آنکھوں کے ساتھ بھیگی ہوئی تھی، ساتھ ہی اُس نے اُٹھ کے اِس کے بازو سے چادر ہٹائی۔
"کیوں چھپایا آپ نے ہم سے یہ؟۔۔۔"
"یہ تمہیں کیسے پتہ چلا؟۔۔۔" وہ حیران ہوا۔ اِس بات کی خبر تو میڈیا كو بھی نہیں ہوئی تھی۔
"میں دیکھ سکتی تھی کہ آپ كو سب سے گلے ملتے ہوئے کیسے بازو پہ تکلیف کا احساس ہو رہا تھا۔ ہم اپنے ہیں آپ کے ایٹ لیسٹ ہم سے تو اپنی تکلیف بانٹ سکتے ہیں نا آپ۔۔۔" وہ گلہ کر رہی تھی۔ جس پہ ہادی لاجواب ہوا تھا۔ اس وقت اسے ہدیٰ پہ بہت پیار آیا تھا۔ جو اِس کی دوست بھی تھی، اس کی ہم راز بھی، اِس كو سمجھتی بھی تھی، اور اِس کی ہر ضرورت کا خیال بھی رکھتی تھی، اور پھر ایسی ہی تو ہوتی ہیں نا بہنیں۔
مگر نجانے کیسا ملال تھا جو ہادی ہر وقت ہدیٰ کی آنکھوں میں دیکھتا تھا، محسوس کرتا تھا۔ مگر پوچھنا اِس نے کبھی مناسب نہیں سمجھا شاید اِس کی غلط فہمی ہی ہو۔ اگر کچھ ہوتا تو ہُدیٰ اپنے بھائی كو تو لازماً بتاتی۔ آخر وہ اس کا ہم راز تھا اس کا دوست۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سعدان كو گئے آج تِین دن گزر چکے تھے۔ ملنے ملانے والے آتے افسوس کرتے اور چلے جاتے۔ ہر آنکھ اتنی جواں موت پہ اشکبار تھی۔ سعدان اپنے گاؤں والوں کے لئے بہت کام کرتا تھا۔ وکیل بن كر اُس نے ان لوگوں کے بہت سے کام جو كب سے لٹکے ہوئے تھے آسانی سے حل کرا دیئے تھے۔ سب كو ہی اِس کی موت کا بہت دکھ تھا مگر جانے والوں کے ساتھ جایا تو نہیں جاتا۔ آہستہ آہستہ سب ہی اپنے روز مرا کے ممعول پہ آ گئے تھے۔
اگر کسی كو فرق پڑا تھا تو وہ تھے شفاء الہٰی اور اِبْراہِیم الٰہی۔۔۔ اِبْراہِیم الہیٰ تین دن میں ہی بہت بوڑھے ہو گئے تھے۔ ان کی حالت تھی کہ سنبھل ہی نہیں رہی تھی وہ دِل کے مریض تھے۔ ان كو سعدان کی موت کا بہت گہرا صدمہ تھا اوپر سے شفاء کی خاموشی ان کا دل طیر رہی تھی۔ سعدان کے جانے سے پہلے اُس کا شفاء کے لئے دکر مند ہونا انہیں اندر سے ہلا گیا تھا۔ قہ ایسی حالت اور اس عمر میں اس کا کیسے خیال رکھ سکتے تھے۔
دوسری جانب شفاء تھی جس کی تو گویا دُنیا ہی بدل گئی تھی۔ اپنے جان سے پیارے بھائی کے جانے کے بعد وہ تو جیسے نہ زندہ تھی نہ مردہ، شفاء كو جب سے ہوش آیا تھا' اُس نے چُپ سادھ لی تھی، نہ کھاتی تھی نہ پیتی تھی بس ایک کونے میں بیٹھی رہتی۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی کہ اُس کے آنسو ہی نکل آئیں مگر اُس کا سکتہ تھا کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
ایسے میں امایہ ہی تھی جس نے سب کچھ سنبھالا ہوا تھا مگر آخر كب تک۔۔۔ آج اُس نے بھی واپس جانا تھا۔ کالج کی چھٹیاں ختم ہو چکی تھیں اور بہت دن بھی ضائع ہو چکے تھے۔ وہ جانا تو نہیں چاہتی تھی مگر عزیز نیازی کی آب وہوا کی تبدلی کی وجہ سے طبعیت خراب بونے کے باعث جانا ضروری تھا مگر جانے سے پہلے امایہ اُس کا سکتہ ضرور ٹورنا چاہتی تھی۔
"شفاء ہوش کرو کیا ہو گیا ہے تمہیں؟۔۔۔ تم کیوں کُفر كر رہی ہو؟۔۔۔ وہ اللہ کی چیز تھی اللہ نے لے لی، تم ایسے كر کے اللہ سے کیوں اپنی ناراضگی کا اظہار كر رہی ہو۔" شفاء نے ساکت نظروں سے امایہ کی جانب دیکھا۔
"وہ بھائی تھا میرا۔ میرے اور دادا کی کُل کائنات تھا۔"
"یہ کس قسم کی ناراضگی ہے اور کس سے ہے۔ وہ انسان جو مرا ہے تم سے پہلے اُس پہ اللہ کا حق تھا۔ اُس کو تمہارے لئے بھیجا بھی اللہ نے ہی تھا اور واپس بھی اللہ نے ہی بلایا ہے۔ اور اب تم کیا چاہتی ہو۔ سعدان بھائی، چلے گئے تو دادا جان بھی چلیں جائیں؟۔۔۔" الفاظ کی سفاکی پر شفاء نے تڑپ کے امایہ کو دیکھا تھا۔
"حالت دیکھی ہے تم نے دادا جان کی؟۔۔۔ تِین دن سے وہ کس حال میں ہیں کیا تم جانتی ہو؟۔۔۔ سعدان بھائی کا دکھ کیا کم ہے جو تم ایسی حالت بنا کر اُن کو مزید پریشان كر رہی ہو؟۔۔۔"
ضرب کاری تھی مگر احساس دلانے کے لئے ضروری تھی۔۔۔ امایہ نے جان بوجھ کے ان سفاک الفاظ کا اِسْتِعْمال کیا تھا۔ وہ جانتی تھی لوہا گرم ہے اگر ابھی سنبھل گئی تو سنبھل گئی ورنہ ساری زندگی کا پچھتاوا رہ جائے گا۔
"اگر تم نے ایسا ہی رویہ رکھا نا شفاء تو کچھ پتا نہیں کہ وہ بھی سعدان بھائی کی طرح تمہارا ساتھ چھوڑ دیں۔"
"بس کردو مایا۔۔۔ بس کر دو۔۔۔ کیا بولے جا رہی ہو؟۔۔۔ اللہ کے لئے چُپ ہو جاؤ، مت بولو ایسے۔"
شفاء اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھے زور سے چیخی تھی۔ اُس کا سکتہ ٹوٹا تھا اور اُس کی آنکھوں کے راستے سے آنسوؤں نے اپنا راستہ بنایا تھا، اسے ہوش آیا تھا اور اب وہ اپنے نقصان پہ جتنے آنسو بہاتی کم تھے۔ لیکن امایہ اُس كو مکمل طور پر جگانا چاہتی تھی اُس سے شفاء کی حالت دیکھی تو نہیں جا رہی تھی مگر وہ اِس كو دادا جان کا احساس دلانا چاہتی تھی۔۔۔ اللہ سے غفلت برتنے کا احساس دِلانا چاہتی تھی۔ شفاء نے سعدان کی وفات کے بعد سے نماز اور قرآن کسی چیز كو بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا اور اللہ سے ناراض ہونے والے اور شکوہ کرنے والے ہم حقیر سے انسان آخر ہوتے کون ہیں۔ جب وہ پروردگار ہی اپنے گناہ گار بندے سے ناراض نہیں ہوتا اُس سے شکوہ نہیں کرتا اُس کو بھوکا نہیں سونے دیتا۔ تو ہماری اوقات ہی کیا ہے جو ہم کای بھی طرح ناراضگی کا اظہار کریں۔ نجانے ایسا کرتے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر وہ رب ہم سے ناراض ہو گیا تو ہمارا کیا ہو گا؟۔۔۔۔
اُس نے سر جھٹکتے شفاء کی جانب دیکھا جو ٹانکگو کے گرد بازو کا گھیرا ڈالے اپنا سر بیڈ کراؤن سے لگائے زاروقطار رونے میں مصروف تھی۔
"شفاء یہ غلط ہے میری جان بہت غلط۔۔۔اُٹھو نہاؤ، وضو کرو اور صبر کرو۔۔۔ بے شک اللہ کے ہر کام میں اُس کی مصلحت و حِکمت پوشیدہ ہے۔۔۔۔ تمہیں یوں صبر نہیں آ رہا تو نماز میں اس کو تلاش کرو، اس کے زکر میں صبر کو تلاش کرو مگر یوں اپنے ساتھ اور سعدان بھائی کی روح کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔۔۔ اللہ نے عورَت ذات كو چیخنے اور آواز کے ساتھ رونے سے منع فرمایا ہے تم ایسے رو کر نا صرف دین سے پیچھے ہٹ رہی ہو بلکہ دادا جان اور سعدان بھائی کی روح كو بھی تکلیف پہنچا رہی ہو۔ اٹھو شاباش وضو کرو اور بھائی کے لیے تسبیح کرو کیونکہ اب اُن کو اصل تحفہ دینے کا وقت ہے، وہ تحفہ جن کی اُنہیں سب سے زیادہ ضرورت ہے اور وہ تحفہ الله کا زکر جو اُن کو سکون اور راحت پہنچائے گا۔ تم اتنے دنوں سے اللہ سے غافل رہی ہو اب اس غفلت کو چھوڑو اور اللہ سے اپنے اور دادا جان کے لئے صبر مانگو اور بھائی کے لئے بخشش اور راحت۔۔۔ "
اس نے شفاء کے بال سہلاتے اُسے بہت پیار سے سمجھایا تھا۔ جس پہ شفاء سر ہاں میں ہلاتے وہاں سے اُٹھ گئی
شفاء نماز پڑھ کے فارغ ہوئی ہی تھی جب امایہ اُس سے جانے سے پہلے ملنے آئی تھی۔
"اب اُٹھو اور دادا جان کے پاس جاؤ ان كو تمہاری ضرورت ہے اور تمہیں اُن کی۔۔۔ ان کے پاس جا کر انہیں ہمت دو اور انہیں بتاؤ کہ وہ اکیلے نہیں ہیں تم ہو اُن کے پاس۔ وہ بہت بیمار ہیں شفاء' اِن كو جا کر اپنے ہونے کا احساس دلاؤ۔ اُن کی اپنی طرف سے پریشانی كو ختم کرو۔ اور ہاں ان کے سامنے رونا دھونا ہر گز مت، اُن کی حالت کافی خراب ہے۔ اتنے دن سے میں ان کی میڈیکیشن کر رہی تھی مگر اب تم ایک بیٹی کے ساتھ ساتھ میڈیکل اسٹوڈنٹ ہونے کا بھی حق نبھاؤ۔"
کسی چھوٹے بچے کی طرح شفاء كو سمجھا کر اور دادا جان سے پیار لے کر وہ واپس لاہور کے لیے روانہ ہو گئی تھی۔ اور پیچھے شفاء باکل اکیلی رہ گئی تھی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِبْراہِیم الہیٰ کے پاس اُن کے دور کے رشتے دار آئے ہوئے تھے۔ ایسے حالات میں سارا وقت امایہ کے علاوہ وہی رہے تھےدادا جان کے پاس، جبکہ اِس مشکل وقت میں جس کو اُن کو پاس ہونا چاہیئے تھا وہ اُن کا غم بھلائے اپنا غم منانے میں مصروف تھی۔
"بڑے صاحب جی! آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔کہہ رہا ہے لاہور سے ہوں سعدان صاحب کا جاننے والا۔" زیبو نے آ كر نڈھال سے اِبْراہِیم الہیٰ كو اطلاع دی۔ اِبْراہِیم صاحب نے مہمان كو مردان خانے میں بیٹھانے کا حکم دیا اور خود زمان مصطفیٰ کے سہارے چلتے مردان خانے میں چلے آئے۔
"سلام، مجھے سلطان دُراب شاہ کہتے ہیں۔"
ابراہیم الہیٰ کو آتا دیکھ کر مہمان اپنی جگہ سے اُٹھا اور ہاتھ ملاتے اِبْراہِیم الہیٰ کو جانچتی نظروں سے دیکھا۔ اس نام پہ اِبْراہِیم الہٰی چونکے تھے مگر جلد ہی اپنے آپ كو کمپوز کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔
"میں آخری دنوں میں سعدان کے بہت قریب رہا ہوں۔" اِبْراہِیم صاحب جانتے تھے یہ قریب کونسا قریب ہے۔ مگر کچھ کہہ نہ سکتے تھے اسی لئے خاموش رہے۔ اگر وہ لچھ کہتے بھی تو کیا کہتے اُن کے سامنے اُن کی نسل کا قاتل بیٹھا تھا مگر ان کے ناتواں جِسَم میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی کہ اب وہ اپنے واحد رشتے اپنی بیٹی كو بھی اِس بھیڑئے کا شکار ہوتے دیکھتے اس لئے انہوں نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ اور اپنے چہرے کے تاثرات کو ہر ممکن حد تک کنٹرول کئے بیٹھے رہے۔
سعدان کیلئے فاتحہ پڑھنے اور مغفرت کی دعا کے بَعْد وہ جانے کے لیے اٹھا تھا اور جاتے جاتے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک گیا تھا۔ "سعدان نے بتایا تھا اُس کی ایک بہن بھی ہے۔۔۔ شفاء نام ہے نا اُس کا۔۔۔ آپ اگر اُس كو بھی بُلا لیتے تو اچھا ہوتا میں اُس سے بھی تعزیت كر لیتا ورنہ لاہور میں تو ملاقات ہو ہی جائے گی۔" اُس نے اٹھتے ہوئے ایک صور تھا جو اِبْراہِیم الہیٰ کے کانوں میں پھونکا تھا اور وہ بچارے اُس کے جانے کے بعد وہی پہ ڈھے گئے تھے۔
ابْراہِیم صاحب كو لگا تھا وہ اب شفاء کی حفاظت نا كر سکیں گے۔ جس چیز کا سعدان كو خوف تھا وہی ہو رہا تھا۔
دراب شاہ کے جانے کے بعد وہ وہیں صوفے پہ گِر سے گئے تھے۔ زمان مصطفیٰ نے بہت مشکل سے ان كو سنبھالا تھا۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آیا تھا ایک دم ابراہیم الہیٰ کو ہوا کیا ہے۔ وہ بس روتے ہوئے ایک ہی بات دہرائے جا رہے تھے۔ "میں اپنی شفاء کی حفاظت کیسے كروں گا سعدان؟۔۔۔ کیسے؟۔۔۔ اتنی بڑی ذمہ داری تم مجھ اکیلے کے سر پہ ڈال کے کیسے جا سکتے ہو؟۔۔۔
"انکل کیا بات ہے مجھے بتائیں تو سہی شاید میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں۔" زمان مصطفیٰ انہیں سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ابراہیم الہیٰ سن ہی کہاں رہے تھے وہ تو بس اپنی ہی بولی جا رہے تھے۔
"سعدان' میرے بچے کیوں چھوڑ گئے تم ہمیں۔۔۔ کیوں یہ بوجھ مجھ کمزور پہ ڈال گئے؟۔۔۔ مجھ میں اور دُکھ سہنے کی ہمت نہیں بچی سعدان۔۔۔ میں بوڑھا بندا کیسے بچاؤں اپنی بچی کو اِن درندوں سے؟۔۔۔"
وہ رو رو کر سعدان کو پکار رہے تھے ساتھ میں ان کی آنکھوں سے اشک بہے جا رہے تھے۔ اب انہیں کون بتاتا کہ اُن کا سعدان اُن کا بازو اُن کا خون واپس آنے والا نہیں تھا، کیونکہ جانے والے کب واپس آیا کرتے ہیں۔۔۔ زمان صاحب چاہ كر بھی اُن کے دُکھ کو کم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔
سلطان دُراب شاہ کے جانے کے بَعْد اِبْراہِیم الہیٰ کی حالت مزید بگڑ گئی تھی، شفاء کے لئے بھائی کے بَعْد اب دادا کی یہ حالت دیکھ کر اپنے آپ كو سنبھالنا مشکل ہو چلا تھا، اُس نے دادا جان كو دوائی دے کر سُلایا، اپنی محدود میڈیکل کی تعلیم کے مطابق جتنا ہو سكتا تھا وہ كر رہی تھی اور ساتھ میں اپنے کچھ ٹیچرز کے ساتھ بھی وہ مکمل رابطے میں تھی۔ ہسپتال ان کی حویلی سے بہت دور تھا اور ابراہیم الہیٰ ہاسپتال جانے کیلئے راضی بھی نہیں تھے۔ انہیں ہسپتال کے نام سے ہی خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اور خوف تو شفاء کو بھی محسوس ہو رہا تھا، اور یہاں مستقبل قریب کی بننے والی ایک ڈاکٹر اپنے احساسات کو ناچاہتے ہوئے بھی مریض پہ فوقیت دے گئی تھی۔ شفاء سلطان دُراب شاہ کے کیس سے یکسر غافل تھی اور اُس كو غافل رکھا بھی گیا تھا۔ اس لئے وہ اس سب کی اصل وجہ سے لاعلم تھی۔ اور سعدان کے بعد اب ابراہیم الہیٰ بھی اِسے ہر چیز سے لاعلم ہی رکھنا چاہتے تھے۔
دادا جان کے سونے کے بعد وہ زمان مصطفیٰ كو آرام کا کہہ كر اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔ عشاء کا وقت تھا اُس نے وضو کیا اور نماز کی نیت باندھی۔
"اے اللہ ہماری خوش حال زندگی كو کس کی نظر لگ گئی ہے؟۔۔۔ بھائی کے بَعْد اب دادا کی ایسی حالت ہے میں کیا كروں؟۔۔۔ مجھ میں مزید نقصان برداشت کرنے کی طاقت نہیں رہی، سب سے پہلے میرے والدین اور اُس کے بَعْد بھائی۔۔۔ میں کیا کروں میرے اللہ؟ کیسے سنبھالوں خود کو یا دادا جان کو؟۔۔۔ مجھ سے تو اپنا دکھ نہیں سنبھلتا اُس پہ دادا جان کی حالت اور اُن کا دُکھ۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ جانتے ہیں نا بھائی میرے لیے کیا تھے؟۔۔۔ اُن کے بغیر ہم کیسے سروائیو کریں۔۔۔ ہمارے گھر کی تو بنیاد تھا وہ شخص جو ہمیں یوں تنہا چھوڑ کے چلا گیا۔ اب اُس کے جانے کے بعد اللہ جی' ہم ہل چکے ہیں ہمارے گھر کی بنیاد ہل چکی ہے۔ ہم سے ایک دوسرے کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے اللہ۔۔۔ ہمیں مزید آزمائش میں مت ڈالنا۔ ہم میں تو ابھی تک کوشش کے باوجود چاہ کر بھی صبر نہیں آ رہا۔۔۔۔ اللہ ہمیں صبر عطا کر دے۔۔ وہ سلام پھیرنے کے بَعْد اللہ کے حضور رو رو کر دعا کر رہی تھی اور ناچاہتے ہوئے بھی شکوے اُس کی زبان پہ آ رہے تھے۔
"اللہ جی آپ دادا كو مجھ سے مت لینا میں اکیلی رہ گئی ہوں، صرف دادا جاں ہیں میرے پاس ان كو صحت دے دیں ان كو ٹھیک كر دیں میرا وہی واحد رشتہ ہیں۔ یا اللہ مجھ سے میرا واحد رشتہ نہ چھینیں، میرے واحد رشتے کو مجھ سے دور نہ کریں، میرے دادا كو صحت عطا كر دیں۔ یا اللہ آپ عطا کرنے والے ہیں آپ عطا كر دیں تو کوئی چھین نہیں سکتا، اور اگر آپ چھین لیں تو کوئی عطا نہیں كر سكتا۔ یا اللہ آپ میرے واحد رشتے کو میرے جینے کا سہارا بنا دیں۔۔۔۔ یَا اللہ!۔۔۔جس طرح آپ دن كو رات میں اور رات كو دن میں بدلتے ہیں، اسی طرح ہماری مشکلات كو آسانیوں میں، بیماریوں كو تندرستی میں، نفرتوں كو محبتوں میں اور غم كو خوشی میں بدل دیں۔ یا اللہ ہمارے غم کو صبر میں بدل دیں۔ ہمیں صبر عطا کردیں۔۔۔ مجھے اتنی ہمت عطا کر دیں کہ میں اپنے دادا كو سنبھال سکوں۔ اِن کے سامنے اپنے آپ كو مضبوط ثابت كر سکوں اللہ جی مجھے ہمت دیں۔۔۔"
وہ دعا كر رہی تھی ساتھ ساتھ اللہ کے حضور گرگراہ کر رو رہی تھی۔
"میرے بھائی کے لئے جنت کا راستہ آسان كر دیں۔ اُن سے ہونے والی غلطیوں اور کبیرہ صغیرہ گناہوں كو معاف كر دیں۔ بے شک آپ بہت رحم کرنے والے رحیم و کریم ہیں۔ اے اللہ آپ اپنے نبیؐ کی امت كو معاف كر دیں، اے اللہ ہم انسان ہیں اور انسان تو گناہوں کا پُتلا ہوتا ہے نا اور آپ تو اللہ ہیں نا اللہ تعالیٰ ہم سب کے مالک و خالق، آپ تو ہمارے گناہوں كو معاف کرنے والے اور توبہ قبول کرنے والے ہیں نا تو ہمیں بھی معاف کر دیں، ہماری پریشانیاں ختم کر دیں، یا اللہ مجھ پہ رحم کریں مجھے عطا كر دیں یا اللہ مجھے عطا كر دیں۔"
اُس کے کمرے کے باہر سے گزرتے زمان مصطفیٰ کے قدم پل بھر کے لئے وہیں جم سے گئے تھے۔ اِس معصوم کو یوں رو رو کر دُعا مانگتا دیکھ کے ان کی اپنی آنکھیں بھی بھر آئیں تھیں۔ وہ اِسے یوں دُعا مانگتا ریکھ کر کہیں بہت پیچھے چلے گئے تھے۔
وہ اٹھارہ سالہ جبریل مصطفیٰ تھا۔ جس کو اپنی ماں سے بچھرے ابھی دو دن ہی گزرے تھے اور وہ اپنے نومولود چھوٹے سے بھائی کو گود میں اُٹھائے فیڈر پلانے اور سُلانے میں مصروف تھا۔ اُس بھائی کو جس کا ابھی تک نام رکھنے کا خیال بھی کسی کو نہ آیا تھا، جس کا باپ اپنے دکھ میں اُس ننھے پھول کو مکمل بھول چکا تھا جسے اُس کی بیوی جانے سے پہلے اپنے شوہر کی۔تحویل میں دے کر گئی تھی مگر وہ باپ اپنے دکھ اور تکلیف میں اپنی سب اولادوں کو فراموش کر چکا، یاد تھا تو صرف اتنا کہ اُس کی شریکِ حیات آمنہ اُسے تنہا چھوڑ کے جا چکی تھی۔ ایسے میں عافیہ یا جبریل ہی تھے جس گھر کو سنبھالے ہوئے تھے۔ عافیہ کے بہت کہنے کے باوجود بھی جبریل نے اپنے چھوٹے بھائی کو اُن کے سلیمان ولا نہ جانے دیا تھا اور ساری رات جاگ کر اُسے سنبھالتا ساتھ باقی گھر والوں کا بھی خیال رکھتا وہ اٹھارہ سالہ لڑکا دو دن میں ہی بہت بڑا ہو گیا تھا اور اس وقت وہ اٹھارہ سالہ جبریل مصطفیٰ اپنے سب بھائیوں کو کھانا کھلا کر سُلا کر اپنے کمرے میں جا کر جائے نماز بچھائے اللہ سے باتیں کرنے میں مصروف تھا۔ آمنہ کی وفات کے بعد وہ پہلا دفعہ تھا جب زمان مصطفیٰ کو کھونے والے کے بجائے بچ جانے والوں کی فکر ہوئی تھی۔ اُن کے بیٹے کی دعاؤں نے زمان مصطفیٰ کے ضمیر کو جیسے جھنجوڑ ڈالا تھا۔ اُن کے قدم خودبخود اندر کی جانب بڑھے تھے اپنے بیٹے کے بالکل سامنے وہ دو زانوں ہو کر بیٹھے اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دئے۔ اچھا خاصا رو لینے کے بعد انہوں نے بستر پہ سوئے اپنے چھوٹے سے بیٹے کو بازوؤں میں اٹھایا تھا۔ منہ میں چوسنی لئے وہ بچہ کچی نیند میں کسمسایا تھا۔ اُسے دیکھ کر بے اختیار زمان مصطفیٰ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ انہوں نے فوراََ اپنے بیٹے کو سینے میں بھینچ لیا۔
شفاء کو بھی یوں روتا دیکھ کر اُن کا دل کیا تھا وہ اندر جائیں اِس بچی کے سر پہ ہاتھ رکھیں۔ اُسے حوصلہ دیں مگر وہ چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکے اور وہاں سے ہٹ گئے۔
خوب رونے اور گرگراہ کر دعا مانگنے کے بَعْد اُسے اپنا آپ کافی ہلکا محسوس ہوا تھا۔ تِین دن سے اُس نے نہ کوئی نماز پڑھی تھی اور نہ ہی عشاء کے بَعْد اپنے معمول کے مطابق سورتوں کی تلاوت کی تھی، اِس نے کچھ سوچتے ہؤئے سورۃ ملک کھولی اور پڑھنے لگے۔
حضرت انس (رضی اللہ) سے روایت ہے کے نبی پاک ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا :
"قرآن الکریم میں ایک سورۃ ہے جو اپنے قاری کے بارے میں جھگڑا کرے گی یہاں تک کہ یہ جنت میں داخل كرا دے گی اور یہی سورۃ سورۃ ملک ہے۔"
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے حضرت سیدینا عبدالله بن مسود فرماتے ہیں کہ :
"جب بندہ قبر میں جائے گا تو عذاب اِس کے قدموں کے جانب سے آئے گا تو اِس کے قدم کہیں گے کہ تیرے لئے میری طرف سے کوئی راستہ نہیں کیونکہ یہ رات میں سورۃ ملک پڑھا کرتا تھا، پِھر عذاب اِس کے پیٹ اور سینے سے آئے گا وہ بھی کہیں گے تیرے لئے میری طرف سے کوئی راستہ نہیں کہ یہ رات میں سورۃ ملک پڑھا کرتا تھا پِھر عذاب اِس کے سر کی جانب سے آئے گا تو وہ بھی
یہی کہے گا کے تیرے لئے میری طرف سے کوئی راستہ نہیں۔"
سورۃ ملک کی تلاوت کے بعد اِس نے سعدان کی روح کے لیے سکون کی اور ایصالِ ثواب کی دعا کی اور پھر کھلی فضا میں سانس لینے وہ باہر صحن میں نکل آئی۔
اِس کی آنکھوں میں پِھر سے آنسو آ چلے تھے جو اُس نے اپنے ہاتھ کی پُشت سے صاف کئے۔ اسے اپنے بھائی کی روح كو اذیت نہیں دینی تھی۔ اُس نے اللہ کی ناشکری نہیں کرنی تھی اُس نے صبر کرنا تھا۔ بس صبر۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زمان بیٹا' میرا ایک کام کرو گے؟۔۔۔ سردان کے بعد ایک تم ہی ہو جس پہ میں اس معاملے میں بھروسہ کر سکتا ہوں۔ کیا تم مجھ بوڑھے پہ ایک احسان کر دو گے؟۔۔۔"
زمان مصطفیٰ ابراہیم الہیٰ کے پاس بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ انہوں نے یسٰ پڑھ کر قرآن پاک اونچی جگہ پہ رکھا۔ وہ ابھی واپس آ کر بیٹھے ہی تھے جب اِبْراہِیم الہیٰ کی۔آواز اُن کی سماعت سے ٹکرائی۔
اِبْراہِیم الہیٰ اور زمان مصطفیٰ کی آپس میں دور کی مگر بہت قریبی رشتہ داری تھی۔ ابراہیم الہیٰ جب بھی زمان صاحب کے گاؤں جایا کرتے۔ سلیمان اور زمان اِن کے پاس اپنی اہنی کتابیں لا کر اِن کے پاس پڑھا کرتے تھے۔ زمان مصطفیٰ كو بچپن میں اِبْراہِیم صاحب سے بہت پیار ملا تھا۔ ان دونوں کے والد کی آپس میں گہری دوستی تھی مگر اس دوستی میں ادب ہمیشہ پہلا قرینہ رہا تھا۔ ابراہیم الہیٰ زمان مصطفیٰ کے والد سے عمر میں بڑے تھے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ان کی عزت واحترام کو مکرم رکھتے۔ یہ شہر آ چکے تھے جب انہی ایک حادثے میں ابراہیم الہیٰ کے بچوں کا انتقال کی خبر ملی تھی۔ اُس دن وہ پہلی بار ابراہیم الہیٰ سے ملنے اس حویلی آئے تھے جب سعدان تقریباً حدید جتنا تھا اور شفاء وہ تو بہت ہی چھوٹی تھی۔ اس واقعے کے بعد ابراہیم الہیٰ نے سب سے اپنا ملنا جلنا تقریباً ختم کر دیا تھا مگر فون پہ کبھی کبھی ان کی بات ہو جاتی تھی۔ ابراہیم الہی کے خاندان میں زیادہ کوئی تو بچا نہ تھا اور اگر کوئی تھا بھی تو کسی نے ابراہیم الہیٰ سے رابطہ نہ رکھا تھا صرف زمان مصطفیٰ ہی تھے جو باقاعدگی سے ہر تھوڑے دن بعد اِن کا حال احوال پوچھ لیتے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ ابراہیم الہیٰ کو جب سعدان کی موت کی خبر ملی انہوں نے سب سے پہلے زمان مصطفیٰ سے رابطہ کر کے انہیں اپنے پاس بلایا تھا۔ اور اب نا چاہتے ہوئے بھی وہ زمان مصطفیٰ سے وہ کہہ چکے تھے جو اپنی زندگی کی آخری چیز کسی سے کہتے۔ زمان مصطفیٰ پہلے اُن کی ایک دم بگڑتی حالت اور اب اُن کی بات پہ پریشان سے ہوئے تھے۔
"آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں؟۔۔۔ آپ کو تو چاہیئے آپ مجھے حکم دیں۔ آپ میرے لئے ابا جی کا مقام رکھتے ہیں۔ ایسے کہہ کر مجھے شرمندہ تو نہ کریں۔"
زمان مصطفیٰ کی بات پہ ابراہیم الہیٰ کو حوصلہ ملا تھا۔ انہیں کوئی چاہیئے تھا جسے وہ اپنا دُکھ بتا سکیں اور زمان مصطفیٰ سے بہتر انہیں کوئی نہ لگا تھا۔
"میری شفاء۔۔۔ وہ محفوظ نہیں ہے زمان۔۔۔ وہ لوگ میری شفاء كو بھی نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ نہیں چھوڑیں گے وہ اُسے۔۔۔ وہ میری شفاء كو بھی تباہ كر دیں گے اور پھر مار کے پھینک دیں گے جیسے انہوں نے میرے سعدی کے ساتھ کیا۔۔۔"
اپنی بات کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کے رَو دیئے تھے، جبکہ زمان مصطفیٰ پریشان سے ہو گئے تھے۔
"کیا بات ہے کر رہے ہیں آپ میں سمجھ نہیں پا رہا۔ کِن کی بات كر رہے ہیں آپ؟۔۔۔ کس نے مارا ہے سعدان کو؟ کیا آپ جانتے ہیں اُنہیں اور شفاء۔۔۔ اُسے کس چیز کا خطرہ ہے؟ مجھے کُھل کے سب بتائیں۔۔۔" وہ مضطرب سے ہوئے۔
"سلطان دُراب شاہ۔۔۔ اُسی نے مارا ہے میرے سعدان كو، وہ شفاء کے پیچھے بھی پڑا ہے۔ وہ جاتے جاتے مجھے اشارہ بھی دے کر گیا ہے۔ وہ مار دے گا میری شفاء کو وہ نہیں چھوڑے گا سردان کو اِسی چیز کی فکر تھی اور آج یہی ہو رہا۔ وہ شفاء کو میرے آسرے پہ چھوڑ کر چلا گیا میں کیسے کروں اُس کی حفاظت زمان کیسے کروں؟۔۔۔ وہ لوگ بہت ظالم ہیں وہ چھوٹی چھوٹی بچیوں تک پہ رحم نہیں کرتے زمان وہ میری شفاء کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ میری بچی بہت معصوم ہے زمان وہ کچھ بھی نہیں جانتی۔ اپنے آخری وقت میں بھی سعدان كو صرف شفاء ہی کی فکر تھی۔ اور جس چیز کا ڈر اُسے تھا آج وہی ہو رہا اور میں کچھ بھی نہیں کر پا رہا۔"
ساری صورتحال کو جان کر زمان مصطفیٰ کچھ بولنے کے قابل نہ رہے تھے۔ وہ ہادی کو اطلاع کر کے پولیس کو اطلاع دینا چاہتے مگر ابراہیم الہیٰ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔
"نہیں زمان، میں اپنی بچی کو تھانے اور کورٹ کچہری کے چکڑوں میں نہیں ڈالنا چاہتا میں جانتا ہوں میں آج ہوں مگر کل میں نہیں ہوں گا۔ ایسے میں' میں اُسے اس بکھیرے چاہتا۔"یں ڈالنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں میں اُس کی شادی کر دوں۔ میرے پاس جِتنی بھی دولت ہے سب میری بیٹی کی ہی ہے اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے میں جانتا ہوں میں بھی چلا جاؤں گا میری بیٹی اکیلی رہ جائے گی۔ تم ملے ہو نا میری شفاء سے زمان؟۔۔۔ جانتے ہو وہ بہت پاگل ہے، اگر کل مجھے کچھ ہو جائے تو وہ ویسے ہی مر جائے گی۔ میں اُسے اس دنیا میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں میں اُسے اپنے گھر کا کر دوں تاکہ میں سکون سے مر سکوں۔"
"آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، ایسا نہ کہیں اللہ آپ کو لمبی حیاتی دے اور آپ شفاء کی فکر نہ کریں وہ بہت اچھی بچی ہے اللہ اُس کے نصیب بہت اچھے کرے گا۔ انشاءاللہ۔۔۔ آپ بس اپنی صحت کا خیال رکھیں۔"
ان کی نظروں کے سامنے گڑگڑا گڑگڑا کے دعا مانگتی شفاء آئی تھی۔
"جانتے ہو ناں بیٹا اللہ کے بعد سعدان اور میں ہی اِس کا سہارا تھے، سعدان تو ہمیں چھوڑ كر چلا گیا اور اب مجھے لگتا ہے میرے پاس بھی وقت نہیں بچا، میں بھی چلا جاؤں گا اپنی بچی کو چھوڑ کر۔"
"اللہ آپ كو لمبی عمر اور صحت دے آپ كو کچھ نہیں ہو گا۔ آپ فضول سوچوں کو مت سوچیں۔" زمان صاحب نے فوراََ اِن کی بات کاٹی۔
"بیٹا' تم جتنی بھی تسلیاں دے لو مگر میں جانتا ہوں، اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ جب انسان کا وقت قریب آ رہا ہو اُسے اکثر ایسے ہی الہام ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جیاے میرے سعدی کو ہوئے تھے۔" بات کرتے کرتے ان کا لہجہ ٹوٹ سا گیا تھا۔
"اسی لئے زمان میں تمہاری مدد چاہتا ہوں، مجھے اور کسی پہ اب یقین نہیں رہا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے بعد شفاء کی۔۔۔ کہتے کہتے اُن کی زُبان جھجکی تھی، جبکہ زمان مصطفیٰ اُن کی آدھی ادھوری بات کا ہی مفہوم سمجھ گئے تھے۔
"شفاء میری بھی بیٹی ہے آپ فکر نہ کریں۔ آپ مجھ پہ بھروسہ کر سکتے ہیں۔"
"زمان تم اِس کی ذمہ داری اٹھا لو۔ اِس كو اپنے ساتھ اِن شیطانوں کی پہنچ سے دور لے جانا۔ کسی اچھی جگہ دیکھ كر اِس کی شادی کر دینا۔ یہ حویلی، زمینیں میری ساری دولت میری بیٹی کی ہے۔ کہیں اچھا لڑکا دیکھ کر۔۔۔ ابْراہِیم الہیٰ کی حالت
پھر سے بگڑنا شروع ہوئی تھی۔ زمان مصطفیٰ نے پاس پڑا ان ہیلر فوراََ منہ کو لگایا۔ اور اُن کے ضعیف ہاتھ تھام کر اُن کے پاس ہی ایک طرف پلنگ پہ بیٹھ گئے۔
"آپ ایسی غیروں والی باتیں کیوں کرتے ہیں انکل۔ اللہ آپ كو لمبی عمر دے۔ آپ کا ہاتھ ہمیشہ شفاء کے سر پہ رہے، ایسی باتیں مت کیا کریں، تکلیف ہوتی ہے۔" یہ سن کر ابراہیم الہیٰ کا انداز بجھ سا گیا تھا جیسے آخری امید بھی ٹوٹ گئی ہو۔ انہوں نے پزمردگی سے آنکھیں بند کیں۔ جن میں سے دو آنسو لڑھکے تھے۔ جسے زمان مصطفیٰ نے صاف کرتے اپنی بات جاری رکھی۔
"لیکن اگر آپ یہی چاہتے ہیں تو شفاء بیٹی کو میں پورے حق سے اپنی بیٹی بناؤں گا۔"
ابراہیم الہیٰ نے آنکھیں کھول کر انہیں تشکر بھری نظروں سے دیکھا۔
"جی انکل' اگر آپ بہتر سمجھیں تو میں شفاء کو اپنی بہو بنانا چاہتا ہوں۔ میں اتنی اچھی بچی کے لئے کوئی اور اچھا گھر اور لڑکا کیوں ڈھونڈو، جب اپنا گھر موجود ہو۔"
تم سچ کہہ رہے ہو زمان؟۔۔۔ تم دل سے کہہ رہے ہو نا کسی بوجھ کی صورت تو نہیں؟۔۔۔"
ارے کیسی باتیں کرتے ہیں آپ انکل۔ میں بالکل دل کی رضامندی سے کہہ رہا ہوں اور مجھے اپنے جبریل کے لئے شفاء سے اچھی کوئی اور مل بھی نہیں سکتی۔" وہ تصور میں ان کو ساتھ دیکھتے گویا ہوئے پھر کسی خیال کے آتے ہی چونکے۔
"انکل میرا گھر اس حویلی جتنا بڑا تو نہیں ہے مگر میرے گھر کے لوگوں کے دل اس حویلی سے بھی زیادہ بڑے ہیں۔ اتنا میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے گھر میں شفاء کی ضرورت و آسائش کی ہر چیز ہو گی۔ مجھے یقین ہے، مجھے کبھی آپ کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا۔"
"لیکن زمان تم اکیلے کیسے اتنا بڑا فیصلہ کر سکتے ہو پہلے تم اس بچے سے تو پوچھ لو کیا پتا اُس کی کوئی۔۔۔" ابراہیم الہیٰ کی بات زمان مصطفیٰ نے بیچ میں ہی روک دی۔
"آپ فکر نہ کریں، جبریل میرا بیٹا ہے میں جانتا ہوں جبریل کو۔ اول تو اُس کی کوئی پسند نہیں، اگر ہوتی تع وہ مجھے ضرور بتاتا اور دوسری بات میرا بیٹا میری کوئی بات نہیں ٹالتا، وہ میرا فخر ہے۔ اور میں شفاء کو اس کے پسند کر کے بہت مطمئن ہوں۔ لیکن اگر پھر بھی آپ کو کوئی خوف ہے تو آپ کی تسلی کیلئے ہم کل ہی جبریل كو بُلا کر نکاح کی سنت پوری كر دیتے ہیں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہی، اس طرح آپ کے اندر مچلتے تمام وسوسے ختم ہو جائیں گے۔"
زمان مصطفیٰ نے ابراہیم الہیٰ کے تمام خوف دور کر دئیے تھے وہ ان کے واقعی اندھیرے میں روشنی کا دیہ بن کر آئے تھے مگر اتنے بڑے دعوے کرنے سے پہلے وہ شاید اپنے جبریل کی گاؤں سے نفرت اور اُس کی وجوہات کو فراموش کر بیٹھے تھے۔
"اللہ تمہارا بھلا کرے بیٹا اِس نیکی کا اجر عظیم عطا فرمائے تمہیں۔" وہ اتنے مشكور تھے کہ حد نہیں۔
"میں ابھی جبریل كو فون كر کے آنے کا کہتا ہوں۔" وہ اپنا موبائل پکڑ کے اٹھتے ابراہیم الہیٰ پہ احسان کر گئے تھے اس چیز سے بے خبر کے وہ احسان شفاء کی زندگی کو ایک نئے دوراہے پہ کھڑا کرنے والا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"دادا جان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔ کچھ نہیں ہو گا آپ کو، ابھی بھائی کی قبر کی مٹی بھی نہ سوکھی اور آپ ایسی باتیں کر کے مزید میرا دل دُکھا رہے ہیں۔"
"بیٹا میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے میں نہیں چاہتا کہ میرے بَعْد میری بیٹی بےآسرا رہے اور در در کی ٹھوکریں کھائے۔"
ابراہیم الہیٰ کی باتیں شفاء کے سر پر سے گزر رہی تھیں وہ مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی۔
"آپ چاہے جو بھی کہیں مگر میں کوئی شادی وادی نہیں کر رہی، میرا بھائی نہیں رہا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں نا آپ بھی میرا ساتھ ایسے کریں۔ " بےدردی سے آنکھوں سے گڑتے آنسو صاف کرتے وہ بولی۔
"جب کوئی ہاتھ اور ساتھ دونوں چھوڑ دیتا ہے ناں شفاء بیٹی' تو اللہ کوئی انگلی پکڑنے والا لازماً بھیج دیتا ہے۔" شفاء خاموشی سے آنسو صاف مرتے دادا جان كو کوئی بھی جواب دیئے بغیر کمرے سے چلے گئی تھی۔
اِبْراہِیم الہیٰ نے بہت مشکلوں سے اپنے آپ كو قابو میں رکھا ہوا تھا وہ شفاء كو کیا بتاتے کے وہ کس پریشانی کا شکار ہیں۔ سعدان کے یونہی اچانک چلے جانے سے ان كو اپنا وقت بہت قریب نظر آ رہا تھا اور دُراب شاہ کی وہ زومعنی گفتگو اور گھٹیا نگاہیں۔۔۔ اِبْراہِیم الہیٰ نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ بس اب جلد سے جلد وہ شفاء كو صحیح ہاتھوں میں سونپ دیں۔
سعیدپور کا موسم بہت سرد تھا رات ہونے والی بارش نے موسم كو کچھ زیادہ سرد كر دیا تھا۔ ہوا میں ایک عجیب سی خنکی موجود تھی زمان صاحب ٹیرس میں کھڑے اپنے اور اِبْراہِیم الہیٰ کے درمیان ہونے والی گفتگو كو سوچ رہے تھے۔
انہیں نے ابراہیم الہیٰ کو تو بغیر سوچے سمجھے جواب دے دیا تھا مگر عجیب سی کشمکش کا شکار ہو گئے تھے۔ خیر جو بھی تھا شفاء جبریل کے لئے ایک بہترین انتخاب ثابت ہو گی۔" پُر یقین انداز میں سوچتے انہوں نے اپنے دماغ میں آئے مختلف سوالات کو جھٹکا۔
انہیں اپنے گھر کے لئے ایک ایسی ہی بہو کی خواہش تھی۔ نیک اور خوب سیرت ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی، جو اِن کے بیٹے کے دِل كو بھی لُبھا جائے اور ان کے بیٹے کے ساتھ کھڑی خوبصورت بھی لگے اور شفاء میں یہ سب خوبیاں موجود تھیں۔
"اِس لڑکے کے لئے شفاء جیسی لڑکی ہی بیسٹ رہے گی اور پھر دونوں ڈاکٹرز، پرفیکٹ کپل۔" انہوں نے خود كو داد دی تھی اور کانٹیکٹس نکال كر جبریل کا نمبر ملانے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور میں موجود زمان مصطفیٰ کے گھر میں آؤ تو جبریل کب سے کتاب کھولے بیٹھا مطالعے میں مصروف تھا۔ سامنے اس نے لیپ ٹاپ کھُول رکھا تھا۔ جس میں سرجری کی ویڈیوز چل رہی تھیں۔ کل ایک بہت اہم سرجری تھی اور وہ اُس کے لئے ابھی سے اپنی تیاری مکمل کرنا چاہتا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد وہ بیڈ پہ سوئے حدید پہ بھی نظر رکھے ہوئے تھا جو عادت کے مطابق ہر تھوڑی دیر بعد لحاف اپنے اوپر سے اتار کے اپنے نیچے کر لیتا تھا۔ زمان مصطفیٰ کی موجودگی میں وہ اِسے کے ساتھ سوتا تھا۔ اس کے سونے کے اینگل دیکھ دیکھ کر جبریل یہ سوچ کر رہ گیا تھا کہ یہ بابا جان کو رات کتنا تنگ کرتا ہو گا۔
ابھی بھی وہ حدید پہ لحاف درست کر کے اپنی جگہ پہ آ کر بیٹھا ہی تھا جب اس کا موبائل بج اُٹھا۔ اتنی رات کو سکرین پہ زمان مصطفیٰ کا نام جگمگاتا دیکھ کر وہ تفکر میں مبتلا ہوا تھا۔
"بابا کی کال، اس وقت اللہ خیر۔"
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے موبائل کان سے لگایا۔ دوسری جانب سے باپ کی پرسکون آواز سن کر اس کی جیسے جان میں جان آئی تھی۔
"بابا آپ نے اتنی رات کو کال کی سب ٹھیک ہے نا؟ ۔۔۔ چند ایک رسمی باتوں کے بات اس نے پوچھا تو زمان مصطفیٰ ہنس پڑے۔
"کیوں اب ایک باپ کو اپنے بیٹے سے بات کرنے کے لئے اپائنٹمنٹ لینی پڑے گی کیا؟۔۔۔"
"استغفرالله بابا کیسی باتیں کر رہے ہیں میں تو بس اسی لئے پوچھ رہا تھا آپ نے پہلے کبھی کیا نہیں۔"
وہ کتاب بند کرتا پیچھے صوفے کے پشت سے ٹیک لگاتے بولا۔
"ہاں پہلے کبھی میں تم لوگوں سے دور رہا بھی تو نہیں؟۔۔۔"
"تو پھر آ جائیں نا واپس۔ آپ کے بغیر گھر ّجیب ویران سا لگتا ہے اور ہم سب بھی بہت ہاد کر رہے ہیں آپ کو خاص کر حدید، اُس نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔" اتنی دور بیٹھے بھی وہ اپنی اولاد کے لہجے میں موجود شدت کو اچھے سے جان سکتے تھے۔ صحیح کہا ہے کسی نے بزرگوں کے بغیر گھر بالکل ویران لگتا ہے۔ وہ جبریل کی بات پہ دھیمے سے مسکرا دیئے۔
"تو اس کو لاڈ پیار میں بگاڑا بھی تو تم نے ہی ہے نا۔ ویسے ہوئی تھی میری ویڈیو کال پہ اس سے بات زینی نے بتایا تھا مجھے اس کی حرکتوں کا، سمجھایا ہے میں نے اُسے کہہ رہا تھا اب نہیں لڑوں گا کسی سے۔"
"بابا بس اب آ جائیں آپ، اب تو سوئم بھی ہو گیا ہے اب آپ آجائیں۔" وہ گہرا سانس لیتا بولا۔ باپ کہ غیر موجودگی میں یہ گھر اِن کو کھانے کو دوڑتا تھا۔
"میں آ جاتا جبریل بیٹا، مگر ابھی یہاں پہ میری ضرورت ہے۔" لمحے کے لئے انہوں نے جیسے لفظ تلاش کرنے چاہیں ہوں کہ اِسے کیا کہہ کر بلائیں۔ "مجھے تم سے یہی بات کرنی تھی جبریل میں نے اِسی لئے فون کیا تھا۔"
اِن کی بات وہ سیدھا ہو کر بیٹھا غور سے باپ کی بات سننے لگا۔

-------

"لو بھلا۔ ہے کوئی بات ہے کرنے کی، خود تو چلے گئے اب آپ کو بھی وہاں بلا لیا ہے اور آپ بجائے اُن کو واپس جلدی آنے کا کہتے، اپنی فلائٹ بھی کنفرم کرا کے بیٹھ گئے ہیں۔"
"کیا بھائی بائی ائیر گاؤں جائیں گے؟۔۔۔" شایان کی بات پہ حدید کو کام کراتا زیان اپنی حیرت پہ قابو نہ رکھ سکا۔ یہ انفارمیشن اس کے لئے نئی تھی۔
"تم تو چپ کرو یار میں سیرئیس ہوں اور تمہیں مزاق سوج رہا ہے۔" زیان کو تنبیہ کرتا وہ واپس جبریل کی طرف پلٹا۔ "بھلا وہاں کوئی ہسپتال نہیں ہو گا۔ جو دادا جی كو سروسز دینے کے لئے بابا آپ کو اتنی دور بلا رہے ہیں۔"
جبریل جو ہسپتال سے آنے کے بعد سے اپنی پیکنگ میں مصروف تھا شایان کی نان سٹاپ چلتی زبان پہ رج کے زچ ہو رہا تھا۔ وہ پہلے ہی اِس اچانک افتاد پہ جی بھر کے بےزار ہوا پڑا تھا۔ مجبوری یہ تھی وہ بابا جان کے فورس کرنے پہ نہ نہیں سکا۔ وہ جانتا تھا بابا کے لئے ان کے سعید پور والے رشتے دار کیا معنی رکھتے ہیں، گو کہ اِن میں سے کوئی آج تک اُن سے ملا نہ تھا مگر زمان مصطفیٰ نے اُن کی اتنی باتیں بتا رکھی تھیں کہ اُنہیں کبھی جاننے کہ ضرورت بھی نا پیش آئی۔ البتہ یہ زمان مصطفیٰ کا اپنے دور دراز کے انکل کے لئے پیار ہی تھا جو انہیں نے بچوں کو انہیں دادا جان کہنے کی خاص ہدایت کر رکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یہ سب زمان مصطفیٰ کے اکیلے گاؤں جانے پہ چاہ کر بھی کوئی اعتراض نہ کر سکے تھے۔ ویسے تو زمان مصطفیٰ کوئی آرڈر دینے کے عادی نہ تھے مگر جب دیتے تھے تو بس اِن کے حکم کی تکمیل کرنا سب پہ فرض ہوتا تھی۔ جبریل بھی ابھی یہی کر رہا تھا ورنہ گاؤں جانا، دنیا کی وہ آخری چیز تھی جو جبریل اپنی زندگی میں چاہ سکتا تھا۔ زمان صاحب كو تو وہ کچھ کہہ سكتا نہیں تھا اسی لئے شایان اور زیان کی شامت ضرور آنے والی تھی۔ اس نے بیگ میں کپڑے ڈالتے ایک غصیلی نظر شایان پہ ڈالی جو کب سے بولی جا رہا تھا۔
"ڈونٹ ٹرائی ٹو ایکٹ سمارٹ۔ سب سمجھتا ہوں میں، میرے جانے کی جتنی خوشیاں تم لوگوں کو اندر ہی اندر ہو رہی ہیں' اتنی میرے دشمنوں کی بھی نہیں ہو رہی ہوں گی۔ اس لئے یہ فضول کے دکھاوے بند کرو"
اپنی بات کہہ کر وہ اندر جا چکا تھا۔ پیچھے سے زیان اور شایان نے سنجیدہ چہرے سے ایک دوسرے کو دیکھا جو اگلے ہی لمحے شریر مسکراہٹ میں بدل چکا تھا۔
"بس ایک دن اور پھر کم۔از کم دو دن کے لئے ہم آزاد ہوں گے۔"
"یاہو! بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔" زیان کی بات پہ شایان نے بھی لقمہ چھوڑا تھا۔
"اور ان دو دنوں میں بھائی کی گاڑی اور اُس کی چابی ہماری۔۔۔" زیان سے تو آگے کا سوچ کر ہی خوشی نہیں سنبھالی جا رہی تھی۔
"ہاں۔۔۔ اور ان دو دن نہ ہم گھر کھانا کھائیں گے، نہ برتن ہوں گے، اور اگر اِن دو دن صفائی نہ ہونے پہ بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔" اب کی بار پدجوش ہو کر بولنے والا شایان تھا۔ اس بات سے بےخبر کے وہ یہ سب باتیں محلے کے جاسوس حدید کے سامنے کر رہے ہیں۔
"اور اگر روز رات کھانے کے بعد آپ لوگوں نے مجھے آئس کریم نہ کھلائی تو میں یہ سب باتیں بابا اور بھائی کو بتا دوں گا۔" وہ اپنی کاپی کے اوپر سے سر اٹھاتے دھمکی زدہ انداز میں بولا جس پہ شایان اور زیان دونوں نے اُسے خشمگین نظروں سے دیکھا۔
"چپ کر را کے ایجنٹ۔"
"بھلا بھائی آپ سیدھی سادی کوئی ٹراؤزر شرٹ پہن لیتے۔ ان کپڑوں کا بھی گاؤں کی دھول مٹی نے اُس رات والی آئس کریم کی طرح ہی حشر کرنا ہے۔"
آئس کریم والا یاد كر کے جبریل نئے سِرے سے بےزار ہوا تھا اور اُس نے صوفے پہ پڑا کُشن اٹھا کے زیان كو مارا۔
"بندے کی شکل اچھی نہ ہو نا تو بات ہی اچھی کر لیتا ہے اور جہاں تک بات رہی سادہ سوٹ کی تو نہیں ہر گز نہیں۔۔۔ مانا کہ میں علاج معالجے کیلئے جا رہا ہوں مگر میں پِھر ٹراؤزر شرٹ پہن کر میں اپنے باپ کا نام نہیں نکالنا چاہتا، آخر کو ہمارے نقلی دادا جان پہلی بار زمان مصطفیٰ کی کسی اولاد سے ملنے والے ہیں۔ اُن کو بھی تو پتا چلے صرف زمان مصطفیٰ ہی نہیں اُن کے بچے بھی کافی ڈیشنگ ہیں۔۔۔"
اُس نے اپنا پسندیدہ سیاہ شلوار سوٹ نکالا اور گردن اکڑا كر جواب دیا۔ رات كو ہادی سے ملنے کے بَعْد سے اِس کا موڈ اِنتہائی فریش تھا، وہ روٹین سے ہادی کے چیک اپ کے لئے جاتا تھا جو اب بالکل ٹھیک بیٹھا بستر توڑ رہا تھا۔ ابھی بھی وہ تیار ہو کر ہادی کی طرف ہی نکلنے والا تھا۔ زیان اور شایان نے اس کی تیاری پہ آخری نظر ڈالی جو اپنے بالوں کو جیل سے ایک طرف سیٹ کر کے اب اپنے پر پرفیوم کر رہا تھا۔
"بھائی کی تیاری دیکھ كر تو کہیں سے بھی نہیں لگ رہا کہ یہ کسی کی تیمارداری کے لئے بلکہ ان کع دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے اپنا رشتہ پکا کرانے جا رہے ہوں۔"
زیان کی بربراہٹ پر شایان بھی نیچے منہ کر کے ہنس دیا۔
كون جانے کے کبھی کبھی منہ سے نکلے الفاظ کیسے پورے ہو جاتے ہیں۔
"جب تک میں اور بابا واپس نہیں آ جاتے تم لوگ گھر سے ایکسٹرا بالکل باہر نہیں نکلو گے اور زیان تم کالج کے علاوه گھر سے نہیں نکلو گے شایان تم بھی کام کے علاوہ کہیں نہیں جاؤ گے۔ میں حدید سے بات کرنے کے باقاعدگی سے فون کرتا رہوں گا، فون سائلنٹ پہ نہ لگانا۔ ایک اور چیز۔۔۔" وہ جاتے جاتے پلٹا اور انگلی اٹھا کر تنبیہی انداز میں بولا۔
"مجھے کسی کی کوئی شکایت نہ ملے ورنہ تم لوگوں کی سوچ ہو گی میں کتنا بُڑا پیش آؤں گا اور یہ بات حدید تمہارے لئے بھی ہے۔"
اس کی جاتے ہی اس کے دونوں بھائیوں نے گہری سانس لی۔
"بھلا اس سے زیادہ کیا بڑا پیش آئیں گے۔"
_______

"آخر پھر جا رہے ہو گاؤں؟۔۔۔" جانے سے پہلے وہ ہادی سے ملنے آیا تھا۔
"کیا'کیا جا سکتا ہے۔ بابا کا آرڈر ہے، جانا تو پڑے گا۔" چائے کا گھونٹ بھرتے اس نے کندھے اچکائے۔
"میں نے پاپا کو بتایا تھا ابراہیم انکل کا۔ وہ بھی کہہ رہے تھے آفس کے کام سے فارغ ہو جائیں تو جائیں گے اُن سے ملنے۔ بلکہ بابا تو چاہتے تھے تو اُن كو اِدھر ہی بلا لیا تاکہ علاج اچھا ہو جاتا۔"
"میں نے بھی یہی کہا تھا مگر بابا کا انداز ایسا تھا میں کوئی سوال نہ كر سکا، عجیب پُراسرار سا انداز تھا بابا کا۔ جیسے کچھ کہنا چاہ بھی رہے تھے اور کہہ بھی نہیں پا رہے تھے۔ خیر وہاں جاؤں گا تو پتا چل ہی جائےگا۔" اتنے میں الماس ہدیٰ کے ساتھ ہی کھانے کی ٹرالی لئے کمرے میں داخل ہوئی۔ جسے دیکھ کر جہاں ہادی کے لبوں پہ دبی دبی مسکراہٹ آئی تھی وہیں جبریل نے اُسے گھورا تھا۔
"ارے بیٹا' اِس کی کیا ضرورت تھی میں بس جا ہی رہا تھا۔" اُس نے کوفت سے الماس کی دندیاں اگنور کرتے ہدیٰ کو دیکھا جو اس کے لئے پلیٹ تیار کر رہی تھی۔
"کوئی بات نہیں بھائی۔ تھوڑا سا کھا لیں، کچھ نہیں ہو گا۔ل" جبریل كو اپنی یہ اکلوتی بہن بہت عزیز تھی۔
"ٹھوس لے، ٹھوس لے۔ سب جانتا ہوں میں، حسین چیزیں سامنے دیکھ کر جو تیرے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں سب جانتا ہوں میں۔"
جبریل اچھے سے جانتا تھا ہادی کیا کہنا چاہ رہا ہے لیکن ہدیٰ کے سامنے وہ صرف اِسے گھور ہی سکا۔
تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ جانے ہی والا تھا جب الماس پھر کمرے میں آئی تھی۔ اب اُس نے ہاتھ میں کچھ پکڑ رکھا تھا جسے وہ اپنے دوپٹے کے پلو میں چھپائے جبریل کے سامنے ہی آ کر بیٹھ گئی۔ اس کی حرکت پہ جبریل کی آنکھیں پھٹی تھیں۔ اُس نے اسے گردن مور کے ہادی کو دیکھا جو اپنی مسکراہٹ دباتے چھت کو گھورنے میں مصروف تھا۔
"یہ تم گھور گھور کے ہنس کیوں رہی ہو؟۔۔۔ اور ہمارے پاس کیوں آ کر بیٹھی ہو کوئی اور کام نہیں ہے کرنے کو؟۔۔۔" تھوڑی دہر بعد بھی جب الماس ایسے ہی سمانے بیٹھی اُسے دیکھ کر ہنستی رہی تو جبریل کو بولنا ہی پڑا تھا۔ جس پہ مقابل نے ڈھیٹوں کی طرح بتیس دانتوں کی نمائش کی۔
"کیوں آپ کے سامنے بیٹھنے پہ پابندی ہے کیا؟۔۔۔" کمال معصومیت پہ سوال ہوا تھا۔ جبریل تو بس منہ کھولے اُسے دیکھے گیا تھا۔
"ڈاکٹر صاحب منہ تو بند کر لیں مکھی چلی جائے گی۔" جبریل نے جلدی سے اپنا منہ بند کیا تو ہادی نے بڑی مشکل سے اہنا قہقہ کنٹرول کیا۔
"یار کس قسم کی خاتون کو رکھا ہوا تم لوگوں نے اپنے گھر؟۔۔۔" وہ ہادی کی طرف جھکتا دھیمے سے بولا تو ہادی در جھٹکتا ہلکے سے ہنس دیا۔
"ڈاکٹر صاحب آپ ہادی بھائی کے بجائے مجھ سے کیوں نہیں سیدھا پوچھ لیتے؟۔۔۔ خیر میں آپ کو یہ کہنے آئی تھی کہ مجھے دیکھ کر جو آپ یوں چھچھوڑوں کی طرح شرماتے ہیں نا شرم کریں۔ اب میری شادی ہو رہی ہے اور اُسی کا کارڈ میں دینے آئی تھی۔ جب زمان صاحب واپس آ جائیں تو انہیں دے دیجیے گا۔"
وہ اپنی کہہ کر اُٹھ چکی تھی اور دہلیز پہ کھڑی ہدیٰ کی جانب شریر سی مسکراہٹ اچھالتی کمرے سے نکل گئی اُس کے جاتے ہی ہدیٰ نے افسوس سے اپنے بھائی کو دیکھا کو غصے سے بھرے جبریل کی باتیں سن رہا تھا جس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ الماس کا حشر بگاڑ دے۔ وہ جانتی تھی اس سب کے پیچھے اس کا بھائی کا ہاتھ تھا اور اندر بیٹھا جبریل بچاری الماس کو کوس رہا تھا۔ وہ گہرا سانس لیتے اندر گئی اور وہیں بیٹھی جہاں سے ابھی الماس اُٹھ کر گئی تھی۔
جبریل بھائی' الماس نے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب کیا دھرا آپ کے اس دوست کا ہے جو اب بیٹھا اپنے دانت نکال رہا ہے۔ الماس انہی کے کہنے پہ سب کرتے تھی، اور آج بھی جو اُس نے کہا وہ انہی کہ وجہ سے کہا تھا۔"
ہدیٰ کی بات پہ جبریل نے حیرت سے ہادی کو دیکھا جو اب اپنے پاگلوں کی طرح ہنسنے میں مصروف تھے۔
کچھ دیر تو جبریل ہادی کی عزت افزائی کرتا رہا مگر پھر بعد میں خود بھی ہنس دیا اُسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کیسے ایک لڑکی اِسے چھچھوڑا کہہ گئی ہے۔
چند باتوں کے بَعْد جبریل نے اِجازَت لی تھی۔ ہادی اُس كو دروازے تک چھوڑنے گیا تھا اُس نے سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس اپنے دوست كو بہت اَپْنایَت سے جاتے دیکھا تھا جو اُس کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر کیسے پریشان ہو اٹھتا تھا اور کیسے وقت نکال نکال كر خود چیک اپ کرتا تھا۔ اُسے اچھے سے یاد تھا۔ مافیا کے خلاف آپریشن کے بعد جب یہ اور اِس کی ٹیم کو زخم آئے تھے تو اس نے جبریل کو ہی اپنے فلیٹ میں بلایا تھا، اور وہ اس کی ایک آواز پہ کسی کو بتائے بغیر آدھی رات کو دوڑا چلا آیا تھا۔ ہادی ایسے معاملات پہ صرف جبریل پہ ہی یقین کیا کرتا تھا جو اِن کی کانفیڈنشئیل باتوں کو اپنے تک رکھ سکتا تھا۔
ہادی کا ٹاسک کامیاب گیا تھا، اُس گھر سے گرفتار ہونے والا شخص اور کوئی نہیں ایم-این-اے کا بیٹا شاہنواز شاہ تھا، ہادی یہ بات شروع سے ہی جانتا تھا لیکن وہ ڈر كر اپنے قدم پیچھے ہٹانے والوں میں سے نہیں تھا۔ تین دن کے لئے اِسے آف دیا گیا تھا کیونکہ اب اِس کو ملنا والا اگلہ ٹاسک زیادہ مشکل اور بہت زیادہ لمبا تھا یا یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ اگلا ٹاسک اِس کی زندگی کا سب سے مشکل ٹاسک بننے والا تھا۔ جس میں بہت کچھ پانا تھا اور بہت کچھ کھونا تھا یا یہ بھی کہہ سکتے کہ کھو چکا واپس پانا تھا۔

If u like my story don't forget to vote and comment 😍😂

جزاك الله 😍

Continue Reading

You'll Also Like

5.7K 278 89
ماذا تثير في نفسك عبارة (معراج الروح) حينما تسمعها اول مرة عنوانا لكتاب أو حينما تقرؤها على غلاف هذا الكتاب؟ المعنوية الروحانية، التحليق إلى عالم الح...
5.6K 273 20
This is a book of shayari No copyright its original and Written by Me
204K 12.9K 43
Yeh nikkah deal hai yaad rahey! Iss baazi mein koi ek bhi haar gya toh? Game over ! ══════•❁❀❁•══════ Tumhey kia ho gya hai Safoorah? Koi meri Roo...
7.1K 585 9
A short mysterious and adventures story. That is fiction but shows you the image of reality.