"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

By Tehseenrana456

4.1K 261 135

پاکیزہ محبتوں میں گندھی تحریر۔۔۔ محبت چیز کیا ہے؟؟ کیا عشق حاصل ہو جاتا ہے۔۔۔؟؟ کیا حاصل اور کیا لا حاصل آخر... More

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"
"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

296 19 16
By Tehseenrana456

قسط نمبر 9: (آخری قسط)
تحسین راجپوت📝

رات گہری ہونے لگی تھی جب فارس کی گاڑی فیصل آباد کی حدود میں داخل ہوٸی تھی۔انکا رخ سیدھا ہسپتال کی طرف تھا۔۔ھدا کا دل بے حد اداس تھا۔۔وہ جب گھر سے نکلی تھی تو اس نے سوچا تھا کہ وہ شاید ہی اب کبھی یہاں واپس آۓ، لیکن حالات بعض اوقات انسان کو اس قدر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ان راہوں پر نکلتا ہے جہاں وہ کبھی جانا نہیں چاہتا۔۔آج یہی حال ھدا اور فارس کا تھا۔۔
وہ دونوں گاڑی سے اترے تھے کہ انہیں حارث مل گیا تھا۔اس سے ملنے کے بعد وہ دونوں اندر کیجانب بڑھے تھے۔۔
مختار بیگم آج ہسپتال کی شفاف سفید چادر اوڑھے لیٹی تھیں۔۔آج وہ وجود بہت لاغر اور بے بس نظر آ رہا تھا جو خود کو کبھی جہانگیر ولا کی مختارِ اعلٰی سمجھتا تھا۔۔نحیف کمزور وجود جن کے دونوں ہاتھوں میں ڈرپس لگی ہوٸی تھیں۔۔
انکی حالت دیکھ کر فارس کی آنکھیں بھر آٸی تھیں۔۔اس نے انکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے تھے۔۔۔مختار بیگم نے آنکھیں کھولی تھیں۔۔اپنے جان سے عزیز پوتے اور پوتی کو دیکھ کر انکی آنکھیں نم ہوٸی تھیں۔۔۔
ھدا نے انکا جھریوں زدہ نحیف ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور نرمی سے اپنی آنکھوں سے لگایا تھا۔۔۔
"دادو آپ ٹھیک ہو جاٸینگی ان شاء اللہ۔۔۔" وہ انکا ہاتھ چومتے بولی تھی۔۔فارس نے انکی آنکھیں صاف کی تھیں۔۔۔بہت جذباتی منظر تھا۔۔کمرے میں موجود زبیدہ بیگم اور شاٸستہ بیگم کی بھی آنکھیں بھری ہوٸی تھیں۔۔
"ہالے کو بلا دو زبیدہ ایک بار۔۔۔" کمرے میں مختار بیگم کی سرگوشی سناٸی دی تھی۔۔۔اور فارس وہیں پتھر کا ہو گیا تھا۔۔ھدا کا دل الگ تڑپا تھا۔۔
"آپ سٹریس نہ لیں دادو آپ جلدی سے ٹھیک ہو جاٸیں تو میں لے آٶنگی ہالے کو۔۔۔" ھدا نے آنسو اندر اتارتے ہوۓ جواب دیا تھا۔۔مختار بیگم نے امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ آنکھیں موند لی تھیں۔۔آنسو کنپٹیوں میں جذب ہوۓ تھے۔۔۔

***************

وقت تھوڑا سا آگے سِرکا تھا، جونہی بہار نے ہر طرف پھول کھلاۓ تھے، ہالے کی زندگی میں بھی پیلے اور سرخ پھولوں کی آمد ہوٸی تھی، اعظم صاحب اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان آچکے تھے، اور مصطفٰی اور ہالے کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو چکی تھی۔۔
"ہالے وِلا" کو چاروں طرف سے برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔۔گیندے کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو چار سُو پھیلی تھی۔۔گھر مہمانوں سے بھرا تھا۔۔۔ہالے آج مایوں بیٹھی تھی۔۔رات کے گہرے ساۓ پھیلے تھے جہاں ستارے آج ہالے کی خوشیوں کے لیے دعاگو تھے۔۔۔
وہ پیلے جوڑے میں بیٹھی تھی اور ہاتھوں میں سفید اور گلابی پھولوں کے گجرے پہنے وہ اس وقت ایک پھول ہی لگ رہی تھی۔۔چہرہ میک اپ سے عاری تھا، سلکی بالوں کو ڈھیلی سی چوٹی میں باندھا گیا تھا۔ہاتھوں پر حنا کا رنگ گہرا آیا تھا۔۔۔
"اف میری دوست کی شادی ہے۔۔۔میری دوست کی شادی ہے۔۔"جبھی آویزہ اونچی آواز میں گنگناتے ہوۓ اسکے کمرے میں داخل ہوٸی تھی۔۔۔اسے دیکھ کر ہالے کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی تھی۔۔۔
"آۓ ہاۓ ادھر چہرہ کرنا ذرا شرمیلی مسکان۔۔۔کیا واقعی،میری دوست شرمانے کب سے لگی۔۔"آویزہ نے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا تھا۔۔۔تبھی ہالے اسکے گلے لگی تھی اور آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر چہرے پہ پھیلے تھے۔۔۔

وہ چلا گیا مجھے چھوڑ کر میں بدل نہ پایا عادتیں
اسے سوچنا اسے چاہنا میرا آج بھی معمول ہے۔۔

وہ رو رہی تھی اور آویزہ نے اسے چپ نہیں کروایا تھا۔۔وہ اسکے دل کے غبار کو کم کر دینا چاہتی تھی۔۔ہالے کو کوٸی شدت سے یاد آیا تھا۔۔۔جو آج بھی دل میں مقیم تھا۔ لیکن اسکی لکھی تقدیر الگ روپ میں اسکے سامنے آٸی تھی۔۔وہ آج رو لینا چاہتی تھی۔۔بس آخری بار وہ بہت رونا چاہتی تھی کہ دل کا ہر دکھ، ہر تکلیف، ہر اذیت آنکھوں کے راستے بہہ جاۓ۔۔۔
"اللہ دل میں ایسے لوگوں کی چاہت کیوں ڈال دیتا ہے جن کا ملنا مقدر میں نہیں لکھتا۔۔وہ کیوں ایسا کرتا ہے۔۔" ہالے روتے ہوۓ بولی تھی۔۔
"ہالے وہ بہتر جانتا ہے کہ تمہارے لیے بہترین کیا ہے۔۔اور اس سے بڑی حکمت والا کوٸی نہیں ہے۔۔" آویزہ اسے دلاسہ دے رہی تھی۔۔۔
"لیکن یہ جذبہ وہی دل میں ڈالتا ہے، پھر جب دل اس نام کے ساتھ دھڑکنے لگتا ہے، تو پھر یہی ذات تقدیر کیوں بدل دیتی ہے آویزہ!!! میں گلہ نہیں کر رہی اس ذات سے، میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ وہ ایسا نہ کیا کرے، دل میں یہ جذبہ پیدا ہی نہ کیا کرے جو انسان کو توڑ دے۔۔۔" وہ روتے ہوۓ بولی تھی۔۔اسکے ٹوٹے بکھرے دل کا درد دیکھ کر آویزہ کی بھی آنکھیں بھر آٸی تھیں۔۔۔اس نے ہالے کو بیڈ پہ بٹھایا تھا۔۔۔
"شاید وہ ذات اسی شخص کے ہاتھوں توڑ دیتی ہے جو آپکو جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے، وہ ذات کہتی ہے کہ اگر مجھ سے زیادہ کسی چیز کو چاہو گے تو میں تمہیں اسی کے ہاتھوں توڑ دونگا۔۔۔" آویزہ کے لبوں سے گہری بات نکلی تھی۔۔۔ہالے نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
"دیکھنا سب ٹھیک ہو جاٸیگا مصطفٰی بھاٸی کے ساتھ تم بہت خوش رہو گی۔۔" آویزہ نے اسکے ہاتھ تھامے تھے۔۔۔
تھوڑی دیر اس کمرے میں گہری خاموشی چھا گٸی تھی۔۔جیسے دونوں خود کو کمپوز کر رہی ہوں۔۔پھر اس خاموشی کو آویزہ کی چہکتی آواز نے توڑا تھا۔۔۔
"بس بہت رو لیا، خبردار آج کے بعد ان آنکھوں میں آنسو آۓ تو۔۔۔" آویزہ نے اسے ڈانٹا تھا۔۔ہالے نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
"مہندی کا کلر دیکھو کتنا خوبصورت آیا ہے۔۔۔کھلا ہوا لال رنگ۔۔۔ اور پتہ یہ کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔۔۔؟؟" آویزہ اسے اب تنگ کرنا چاہتی تھی۔۔۔
"اور خبردار اگر تم نے یہ کہا کہ مصطفٰی مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔۔۔" ہالے نے اسے گھورا تھا۔۔۔آویزہ کا قہقہہ گونجا تھا۔۔۔
"یار وہ سچی میں تم سے پیار کرتے ہیں۔۔۔اور جس طرح وہ تمہیں دیکھتے ہیں۔۔۔۔اففففف۔۔۔۔میں تو وہاں سے چلی ہی جاتی جب تم دونوں ساتھ ہوتے ہو۔۔۔" آویزہ ایک ہاتھ ماتھے پہ الٹا رکھے اور دوسرا کمر پر رکھے فل ایکٹنگ کر رہی تھی۔۔۔آنکھوں میں شرارت تھی۔۔۔
"کیا مطلب کیسے دیکھتا ہے وہ مجھے۔۔" ہالے اسے مارنے کو اٹھی تھی۔۔۔
"ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسے دیدارِ یار پہلی بار ہو رہا ہو۔۔۔یہ آنکھوں میں دیپ جل اٹھتے ہیں۔۔۔" آویزہ ہالے سے پِٹنے کا پورا ارادہ کر چکی تھی۔۔۔
"تم ایک انتہاٸی لوفر لڑکی ہو دوست کی ہر بات پہ نظر رکھتی ہو،۔۔" ہالے کہتے ہوۓ اسے مارنے کو دوڑی تھی۔۔۔
دونوں کے قہقہے پورے کمرے میں گونج رہے تھے۔۔۔

***********

اپارٹمنٹ میں اندھیرا چھایا تھا۔۔صرف ایک چھوٹی لاٸٹ آن تھی جس کی روشنی مخصوص حصے تک پھیلی تھی۔۔فجر کی اذان میں تھوڑا سا وقت باقی تھا۔۔۔اس روشنی میں کوٸی سجدے میں گرا تھا۔۔۔"وہ کوٸی اور نہیں مصطفٰی اعظم تھا وہ مصطفٰی جسکی وجہ سے کلبز اور پارٹیز میں زندگی دوڑا کرتی تھی، وہ مصطفٰی جو حلال اور حرام کی تمیز بھلاۓ بے حساب پیا کرتا تھا، وہ مصطفٰی جسے دو بار تقدیر نے موت سے ملا تھا، اور پھر بھی موت نہیں آٸی تھی، وہ اس رنگین دنیا کے سارے مزے چکھ چکا تھا۔۔اور ہر جگہ سے ناکام لوٹا تھا اب وہ صرف ایک ذات کی رضا چاہتا تھا۔۔۔وہ اس ذات کے سامنے خود کو فنا کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

"بے شک دنیا کی زندگی کچھ نہیں محض کھیل اور کود، آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے کاش وہ جان پاتے۔۔۔" (القرآن)

اور پھر مصطفیٰ اس راہ کو پانا چاہتا تھا جسکا ہر قدم بے حد مشکل تھا جہاں چلتے ہوۓ قدم بری طرح لڑکھڑاتے تھے۔۔جہاں شیطان ہر طرف سے بری طرح سے وار کرتا ہے لیکن ثابت قدمی اور پرہیزگاری ان راہوں کا واحد اثاثہ ہوا کرتی ہے۔۔۔پھر منزل قریب نظر آنے لگتی ہے۔۔۔
اس نے اپنی زندگی کا اہم دن شروع کرنے سے پہلے اس ذات سے وفاداری، ایمانداری اور ثابت قدمی مانگ لی تھی۔۔۔

***********

اگلا دن ہالے کے لیے بے حد خوشیوں کو اپنے اندر سموۓ ہوۓ تھا۔فنگشن کا ارینج گارڈن میں کیا گیا تھا جسے پھولوں اور لاٸیٹوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔وہ ہلکے پستہ کلر کی شارٹ قمیض جس پہ ہیوی خوبصورت گولڈن اور پنک کام تھا، ساتھ پستہ کلر کا ہی فلاس سلک غرارہ جس پہ زری تلاّ اور سٹونز کا کام تھا۔۔۔اس ڈریس کا دوپٹہ اسکی مزید شان بڑھا رہا تھا۔سندوری ٹی پنک اوریگینزا کا دوپٹہ جس پہ لگے فوٸل ٹیکنیک کا کام اسے چار چاند لگا رہا تھا۔۔جو ہالے کے متناسب سراپے پہ بے حد جچ رہا تھا۔۔لمبے سلکی بالوں کو فاٸن اسٹاٸل میں پن اپ کیا گیا تھا۔۔صبیح چہرے پہ موجود پرفیکٹ میک اپ سے وہ کوٸی پری محسوس ہو رہی تھی۔۔سب اسکی قسمت پہ رشک کر رہے تھے۔۔اسکا دل بے وجہ دھڑک رہا تھا۔۔۔آنکھوں میں کچھ خوف اور کچھ نٸی امیدیں روشن تھیں۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں بارات کا شور اٹھا تھا۔۔
آویزہ باقی سہیلیوں کے ساتھ پھولوں کے تھال تھامے سب سے آگے کھڑی تھی۔۔۔
جب مصطفٰی اپنے بابا بھاٸیوں اور دوستوں کے ساتھ داخل ہو رہا تھا۔۔اس مغربی حسن والے کی آج چھب ہی نرالی تھی، مشرقی لباس میں وہ کوٸی شہزادہ لگ رہا تھا جو آج لاہور کی شہزادی کو بیاہنے آیا تھا۔۔۔
وہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس جسکے اوپر اسکن گولڈن واسکٹ پہنے ہوۓ تھے۔آج بالوں کو جیل لگا کر اسٹاٸلش انداز میں سیٹ کیا گیا تھا۔۔
آویزہ اور باقی لڑکیوں نے سرخ دوپٹے سے راستہ روکا تھا۔۔
احمر کو دیکھ کر آویزہ کی آنکھوں میں ناپسندیدگی اتری تھی جسے احمر بخوبی دیکھ چکا تھا۔۔اور اس نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے اسماٸل پاس کی تھی۔۔
"آپ یہاں آۓ کس لیے۔۔؟؟" آویزہ راستہ روکتے ہوۓ ہلکے سے انداز میں گنگنایا تھا۔۔احمر اسکے انداز پہ مسکرایا تھا اور اپنی نظروں سے اسکا بھرپور جاٸزہ لیا تھا جو باٹل گرین شرارے اور شرٹ میں ملبوس تھی۔۔۔بال آج شانوں پہ بکھرے تھے۔۔
"آپ نے بلایا اس لیے۔۔۔" جواب احمر کی طرف سے آیا تھا۔۔سب کے قہقہے بلند ہوۓ تھے۔۔آویزہ نے نظریں گھما کے اسے دیکھا تھا۔۔وہ بھی مصطفٰی کی طرح سفید شلوار قمیض کے ساتھ بلیک واسکٹ میں ملبوس تھا پیروں میں پشاوری چپل موجود تھی۔۔۔
"آۓ ہیں تو پھر کام بھی بتاٸیے۔۔۔؟" آویزہ چہکتے ہوۓ بولی تھی۔۔
"پہلے آپ زرا مسکراٸیے۔۔۔" جواب میں احمر پھر سے بولا تھا۔۔۔سب بڑے اور مہمان انکی نوک جونک انجواۓ کر رہے تھے۔۔۔
"مسکرانے کی نہ کوٸی بات ہے۔۔۔" آویزہ غصہ دباتے بولی تھی۔۔
"اجی دیکھیے کیا حسین رات ہے۔۔۔" احمر کہاں باز آنے والا تھا۔۔غصہ آویزہ کے گالوں کو لال کر چکا تھا لیکن وہ اس انسان کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
"مصطفٰی بھاٸی اب جواب آپ نے دینا ہے۔۔۔ورنہ ہالے نہیں ملے گی آپکو۔۔۔" آویزہ اب مصطفٰی سے مخاطب تھی۔۔۔مصطفٰی ان دونوں کو دیکھتے ہوۓ مسکرایا تھا۔۔۔
"احمر اب تُو چپ کر جا، میں اپنی بہن کو ناراض نہیں کرونگا۔۔۔اور نہ اپنی ہونے والی بھابھی کو۔۔ورنہ تجھے پتہ ہے نا وہ کیا کرتی ہے پھر۔۔" مصطفٰی نے آخری فقرہ احمر کے کان میں بولا تھا۔۔اور احمر نے دانت کچکچاۓ تھے۔۔۔
"اوکے لیٹس اسٹارٹ۔۔۔آۓ ہیں تو پھر کام بھی بتاٸیے۔۔۔" آویزہ نے دوبارہ گنگنایا تھا۔۔۔
"مجھے ہالے چاہیے۔۔۔" مصطفٰی دل پر ہاتھ رکھتے تھوڑا سا آگے جھکتے بولا تھا۔۔مصطفٰی کا انداز جان لیوا تھا۔۔اسکے انداز پہ سب نے بے انتہا ہوٹنگ کی تھی۔۔۔پھر اعظم صاحب نیگ دیتے ہوۓ مصطفٰی کو لیے آگے بڑھے تھے۔۔۔۔

*************

تھوڑی ہی دیر بعد نکاح شروع ہو چکا تھا۔۔۔نکاح کے لیے مخصوص مقام تیار تھا۔۔۔درمیان میں پھولوں کی باڑ لگاٸی گٸی تھی۔۔جہاں ایک طرف ہالے اور دوسری طرف مصطفٰی کو بٹھایا گیا تھا۔۔۔
"ہالے نور بیٹی بنتِ یوسف صاحب آپکو مصطفٰی بن اعظم سکہ راٸج الوقت دس لاکھ کے عوض کے نکاح میں دیا جاتا ہے۔۔۔کیا آپ قبول کرتی ہیں؟؟۔۔۔۔نکاح خواں کی آواز گونجی تھی۔۔
"قبول کرتی ہوں۔۔۔(اللہ ہم دونوں کو داٸمی خوشیاں عطا فرما)۔۔۔"وہ دل میں دعا مانگ رہی تھی۔۔
"کیا آپ قبول کرتی ہیں بیٹا۔۔۔؟؟ " ایجاب و قبول دوسری بار پوچھا گیا تھا۔۔۔
"میں قبول کرتی ہوں۔۔۔(اللہ میں اپنی ساری وفاٸیں اِس شخص کے نام کرتی ہوں۔۔۔مجھے استقامت عطا فرما)۔۔" اسکے لبوں نے پھر سے ادا کیا تھا۔۔۔
"کیا آپ قبول کرتی ہیں بیٹا۔۔۔؟؟ " ایجاب و قبول کا سوال تیسری بار دہرایا گیا تھا۔۔۔
"میں قبول کرتی ہوں۔۔۔(یا رب العزت!!! مجھے دلی سکون عطا فرما اور سب بیٹیوں کے نصیب بہت اچھے فرما۔۔۔آمین)۔۔۔" دو آنسو پلکوں سے اتر کر اسکے حسین چہرے پہ بکھرے تھے۔۔۔یوسف صاحب اور اعظم صاحب نے اسکے سر پہ پیار دیا تھا۔۔۔

************
پھر نکاح خواں نے مصطفٰی کی طرف رخ پھیرا تھا۔۔۔مصطفٰی کے چہرے پہ اس وقت بلا کی سنجیدگی تھی۔۔وہ دل سے جیسے اللہ اور اسکے رسولﷺ کے سامنے بیٹھا ہے اور ایجاب و قبول کے مراحل طے پا رہے ہوں۔۔۔
"بیٹا مصطفٰی بن اعظم صاحب بیٹی ہالے نور بنتِ یوسف صاحب کو دس لاکھ سکہ راٸج الوقت کے عوض آپکے نکاح میں دیا جاتا ہے۔۔کیا آپ قبول کرتے ہیں۔۔۔؟؟" نکاح خواں نے پہلی بار یہ الفاظ دہراۓ تھے جسکے بعد مصطفٰی کا نصف ایمان مکمل ہونا تھا۔۔۔
"میں قبول کرتا ہوں۔۔۔(اللہ مجھے معاف فرما میں اتنی پاک عورت کے قابل نہیں تھا۔۔میرا ماضی گناہوں سے اٹا ہوا ہے)۔۔۔"
"کیا آپ قبول کرتے ہیں۔۔؟؟" نکاح خواں نے الفاظ دوسری بار ادا کیے تھے۔۔۔
"میں قبول کرتا ہوں۔۔۔(میں اس عورت کو محبت اور عزت سے نواز دونگا)۔۔۔" اس نے ایک اور عہد باندھا تھا۔۔۔
"کیا آپ قبول کرتے ہیں۔۔؟؟" ایجاب و قبول کا آخری مرحلہ طے پانے کو تھا۔۔
"میں قبول کرتا ہوں۔۔۔(میں ساری زندگی حرام کے پاس نہیں جاٶنگا، مجھے حلال میں راضی رہنا سکھا دے۔۔۔آمین)" ایک اور عہد تمام ہوا تھا۔۔۔
سب طرف مبارک اور سلامتی کا شور اٹھا تھا۔۔۔مصطفٰی کو سب نے گلے لگایا تھا اور دعاٶں سے نوازا تھا۔۔۔ہالے کی دھڑکنوں نے خوب شور مچایا تھا۔۔۔

دھڑکنوں میں شور ہونے لگا تھا شاید
کوٸی سانسوں میں اترنے لگا تھا شاید

**********
فارس اور ھدا کے لوٹنے سے جہانگیر ولا کی خوشیاں لوٹ آٸی تھیں۔جہانگیر ولا آج بھی اپنی اسی شان و شوکت سے کھڑا تھا۔۔ہر چیز وہیں موجود تھی بس کچھ نٸے پلانٹس لگاۓ گٸے تھے جن سے لان کی شان مزید بڑھ گٸی تھی۔۔۔مختار بیگم اب ٹھیک تھیں لیکن پہلے جیسا رعب و دبدبہ ختم ہو گیا تھا۔۔اور انہوں نے خود کو اپنے کمرے تک محدود کر لیا تھا۔۔
ھدا فارس کے کمرے میں شفٹ ہو گٸی تھی۔۔ھدا کو اس کمرے کی ہر چیز سے بے حد محبت تھی۔۔۔وہ ہر چیز کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے محسوس کر رہی تھی۔۔۔
"ھدا بیٹے آپ یہاں بیٹھی ہیں اور فارس نیچے گاڑی میں آپکا ویٹ کر رہا ہے۔۔۔جاٶ شاباش۔۔" زبیدہ بیگم نے اسکے ماتھے پہ پیار کیا تھا۔۔۔
"لیکن ہمارا تو کہیں جانے کا پلان نہیں تھا۔۔" وہ انکا ہاتھ تھامتے پیار سے بولی تھی۔۔"جاٶ اسے پھر میٹنگ کے لیے بھی نکلنا ہے" زبیدہ بیگم نے اسے جانے کا بولا تھا۔۔وہ بیگ تھامتے نیچے گٸی تھی۔۔۔
"محترمہ پورے بیس منٹ سے انتظار کر رہا ہوں آپکا۔۔۔" وہ ھدا کے بیٹھتے ہی بولا تھا۔۔۔
"تو۔۔۔کیا ہو گیا، بیس منٹ ہی انتظار کیا ہے، اصولاً بیس گھنٹے اتتظار کرنا چاہیے تھا۔۔۔" ھدا نے ٹھنڈے لہجے میں طنز مارا تھا۔۔۔
"محترمہ ایک تو بندہ اپنا قیمتی وقت نکال کے اپنی کیوٹ سی بیگم کے ساتھ ڈنر کرنا چاہتا ہے اور اسے کچھ شاپنگ بھی کروانا چاہتا ہے۔۔لیکن بیگم کے نخرے ختم نہیں ہو رہے۔۔۔" فارس نے کہتے ہوۓ اسے گھورا تھا۔۔۔
"تو مسٹر ہسبینڈ کو چاہیے کہ اپنے پلان کا پہلے انفارم تو کرے۔۔یہ کیا تھا میں تیار بھی نہیں ڈھنگ سے اور اوپر سے ہمارا شادی کے بعد پہلا ڈنر ہے۔۔۔" وہ روٹھے لہجے میں بولی تھی۔۔۔
"کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میری بیگم ہمیشہ تیار ہی ہوتی ہے۔۔۔اور اگر نہیں بھی ہے تو کوٸی بات نہیں، میں نے ہی دیکھنا ہے اسے۔۔۔" کہنے کے ساتھ اس نے ھدا کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔ھدا تھوڑی سی کنفیوز ہوٸی تھی لیکن اس نے خود پہ قابو پا لیا تھا۔۔۔
"اور یہ قیمتی وقت سے کیا مراد ہے، آپکا سارا قیمتی وقت میرا ہی ہے۔۔۔سنا آپ نے۔۔" وہ منہ بناتے ہوۓ لاڈ سے بولی تھی۔۔۔
"ابے یار، آج مجھے ھدا صدیق نہیں ھدا فارس لگ رہی ہو۔۔۔" فارس نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے پھر سے چھیڑا تھا۔۔۔ھدا نے ہنستے ہوۓ رخ پھیرا تھا۔۔۔فارس نے ڈراٸیونگ پہ فوکس کیا تھا۔۔۔
وہ آج براٶن رنگ کی شلوار قمیض میں موجود تھا۔۔وہ سوٹ اسکے کسرتی بدن پہ بہت جچ رہا تھا۔۔۔۔ھدا نے نظریں بچا کے اسے دیکھا تھا۔۔۔
"اففف جان لیں گے کیا۔۔۔؟؟" وہ دل پر ہاتھ رکھتی دل میں بولی تھی۔۔۔فارس نے اسے ایک نظر مسکراتے ہوۓ دیکھا تھا۔۔۔
"ھدا فارس۔۔۔" فارس نے اسے پکارا تھا۔۔۔
ھدا نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔
"ایسے کیسے میں ڈراٸیونگ کرونگا یار۔۔۔۔" لہجہ شرارتی تھا۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔۔" وہ ناسمجھی سے بولی تھی۔۔
"مطلب یہ کہ ایسے دیکھتی رہو گی اور بلش کرتی رہو گی تو۔۔۔۔یار بندہ بشر ہوں بہک بھی سکتا ہوں۔۔۔" وہ گہرے لہجے میں بے چارگی سے بولا تھا، سیاہ آنکھیں روشن چمک رہی تھیں۔۔۔
"نہیں میں کب دیکھ رہی آپکو میں تو باہر بھاگتی دوڑتی زندگی دیکھ رہی ہوں۔۔۔" وہ ہچکچاتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔لہجہ بتا رہا تھا کہ سامنے والا نظروں کی چوری پکڑ چکا ہے۔۔۔
"ہاں زندگی تو تمہاری اندر ہے باہر کا تو صرف بہانا ہے۔۔۔" فارس باز نہیں آ رہا تھا۔۔۔
"اگر اب آپ چپ نہ ہوۓ تو میں کبھی بات نہیں کرونگی آپ سے۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔" وہ ناراضی سے بولی تھی۔۔۔
"یار بیگم اسکے علاوہ کوٸی اور دھمکی بھی دیا کرو۔۔۔" فارس نے اسکے چہرے پہ موجود بوسہ دیتی زلفوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کیا تھا۔۔۔ھدا کے چہرے پہ اتنے رنگ اترے تھے کہ سامنے والے کا دل دھڑک اٹھا تھا۔۔۔۔
"نہ کرو یار میں سچ میں بہک رہا ہوں۔۔" فارس کی سرگوشی ابھری تھی۔۔۔۔ھدا نے چہرے پہ ہاتھ رکھے تھے۔۔۔۔پھر فارس نے اسے چھیڑنا بند کیا تھا۔۔۔۔تھوڑی دیر میں فارس نے گاڑی مال کے سامنے روکی تھی۔۔۔۔
"اچھا چلو پہلے شاپنگ کر لیتے ہیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔۔" وہ سیٹ بیلٹ اتارتا نیچے اترا تھا۔۔۔اور وہ محبت کی دیوی دل کو نارمل کرنے کے ساتھ چہرے کے رنگ نہیں مٹا سکی تھی۔۔۔۔

*************
"آج کچھ لوگ پہچانے ہی نہیں جا رہے۔۔۔اتنی اداکاری۔۔۔" احمر نے آویزہ کو گہری نظروں سے دیکھتے چھیڑا تھا جو سجی سنوری اداس سی ایک کونے میں کھڑی تھی۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔؟؟۔۔" آویزہ نے اسے ایک نظر غصے سے دیکھا تھا۔۔۔
"مطلب یہی کہ بہت پیاری لگ رہی ہو،۔۔۔اور یہ جھمکے تو بہت سُوٹ کر رہے ہیں آپکو" احمر جان بوجھ کر اسے چھیڑ رہا تھا۔۔۔
"لگتا اس دن کی بےعزتی بھول گٸے ہیں آپ مسٹر احمر۔۔۔" آویزہ نے اسے غصے سے دیکھتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔
"نہیں وہ تو سب یاد ہے، پھر سوچتا ہوں کہ خیر ہے اپنی ہی کزن نے زرا سا جوس پھینکا تھا اور وہ حساب تو ہم بعد میں برابر کر سکتے ہیں۔۔۔" وہ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوۓ محظوظ ہو رہا تھا۔۔۔
وہ بھرے ہوۓ جوس کے گلاس کو "زرا سا جوس" کہہ رہا تھا۔۔۔
"اپنی ہی کزن سے کیا مراد ہے تمہاری۔۔؟" اسکا دماغ اسے کچھ غلط ہونے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔۔
"سو ماٸی ڈیٸر آویزہ طراب خان ہم رشتے میں آپکے چچازاد لگتے ہیں۔۔۔وہی جنہوں نے امریکہ سے واپس آنا تھا۔۔۔۔اور۔۔۔۔"
"شٹ اپ یہ کیا بکواس ہے جس بندے میں زرا سے مینرز نہیں ہیں، وہ میرا کزن نہیں ہو سکتا۔۔۔" آویزہ نے چیختے ہوۓ اسکی بات کاٹی تھی۔۔۔وہ یہ یقین کرنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔۔۔وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
"آپ حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتیں محترمہ۔۔۔اور تایا جان نے کہا ہے کہ آج شام ہالے کی رخصتی کے بعد ہم دونوں ایبٹ آباد کے لیے نکل رہے ہیں۔۔۔" احمر اسکے چہرے کے اتار چڑھاٶ دیکھتا ہوا ایک اور خبر نشر کر رہا تھا۔۔۔آویزہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔۔پھولے ہوۓ گال خون چھلکا رہے تھے۔۔
"میں ابھی بابا سے بات کرتی ہوں۔۔۔مجھے تمہارے ساتھ واپس بالکل نہیں جانا۔۔۔" وہ غراتے ہوۓ اسکے سینے پہ ہاتھ مارتے ہوۓ بولی تھی اور ہالے کی طرف بڑھی تھی جو اب بس رخصت ہونے والی تھی۔۔۔
"افف یہ لڑکی یار زبان کے ساتھ ساتھ اسکے ہاتھ بھی چلتے ہیں۔۔۔" وہ اسکی اس ادا پر قربان ہوا تھا۔۔۔

**************

مصطفٰی ہالے کو رخصت کروا کے اپنے اپارٹمنٹ میں لے آیا تھا۔۔۔وہ اپنی زندگی کے خوبصورت دن یہاں گزارنا چاہتا تھا۔۔۔
ہالے نے جیسے ہی اپارٹمنٹ میں قدم رکھا تھا۔۔ہر طرف بکھرے پھولوں نے اسے خوش آمدید کہا تھا۔۔موم کی خوشبو اسکی روح میں اتر رہی تھی۔۔۔وہ لاٶنج کے بیچ و بیچ کھڑی تھی۔۔۔چاروں طرف سے گرتے پھول اور روح پرور ہلکے بجتے میوزک نے اسکے چہرے پر پھول کھلا دیے تھے۔۔۔کچھ شرم و حیا اور ہلکی مسکراہٹ اسکے چہرے پہ نمایاں تھی۔۔۔وہ دونوں بازو پھیلا کر گھومی تھی۔۔۔جبھی مصطفٰی داخل ہوا تھا۔۔۔اسکے چہرے پہ مسکراہٹ سجی تھی جو اسکے سچے دل کی عکاسی کر رہی تھی۔۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اسکے پاس آیا تھا۔۔۔
پھر اسکے سامنے گھٹنے پر بیٹھا تھا اور پھر ہالے کے سجے سنورے ہاتھ کو نرمی سے اپنی مضبوط گرفت میں لیا تھا۔۔۔
"ویلکم ٹو ماٸی لاٸف ماٸی پریشیٸس ون۔" مصطفٰی نے ہالے کے ہاتھ کی پشت پہ اپنا نرم لمس چھوڑا تھا۔۔۔جسے ہالے نے آنکھیں بند کر کے اپنے دل میں قید کیا تھا۔۔
"میں نے بہت حسن دیکھا ہے، لیکن اتنا پاکیزہ حسن میں کہیں نہیں دیکھ پایا۔۔۔میں اپنی آخری سانس تک اپنی زندگی تمہارے نام کرتا ہوں ہالے نور مصطفٰی۔۔" مصطفٰی نے اسے کمر سے تھام کے اپنے قریب کیا تھا اور اپنی پیشانی اسکی پیشانی سے ملاٸی تھی۔۔۔وہ اسکی گہری براٶن آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔ہیزل آنکھیں براٶن آنکھوں سے ٹکراٸی تھیں۔۔
براٶن آنکھوں میں چند موتی چمکے تھے وہ موتی محبت، عقیدت، چاہت، مان اور قدر کے تھے۔۔۔
مصطفٰی نے اسے ہاتھ سے پکڑ کے گھمایا تھا اور پھر اسکے ماتھے پہ اپنی عزت اور محبت کی پہلی مہر ثبت کی تھی۔۔۔
ہالے نے آنکھیں بند کی تھیں۔۔۔۔

Have you ever loved a rose,
and watched her slowly bloom;
and as her petals would unfold
You grew drunk on her perfume,

Have you ever seen her dance,
her leaves all wet with dew;
and quivered with new romance
the wind, he loved her too,

Have you ever longed for her,
on nights that go on and on,
for now, her face is all a blur
Like a memory kept too long,

Have you ever loved a rose,
and bled against her thorns,
and swear each night to let her go
Then love her more by dawn

**************

ھدا کی آنکھ بارش کی تیز آواز سے کھلی تھی۔اس نے پہلے سر جھٹکا تھا لیکن پھر موباٸل پہ ٹاٸم دیکھا تو صبح کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔وہ فجر پڑھنے کا سوچ کر اٹھ کر بیٹھی تھی، ہاتھ سے بال سنوارے تھے۔۔۔پھر اسکی نظر پہلو میں سوۓ فارس پر پڑی تھی جو گہری نیند میں تھا۔۔ھدا کے چہرے پہ مسکراہٹ کی کلی کِھلی تھی۔۔۔
ھدا اسے ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی تھی، ہلکی لاٸٹ کی روشنی میں اسکا چہرہ چمک رہا تھا۔۔۔
وہ مضبوط عورت تھی جسکے عشق کی منظوری اس خدا نے عرش سے دی تھی۔۔وہ محبت اور عزت سے نواز دی گٸی تھی۔۔اب تو وہ اس پر محبتیں لٹانے لگا تھا۔۔۔"مجازی عشق میں صدق ہو تو وہ ملتا ضرور ہے۔۔۔" ھدا نے ٹوٹ کر بکھر کر اسے پا لیا تھا۔۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے ماتھے سے بال ہٹاۓ تھے۔۔۔
"وہ محبتوں سے گندھی لڑکی اسے پہروں دیکھا کرتی تھی۔۔۔"
وہ اب بھی چہرے پہ مسکراہٹ سجاۓ کھوۓ ہوۓ اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔اور وقت گزرتا جا رہا تھا۔۔۔جب فارس نے کروٹ بدلی تھی تب اسکا دھیان ہٹا تھا۔۔۔۔وہ اپنے پاگل پن پر مسکراتے اٹھ کھڑی ہوٸی تھی۔۔۔
وضو کر کے اس نے نماز ادا کی تھی۔۔۔پھر اس نے ونڈوز سے کرٹنز ہٹاۓ تھے، لان میں گرتی بارش کا منظر روح پرور تھا۔۔۔
"ھدا کرٹنز کلوز کرو میں سو رہا ہوں۔۔" فارس نیند سے بھری آنکھیں کھولتا اکتاہٹ سے بھرپور لہجے میں بولا تھا۔۔۔
"کوٸی نہیں سو رہے، اٹھ جاٸیں آپ اور مجھے ناشتہ کرواٸیں۔۔۔" وہ لاڈ سے بولتی اسکے پاس آ بیٹھی تھی۔۔۔
"واٹ۔۔؟؟ ناشتہ۔۔۔یار کسی میڈ سے کہہ دو یا امی سے کہہ دو وہ تمہیں ناشتہ بنا دینگی۔۔۔" وہ کروٹ بدل کر پھر آنکھیں موند گیا تھا۔۔
"کیا مطلب امی سے کہہ دوں، آپ میرے شوہر ہیں اور ناشتہ بھی آپ ہی بنا کر دینگے مجھے۔۔۔" وہ نروٹھے پن سے بولی تھی لہجے میں ناراضی تھی۔۔
"یار ھدا میں شوہر ہوں، شیف نہیں ہوں مجھے تو انڈہ بھی بواٸل کرنا نہیں آتا۔۔۔" وہ اسے ڈپٹتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔ھدا منہ پھلا کے بیٹھ گٸی تھی۔۔۔
"یار اب کیا ہوا ہے۔۔۔" جب کچھ دیر جواب نہ آیا تو فارس نے اسے دیکھا تھا جو منہ پھلاۓ بیٹھی تھی۔۔
"یار کیا ہوا ہے اٹھ تو گیا ہوں اب۔۔۔" وہ جماٸیاں بھگاتے ہوۓ بولا تھا۔۔۔اسکا ہاتھ نرمی سے تھاما تھا اور اسے اپنے قریب کیا تھا۔۔۔
"آپ نے مجھے ڈانٹا ہے۔۔۔" ھدا کی آنکھوں میں آنسو آ گٸے تھے۔۔۔فارس بھونچکا رہ گیا تھا۔۔۔
"واٹ۔۔۔میں نے کب ڈانٹا ھدا۔۔۔اور میں کیوں ڈانٹوں گا تمہیں۔۔" فارس اسکی آنکھوں پر لب رکھتے بے چارگی سے بولا تھا۔۔۔
"میں ایسے نہیں مانوں گی۔۔۔" ھدا تھوڑا سا پیچھے کھسکتے بولی تھی۔۔
"پھر کیسے مانو گی یار۔۔۔؟؟ فارس بےچارگی سے پوچھ رہا تھا۔۔۔
"آپکو روز میرے ساتھ جاگنا پڑے گا اور ناشتہ میرے ساتھ بنانا ہوگا۔۔۔" وہ بولی تھی۔۔۔اور فارس ٹھہرا پکی نیند کا جو ہمیشہ لیٹ اٹھا کرتا تھا۔۔۔
"نہیں بیگم یہ نہیں ہو سکتا میں جلدی نہیں جاگ سکتا اور یہ بات تمہیں پتہ ہے۔۔" وہ تکیہ گود میں رکھتے بولا تھا۔۔۔
"ٹھیک ہے پھر میں جا رہی ہوں نیچے اور اگلے دس دن آپ مجھ سے بات بالکل نہیں کرینگے۔۔۔" وہ بولتے ہوۓ کمرے سے باہر چلی گٸی تھی۔۔۔
"ارے بیگم بات تو سنو یار۔۔۔۔۔افف کیا مصیبت ہے۔۔۔چل بیٹا فارس شرافت سے اٹھ جا اور اپنے اگلے دس دن بالکل برباد نہ کر۔۔۔" وہ منہ پر تکیہ رکھتے بڑبڑایا تھا۔۔۔۔اور پھر کوفت سے تکیہ پھینکتے واشروم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔

*************
نکاح کے مضبوط رشتے کے بعد ہالے مصطفٰی کے لیے اسکی اولین چاہت بن چکی تھی۔۔۔وہ اسکے جاگنے سے پہلے اٹھ چکا تھا۔۔۔اس نے دونوں ساٸیڈ ٹیبلز پہ پڑے واز میں تازہ گلاب لا کر لگاۓ تھے۔۔اور اب تیار ہو کر ہالے کی مارننگ اسپیشل بنانے کے لیے وہ کچن میں ناشتہ تیار کر رہا تھا۔۔۔
ہالے کی جب آنکھ کھلی تو کمرے میں کوٸی نہیں تھا لیکن تازہ پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوٸی تھی۔۔۔
وہ اٹھ کر فریش ہوٸی تھی۔۔ریڈ شرٹ کے ساتھ گولڈن کیپری پہنے وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال سلجھا رہی تھی۔۔چہرے پہ حسین مسکراہٹ تھی، وہ اتنی کھوٸی ہوٸی تھی کہ اسے مصطفٰی کے آنے کی خبر ہی نہیں ہوٸی تھی۔۔
مصطفٰی نے اسے پیچھے سے اپنے کشادہ بازٶوں کے حصار میں لیا تھا وہ جیسے خیال سے جاگی تھی۔۔۔
"گڈ مارننگ واٸفی، لو آف ماٸی لاٸف۔۔۔" مصطفٰی اسکے کان میں بولا تھا۔۔۔وہ مسکرا دی تھی۔۔۔مصطفٰی نے اسکا رخ اپنی طرف کیا تھا۔۔۔
"یہ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔۔" مصطفٰی نے پینٹ کی جیب سے ایک ڈبی نکالی تھی۔۔جس میں خوبصورت سا نگینوں والا بریسلیٹ تھا۔۔اب وہ اسکی کلاٸی پر نرمی سے پہنا رہی تھا۔۔۔ہالے کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔۔۔
"ارے نو۔۔نو۔۔۔یہ نہیں یار، اتنی اسپیشل مارننگ پہ آنسو تو بالکل بھی نہیں۔۔۔" مصطفٰی نے اپنے ہاتھ سے اسکے آنسو صاف کیے تھے۔۔۔
"سوری یہ تو بس آپکی اتنی محبت پر نکل آۓ ہیں۔۔" وہ نرمی سے بولی تھی۔۔۔
"چلو بھٸی ناشتہ ٹھنڈا ہو جاٸیگا۔۔۔آپکے شوہر نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔۔اسپیشل ناشتہ۔۔۔" وہ اسکا ہاتھ تھامے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
"اوہو رکیں، مجھے دوپٹہ تو لینے دیں۔۔اور وہ لوگ آ گٸے۔۔؟؟ وہ ٹشو کا دوپٹہ بازو پہ ڈالتے بولی تھی۔۔۔
"کس نے آنا تھا ہالے۔۔؟؟" وہ حیرانی سے گویا ہوا تھا۔۔۔
"ماما لوگوں نے، ہمارا ناشتہ لے کے۔۔۔" وہ اسکے پیچھے باہر نکلتی بولی تھی۔۔۔
"ہمارا ناشتہ، لیکن کیوں۔۔۔؟؟ تمہارا شوہر اتنا تو امیر ہے نا کہ تمہیں اچھے سے کھلا پلا سکے۔۔۔" وہ اپنی ہی دنیا میں تھا۔۔
"شادی کے بعد پہلا ناشتہ ماما کے گھر سے آتا ہے۔۔۔اور ہاں آپکو تو یہ بات پتہ ہی نہیں ہے۔۔۔رسم ہوتی ہے یہ"وہ جیسے اسے بڑی اماں بی کی طرح سمجھا رہی تھی۔۔ وہ دونوں لاٶنج میں آۓ تھے جہاں ٹیبل پر مختلف اقسام کے کھانے موجود تھے۔۔۔
"نو مسز ہالے مصطفٰی میں ایسی کوٸی رسم نہیں مان رہا، ہسبینڈ واٸف کی کوٸی پراٸیویسی ہوتی ہے یار۔۔۔یہ کیا کہ اگلی صبح ہی سب پہنچ جاٸیں اور وہ بھی ناشتہ لے کے۔۔۔۔" مصطفٰی عجیب و غریب منہ بناتے بولا تھا۔۔۔
پھر اس نے ہالے کو آرام سے ڈاٸیننگ چیٸر پہ بٹھایا تھا۔اور خود اسکے سامنے والی چیٸر پہ بیٹھا تھا۔۔
"مسز مصطفٰی ابھی آپ ناشتے پہ دھیان دیں۔۔۔آپکے شوہر کی چار گھنٹوں کی محنت ہے۔۔۔" وہ اسکے سامنے چیزیں رکھتے بولا تھا۔۔۔ہالے نے محبت سے اسے دیکھا تھا۔۔جس کے چہرے پہ بے حد سکون تھا۔۔۔
"تو آپ مجھے جگا لیتے نا میں ہیلپ کرتی آپکی۔۔" وہ بولی تھی۔۔۔
"مسز مصطفٰی ڈونٹ وری آپکا شوہر آپکو روز ایسے ہی ناشتہ کروایا کرے گا۔۔۔۔" وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔۔۔وہ اسکے اس طرزِ مخاطب پہ مسکرا رہی تھی۔۔۔
ہالے کو اچھا لگ رہا تھا اسکے منہ سے مسز مصطفٰی سننا۔۔اور مصطفٰی کو اسکے چہرے کی لالی بار بار مسز مصطفٰی بلانے پہ مجبور کر رہی تھی۔۔۔

*************
شام کے ساۓ گہرے ہو رہے تھے، رات تقریباً پر پھیلانے کو تھی۔۔۔گاڑی مری کی سڑکوں پر تیزی سے بھاگ رہی تھی۔۔احمر مسلسل سات گھنٹوں سے ڈراٸیو کر رہا تھا۔۔۔چہرے پہ سنجیدگی طاری تھی۔۔۔اور آنکھیں بھی شدید تھکن کا پتہ دے رہی تھیں۔۔۔آویزہ مزے سے دو تین بار اپنی نیند پوری کر چکی تھی۔۔۔اور جب جاگی تھی تو نازک لبوں سے پھپھولے چھوڑ رہی تھی۔۔۔
"یار یہ کتنا سڑو اور گھمنڈی ہے، مجھے اتنی بھوک لگی ہوٸی ہے اور اس نے ایک بار نہیں پوچھا۔۔۔اگر میں بابا کا حکم مان کے اسکے ساتھ آ ہی گٸی ہوں تو بندہ خیال ہی کر لیتا ہے۔۔۔" آویزہ جلی ہوٸی منہ میں بڑبڑاٸی تھی۔۔۔احمر جو ڈراٸیو کر کے تھک چکا تھا۔۔۔اسکی بات نے اسے آگ ہی لگا دی تھی۔۔۔
"میں تمہارا ملازم نہیں ہوں کہ تمہاری خاطرداری کروں۔۔۔" وہ غرایا تھا۔۔۔
"اوہ ہیلو مسٹر میں نے کب کہا میری خاطر داری کرو، لیکن بندے میں تھوڑے سے مینرز ہوتے ہیں کہ اگلے کو کچھ کھانے پینے کا پوچھ لیا جاۓ۔۔۔" وہ بھی غصے سے بولی تھی۔۔۔احمر نے اسے گھوری سے نوازا تھا۔۔۔گاڑی میں خاموشی چھاٸی تھی۔۔۔۔
"چلو اترو نیچے اب۔۔۔" تھوڑی ہی دیر بعد احمر نے گاڑی پہاڑوں کے پاس بنے ایک خوبصورت ہوٹل کے پاس روکی تھی۔۔
"مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔" وہ منہ پھلاتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
اسکی بات پہ احمر تو تپ ہی گیا تھا۔۔اس نے اسے غصے سے دیکھا تھا۔۔۔اور پھر اسکی طرف کا دروازہ کھول کر اسکے نرم ہاتھ کو اپنے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں لیتے ہوۓ باہر نکالا تھا۔۔۔آویزہ تو اسکی جرأت پہ حیران رہ گٸی تھی۔۔۔
"تم انتہاٸی بدتمیز انسان ہو۔۔۔چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔" وہ اپنا ہاتھ چھڑاتی غصے سے بولی تھی۔۔۔جبکہ احمر کی گرفت مضبوط تھی۔۔۔
"تمہارے لیے ہی ادھر رکا ہوں اور اوپر سے محترمہ نخرے دکھا رہی ہیں۔۔اب چلو خاموشی سے۔۔۔" احمر آگے بڑھتا بولا تھا۔۔۔۔
"میں ادھر شور مچا دونگی سنا تم نے۔۔۔" وہ اونچی آواز میں غراٸی تھی۔۔۔تیز چلتی ہواٶں میں اسکی آواز پھیلتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
"شوق سے۔۔۔۔" وہ مزے سے بولا تھا۔۔
پھر پہاڑوں کے پیچ بنے چھوٹے سے اس ہوٹل کے ٹیبل کے پاس رکتے احمر نے اسکا ہاتھ نرمی سے چھوڑا تھا۔۔۔
سفید ہاتھ پر اسکی انگلیوں کے گہرے نشان چھپے تھے۔۔۔ناجانے کیا ہوا تھا کہ آویزہ کی آنکھوں میں آنسو آ گٸے تھے۔۔۔وہ اسکے سامنے بالکل بھی رونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔لیکن آنسوٶں پہ کہاں کسی کا بس چلتا ہے۔۔۔وہ رو دی تھی۔۔۔احمر جسکی اٹینشن ہر گز اسے ہرٹ کرنے کی نہیں تھی۔۔پریشان ہو گیا تھا۔۔۔۔
"اوہ شِٹ یار میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔۔۔مجھے معاف کر دو پلیز۔۔۔۔پلیز آنسو صاف کر لو۔۔۔میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا" وہ پریشانی سے بولا تھا۔۔۔
"آپکو آتا نہیں ہے کہ لڑکیوں سے کس طرح بات کی جاتی ہے۔۔۔آپ۔۔۔۔۔"وہ بولتے ہوۓ چپ ہوٸی تھی۔۔
احمر نے خاموشی سے اسکی گلابی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔جہاں آنسو روک لیے گٸے تھے۔۔۔
احمر اسکے پاس آیا تھا۔۔اور ایک بار پھر نرمی سے اسکا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔
"میرا مقصد ہر گز تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا آویزہ میں بس ڈراٸیو کر کے بہت اکتا چکا تھا بس اسلیے مجھے غصہ آگیا۔۔۔آٸی پرامس آٸندہ کبھی غصہ نہیں کرونگا۔۔۔" وہ نرمی سے اپنے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اسکی سفید گلابی ہاتھ کی پشت پہ پھیرتے ہوۓ بولا تھا، انداز بڑا نرم گداز تھا۔۔۔آویزہ کا دل اسے معاف کرنے کو چاہا تھا۔۔۔۔آویزہ نے اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ نکالا تھا۔۔۔
"کھانا کھاتے ہیں۔۔۔" ویٹرز کھانا لا چکا تھا ان دونوں کا سین دیکھ کے اسکے چہرے پہ شرارتی مسکراہٹ تھی۔۔۔وہ شاید کچھ اور سمجھا تھا لیکن یہاں سین کچھ اور تھا۔۔۔
لیکن روٹھنے منانے کا یہ منظر بہت حسین تھا۔۔۔

*************
ہالے نے آج ایک بار پھر سے اپنے قدم "جہانگیر ولا" میں رکھے تھے، یہاں سے جاتے ہوۓ وہ کس طرح ٹوٹ کے بکھری تھی آج اتنی ہی مضبوط ہو کر وہاں لوٹی تھی۔۔۔اس نے مصطفٰی کو دیکھا تھا جو اسکا ہاتھ تھامے اندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔"وہ اب اسکا سب کچھ تھا، وہ ایک مضبوط ساٸبان تھا، وہ اسکے دونوں جہانوں کا سہارا تھا، ہالے دل سے اسکا احترام کرتی تھی۔۔۔اسے کبھی کبھی محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسے دھڑکنوں میں سننے لگی ہے۔۔۔"
جہانگیر ولا میں انکا بہت اچھا استقبال کیا گیا تھا۔۔۔سب کے چہروں پہ مسکراہٹ تھی۔۔۔فارس کو سامنے دیکھ کر بھی ہالے کے چہرے سے مسکراہٹ جدا نہیں ہوٸی تھی۔۔۔۔یہ سب مصطفٰی کی محبت کا غرور تھا۔۔۔لیکن فارس اسکا سامنا نہیں کر سکا تھا اور نہ ہی ساری زندگی کر سکتا تھا۔۔
کھانے سے فارغ ہو کر وہ مختار بیگم کے کمرے میں داخل ہوٸی تھی۔۔۔وہ کمزور و نحیف سی بیڈ پہ لیٹی تھیں۔۔۔ہالے نے انکا ہاتھ نرمی سے تھاما تھا۔۔۔۔انہوں نے آنکھیں کھول کر اسےدیکھا تھا۔۔۔آنکھوں میں پچھتاوا واضح تھا۔۔۔۔
انہوں نے بمشکل اٹھ کر بیٹھتے اپنے دونوں ہاتھ ہالے کے سامنے جوڑے تھے۔۔۔
"تمہیں پتہ انسان کو جب تک تقدیر ٹھوکر نہ لگاۓ نا انسان تب تک نہیں سمجھ سکتا۔۔۔وہ اپنی ہی مستیوں اور عیاشیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔۔۔دولت اور حرص کے نشے میں انسان بھول جاتا ہے کہ سامنے بھی انسان ہیں، میرا اور اس انسان کا رب وہی ہے جو یوسف اور ابراہیم کا تھا اگر وہ انصاف کرنے پہ آگیا تو پھر اسکا انصاف بہت مہنگا پڑے گا۔۔۔" انکی آواز کمزور تھی۔۔۔ہالے کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔
"میں آپکو معاف کر چکی ہوں، بس دل سے کسک نہیں جا رہی تھی کہ میرے کردار پہ آپ نے الزام لگایا تھا اور آج وہ بھی چلی گٸی۔۔۔" ہالے نے انکا داہنا ہاتھ چومتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔
"ہالے مجھے کہہ لینے دو بیٹا، جب کردار پہ کوٸی الزام لگا دے تو وہاں ہر بات ختم ہو جاتی ہے، اور جس پاک دامن پہ الزام لگایا جاتا ہے اگر وہ صبر کر لیتا ہے تو اللہ اسے تو ایسے انعام سے نوازتا ہے کہ وہ ساری زندگی شکر گزاری میں گزار دیتا ہے۔۔جبکہ الزام لگانے والے کو صبر کی مار بہت بری پڑتی ہے۔۔۔اور ہم ٹھہرے بھٹکے ہوۓ انسان، گناہگار لوگ۔۔۔کسی کو کچھ بھی کہتے سوچتے ہی نہیں ہیں اور اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔۔۔"وہ روتے ہوۓ بول رہی تھیں۔۔۔ہالے نے انہیں اپنے ساتھ لگایا تھا۔۔۔
"آپ روٸیں نہیں میری قسمت میں ایسا ہونا لکھا تھا۔۔۔اور پھر اس ذات کے ہر کام میں مصلحت چھپی ہوتی ہے۔۔۔وہ جسے چاہتا ہے عزت سے نواز دیتا ہے۔۔۔" وہ بول رہی تھی۔۔۔اسکا دل بے حد مطمٸن تھا۔۔۔
انکے کمرے سے نکلتے ہالے کے دل بالکل ہلکا ہو گیا تھا۔۔۔جس میں ہمیشہ ایک کسک تھی آج وہ بھی ختم ہو گٸی تھی۔۔۔اس نے تقدیر کے فیصلے کو قبول کر لیا تھا۔۔۔

*************

وہ چھت پہ چھوٹی دیوار سے ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا گھڑیاں خوبصورت رات کی تھیں۔۔ جب ہالے کافی کے دو مگز اٹھاۓ اوپر آٸی تھی۔۔۔وہ ٹراٶزر شرٹ میں موجود تھا۔۔۔اس نے ہالے کو مسکرا کے دیکھا تھا۔۔۔ہالے نے کافی کا مگ اسکی طرف بڑھایا تھا۔۔۔اس نے کافی پکڑ کے ساٸیڈ پہ رکھتے ہالے کو اپنی محبت بھری گہری نگاہوں سے دیکھتے اپنے بازو وا کیے تھے۔۔۔
ہالے مسکراٸی تھی اور پھر اسکے کشادہ سینے سے اپنی پشت لگاتے بیٹھی تھی۔۔مصطفٰی نے اسے اپنے مضبوط حصار میں لیا تھا۔۔۔اور دونوں آسمان کو دیکھتے ہوۓ مسکرا دیے تھے۔۔۔
"مصطفٰی۔۔۔۔؟؟" وہ نرمی سے بولی تھی۔۔۔
"جی جانِ مصطفٰی۔۔۔" وہ آنکھیں بند کرتے بولا تھا۔۔
"یہ مجھے کیسے دیکھتے ہیں آپ۔۔۔؟؟ وہ بولی تھی۔۔۔
"اور میں کیسے دیکھتا ہوں اپنی واٸف کو۔۔۔"وہ اسکے بالوں پہ اپنے لب رکھتے بولا تھا۔۔
"یہ ایسے گھورتے رہتے ہیں۔۔اور دیکھتے رہتے ہیں۔۔۔مجھے بتانا بھی نہیں آ رہا۔۔۔" وہ معصومیت سے بولی تھی۔۔۔اور وہ مسکرا دیا تھا۔۔۔۔
"میں تو ایسے ہی دیکھا کرونگا ہمیشہ۔۔۔اتنی ہی محبت اور عقیدت سے۔۔۔" اب کی بار وہ اسکی آنکھوں پہ جھکا تھا۔۔۔اور ان براٶن آنکھوں کی نرمی کو محسوس کیا تھا۔۔۔۔ہالے حیا سے پلکیں نہیں اٹھا پا رہی تھی۔۔۔
"مصطفٰی تنگ نہ کریں اور بتاٸیں کافی کیسی بنی ہے۔۔۔" ہالے نے اسکا دھیان بٹانا چاہ تھا۔۔۔
"ہمیشہ کی طرح بہت اچھی۔۔۔" مصطفٰی نے نرمی سے اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا تھا۔۔۔اور اسے خود میں بھینچا تھا۔۔۔ہالے اسکی محبت پر پور پور سرشار ہوٸی تھی۔۔۔اسے خود پہ فخر محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔

کسی شام۔۔۔۔۔//
اے میرے بے خبر
"وہی رنگ دے میری آنکھ کو
وہی بات کہہ میرے کان میں"
"مجھے دیکھ مجھ پہ نگاہ کر
کہ میں جی اٹھوں تیرے دھیان میں۔۔۔"

***********
تقدیر خدا لکھتا ہے اور یہی حقیقتِ زندگی ہے، سب سے مشکل کام اسکی رضا میں راضی ہونا ہے۔۔کٸی دفعہ وہ آپ سے جان سے پیاری چیز لے کر آزماتا ہے اور یہ آزماٸش بہت کٹھن ہوتی ہے۔۔۔
ھدا کی محبت بہت اعلٰی اور پاکیزہ تھی اسے وہ فارس سے نواز دیتا ہے اور پھر انکے دل نرم کر دیتا ہے۔۔۔اور دوسری طرف ہالے کو مصطفٰی کا ساتھ عطا کرتا ہے۔۔۔وہ جانتا ہے کب کیسے کسطرح جوڑوں کو آپس میں ملانا ہے۔۔۔اور ان میں پیار پیدا کرنا ہے۔۔۔۔

آج ھدا اور فارس احرام پہنے جبلِ رحمت کے پاس کھڑے تھے۔۔۔ھدا کی محبت تو اسکی جھولی میں ڈال دی گٸی تھی اسکا سر سجدہ شکر میں تھا۔۔۔اور فارس نے اس پاک ذات کی رضا کے آگے سر جھکا دیا تھا۔۔۔اس نے ھدا کو دل سے قبول کر لیا تھا۔۔۔۔لیکن ہالے کے نام کی کیاری ابھی تک اسکے دل میں مدفن تھی ہاں وہاں اب پھول نہیں کھلتے تھے۔۔۔لیکن وہ اسکی دعاٶں میں شامل تھی۔۔۔۔

دوسری جانب ہالے اور مصطفٰی آویزہ اور احمر کی شادی کے لیے سفر میں تھے۔۔۔ہالے نے ایک قدردان کو چن لیا تھا۔۔۔ایسا قدردان جو اسکی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔اور ہالے نے وفاداری اور عزت کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔۔۔اس نے اپنی آخری سانس تک مصطفٰی کے ساتھ وفاداری کا عہد کر لیا تھا۔۔۔

آویزہ اور احمر کی نوک جھونک ساری زندگی جاری رہنے والی تھی۔۔۔اور آویزہ کے نت نٸے ایڈوینچرز میں احمر اسکا ساتھ دیا کرتا تھا۔۔۔اور اللہ نے دونوں کے دل ایک دوسرے کے لیے کھول دیے تھے۔۔۔آویزہ طراب خان احمر کے دل کی واحد ملکہ تھی لیکن اس نے یہ بات اسے کبھی نہیں بتاٸی تھی کیونکہ احمر کے مطابق وہ تو پہلے ہی سر پہ چڑھی رہتی ہے اور اگر یہ بات اسے پتہ چل گٸی تو وہ ناجانے کیا کرے۔۔۔۔اور معصوم احمر نہیں جانتا تھا کہ آویزہ طراب خان یہ بات جانتی تھی۔۔۔۔

وقت سے پہلے اور نصیب سے زیادہ کچھ نہیں ملا کرتا، ہر کام کے پیچھے ایک راز پوشیدہ ہے اور وہ راز ہمیشہ اپنے وقت پہ کھل کرتا ہے۔۔۔۔اور ہمیں زندگی میں سب سے مشکل کام کرنا ہے اور وہ یہ کہ ہمیں اپنی خواہشات کو اپنے دل کو پیچھے چھوڑتے ہوۓ اس ذات کے فیصلوں میں راضی رہنا ہے۔۔۔

************

ختم شد

ایک اور کہانی اپنے اختتام کو پہنچی۔۔۔ایک اور باب ختم ہوا۔۔۔ایک اور محبتوں اور آزماٸشوں کی کہانی مکمل ہو گٸی الحَمْدُ ِلله۔۔۔بہت دیر سے مکمل کرنے پر معذرت چاہتی ہوں۔۔۔زندگی ہر ایک سے کڑے امتحان لیتی ہے۔۔۔اور مجھ سے بھی لیے ہیں۔۔۔زندگی نام ہی امتحان کا ہے۔۔ہمیں بس مضبوط رہنا ہے۔۔۔میرے سب پیارے ریڈرز کا بہت شکریہ!!! جنہوں نے مجھے وقتاً فوقتاً یہ یاد دلایا کہ میں کچھ لکھ رہی ہوں اور اسے مکمل بھی کرنا ہے۔۔۔اور بہت زیادہ شکریہ آپی مبرا کا جنہوں نے ہمیشہ مجھے اپنے پلیٹ فام کے لیے خوش آمدید کہا۔۔اور میرا ساتھ دیا۔۔اور ساری انسٹا راٸٹرز کا بہت شکریہ جنکا ساتھ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔۔۔آپ سب کا سپورٹ ہمشہ یاد رہے گا۔۔۔اور میری پیاری دوست گلِ لالہ کا بہت شکریہ جو ہمیشہ ہر مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑی رہتی ہیں اور مجھے پش اپ کرتی ہیں کہ آپ نے کرنا ہے اور آپ کر سکتی ہیں۔۔۔
آپ سب کے لیے بہت سارا پیار اور دعاٸیں!!!!

دعاٶں کی طالب۔۔۔
تحسین راجپوت 📝

Continue Reading

You'll Also Like

24.3K 777 35
یہ کہانی ہے محبت کو پانے کی ۔دلی جذبات کو اجاگر کرنے کی۔ یہ کہانی ہے کھوے ہوۓ رشتوں کو پانے کی۔ یہ کہانی ہے وعدوں کو نبھانے کی۔ ۔ یہ کہانی ہے عشق کے...
5.5K 472 25
شرارتوں اور الجھنوں بھری اک کہانی❤۔۔۔دوستی کے سنگ جینے کی، ماضی کے دریچوں میں جکڑے لوگوں کی، کسی کی محرومیوں کی، کسی کے شرارتوں کی، اور کسی کی محبت ک...
11 10 8
dasht-e-ulfat urdu novel by Shazain Zainab which is based on mafia, army, gangster and businessmen story with romance action suspense and fun. i hope...
2.4K 264 52
مجھے لوگوں کے ہنستے مسکراتے چہرے بہت اچھے لگتے ہیں مگر ہاں! خود کے لیے میں ہمیشہ اذیت چنتی ہوں۔ مجھے دوسروں کی آنکھوں میں مچلتی تتلیاں بھلی معلوم ہوت...