"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

Start from the beginning
                                    

**********
وہ باٸیس گھنٹوں کی لمبی فلاٸٹ کے بعد واشنگٹن سے سیدھا لاہور اٸیر پورٹ پر اترا تھا، سفید پلین شرٹ کے اوپر اسکن جیکٹ ساتھ بلیو جینز پہنے آنکھوں پر اسٹاٸلش سے گاگلز لگاۓ ایک ہاتھ میں اسمارٹ سا سلور فون پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے بیگ کو گھسیٹتے وہ اٸیر پورٹ سے باہر نکلا تھا۔حسین ہیزل سبز آنکھیں گلاسس کے پیچھے چھپی تھیں۔زندگی میں پہلی بار وہ پاکستان آیا تھا نا جانے کیوں اس پاک زمین پر پاوٴں رکھتے اس کا دل بری طرح سے دھڑکا تھا۔۔دل اپنی جگہ بے حد اداس تھا۔۔وہ پلا بڑھا واشنگٹن میں تھا تو وہی اسے اپنا وطن لگتا تھا لیکن یہاں لاہور کی نگری میں پھیلی روشنی اور خوش کن فضا اسکا دل دھڑکا رہی تھی۔۔
ائیر پورٹ کی راہداری سے نکلتے اسے ہر طرف پھیلی شفاف لمبی سڑک دکھائی دی تھی۔۔اور اسکے اطراف میں لگے سرسبز شاداب پودے اور پھولوں نے اسکی صحت پر اچھا اثر ڈالا تھا۔۔۔
چونکہ صبح فجر کے بعد وہ پہنچا تھا اس لیے سڑکوں پر اسے اکّا دکّا لوگ دکھائی دے رہے تھے۔
اس نے دوسرے اطراف میں دیکھا تھا جہاں تھوڑے ہی فاصلے پر موجود سفید لینڈ کروزر اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔
وہ ابھی "ہالے ہاوس" کا رخ نہیں کرنا چاہتا تھا اسکا ارادہ سیدھا اپنے خریدے ہوئے اپارٹمنٹ میں جانے کا تھا۔۔اعظم صاحب نے اس کے پہنچنے سے پہلے اسکے لیے پوش ایریا میں ویل فرنشڈ اپارٹمنٹ، گاڑی اور ڈراٸیور کا بندوبست کر دیا تھا۔۔
"سلام مصطفیٰ صاحب! سفر خیریت سے گزرا آپکا؟ میں نادر علی خان، اعظم صاحب نے پاکستان میں آپکی دیکھ بھال کے لیے مجھے معمور کیا ہے۔" نادر علی خان نے بڑے مٶدب انداز میں سینے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ سلام پیش کیا تھا اور اپنا تعارف کروایا تھا۔۔
مصطفیٰ نے سر ہلا کر مسکراتے ہوۓ جواب دیا تھا۔
"سفر اچھا رہا نادر علی خان" تم کیسے ہو؟؟ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ گویا ہوا تھا۔۔مصطفیٰ میں لاکھ براٸیاں صحیح لیکن وہ سب کے ساتھ اخلاق کا بہت اچھا تھا۔۔۔
"میں ٹھیک صاحب!! اچھا بتاٸیں ناشتہ گھر جا کر کریں گے یا یہیں باہر سے کرواٶں آپکو۔۔۔ ہمارے لاہور کی نہاری بڑی مشہور ہے جی۔۔زندہ دلوں کا شہر ہے جی ہمارا سوہنا لاہور" نادر علی خان کچھ زیادہ ہی محبِ وطن تھا گاڑی کو سڑک پر ڈالتے اپنے وطن کی تعریفیں شروع کر چکا تھا۔۔۔
"نہیں نادر علی ابھی گھر چلو باہر سے ناشتہ میں پھر کسی دن کرونگا" وہ سڑک پہ موجود حیرانگی سے آٹو رکشے دیکھ کر بولا تھا۔۔۔جو دھواں اڑاتے اور اپنی بے ہنگم آواز سنسان سڑکوں پر ڈالتے کسی سواری کی تلاش میں نکل چکے تھے۔۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے میں گاڑی گلبرگ فیز ایچ میں داخل ہوٸی تھی جہاں مصطفیٰ کے لیے اپارٹمنٹ تیار تھا۔۔۔
***********
صبح چار بجے ٹور پر موجود گاڑیوں نے سب لڑکیوں کو بحفاظت ساتھ لیے واپسی کا سفر شروع کیا تھا۔گاڑیاں بل کھاتے روڈز پر حسین وادیوں کو پیچھے چھوڑتی جا رہی تھی۔ ہالے اور آویزہ کے اس خوبصورت سفر کا اختتام ہو چکا تھا اور گاڑی لاہور کی جانب تیزی سے بڑھ رہی تھی۔۔سب لڑکیاں گزرتی سڑکوں پر ساتھ ساتھ چلتے حسین، بلند و بالا پہاڑوں کو جاتے لمحات میں قید کر رہی تھیں اور کچھ اپنی سہیلیوں کے کندھوں پر سر رکھے اونگھ رہی تھیں۔۔
آویزہ وہیں سے ایبٹ آباد اپنی حویلی چلی گٸی تھی اور ہالے سے ناراض بھی تھی کہ وہ اسکے ساتھ اسکے گھر نہیں گٸی تھی۔جبکہ واپسی کا سفر اکیلے طے کرتے ہالے بری طرح آویزہ کو مِس کر رہی تھی۔۔
ہالے کا دل ان وادیوں کو چھوڑنے پر بے حد اداس تھا۔۔۔
ہالے اپنے موباٸل میں قید مناظر کو بار بار دیکھ چکی تھی۔۔اور اب سر پر دوپٹہ اوڑھے بالوں کو قید کرتے قرآنی آیات پڑھنا شروع کر چکی تھی۔

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"Where stories live. Discover now