"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"

Start from the beginning
                                    

*************
ہالے صرف آج کے لیے رک جاٶ میری جان، میری خوشی کی خاطر، بس مجھے رخصت ہو جانے دو پھر بے شک کبھی اس گھر کا رخ نہ کرنا تم۔۔۔متاعِ کی بات سن کر ہالے کے بیگز کی زِپ بندھ کرتے ہاتھ تھمے تھے۔۔۔
ہالے نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔۔اور پھر اٹھ کر خاموشی سے اسکے پاس آ بیٹھی تھی۔۔۔اور اپنی نگاہیں اپنی ہتھیلیوں پر جما لی تھیں۔۔۔
متورم آنکھیں جو رونے سے بہت سوجھ چکی تھیں، بکھرے بال جیسے انہیں کبھی سنوارا ہی نہیں گیا تھا، چہرے پہ ایسی زردیاں گھلی تھیں جیسے یہ ماہ جبیں چہرہ کبھی گلاب تھا ہی نہیں، وہ اُجڑی بیٹھی تھی۔۔۔شاید محبت میں اجڑا انسان ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔اسکی حالت دیکھ کر متاعِ کا دل کٹا تھا، اس نے دھیرے سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔دلاسہ ملنے کی دیر تھی ہالے کا ضبط ٹوٹا تھا، اور وہ متاعِ کے گلے لگ کر اونچی آواز میں پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی، چیخوں کا گلا گھونٹنے کے لیے اسے اپنے منہ پر دونوں ہاتھ سختی سے جمانے پڑے تھے، ان آنسوٶں میں اسکی سسکیاں شامل تھیں۔۔۔متاعِ اسے سنبھالنے کے ساتھ ساتھ خود بھی بے تحاشا رو رہی تھی۔۔۔
عشق میں تڑپتا انسان شاید ایسا ہی ہوتا ہے، دل پر جبر کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے،
اسے کہنا
مکمل کچھ نہیں ہوتا
ملنا بھی نامکمل ہے
جداٸی بھی ادھوری ہے
یہاں اک موت پوری ہے
اسے کہنا
اداسی جب رگوں میں
خون کی مانند اترتی ہے
بہت نقصان کرتی ہے
اسے کہنا
بساطِ عشق میں
جب مات ہوتی ہے
دکھوں کے شہر میں
جب رات ہوتی ہے
مکمل بس
خدا کی ذات ہوتی ہے
ان آہوں اور سسکیوں میں ہالے نے سب کچھ کہہ دیا تھا۔۔۔ہاں وہ بس متاعِ کے رخصت ہونے تک رک گٸی تھی۔۔۔۔

************

ھدا کے کمرے میں جو گلاس وال تھی وہاں سے گھر کے پیچھے کا لان دکھاٸی دیتا تھا اور اسے یہ پرسکون جگہ بے حد پسند تھی۔۔۔وہ اکثر وہیں موجود ہوتی تھی اور اگر باہر جانے کا دل نہ ہوتا تو وہیں سے پہروں کھڑے اس پرسکون گوشے کو تکا کرتی تھی۔۔۔وہ بے حد غور سے لان میں لگے پھولوں کو تک رہی تھی کیونکہ باغیچے میں لگے پھول اسکی محبت کا درد جانتے تھے،
محبت ایک روگ کی طرح اس سے چمٹ گٸی تھی اسے سمجھ ہی نہیں آیا تھا کہ اس دل نے سب کچھ جانتے بوجھتے کیسے فارس کا نام پکارا تھا، فارس جہانگیر کا عشق اسکی رگوں میں اتر گیا تھا، وہ اسکی سانسوں میں آن سمایا تھا۔۔۔وہ چاہ کر بھی اس خیال کو جھٹلا نہیں پاٸی تھی۔۔اور پھر اسکی گلابی ہوتی کانچ سی آنکھوں نے اسکے خواب سجانا شروع کر دیے تھے۔۔۔
گھر میں پھیلی اسکی اور فارس کی شادی کا فیصلہ اسکے کانوں تک بھی پہنچا تھا لیکن اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ قسمت کی اس ستم ظریفی پر روۓ یا ہنسے۔۔۔۔
جبھی فارس غصے سے اسکے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔اور دروازے میں کھڑے اسے پکار رہا تھا۔۔۔
ھداٰ ادھر آٶ، دادی جان سے بولو کہ ہم بہن بھاٸیوں کی طرح ہیں انہیں انکار کر دو آ کر، اگر تم انکار کر دو گی تو وہ مان جاٸیں گی۔۔۔فارس نے دروازے سے ہی کھڑے اسے پکارا تھا۔۔۔
ھدا کی آنکھوں میں آنسو تھے، اس نے داٸیں ہاتھ چہرہ صاف کر کے اپنا رخ پلٹا تھا۔۔۔جس گھڑی کے لیے وہ پریشان تھی وہ جاں گسل گھڑی آن پہنچی تھی۔۔۔اس نے گلابی آنکھوں سے فارس کو دیکھا تھا۔۔۔
اگر آپکا انکار انکے لیے معنی نہیں رکھتا تو آپکو یہ خوش فہمی کیوں ہے کہ وہ میرے انکار کو اہمیت دینگی۔۔اور ویسے بھی میں انکار نہیں کرونگی۔۔ھدا نے بمشکل اپنے نرم لہجے میں بات مکمل کی تھی۔۔۔
اور اپنے خوبصورت گولڈن بالوں کو کیچر میں سمیٹا تھا۔۔۔۔دوپٹے کو کاندھے پہ ڈالے اسکے پاس آٸی تھی۔۔۔وہ دونوں کمرے کے وسط میں کھڑے تھے،
تبھی ھدا کی نظر فارس کے زخمی ہاتھ پہ پڑی تھی جہاں خون رِس رِس کر جم چکا تھا۔۔
فارس آپکا ہاتھ۔۔۔کیا ہوا ہے؟ کیا خود نقصان پہنچایا ہے آپ نے اسے، فارس۔۔۔وہ اسکا ہاتھ نرمی سے تھام رہی تھی جبھی فارس نے اسکے بڑھتے ہوۓ ہاتھ کو بڑی بے رحمی سے جھٹک دیا تھا۔۔۔
میرے ہاتھ کی فکر مت کرو ھدا، جو پوچھ رہا ہوں اسکا جواب دو؟؟ کیامطلب ہے تمہارا تم کیوں انکار نہیں کرو گی، ہاں۔۔۔تم جانتی ہو نا تم کیا کہہ رہی ہو۔۔۔؟؟ فارس نے تلخ لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔۔۔
ھدا جانتی تھی یہی وہ لمحہ ہے جسے یا تو پھولوں کی طرح سمیٹ لیا جاۓ یا اپنے پیروں تلے روند دیا جاۓ۔۔۔
جب خدا مجھے میری محبت خود عطا کر رہا ہے تو میں کیسے انکار کر دوں فارس، میں کیسے اس انسان کے ساتھ سے انکار کر دوں جو میری رگوں میں خون کی مانند دوڑتا ہے۔۔۔ھدا نے رخ پھیرتے ہوۓ اپنے نرم لہجے میں کہا تھا۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ یہ اپنا وقار کھونے کا مرحلہ ہے، اپنی عزت اور انا کو خود اپنے ہاتھوں سے گنوانے کا وقت ہے، وہ جانتی تھی کہ سامنے کھڑا انسان اسے اپنے پیروں تلے اتنی سختی سے روند دے گا کہ وہ بن پانی کے کچل دی جاۓ گی، لیکن وہ اپنی قسمت کو آزمانا چاہتی تھی، وہ ایک بار اپنی محبت کا بتانا چاہتی تھی، وہ ایک بار اپنے لیے خود غرض بننا چاہتی تھی ہاں بس ایک بار وہ خود کو انمول سے بے انمول کرنا چاہتی تھی، وہ بس ایک بار اپنے دل میں پنپنتے اس جذبے کو آزاد فضاٶں میں چھوڑنا چاہتی تھی۔۔۔۔
کیا کہا ہے تم نے؟؟ ہاں ایک دفعہ پھر سے کہنا میں سننا چاہتا ہوں، بولو۔۔کیا بکواس کی ہے تم نے ابھی بولو۔۔۔۔فارس بے حد غصے سے غرایا تھا۔۔۔ھدا کے الفاظ نے اسکے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی، وہ کیسے اسکی آنکھوں سے جان نہیں پایا کیسے؟؟؟
اسکے اتنے سخت لہجے پر ھدا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔
میں نہیں جانتی کب، کیوں، کیسے فارس؟؟ یہ جذبہ کیسے میرے دل میں پیوست ہو کر روح میں اتر گیا، میں نہیں جانتی، بس مجھے آپ سے محبت ہوگٸی، مجھے پتہ نہیں چلا کب آپ میری بڑھتی ہوٸی سانسوں کے ساتھ پروان چڑھنے لگے۔۔اسکا لہجہ ایسا تھا جیسے بہت بڑا جرم کیا ہو اس نے۔۔۔اسکے لفظ منہ میں دم توڑ گٸے تھے جب فارس نے الٹے ہاتھ کا تھپڑ اسکے منہ پہ دے مارا تھا اور وہ کمرے میں موجود دیوان سے جا ٹکراٸی تھی۔۔۔۔لیکن منہ سے چیخ نہیں نکالی تھی، منہ کے آگے ہتھیلی کو سختی سے جما لیا تھا،
میرے کس عمل سے لگا تمہیں ھدا کہ میں کچھ ایسا سمجھتا ہونگا، میں تمہیں اپنی چھوٹی بہن کی طرح چاہتا رہا، عنایہ میں اور تم میں کبھی فرق نہیں سمجھا، پھر کس طرح، اس پاکیزہ رشتے کو اس طرح کا رنگ دیا تم نے بولو، فارس غصے اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں بولا تھا۔۔۔میں کیسے تمہیں؟؟ سب جاننے کے بعد فارس شدّتِ غم سے بول نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔
وہ خاموشی سے ھدا کو بہتے آنسوٶں کے ساتھ دیکھ رہا تھا اور یہ پہلی بار تھا جب فارس کو اسکے آنسو تکلیف نہیں دے رہے تھے۔۔۔
تم نے جو کچھ بھی کہا ھدا مجھے اس میں زرا برابر دلچسپی نہیں ہے، دادی اور تم جو بھی چاہ رہے ہو اسکا کڑوا گھونٹ مجھے پینا پڑے گا لیکن میں بہت جلد تم پر یہ ثابت کر دونگا کہ زندگی کو نرخ کیسے بنایا جاتا ہے، یاد رکھنا۔۔۔میں کبھی بھی تمہیں نہیں اپناٶں گا کبھی نہیں، اور اتنا دور جا بسوں گا کہ تمہاری سانسیں بند ہونے لگیں گی، اتنا دور کہ فاصلے نہ ہوتے ہوۓ بھی سمیٹ نہیں سکو گی، تم خود پناہ مانگو گی مجھ سے، سنا تم نے۔۔۔۔وہ غصے سے اسے دونوں بازوٶں سے تھامے کہہ رہا تھا۔۔اسکے ہاتھوں کی انگلیاں ھدا کے نرم بازٶوں میں پیوست ہو رہی تھیں، تکلیف کی شدت سے اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، وہ سانس روکے اسے سن رہی تھی۔۔ اس نے تو ہمیشہ فارس کا پیار دیکھا تھا اور اب ساری زندگی نفرت دیکھنی تھی۔۔۔۔وہ اسے اپنی غضب ڈھاتی آنکھوں سے گھور رہا تھا۔۔
لیکن کیا ہوا وہ نظروں کے سامنے تو ہو گا ہی نا۔۔وہ یہ سوچ کر دل میں مسکراٸی تھی اور لبوں پہ زخمی مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔
وہ دروازے کو زور سے ٹھوکر مارتا وہاں سے چلا گیا تھا پیچھے ھدا بیٹھی اپنی قسمت کی اس ستم ظریفی پر آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔اسکی دھڑکنیں معمول سے ہٹ کر دکھ سے دھڑک رہی تھیں۔۔۔ایک ہی نام کا راگ الاپ رہی تھیں۔۔۔۔واۓ رے قسمت کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے۔۔۔
وہ جہانگیر وِلا کی اکیلی اداس، بنجارن، قسمت سے جیتی اور محبت میں ہاری ہوٸی اپسراٶں میں سے ایک تھی۔۔۔

"تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں"Where stories live. Discover now