Episode 4

1.8K 147 36
                                    

آہ.....!"
اس نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
"میڈم یہ بہت جل رہا ہے..."۔
اس نے ڈاکٹر کی طرف اشارہ کیا۔ جو اس کے پیر کی طرف جھکا زخم کو کاٹن کے ذریعے صاف کرتے ہوئے اسے خاموش رہنے کی ہدایت بھی کر رہا تھا۔
"اگر یہ صاف نہیں کرواؤگے۔ تو انفیکشن پھیل جائے گا..."۔
"نہیں میڈم یہ تو بہت تکلیف دے..."۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہوا ڈاکٹر نے اس مضبوط کسرتی بدن والے مرد کو بچوں کی طرح ردعمل کرتے، حیرانی سے دیکھا اور مسکرادیا جبکہ ٹینا نے اسے بازو سے پکڑ کر بٹھایا۔
"بیٹھ جاؤ اس سے پہلے کہ میں تمہیں شوٹ کردوں...!"۔
 اس کے کان میں کہتے، شال کو ہلکا سا ہٹاکر جینز کی جیب میں چھپی پسٹل دکھاکر اسے ڈرایا۔
"ٹھیک ہے...میں بیٹھ رہا ہوں...لیکن پلیز آپ پسٹل مت نکالیے گا...!!!"۔
اس کا لہجہ اتنا روہا‌نسا اور انداز اتنا بچکانہ تھا کہ اس نے اس کا بازو تھام کر اسے ڈھارس دلائی۔
"ہاں ٹھیک ہے۔ نہیں نکالتی پسٹل...تم بس زخم پر ڈریسنگ خاموشی سے کروالو..."۔
"اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
"آپ بہت اچھی لڑکی ہیں"۔
"ہاں!!!۔یہ اچھی لڑکی تمہیں زخم دے چکی ہے..."۔
اس نے سر جھٹک کر کہا۔
"تو کیا ہوا؟ آپ کے دیے گئے زخم بھی قبول ہیں مجھے۔یہ تو آپ نے میرے پیر پر گولی ماری ہے...!اگر دل پر بھی ماریں گی تو بھی اففف تک نہیں کروں گا...!"۔
وہ بھول گیا تھا کہ پچھلے دیڑھ گھنٹے سے مسلسل اس کے سامنے اپنے زخم کا رونا رو رہا ہے۔لیکن....
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
کیا تھا وہ شخص۔
کبھی بچوں سے زیادہ بچپنا۔
کبھی ایسے مکالمات کے سچے عاشقوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا۔
کبھی اتنا باتونی۔
کبھی اس کی ہر بات میں کوئی نا کوئی مقصد واضح ہوتا۔
"ہاں اسی لیے حیوانوں کی ملکہ کا لقب دے رکھا ہے ناں"۔
اس نے رخ پھیر کر کہا۔ وہ اس کی تیز سماعت پر حیران ہوئے بغیر نا رہ سکا۔

***

"اس ماہ کے آخر میں بڑے باس آرہے ہیں...."۔
کسی نے اسے مطلع کیا تھا اور وہ تب سے شل بیٹھی کسی غیر مرئی نقطے پر نظر رکھے مسلسل ٹیبل پر پسٹل گھما رہی تھی۔ یہ خبر۔ خبر نہیں تھی، کوئی صور تھا جو اس کے کانوں میں پھونک دیا گیا تھا۔
"آپ نے دیکھا ہے باس کو؟؟؟"۔
وہ اس کی حرکات بڑی غور سے ملاحظہ کر رہا تھا۔
"نہیں، یہاں موجود کسی بھی انسان نے انھیں آج تک نہیں دیکھا...یہاں تک اپنے باس نے بھی نہیں"۔
"اچھا...میں نے بھی نہیں دیکھا..."۔
"ہاں وہ انڈرورلڈ کے بہت بڑے ڈون ہیں، ایسے کسی کے سامنے نہیں آتے۔ بس کچھ خاص لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اور کچھ خاص لوگوں نے ہی انہیں دیکھا ہے..."۔
"آپ ان خاص میں شامل نہیں ہیں؟"۔
وہ پتہ نہیں کیا جاننا چاہتا تھا۔
"ابھی تک تو نہیں،لیکن اس بار ضرور خاص میں شامل ہوجاؤں گی...اور ایسی شامل ہوں گی کہ وہ زندگی بھر مجھ سے ملنا یاد رکھیں گے...!"۔
اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
"اچھا آپ یہ بتائیں، آج تک آپ نے کتنے قتل کیے ہیں...؟؟"۔
"ایک بھی نہیں...."۔
وہ اسے دیکھتے سیدھی ہوئی۔
"جھوٹ مت بولیں...آپ جیسی پٹاخہ لڑکی...م...مطلب دھماکہ خیز.....!!
اس کی آنکھوں میں سختی اتری تو اس نے زبان پر لگام لگائی۔
"میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ نے اب تک ایک بھی قتل نہیں کیا؟؟ پھر آپ گینگسٹر کیسے ہوئیں؟؟ میں نہیں مانتا....!!!"۔
وہ سراسر انکاری تھا۔ اس کا پسٹل گھماتا ہاتھ یکدم رکا۔
"مت مانوں...میں نے تمہیں منواکر کیا کرنا ہے...میرے نصیب میں صرف ایک قتل لکھا ہے..."۔
"کس کا...؟؟"۔
"تمہارا..."۔
اس نے جھٹکے سے پسٹل اٹھاکر اس کے اوپر تانا۔ وہ اچھل کر بھاگا۔ لیکن کچھ پل بعد ہی اپنے پیچھے اس کا قہقہہ سن کر پلٹا۔
وہ ہاتھوں سے پیٹ پکڑے بچوں کی طرح کھلکھلاکر ہنس رہی تھی۔ وہ بے ساختہ اس کی سمت بڑھا اور اسے اٹھاکر اپنے سامنے کیا۔
وہ ابھی بھی اپنی ہنسی کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"آپ بہت اچھی ہیں"۔
وہ اس اچانک اظہار پر یکدم خاموش ہوکر اسے دیکھنے لگی۔یہ وہ لفظ تھے جو وہ چلتے پھرتے دہراتا تھا۔اسے لفظوں کے ذریعے بتاتا تھا کہ وہ اچھی ہے۔ایک اچھی لڑکی جو صرف اخھے کام کرتی ہے۔ پر آج...
اس کی آنکھیں...
ان کا تاثر...
"میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں...!"۔
اس نے اس کے ہاتھوں کو تھام کر اپنی آنکھوں سے لگایا اور پھر مسکراکر دو انگلیاں اس کے گال کی سمت بڑھائیں۔وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلی لیکن اس کا اپنے گالوں کے سمت بڑھتا ہاتھ دیکھ کر اس کی بھنویں سکڑیں۔
"گال مت چھونا، ورنہ شوٹ کردوں گی...!"۔
اس کی اتنی واضح دھمکی پر اس کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔ پھر ہاتھ کو پہلو میں گراتا وہ کھسیانی ہنسی، ہنستا دروازے کی سمت بڑھ گیا۔

***

"ابھیجیت باتلیوالا"
یہ صرف نام نہیں تھا۔دو نمبر دنیا کی پہچان تھا۔
جس کی کامیابی کے پیروں تلے ناجانے کتنی آہیں، کتنی بددعائیں، کتنی سسکیاں روند گئی تھیں۔
وہ آج ممبئ آچکا تھا اور اس وقت ایک سکس اسٹار ہوٹل کے پرتعیش کمرے میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا اور وہ یہاں جلے پیر کی بلی بنی ٹہل رہی تھی۔
"مجھے باس سے ملنا ہے ببلو...!!! وہ چار سال بعد انڈیا آئے ہیں...پہلے جب وہ نیپال آئے تھے میں تب بھی ان سے ملنے گئی تھی، لیکن مل نہیں پائی...، اس بار میں یہ موقع نہیں گنواسکتی...!"۔
وہ اس کی بے چینی پر پرسکون سا کرسی پر بیٹھا چنے پھانکتے ہوئے کنکھیوں سے اسے یہاں سے وہاں ٹہلتے دیکھ رہا تھا۔
"ابھی انہیں آکے بمشکل تین گھنٹے ہوئے ہیں اور وہ یہاں کم از کم ایک ہفتے رکیں گے...آپ آرام سے ان سے مل سکتی ہیں..."۔
وہ ٹہلنا بند کرکے گہری سانس لیتی ایک کرسی اس کے سامنے رکھ کر بیٹھ گئی۔
"دیکھو"۔
"دکھائیں..."۔
اس کا مزاحیہ انداز دیکھ کر وہ یکدم برہم ہوئی۔ الٹے ہاتھ کا ایک لپڑ اس کے منہ پر رسید کیا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ وہ بیک وقت پیچھے ہوگیا، اس لیے وہ زوردار طمانچہ صرف اس کی ناک کو چھو کر نکل گیا۔ لیکن ناک کی نازک ہڈی پر لگنے کے باعث، اس کی ناک میں درد کی تیز لہر اٹھی تھی۔
"میری بات سنو...مجھے ابھی اس ہوٹل میں لے کر چلو...میں کچھ نہیں جانتی،مجھے بس باس سے ملنا ہے..."۔
اس نے انگلی سے اپنی ناک دباتے۔ سر ہلایا۔
"میں آپ کو لے جاؤں گا...بس تھوڑا سا صبر کرلیں...بس شام تک..."۔
"میں ابھی جاؤں گی...!"۔
وہ ہٹ دھرمی سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"نہیں آپ ابھی نہیں جائیں گی...وہ آرام کر رہے ہیں...آپ سے نہیں ملیں گے...ان کے چیلے،چمچے آپ کو بے عزت کرکے نکالنے کی کوشش کریں گے...اور آپ کو کوئی بے عزت کرے یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوگا...آپ کی عزت میری پہلی ترجیح ہے...."۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ چیئر پر بٹھا چکا تھا۔ اس کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جو وہ اس کی بات مان کر خاموشی سے بیٹھ گئی۔
اسے آج کا ببلو کچھ الگ لگا تھا۔
ہمیشہ سے الگ۔اپنا،اپنا سا...!
اچھا...!
پیارا...!
مخلص..!

***

Mashgala-E-Ishq (Complete)Where stories live. Discover now