جدا جدا جنون 💔

1.7K 93 6
                                    

"ہم بھی بڑے نایاب تھے
گزرے دنوں کی بات ھے"

**
مرزا ملک ممبٸی کے رہہنے والے بہت بڑے بزنس مین کے اکلوتے بیٹے تھے ماں باپ نے مرنے سے پہلے اپنے دوست کی بیٹی سے شادی کروادی وہ بھی اکلوتی تھی انکی شادی بہت سادگی کے ساتھ ہوٸی کیوں کے مرزا ملک کے باپ کی صحت ٹھیک نہ تھی اور شادی کے دوسرے دن وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلے گٸے گھر میں سب ہی اداس تھے پر وقت گزرتا گیا تو انکا غم بھی کم ہوتا گیا مرزا ملک کی ماں اور نوری ملک کے ماں باپ انکی اولاد کی خواٸش دل میں لیکر ہی دنیا سے رخصت ہوگٸے اب کی بار انکا غم بہت گہرا تھا بھولنا نہ ممکن تھا بہت وقت گزر گیا
پر انکا غم کم نہ ہوا وہ اس دنیا میں بلکل اکیلے تھے بہت پیسہ تھا عزت تھی پر خوشی اور سکون دور دور تک نہ تھے بہت علاجوں اور منتیں مانگنے کے باد زہل ملک پیدا ہوٸی خوبصورت پری انکے گھر آٸی بہت ہی پیاری تھی زہل وہ دونوں خوشی سے جھوم اٹھے تھے انکا اکیلا پن ختم ہوگیا تھا مرزا ملک نے زہل کے نام کا ٹرسٹ بنایا اور غریبوں کی مدد کرتے انکی دعاٶں اور اللہ کی عبادت سے وقت گزرتا گیا دونوں میاں بیوی بہت عبادت گزار اور نیک تھے زہل تین سال کی تھی کے اسکا بھاٸی پیدا ہوا میرول سب کا لاڈلا تھا زہل کا بھی بچے بڑے ہوتے گٸے اور ماں باپ بوڑھے ہوتے گٸے زہل بچپن سے باپ کے ساتھ کمپنی جاتی تھی زہل انیس سال کی ہوگٸی تھی تو اسنے باپ سے کہہ کر کمپنی جانا شروع کردیا کام کرنے کیلٸے، وہ شروع میں کولیگ کا کام کرتی تھی بہت دل لگا کر کام کرتی تھی
اوف ممی میں تھک گٸی ہوں بہت بھوک بھی لگی ھے کچھ کھانے کو دیدیں
وہ صبح کی گٸی شام سات بجے لوٹی باپ کے ساتھ تو لاٶنج میں ہی میرول کے ساتھی بیٹھ گٸی
زہل پہلے سلام کرتے ھیں
ممی نے ٹوکتے ہوٸے کہا
اَلسَلامُ عَلَيْكُم ممی
وَعَلَيْكُم السَّلَام
ممی نے مسکراتے ہوٸے جواب دیا اور دٸیا کو کھانے کا بتانے لگی ڈیڈی چینج کرنے جاچکے تھے
تم زہل ہو
میرول نے زہل کی طرف دیکھا تو زہل نے تھکے تھکے انداز میں سر ہلایا اور اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹھ گٸی
تو پھر آج تم نے بحث کیوں نہیں کی لگتا ھے نشہ کر کے آٸی ہو
میرول نے کہا جواب نہ پا کر وہ پھر سے ٹی وی دیکھنے لگا ڈیڈی بھی آگٸے تھے ممی نے کھانا لگایا تو انہیں بلانے آگٸی
چلو زہل بیٹے بھوک لگی ھے نہ اپکو
ڈیڈی نے کہا تو سب نے زہل کی طرف دیکھا وہ بے خبر میرول کی گود میں سر رکھے سورہی تھی میرول کو بھی اس پر پیار آیا
نہ لیکر جایا کرے اسے بچی ھے ابھی دیکھے نہ کتنی تھک گٸی ھے
نہیں نوری وقت بدلتا ھے کیا پتہ کل یہ سب اسکے کام آجاٸے کرنے دو اسے یہ سب ہم ہمیشہ اسکے ساتھ نہیں ہونگے
نوری نے حیران ہوکر شوہر کی طرف دیکھا جو پیار سے اپنی جنونی بیٹی کو دیکھ رہے تھے
مگر مرزا آپ جانتے ھیں یہ تو ھے ہی بے وقوف ہر کام جنون سے کرتی ھے آپ اس سے کہے کے کام نہ کیا کرے جنونی ہوکر
نہیں بیگم یہ جنون ہی اس کی طاقت بنے گی
ایک تو آپ دونوں کی باتیں اب چلیٸے
نوری بیگم نے ہنستے ہوٸے کہا اور زہل کو جگا کر سب نے کھانا کھایا
اسی طرح انکی خوش زندگی گزرتی گٸی
زہل دیر ہورہی ھے بیٹے
بس آرہی ہوں ڈیڈی
مرزا صاحب کے دوست کے بیٹے کی شادی تھی میرول اور نوری بیگم کب سے گاڑی میں بیٹھے انکا انتظار کر رہے تھے زہل تیار ہورہی تھی
آگٸی ڈیڈی چلیں
نہیں کل چلے جاٸیں گے آج تو شادی نہیں ھے
میرول نے جل بھن کر کہا جس پر سب ہنسنے لگے
موٹے کیوں چیخ رہا ھے آرہی تھی تیار ہونے میں وقت لگتا ھے
تیار نہیں اسے میک اپ تھوپنا کہتے ھیں
اب کی بار زہل نے گھور کر کہا اور میرول نے مسکراہٹ دباتے ہوٸے آنکھیں نکالی
زہل بیٹے جاٶ سامنے شوپ سے بوکے لیکر آٶ میں نے آرڈر دیا تھا
جی ڈیڈی
میرول نے کارڈ تھام کر کہا اور گاڑی سے اتر کر روڈ پار کرنے لگی
ڈیڈی آپ ہمیشہ زہل کو ہی کیوں کہتے ھیں کام کیلٸے
میرول نے منہ بنا کر کہا نوری نے مسکراتے ہوٸے شوہر کی طرف دیکھا اور اشارہ کیا کے اب سمجھاٶ
بیٹے وہ اسلٸے کہ وہ لڑکی ھے اور میں چاہتا ہوں وہ مظبوط ہوجاٸے بہادر نڈر ہوجاٸے اپنے کام خود کرے آپ تو مرد ہو نا آپ کو تو اللہ نے بہادر بنایا ھے پر وہ تو صنف نازک ھے سمجھ آٸی بیٹا
مرزا ملک بیٹی کو دیکھتے ہوٸے دھیمی مسکان سے کہہ رہے تھے جو روڈ کے پار کافی دور گلی میں بنے فلاور شوپ میں کھڑی کسی کے کان کھارہی تھی اور وقفے وقفے سے انہیں بھی دیکھ رہی تھی
جی ڈیڈی اب سمجھ گیا آج کے باد میں اپنے سب کام زہل سے ہی کرواٶں گا
ڈیٹس ماٸے بوٸے
ڈیڈی نے اسکے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوٸے کہا زہل نے انکی طرف دیکھا تو پھول اسکے ہاتھ سے گھیرگٸے
ڈیڈی
وہ چیختے ہوٸے بھاگ رہی تھی دور ہونے کی وجہ سے انہیں آواز نہیں آرہی تھی جیسے ہی مرزا صاحب نے زہل کی طرف دیکھا پیچھے سے آتا ٹرک جسکا شاید بریک فیل ہوچکا تھا بری طرح انکی گاڑی سے ٹکرایا اور انکی گاڑی سامنے کار سے ٹکراٸی وہ چیختے ہوٸے بھاگ رہی تھی
ڈیڈی ممی میرول
آس پاس کے لوگوں نے ایمبولینس کو کال کی
وہ بھاگ کر آٸی تو گاڑی کی بری حالات ہوچکی تھی اور مرزا صاحب نوری میرول انکا تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا وہ بلک رہی تھی چیخ رہی تھی کوشش کر رہی تھی انہیں نکالنے کی گاڑی کے ٹوٹے ہوٸے حصوں پر اسکے ہاتھ کٹ گٸے تھے جسم کے بعض حصوں سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا پر اس کوٸی پرواہ نہ تھی اسے بس اپنے ماں باپ اور بھاٸی کی فکر تھی
می میر میرول اٹھ اٹھ نا یار مم ممی ڈیڈی اٹھ جاٸے نہ آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے ممی پلیز میں اکیلے کیا کرونگی ڈیڈی
وہ دیوانہ وار چیخ رہی تھی آس پاس کے لوگ بھی اس پیاری بچی کے درد غم میں شریک ہوکر رورہے تھے زہل کی آواز میں اسکی چیخوں میں تڑپ تھی جو سب کو رولا رہی تھی سب اسے خاموش کروارہے تھے پر وہ خاموش ہونے کا نام نہیں لیرہی تھی بلک رہی تھی دٸیا بھی آگٸی تھی گاڑی سے انہیں لوگوں نے بمشکل نکالا راتوں رات ہی جنازہ پڑواکر دفنایا گیا اس دوران زہل رورہی تھی بلک رہی تھی چیخ رہی تھی اپنے آپ کو تکلیف دیرہی تھی کوٸی اسکے نزدیک آتا اسکے زخموں پر پٹھی لگانے وہ چھری سے خود کو اور زخمی کرتی اس وجہ سے کوٸی اسکے پاس نہیں جارہا تھا جنازے کے وقت زہل بے ہوش ہوگٸی تھی کیوں کے اسکا کافی خون بہہ چکا تھا دٸیا نے خود کو بمشکل سمبھالا تھا زہل کیلٸے زہل کو جب ہوش آیا تب وہ زہل ملک بن گٸی تھی بلکل خاموش ہوش آنے کے باد اس سے مرزا صاحب کی سیکریٹری ملنے آٸی تھی اور تب سے وہ زہل ملک بن گٸی تھی کیا راز تھا جو وہ کہہ کر گٸی تھی جسنے اس معصوم بچی کو جنونی بنادیا تھا یہ تو وقت ہی بتاتا کیوں کے زہل ملک نے اپنے لب قفل کرلیٸے تھے
**
مجھے جنون کی حد تک نفرت ھے اس شخص سے جس نے میری دنیا اجھاڑ دی
**

درش ممبٸی کا ڈون تھا بہت بڑا خاندان تھا اسکا پر کسی کی نہ بنتی تھی اس سے صرف اسلٸے کے یہ غنڈہ تھا ہر غلط کام کرتا جوّا کرتا مرڈر کرتا چوری چکاری کرتا لوگوں کو اغوا کرتا بتہ لیتا ریپ کرتا بچیاں لڑکیاں عورتیں کسی کی عزت کو نہ چھوڑتا شارپ شوٹر تھا ممبٸی پر راج کرتا دنیا ڈرتی تھی اس سے پولیس اسکے انڈر کام کرتی اسکی کوٸی کمزوری نہ تھی سواٸے اسکے بیٹے عداون کے عداون میں اسکی جان بستی تھی درش کی بیوی عداون کے پیدا ہوتےہی مرگٸی تھی جس کا غم آج تک درش مناتا پر جب بھی اسے اسکی بیوی یاد آتی وہ کسی کا ریپ کرلیتا نشے کی حالت میں عداون چھوٹا تھا اسے سمجھ نہیں تھی ان سب کی اسے معلوم نہ تھا کہ اس کے باپ کے روپ میں کتنا بڑا شیطان ھے وقت گزرتا گیا عداون بڑا ہوتا گیا باپ نے عداون کو پڑھایا لکھایا پر کہتے ھے نہ انسانیت تعلیم سے نہیں آتی اسی طرح عداون بھی باپ کی طرح غنڈہ بن گیا پر عداون میں ایک بات مختلف تھی وہ عورتوں کی بہت عزت کرتا اور باپ سے اس پر ہمیشہ جگڑتا کہ یہ عورتوں کی عزت لوٹنا چھوڑ دے پر وہ نہ مانے ایک دن عداون نے باپ سے لڑاٸی کی اور شہر چھوڑ کر حیدرآباد دوست کے پاس چلا گیا باپ نےبھی اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا وہ وہاں مزے سے رہنے لگا پراپنی غنڈہ گردی وہاں بھی کرتا ایک دن اسے پتا چلا کے اسکے باپ کی موت ہوگٸی ھے اس پر جیسے قیام ٹوٹ پڑی وہ تو صرف ناراض ہوا تھا چنددنوں کیلٸے پر اسکے باپ نے تو اسے ہمشہ کیلٸے اکیلا چھوڑ دیا وہ واپس آیا باپ کی آستیاں جلاٸی اور پھر سے اپنے کام پر لگ گیا بلکے باپ کی جگہ اسکو مل گٸی وہ اپنے باپ سے بڑا غنڈہ بن گیا پر غنڈہ وہ امیروں کیلٸے تھا دھوکے بازوں کیلٸے تھا اور قانون کیلٸے تھا اور غریبوں کیلٸے مسیحا تھا غریب اسکی بہت عزت کرتے عداون کے نام پر مر مٹھنے کو تیار تھے سب اور کسی میں ہمت نہ تھی کہ عداون بھاٸی سے پنگا لیتے پر آج کسی نے لیا تھا پنگااور وہ بھی ایک لڑکی عداون کی زندگی میں آج تک ایسی کوٸی نہ تھی عداون کو ڈری سہمی لڑکی دیکھ کر الجن ہوتی آج اسے دیکھ کر عداون کے دل کو کچھ ہواپر وہ کہہ دیتا ایسا ہونا ناممکن تھا
**
مجھے جنون کی حد تک محبت ھے اپنے کام سے اور اپنے پیتاجی سے
**

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
‎❤
Give You Precious Feedback Guys 😊 And Stay Blessed 🌹
Sorry For Late😇

زہل عداون ❤ Completed ✔Where stories live. Discover now