Episode 1

10.3K 331 77
                                    

دسمبر کی سخت سرد رات تھی۔ کھڑکی سے باہر چاند بادلوں کی دھند میں چھپا ہوا تھا۔ اتنی سردی میں بھی اسے پسینہ آ رہا تھا۔ وہ بچپن سے ہی اس کمرے میں آیا کرتی تھی لیکن اج جس حیثیت سے وہ یہاں موجود تھی یہ اس کے لئے ناقابل برداشت تھا۔انسان کی زندگی میں ایسے بھی لمحات آتے ہیں جب انسان بلکل بے بس ہو جاتا ہے۔ بلکل بے بس!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ آج مہندی کا فنکشن تھا۔ پورے لان میں چہل پہل ہوتی نظر آرہی تھی۔ ہر طرف حل چل لگی ہوئی تھی اور پورا گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ مہر النساء پرپل کلر کا پیپلم اور شرارا پہنے براؤن لمبے بالوں کو کھلا چھوڑے بڑی بڑی براؤن آنکھوں میں کاجل لگائے ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ مسکراتے ہوئے ادھر سے ادھر جاتی وہ سب کی نظروں کا مرکز بن رہی تھی۔
"ارے چڑیل کہاں جا رہی ہو؟"احمر نے تیز تیز چلتی مہرو کو روکا۔
"احمر بھائی آج میں بہت بزی ہوں آج مجھے بہت سے کام ہیں۔ ابھی مجھے ارتضیٰ بھائی کو بلانے جانا ہے پھر کنزہ آپی کو لانا ہے۔ اُف بہت کام ہے۔"
مہرو عجلت میں بولتی اوپر کی طرف بھاگی۔
دروازے پر دستک دے کر اجازت ملتے ہی اندر چلی آئی اور ابھی تک ارتضیٰ کو آئینے کے سامنے کھڑے دیکھ کر جھنجھلاتی ہوئی بولی
"ارتضیٰ بھائی! حد ہوگئی ہے آپ نے تو تیار ہونے میں لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔"
"تیار ہوں یار بس یہ بال نہیں بن رہے۔"ارتضیٰ اپنے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
"ایک کام کرتی ہوں میں۔ "مہرالنساء کی آنکھیں شرارت سے چمکیں۔
"میں نا اپنا پراندہ لا کر دیتی ہوں آپ کو۔ آپ وہ لگا لیں قسم لے لیں کنزہ آپی تو آپکو دیکھتے ہی فدا ہو جائیں گی۔"مہرو شرارت سے بولی اور قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔
ارتضیٰ ہاتھ میں پکڑا برش اسے مارنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ مہرو جھپاک سے کمرے کا دروازہ بند کرتی باہر کو دوڑھی۔
"پورے ڈھول والے لگ رہے ہیں۔"
مہرو جاتے جاتے بھی شرارت سے باز نہیں آئی تھی اور ارتضیٰ بس دانت کچکچا کر رہ گیا۔ وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی سب کو تنگ کر کے رکھنے والی اور ارتضیٰ تو اس سے کچھ زیادہ ہی تنگ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کا فنکشن شروع ہو چکا تھا۔ رونق اپنے عروج پر تھی۔ پورا لان مہمانوں سے بھرا پڑا تھا۔
ارتضیٰ اور کنزہ کو بھی ایک طرف بنے سفید اور پیلے پھولوں سے سجے سٹیج پر لا کر بٹھا دیا گیا تھا۔ہمیشہ سنجیدہ رہنے والے ارتضیٰ کی شوخیاں آج عروج پر تھیں۔ سفید شلوار قمیض پر نیلی واس کوٹ پہنے بالوں ماتھے پر گرائے وہ بے حد دلکش لگ رہا تھا۔ اسکی بھوری آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ کزنز اور دوستوں کے جھرمٹ میں بیٹھا بات بے بات مسکراتا وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا۔
لگ تو کنزہ بھی کم نہیں رہی تھی۔ گرین اور اورنج کومبینیشن کا شرارا پہنے ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی لیکن اس کی آنکھوں میں ویسی چمک نہیں تھی جو ارتضیٰ کی آنکھوں میں تھی۔ وہ دونوں ساتھ بیٹھے ایک مکمل جوڑے کا نظارہ پیش کر رہے تھے مگر کچھ تھا جس کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مہرو۔۔مہرو بیٹا زرا اوپر سے پھولوں کی ٹوکری تو لے آؤ۔"تائی جان نے اندر کی طرف جاتی مہرو سے کہا۔
"جی تائی جان۔"مہرو ابھی اوپر جانے ہی والی تھی کہ احمر اسے آواز دیتا اندر آیا۔
"مہرو تمہیں باہر کنزہ آپی بلا رہی ہیں۔ پھولوں کی ٹوکری انعم لے آۓ گی تم باہر چلو۔"احمر مہرو کے ساتھ کھڑی انعم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
"جی میں لے آتی ہوں۔"انعم کہتے ہی اوپر کی طرف چل دی۔
"احمر بات سنو۔"اس سے پہلے کہ تائی جان احمر سے کچھ کہتی وہ امی جان میں ابھی آیا کہہ کر اوپر کی طرف لپکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انعم پھولوں کی ٹوکری اٹھا ہی رہی تھی کہ کسی کے گنگنانے کی آواز سن کر پلٹی۔احمر کو دروازے میں کھڑا گنگناتا دیکھ کر حیرت سے پوچھ بیٹھی۔
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"
"ویسے ہی کیا میں یہاں نہیں آ سکتا۔۔؟ "احمر آنکھوں میں شرارت لیئے گویا ہوا۔۔۔
"راستہ دیں۔"انعم اس کی بات نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔۔
"نا دوں تو۔؟ "احمر شرارت سے بولا۔۔
اس سے پہلے کہ انعم کوئی جواب دیتی باہر سے آنے والی آواز پر دونوں چونکے۔
"انعم لے بھی آؤ ٹوکری۔"احمر کو مجبوراََ اسے راستہ دینا پڑا۔انعم موقع کو غنیمت جان کر فوراََ نیچے کی طرف لپکی۔
احمر کی نظروں نے انعم کا دور تک تعاقب کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کا فنکشن بھرپور رونق کے بعد اب ختم ہو گیا تھا۔سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کی غرض سے جا چکے تھے۔ارتضیٰ اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا کنزہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
کنزہ ہمیشہ سے ہی اس کی اچھی کزن رہی تھی لیکن اس نے کبھی کنزہ کے بارے میں اس طریقے سے نہیں سوچا تھا جیسا کہ اب سوچ رہا تھا۔
اس رشتے کے طے ہونے کے بعد سے ہی اس کے دل میں جذبات نے جنم لیا تھا۔وہ اس رشتے سے بہت مطمئین تھا۔ جو کمی اس کی زندگی میں رہی تھی، جو خلش اس کے دل میں تھی شاید اس رشتے سے اب یہ سب ختم ہونے کو تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی کنزہ کی نظر اپنے فون پر پڑی یا پھر شاید سب سے پہلے وہ اپنا فون ہی چیک کرنا چاہتی تھی۔15 مسڈ کالز اور 30 میسیج دیکھتے ہوئے اس کا اضطراب مزید بڑھ گیا۔چہرے پر چھائی بے چینی اب پریشانی میں بدل چکی تھی۔اس نے فوراََ سے اس نمبر پر کال بیک کی۔ وہاں سے بھی فون فوراََ ہی اٹھا لیا گیا۔ دونوں طرف بے چینی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"TAQDEER" (COMPLETE)Where stories live. Discover now