episode 7

10 6 11
                                    

گاڑی پارکنگ ایریا میں روکتے اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائ۔میٹنگ سے بری طرح تھکی ہاری وہ فاطمہ کی فرمائش پر اسے پک کرنے آئ تھی۔وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اس چھوٹی سی لڑکی میں ایسا کیا تھا کہ وہ چاہ کر بھی اسے نہیں ٹال پائ تھی ۔آئلا کے ساتھ دور سے آتی فاطمہ کو دیکھتے اسنے گہرا سانس لیا ۔آج اس نے سب معمول سے ہٹ کر کیا تھا صرف اسکے لیے!
"آئلا یہ سس ہیں میری بیلا، کل ہی برلن سے آئ ہیں اور یہ میری سائکولوجسٹ آئلا جاوید " فاطمہ نے دونوں کا تعارف کروایا۔اسے سمجھ نہیں آریا تھا کیا کہے ۔یہ پہلی بار تھا جب اسے ڈرائیور کے بجائے کوئی فیملی ممبر لینے آیا تھا۔
"فاطمہ کیا تمہاری سسٹر مجھے بھی گھر ڈراپ کر دے گی؟ آئلا بات تو اس سے کر رہی تھی پر دیکھ بیلا کو رہی تھی۔جبکہ اس انوکھی فرمائش پر وہ گڑبڑای۔ اسکی اتنی فرینکنیس نہیں تھی کہ وہ بیلا سے فرمائش پر فرمائش کرتی جاتی۔۔.
" شیور مس جاوید! " بیلا نے کہتے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تو فاطمہ اور آئلا بھی پچھلی سیٹ پر براجمان ہوئیں ۔البتہ فاطمہ کے لیے دونوں کا رویہ ہی حیران کن تھا۔گاڑی جھٹکے سے سٹارٹ کرتے بیلا نے سپیڈ بڑھائی تھی ۔موسم جتنا خوشگوار تھا ۔گاڑی کے اندر اتنی ہی خاموشی تھی۔
"آئلا لگتی نہیں نہ اتنی بڑی ڈاکٹر؟" آخر فاطمہ نے ہی آئلا کیے گھر کی لوکیشن ڈالتے وحشت بھری خاموشی کو توڑا تھا
"تمہیں پتا ہے میں سائکولوجسٹ کیوں بنی؟"
"کیوں؟" اس نے استفسار کیا! بیلا ہنوز ونڈو سکرین پر نظریں جماۓ بیٹھی تھی
"میں سکول میں تھی پھر ہائی سکول اور پھر یونی اس سارے عرصے میں ایک لڑکی میری کلاس فیلو رہی ہے۔میں اسے دور سے دیکھتی تھی۔مگر وہ بہت خاموش اور عجیب سی تھی۔ اسکا کوئی دوست نہیں تھا؛ وہ دوسروں کو بری نہیں لگتی تھی، بلکہ دوسرے اسے برے لگتے تھے۔پھر میں نے سوچ لیا کہ میں بڑی ہو کر سائکولوجسٹ بنوں گی اور اسکا علاج کروں گی " آئلا نے تفصیلی جواب دیتے آخری بات مزاح میں کہی تو فاطمہ بھی ہنسی
" کیوں وہ پاگل تھی کیا؟ "
" نہیں وہ سائیکو تھی ۔" گاڑی جھٹکے سے قیصر شاندار کے سامنے رکی
" آپ نے اس لڑکی کا علاج کیا پھر؟ " فاطمہ نے اسے گاڑی سے نکلتا دیکھ کر شیشے سے سر نکال کر پوچھا۔
"نہیں وہ بڑی بزنس وومن بن گئ تھی۔اس سے ملنا کبھی بھی اتنا آسان نہیں رہا تھا۔ میں پھر اس سے ملی ہی نہیں اور پاکستان آگئی۔"
" آپ اس سے دوستی کر لیتیں ناں" وہ اداس سی بولی گویا اسے برا لگا ہو اس لڑکی کا ابھی تک اکیلا (سائیکو) رہنا....
"وہ کچھ بھی ہو سکتی تھی مگر میری دوست نہیں" بیلا نے بھینچے لبوں سے اسے دور جاتے دیکھا۔
" اور ہاں وہ ہر وقت اپنے ہونٹ بھینچے رکھتی تھی گویا مسکرانا حرام کر گئ ہو خود پر " دروازے سے اندر جاتی وہ مڑی اور پھر مسکرا کر پیچھے دیکھتے زرا اونچا بولی۔بیلا نے بھی پہلو بدلہ۔
"پاگل لڑکی! " بیلا نے اسے پرانا خطاب دیا اور گاڑی سٹارٹ کی........
..............
وہ آہستہ آہستہ چلتی جنت بی بی کے کمرے میں داخل ہوئ۔تو ٹوپی والا برقعہ سیٹ کرتیں انہوں نے بھی اسے دیکھا
"کہیں جا رہی ہیں؟" سوال پوچھتے وہ وہی انکے بیڈ پر ٹک گئ ۔تو وہ بھی برقعہ سر پر ٹکاتے اسکی جانب مڑیں
"ہاں بازار جا رہی ہوں تمہارے نانا کے ساتھ۔ریان کی سویٹر میں اون کم پڑھ گئ ہے وہی لینے ۔تم زرا میری بات دھیان سے سنو" دادی نے تفصیلی جواب دیتے اسے اپنے پاس بلایا تو وہ بھی ناسمجھی سے انہیں دیکھتی اٹھی اور انکے قریب چلی گئ ۔اسے کندھے سے تھامتے وہ جھک کر سمجھداری سے بولیں دھی دیکھ میری بات اپنے پلو سے باندھ لو ۔یہ جو شو ہر ہوتے نا انکے دل کا رستہ پیٹ سے ہو کر جاتا ہے۔اگر تو کھانا بنانا نہیں آتا تو سمجھ جاؤ تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔اس لیے اب اٹھو اور کچن کا رخ کرو۔" دادی نے تھوڑا رعب سے سمجھایا تو وہ بھی ٹھٹھکی۔گویا دادی نے سگھڑاپے کی مہم آج سے ہی شروع کر دی تھی ۔ریان جو نیچے کسی کام سے آیا تھا اب ان کی باتیں سننے لگا
"نانی جان میں کیسے ۔........... " وہ بے چین ہوئ۔جب ہی دادی نے اسکی بات بیچ میں ہی کاٹ دی
"میں کیسے کیا مطلب؟ کرنا تو ہے نا ایک نہ ایک دن تو کیوں اپنی بے عزتی کروا کے کرو گی ۔اب اٹھو اور کچن میں جاؤ ۔ایک کپ چاۓ بنا کر ریان کو دے آؤ ۔وہ اوپر ٹریس پر ہے۔زیادہ کوئی پہاڑ نہیں تڑوا رہی تم سے" دادی کا لہجہ ویسا ہی تھا جیسے دادا کا ریان کے انکار پر تھا ۔پوتے میں انکی جان تھی تو کیسے اسکے خدشات کو دور نہ کرتیں۔۔۔۔
انکو باہر نکلتا دیکھ کر ریان جلدی سے سیڑھیاں پھلانگتا چوبارے پر چلا گیا۔دادی دادا کے سنگ باہر نکلتی اسے دروازہ بند کرنے کی ہدایت کرتی گئ تھیں ۔البتہ نظروں میں تنبیہ تھا۔یعنی کہ چاۓ تو بنانی ہی پڑنی تھی ۔
"اففف میں یہ کیسے کروں گی؟" اسے چاۓ بنانا کوئی پہاڑ سر کرنے جیسا لگا تھا۔اس نے کبھی چاۓ بنانا تو دور چاۓ چکھی بھی نہیں تھی۔جب کہ ریان اب سارا شو دیکھبے لیپ ٹاپ اٹھاتا نیچے ہی آگیا تھا۔صحن میں کین پر بیٹھتے ٹانگیں میز پر پساریں اور اب کچن کی جانب رخ کیے نظریں سکرین پر جما دیں ۔کچھ پل تک تو کوئی کھٹ پٹ کی آواز نہیں آئ تھی ۔پھر اچانک ایزل دادی کے کمرے سے نکلی اور مرے مرے قدموں سے کچن کا رخ کیا۔
کچن میں داخل ہوتے پہلا معرکہ جو اس نے تہ کیا تھا وہ سلنڈر جلانا تھا۔ماچس جلاتی تو سلنڈر جلاتے جلاتے ماچس کی تیلی ہی بجھ جاتی تھی ۔دو سے تین بار جب یہی ہوا تو اس نے ایک کھا جانے والی نگاہ سلنڈر پر ڈالی اور پھر اس کے بٹن کو فل گھماتے تیلی جلائ اور اس پر رکھ دی ۔آگ یک دم بھڑکی۔جس کو فوراً اس نے آہستہ کر دیا۔
"چلو ایزل زید تم سے سلنڈر تو جلا" جیسے خود کا مزاخ اڑایا گیا ہو۔ فون آن کیا اور یوٹیوب سے ایک وڈیو سرچ کرنے کے بعد پلے کر دی ۔وہ عورت اب چاۓ بنانا سیکھا رہی تھی.۔...
اس وقت اگر کوئی اور اسے دیکھ لیتا تو یقیناً اسے چاۓ بنانا دیگ پکانے جیسا لگتا۔جیسے تیسے اس نے دیکج دیکھ کر چاۓ بنائ اور پھر اس عورت کے کہنے کے مطابق دم پر رکھ دی۔.
اب کپ نکالا اور کتیلی سے چاۓ کپ میں انڈھیلنے لگی ۔وہ اس سب میں اتنا محو تھی کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کب ریان وہاں آن کھڑا ہوا تھا ۔اور اب سینے ہر ہاتھ باندھے کچن کے دروازے سے لگا کھڑا بڑی دلچسپی سے اپنی ہونے والی زوجہ کو محنت کرتا دیکھ رہا تھا۔اچانک ایزل کی نظر اس پر پڑی اور چاۓ اسکے ہاتھ پر چھلک پڑی۔
وہ اس اچانک افتاد پر یک دم گڑبڑایا اور تیزی سے اندر داخل ہوا۔ایزل نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ہاتھ جلا تھا مگر ایزل کو اس جلن سے کچھ بھی اثر نہیں ہو رہا تھا۔یہ تکلیف اسکے لیے اتنی بڑی نہیں تھی۔مگر ریان کا یوں فکر مندی سے اسکے قریب اسکا ہاتھ جانچنا وہ عجیب تھا ۔وہ کب سے اسکی اتنی فکر کرنے لگا؟
ریان باہر گیا اور ٹوتھ پیسٹ ایزل کی شہادت کی انگلی پر لگائ ۔جو بری طرح جلس چکی تھی ۔ہلکی سی آہ ایزل کے لبوں سے نکلی تو ریان نے بھی اسے گھورا۔اسکی آنکھوں میں خفگی تھی ۔ایزل گڑبڑای
"احتیاط سے نہیں کر سکتی تھی کیا؟"
"مجھے پتا ۔۔۔ہی.,..... نہیں چلا اور....." وہ خاموش ہو گئ ۔شاید وہ وضاحت نہیں مانگ رہا۔وہ اسے ڈانٹ رہا تھا۔
"ایک کپ چائے بنائی۔ اور وہ بھی گرا دی" ریان کا جملہ مانو دل پر چھریاں چلا گیا تھا ۔ایزل نے اس سے ہاتھ فوراً کھینچا اور پھر خفگی اور غصے بھری نگاہ ڈالتی اندر بھاگ گئ۔ریان نے حیرت سے یہ منظر دیکھا تھا ۔وہ تو بس مزاق کر رہا تھا. اب اس میں برا منانے والی کیا بات تھی؟کندھے اچکاتے وہ گھور کر رہ گیا
"لو جی اس کو تو واقعی کچھ نہیں آتا" اسکے جابے کے بعد وہ بھی کچن سے نکلنے لگا تھا تب ہی نظر فون پر پڑی جسکی سکرین پر کئی ویڈیوز دیکھائ جا رہی تھیں ۔جو سارے چاۓ بنانے کے طریقے تھے۔ تو شہزادی صاحبہ نے آن لائن کر کے چاۓ بنائ تھی۔ریان نے ہنسی دبائ اور پھر آدھے چاۓ کے کپ کو دیکھا۔چاۓ تھوڑی تھی مگر خوش شکل تھی۔وہ مسکرایا اور آگے بڑھ کر کپ تھام لیا۔کپ لبوں سے لگایا ہی تھا کہ اگلے ہی پل کھانستے ہوئے پاس ہی سنک میں قے کر دی۔یہ کیسی چا٦ تھی بھلا۔کلی کرتے مڑا اور پھر پاس پڑے ادھ کھلے نمک کے ڈبے کو گھورا ۔چینی کی جگہ نمک ڈال گئ تھی وہ۔اچھا ہوا گر ہی گئ چاۓ ۔اسنے غصے سے سوچا تب ہی وہ واپس آتی دیکھائ تھی ۔وہ یک دم الرٹ ہوا تھا ۔.............
ایزل نے روئ روئ نگاہ ریان پر ڈالی اور پھر منہ بناتے اسے اگنور کرتی آگے بڑھی ۔اپنا فون اٹھایا اور واپسی کو مڑی۔ابطی دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ ریان کی آواز نے قدموں کو جھکڑا
"دوبارہ چاۓ بناو اور اس بار میٹھی بنانا مجھے نمکین چاۓ نہیں پسند" وہ نہیں جانتا تھا اس نے اپنی ہنسی کیسے ضبط کی تھی۔جبکہ اگلی زخمی شیرنی کی طرح مڑی اور اس پر بپھری تھی۔
"میں آج یا آج کے بعد کبھی بھی چاۓ نہیں بناؤں گی۔نا نمکین اور نا میٹھی۔تم نے شادی کرنی ہے تو کرو نہیں کرنی تو مجھے رشتوں کی کمی نہیں ہے۔سمجھے؟ " کھڑکی سے آتی ہوا یک دم ان دونوں کے بیچ آئ تھی ۔وہ اسکے قریب کھڑی خون خوار نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔بھیگی پلکیں، گلابی پڑتے گال اور ہوا میں اڑتے کمر سے نیچے تک جاتے بال۔ریان کو وہ آج سے پہلے کبھی اتنی خوبصورت نہیں لگی تھی یا شاید یہ اس رشتے کی بابت تھا جو انکے بیچ استوار ہونے لگا تھا۔وہ بے اختیار اسے دیکھتا گیا۔کچھ پل بیتے تھے جب وہ دوبارہ ہوش میں آیا ۔وہ ابھی بھی کچھ کہہ رہی تھی ۔ریان نے سماعتوں کو جھنجھوڑا
" اب دنیا میں رومیو جیولیٹ نہیں ہوتے ہیں ریان حسن! انسان بہت پریکٹیکل یو گیا ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔کیا فائدہ ہے؟ یوں انتظار انتظار میں عمر گزار لینے کا؛یا یوں محبت کے نام پر زندگی تباہ کرنے کا؟" وہ باقاعدہ چہرے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ہاتھ نچاتے نچاتے کہہ رہی تھی۔اڑتے بال چہرے پر بکھرے تو وہ انہیں کان کے پیچھے اڑیستی ریان کو دیکھنے لگی ۔وہ کچھ نہیں بولا تھا ۔ایزل نے بھی آنکھیں گھمائ اور یہ جا وہ جا؛ پیچھے کھڑے ریان نے کنپٹی پر ہتھیلی مارتے خود کو ہوش میں لانا چاہا تھا
....................
سکول میں داخل ہوتے اسے ایک ہی سوچ نے گھیرا ہوا تھا۔ کہ وہ کیسے بتاۓ گا کہ اسکے خود کے فادر اسے سپورٹ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔اگر سب نے اس سے پوچھا تو وہ کیا جواب دے گا۔کتنی شرمندگی کی بات تھی یہ۔خود کو سنبھالتے وہ کلاس میں انٹر ہوا تو کلاس میں غیر معمولی طور پر سب بہت خوش تھے۔جبکہ انہیں تو ابھی تک کوئی سپونسر نہ ملنے پر فکرمند ہونا چاہیے تھا ۔۔
"میگ! سر کہاں ہیں؟" اس نے فرسٹ رو کی کرسی پر بیٹھے میگنس سے استفسار کیا۔جو ساتھ ہی بیٹھے اپنے دوست سے بات کر رہا تھا۔
"ہاں وہ ابھی تمہیں ہی تلاش کر رہے تھے ۔شاید انہیں تمہیں سپانسر کا بتانا ہو۔با٦ دی وے ایلی تم ریڈی ہو؟ " میگنس کی بات پر وہ مزید شرمندہ ہوا۔اب کیا ہوگا۔
" ہاں ہم ریڈی ہیں ۔" اس نے میں کی بجائے ساری ٹیم کا ذکر کیا تھا
"ہاں ایلی تم اپنے ڈیڈ کو منع کر دو سپونسر کا۔کیوں کہ مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ کوچ اتنا بڑا سپانسر ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے" ایلی ٹھٹھکا ۔کون سا سپانسر؟ اب ایسا کون تھا جو اسکی ٹیم کو سپورٹ کر رہا تھا۔اسے لگا جیسے پل بھر میں لہروں نے اسے ڈوبنے سے بچاتے ہوۓ خود ہی ساحل پر پھینک دیا ہو
"کیا مطلب ہمیں کون سپورٹ کر رہا ہے ؟" اس نے سوالیہ نظروں سے میگ کے دوست کو دیکھا ۔جس نے یہ بات کی تھی۔
"ارے ہمیں لگا تم جانتے ہو گے۔ظاہر ہے وہ تمہارے ساتھ اکثر ملتیں بھی ہیں۔"
"تم کس کی بات کر رہے ہو مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہے؟" ایلی نے تجسس سے اسے دیکھا تب ہی ایک تیسرا لڑکا بولا تھا
" دی بزنس ٹائکون بیلا چوہان۔کیا انہوں نے تمہیں نہیں بتایا؟ " اور ایلی کی سوچ کا جہاز ٹھس کر کے زمین پر لگا تھا ۔حیرت پر قابو پاتے اب اسے غصہ بھی آرہا تھا۔
"یار مجھے تو یقین نہیں آہ رہا کہ انکی کمپنی ہمیں سپونسر کر رہی ہے۔" وہ سب حیران تھے۔اور اب نجانے کیا کیا بول رہے تھے جب کہ ایلی اب سمجھنے کی کوشش میں تھا ۔ایسا کون تھا جس نے بیلا کو بتایا ہے؟
.............
"مجھے لگتا ہے ۔تھوڑا لیٹ یو گیا میں۔" فریش فریش سے حلیے میں وہ اسکے سامنے آن بیٹھا۔مگر بیلا نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔زاویار دس منٹ لیٹ تھا اور وہ خود پندرہ منٹ پہلے ہی آگئی تھی۔ان پچیس منٹوں میں اسکا ذہن کئی سوچوں کے گرد گھومتا رہا تھا۔گرم سرد شاموں کے بیچ کی وہ شام زاویار زیدی اور بیلا چوہان کی دوسری ملاقات کی گواہ تھی۔یہ منظر شہر کے فائیو سٹار ہوٹل کا تھا۔لیم جوس کے گلاس کے گرد انگلی پھرتی وہ کسی گہری سوچ میں تھی۔
سورج نکلتا ہے ڈوب جاتا ہے۔شام آتی ہے تو ڈھل بھی جاتی ہے ۔پریشانی. غم، غصہ، خوشی یہ سب جذبات انسان کے اندر سے مشروط تھے۔فرق نہیں پڑتا تھا موسم، یا دن کیسا بھی ہو، بارش ہو یا دھوپ ہو۔انسان کا دل مطمئن ہو تو انسان مطمئن ۔دل خوش تو انسان خوش انسان کے باہر کیا ہو رہا اس سے انسان کو کم ہی فرق پڑتا ہے۔
انسان کو جو چیز متاثر کرتی ہے وہ اسکا اندر ہے۔ایک انسان کا صحیح تشخص اسکے اندر کا انسان ہے۔وہی ہے جو اس سے نیکی کرواتا ہے اور وہی ہے جو اسے برائ کی طرف لے جاتا ہے ۔وہی ہے جس نے اسے خوش رکھنا ہے اور وہی جس نے اسے اداس کر دینا ہے۔ہمیں بس اپنے نفس پر قابو کرنا آنا چاہیے۔
زاویار نے گہری تشویش سے مخترمہ کو دیکھا۔
"بیلا کام. کی بات کریں؟" زاویار نے اسکے سامنے چٹکی بجائ تو وہ بھی ماضی سے حال میں آئ تھی۔وہ بہت قریب تھی۔اپنی جیت سے ۔اپنے بدلے سے۔
"ہممممم میں نے تمہیں کہا تھا۔تمہیں اس مرڈر کی جگہ سے جو بھی ملا تھا وہ لانا" سنجیدگی سے بیلا نے اس سے پوچھا. اور پھر سوالیہ نظریں اس پر جمائیں۔وہی دھونس جماتا لہجہ ۔زاویار نے ناگواری سے پہلو بدلہ۔
"میں انسپکٹر سے ملا تھا۔وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔اسکا کہنا ہے کہ نہ ہی کوئی ثبوت تھا اور نہ ہی کوئی ایسی چیز جس سے جیس آگے بڑھ پاتا۔"یہ واقعہ ان پانچ آدمیوں کے قتل کا تھا۔جن کی رپورٹ زاویار نے بنائ تھی ۔بیلا وہ عاحد تھی جس نے زاویار کی بات سے اتفاق کیا تھا کہ وہ واقعی کچھ بڑا پلان کر رہے تھے۔جب کہ پولیس اس کیس کو کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کلوز کر چکی تھی۔
" زاویار میں ان سب کو جانتی ہوں۔وہ سب ٹی جے کے گینگ سے تھے اور یقیناً وہ کوئی ایسی انفارمیشن جانتے تھے ۔جسکے لیک ہونے کا ٹی جے کو خطرہ تھا ۔اسی لیے اسنے ان سب کو بڑی آسانی سے رستے سے ہٹا دیا" جوس کا گھونٹ بھرتے وہ پرسوچ انداز میں بولی تو زاویار نے بھی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائ۔جو بھی تھا وہ لڑکی کمال کی تھی۔اسے وہ اسکے باپ کے مقابلے میں کافی اچھی لگی تھی۔بلیو جینز کے ساتھ  وائیٹ ٹی شرٹ اور وائٹ لانگ کوٹ پہنے وہ سیمپل لک میں تھی ۔اسکے مقابلے میں زاویار شاید شوٹ سے آیا تھا۔اس نے جینز پر بلیو جینز کی ہی جیکٹ پہنی تھی ۔ٹی شرٹ بیلا جیسی ہی تھی۔
"بلکل ٹھیک۔اور مجھے لگتا ہے وہ انفارمیشن اس ڈائری میں ہے۔مگر افسوس ابھی تک میں اس ڈائری میں اسے ڈھونڈ نہیں پایا" زاویار نے کہتے جیب سے ایک نیلے کور والی چھوٹی سی ڈائری بیلا کے سامنے رکھی۔بیلا کی آنکھیں چمکی تھیں ۔چلو کوئی سرا تو ملا تھا اس عورت تک پہنچنے کا۔اسنے ڈائری کھولی اور صفحے پلٹنے لگی۔
" اس میں بظاہر کچھ بھی نہیں" اسنے سکون سے بیلا کی جلد بازی پر کہا تھا۔تو اسنے بھی ناگواری سے اسے دیکھا
"تو پھر تمہیں کون سی وحی نازل ہوئی ہے کہ یہ ہمیں ٹی جے تک لے جانے والی ہے؟"
"کیوں کہ ان سب کا قاتل جو کوئی بھی تھا وہ اس ڈائری کے لیے واپس آیا تھا۔تو یقیناً اس میں ایسا کچھ تو تھا جس کے آگے اسکا خود کے پکڑے جانے کا خوف بھی کم تھا" اسے یہ بات وہاں موجود ایک رہایشی نے بتائ تھی جسے اس آدمی نے پیچھے سے وار کر کے بے ہوش کر دیا تھا۔
"یہ نمبرز ۔......... " بیلا چونکی۔زاویار نے بھی آگے ہو کر بیٹھتے پہلے صفحے پر موجود ان نمبرز کو دیکھا ۔اس نے یہ پہلے نوٹ کیوں نہیں کیے تھے؟
"2413065" زاویار نے بلند آواز میں نمبرز کو پڑھا۔آخر ان کا مقصد کیا تھا۔اس سے پہلے وہ اس پر راۓ دیتی۔بیلا کا فون بجا۔اسنے جھنجلا کر فون کو دیکھا اور پھر سکرین پر جگمگاتے لفظ listener پر زبان دانتوں تلے دبائ۔وہ اٹھی اور کال سننے کے لیے لابی سے نکلتی باہر چلی گئ۔زاویار اب اسے گلاس وال سے دیکھ سکتا تھا۔جسکی اس کے جانب پشت تھی ۔اسی اثناء میں ویٹر آرڈر لینے آیا۔
"یار بس فرینچ فرائز لوں گا" دوستانہ انداز میں اس نے کہا تو ویٹر بھی حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھنے لگا وہ زاویار زیدی تھا۔
"سر پلیز آپ یہی رکنا میں اپنا موبائل دوست کے پاس رکھ آیا ہوں ۔مجھے آپ کے ستھ سیلفی لینی ہے" وہ بولا تو زاویار کا دل بھی ماتھا پیٹنے کو چاہا ۔اسی لیے اسنے بیلا سے کہا تھا کہ کوئی سنسان جگہ چلتے ہیں ۔کیوں کہ وہ فینز کو فیس نہیں کرنا چاہتا تھا۔دوسری طرف وہ اب ایلی کی کال سن رہی تھی
.....................
"آپ نے انا کو میری جاسوسی کے لیے رکھا نا؟" وہ شدید غصے میں تھا ۔بیلا مسکرائ
"میں تم سے کبھی بھی بے خبر نہیں رہنے والی ایلی خلیق" سوئمنگ پول کے پانی کو دیکھتی وہ سرسری سا بولی تھی۔
"کیوں کیا آپ نے سپانسر؟ میں جانتا ہوں آپ کو فٹ بال میں کوئی انٹرسٹ بھی نہیں" آواز میں خفگی تھی۔
" اس لیے کیا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ اگر کل کو مجھ پر کتاب لکھی جاۓ تو اسکے پہلے صفحے پر بڑا بڑا لکھا ہو ۔میں ایک ایسی لڑکی جو اپنی ہیلز پر پیسے اڑا سکتی ہے مگر ہائ سکول کے بچے کی خوشی کے لیے چند یورو خرچ نہیں لر سکتی ہے " بیلا نے مزے سے کہا۔تو وہ بھی آنکھیں گھما کر رہ گیا
" بات چند یورو کی نہیں ہے ۔ہزاروں ڈالرز کی ہے "
" ۔تمہاری طرح غریب نہیں ہوں۔تمہارے ساتھ میں تمہارے ڈیڈ کو بھی سپونسر کر سکتی ہوں " اسے غصہ تھا۔ایلی نے پہلو بدلہ۔ایک طرف اسکے خونی رشتے تھے اور ایک طرف بیلا تھی۔وہ دونوں لفظ دوستی کو نبھانا جانتے تھے۔..................
بیلا نے مڑ کر زاویار کو دیکھا جو اب اس ویٹر کے ساتھ سیلفی لے رہا تھا۔الوداعی کلمات کہتے اسنے فون رکھا ۔اور اب گلاس ڈور دھکیل کر اندر داخل ہوئ۔ویٹر تب تک جا چکا تھا
"تمہاری تو اچھی خاصی فین فالونگ ہے" بیلا نے امپریس ہونے کے انداز میں ہنستے ہوئے کہا تو اسنے بھی کندھے اچکاۓ
"تمہارے ڈیڈ والے شو کے بعد لوگوں کو میں اور بھی زیادہ ہی اچھا لگ گیا ہوں" وہ اسے تپانا کیسے بھول سکتا تھا ۔تب ہی اسے سگرٹ نکالتا دیکھ کر ٹھٹھکا
"اوہ پلیز یہاں نہیں۔میں نہیں چاہتا کوئی تمہیں میرے ساتھ بیٹھ کر سموکنگ کرتا دیکھ لے اور مجھ پرسکینڈل بن جائے" اسکی بات پر بیلا نے بھی اسے گھورا مگر ہاں سگرٹ کا بکس پاکٹ میں واپس رکھ لیا تھا
"تو کیا لگتا تمہیں ان نمبرز کا کیا لنک ہو سکتا ہے؟" بیلا نے ہی واپس توجہ نمبرز پر دلائ
"یہ تو کوئی بھی نمبر کو سکتے۔کوئی لینڈ لاین نمبر " یہ پہلا اندازہ تھا جو زاویار نے لگایا تھا
"یا کوئی فون نمبر؟" بیلا نے بھی تکا لگایا
"نہیں فون نمبرز کے 11 ڈجٹس ہوتے ہیں " زاویار کی بات پر وہ اٹھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ایک پین لے کر واپس آئ ۔اب ڈائری کے نیکسٹ پیج کو کھولتی وہ ان دونوں اندازوں کو لکھ چکی تھی
"چلو جو بھی چیز ہمارے ماینڈ میں آتی ہم اسے لکھتے جاتے ہیں"
"لانڈری کا نمبر بھی ہو سکتا " کہنے والا. زاویار تھا۔
"پوسٹ آفس نمبر؟" بیلا نے لکھا ۔اور اب جو جو انکے مائنڈ میں آیا وہ لکھنے لگے
"یہ بھی ہو سکتا ہے ۔یہ جو زیرو ہے یہ زیرو نہ ہو بلکہ (او) o ہو۔اور ہم. اسے زیرو سمجھ رہے ہوں ۔یا کوئی کوڈ ورڈ؟ " ٹانگ پر ٹانگ جماۓ وہ نمبرز کو گھورتے تجزیہ کرنے لگی۔البتہ زاویار خاموش رہا تھا۔اسے یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ کوئی سمگلنگ کا چکر ہے جو اگلے دو دن میں ہونے والی ہے۔اور ان نمبرز کے زریعے پتا لگوانے میں بہت وقت لگ سکتا تھا۔ویٹر آیا اور پھر فرینچ فرایز کی ٹرے رکھتے واپس کو جانے لگا تھا تب ہی اسکا پاؤں پھسلا اور اس سے پہلے وہ گرتا زاویار نے اسے تھاما
"آر یو اوکے؟" اس نے فکرمندی سے پوچھا تو وہ بھی سر ہلاتا جانے کو مڑنے لگا ۔واپس نشست سنبھالتے زاویار کی نظر بیلا کے پین پر رکی تھی۔اور جیسے گتھی سلجھ گئ ہو ۔وہ مسکرایا ۔
"میں جان گیا ہوں کہ یہ نمبرز کس چیز کے ہیں" اور بیلا نے سرعت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔جسکی نظریں اسکے پین پر تھیں ۔حیرت سے پین کو دیکھا۔اور پھر دیکھا ۔اور پھر مسکراتے ہوئے دیکھتی گئ۔وہ واقعی ہوشیار تھا۔
بیلا نے اسے اپنے ساتھ چلنے کی آفر کی تھی جس پر وہ منع کر گیا۔
"میں تب ہی آؤں گا جب میری انٹری کا ٹائم ہو گا" مزے سے کہتے اسنے فرینچ فرائز کا ٹکڑا منہ میں ڈالا تھا۔
......................
وہ آج صبح کی فلائٹ سے وہاں پہنچی تھی۔لاہور کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے وہ آس پاس سے بے خبر سیکرٹری کو کچھ کام سمجھا رہی تھی۔سگنل ریڈ تھا مگر اسنے گاڑی نہیں روکی تھی۔ اور آگے بڑھ گئ. تب ہی دوسری جانب سے آتی بائک بری طرح اسکی گاڑی سے ٹکرائ ۔اسنے جھٹکے سے بریک لگائ اور سامنے روڈ پر پڑے اس آدمی کو دیکھا۔جو اب غصے سے اٹھتا کپڑے جھاڑ رہا تھا۔ اسے چوٹ نہیں آئ تھی۔ مگر بائک بری طرح ڈیمج ہوئ تھی۔بیلا کا کوئی ارادہ نہ تھا. اسکو پوچھنے کا۔ مگر اسکی پکار پر اس نے ایک سائڈ پر گاڑی روکی۔
"اندھی ہو کیا مخترمہ کہ اشارہ نظر نہیں آیا۔ " شیشے پر بازو رکھے وہ جھکتے ہوۓ تپے تپے انداز میں بولا تو بیلا نے بھی گلاسز اتار کر سر سری نگاہ اس پر ڈالی
" اوہ ہیلو تم جانتے بھی ہو میں کون ہوں؟" شاکی نظروں سے. اسے دیکھا۔وہ کیسے اس سے بات کر رہا تھا ۔چوبیس پچیس سال کا وہ خوش شکل آدمی تھا. البتہ دور کھڑا ٹریفک پولیس کا اہلکار بھی ادھر آنے لگا تھا۔
" اوہ معذرت مخترمہ! میں بہت زیادہ معافی چاہتا ہوں ۔بھلا آپ کو کون نہیں جانتا اور آپکے باپ کو بھی ۔وہ تو لیجنڈ تھے نا۔ انہیں کے نام پر تو یہ روڈ بنی تھی ۔(ایم ایم عالم)"ریان نے معذرت بھرے لہجے میں کہا تو بیلا چونکی ۔پاگل تھا کیا وہ شخص؟
"اوہ ہیلو میرے ڈیڈ وہ نہیں ہیں" وہ اب گاڑی سے اترنے لگی تھی ۔کیا بولی جا رہا تھا وہ ۔اوپر سے میٹنگ کے لیے بھی دیر ہو رہی تھی۔
"تو پھر بی بی اپنے باپ کی روڈ سمجھ کر کیوں چل رہی ہو۔چلان کٹنا چاہیے تمہارا تو"
"کیا ہو رہا ہے میم کوئی مسئلہ؟" پولیس والے کا اس کے بغیر اگلی سے پوچھنا ہی اسکی امانتداری کا ثبوت تھا۔ریان نے سر جھٹک کر بائک اٹھائ اور بیلا کو دیکھا۔ جو خون خوار نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔ آنکھ کا کونہ دباتا وہ بائک کو کک مارتا نکل گیا ۔جب کہ پولیس اہلکار اس سے اب سارا معاملہ پوچھ رہا تھا۔جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوا تھا بیلا نے نگاہیں نہیں ہٹائیں تھیں
......

سنھری دھوپWhere stories live. Discover now