episode 4

31 8 6
                                    

Episode #4🌼❤️
نماز ادا کر کے اسنے جاۓ نماز اسکی جگہ پر رکھی اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھاتی بیڈ پر آ بیٹھی تھی اسے بہت کام کرنا تھا۔مگر ابھی اسے بیٹھے آدھا گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ سارہ زیدی اندر داخل ہوئ تھی
"آئلا یہ کیا حرکت ہے ۔تمہیں معلوم ہے نا باہر تمہاری خالہ اور زلفی آۓ ہوئے ہیں اور تم اس لیپ ٹاپ کو لے کر بیٹھ گئی ہو" آئلا نے اکتا کر ماں کو دیکھا۔بیٹی کے چہرے پر بہن اور بھانجے کے لیے بےزاری دیکھ کر انکا پارا ہائ ہوا تھا ۔
"مان لیا جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔مگر تمہیں یاد دلاؤں تو سب کیا دھرا تمہارا ہی ہے ۔انہوں نے کوئی زیادتی نہیں کی تمہارے ساتھ ۔جو تم ان سے یوں بےزار رہتی ہو۔خدا کی پناہ! مجال ہے جو سیدھے منہ سلام بھی کر لے یہ لڑکی ان سے" وہ اب شروع ہو چکیں تھیں تب ہی آئلا نے انہیں چپ کرانے کی خاطر جا کر سلام کر لینا ہی بہتر سمجھا اور پاؤں میں چپل گھسیڑتی ماں کے پیچھے پیچھے ڈرائینگ روم کی جانب بڑھی۔سامنے ہی صوفے پر ندرت خالہ اور اور زلفی بڑے دھڑلے سے بیٹھے تھے اسکی ماں اگر زلفی کی حقیقتوں سے واقف نہ تھی تو وہ دونوں تو تھے پھر بھی کیسے بےشرموں کی طرح اسکے گھر میں بیٹھے تھے۔آیلا نے غصہ ضبط کرتے ان سے سلام کیا البتہ زلفی کی کمینی نظریں اب اسکا دماغ خراب کر رہی تھیں
"کیسی ہو آئلا؟؟؟ تم تو ملتی ہی نہیں ہو۔" خالہ نے ہی پہل کی تو آیلا نے بھی ماں کو دیکھا۔ جبکہ انکی گھورتی نگاہوں پر لب کھولنے ہی پڑے
"خالہ بس پروفیشن ہی ایسا ہے۔وقت ہی نہیں ملتا کسی اور چیز کا"
"ہاۓ سارہ تم نے بھی بیٹی کو بہت مشکل پڑھائی کرا دی اب کیا فائدہ بھلا اتنی پڑھائی کا۔شادی کے بعد تو بچے ہی پالنے پوسنے ہوتے ہیں۔اور ویسے بھی لڑکیوں نے پڑھ کر کیا کر لینا بس پیسے ہی ضایع کرنے والی بات ہے۔میرا زلفی تو اتنا اوپن مائنڈڈ ہے۔ مگر زاویار تو مجھے نہیں لگتا اسے آگے نوکری کی اجازت دے گا " انکی بات پر جواب تو اسے بہت آۓ تھے مگر یہاں بھی ماں کا سوچ کر چپ ہو گئی تھی ۔بات تو سارہ زیدی کو بھی اچھی نہ لگی تھی مگر بہن کی محبت پر چپ ہی رہیں تب ہی سلام کرتا وہ اندر داخل ہوا جبکہ زیاط تو بھاگ کر سارہ زیدی کی گود میں چڑ گیا تھا
"ارے میرا شہزادہ! تم کہاں سے آگۓ؟" اسے ماں کی گود میں چڑھا دیکھ کر وہ ہنسی جبکہ سارہ زیدی اب اسے پیار کر رہیں تھی ۔زاویار زلفی پر اچٹتی نگاہ ڈالتا اب آئلا کے ساتھ ہی سنگل صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔  زلفی کے کھا جانے والے تاثرات کسی نے محسوس کیے ہوں یا نہ کیے ہوں آئلا نے ضرور کیے تھے ۔اور یہ احساس ہی سکون بخش تھا کہ اب اسکا شوہر اسکے ساتھ ہے تو زلفی تو کیا کوئی بھی اسکی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا
"وہ آنٹی زیاط بہت تنگ کر رہا تھا کہ سارہ دادو اور آئلا سے ملنا ہے ۔تو میں نے سوچا چکر لگا آتے ہیں ۔معلوم نہیں تھا کہ ندرت خالہ اور زلفی بھائی بھی آۓ ہوئے ہیں " گھٹنوں پر بازوں جماۓ براؤن شلوار قمیض میں وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔وہ شحص کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل ہو سکتا تھا۔
" بیٹا آپکا اپنا گھر ہے۔آپ جب مرضی آؤ اور زیاط تو جان ہے ہم سب کی " انہوں نے زیاط کے گال کھینچے جبکہ وہ اب چاچو کو دیکھ رہا تھا اسنے زاویار کو قیصر شاندار آنے کا نہیں کہا تھا بلکہ زاوی ایک دم خود آکر بولا تھا کہ وہ گھر جا رہے ہیں۔
سلیم جو کے انکا خاندانی ملازم تھا، چاۓ کے ساتھ کافی لوازمات اٹھا لایا تھا۔زلفی کے قریب پہنچ کر ابھی وہ اسکو چاۓ تھما رہا تھا کہ اچانک اسکا ہاتھ چھلکا اور گرم چاۓ زلفی کا ہاتھ جلسا گئ تھی
"واٹ رابش" وہ بمشکل چیخ ضبط کرتے غرایا۔ تو زاویار بھی ایک دم اٹھا اور اسکے قریب آک( چاۓزیادہ تو نہیں گری) دیکھنے لگا ۔جبکہ سلیم کا کام ہو گیا تو وہ بھی نکل گیا ۔اسکے قریب اسکا ہاتھ جانچتے زاویار اسکے کان کے قریب جھکا۔
" میری بیوی کو یوں نظر جما کر مت دیکھو مسٹر۔ورنہ نہ مرنے لائق چھوڑوں گا اور نہ جینے لائق " سرد لہجے میں دھمکی دیتا وہ اب پیچھے ہٹا اور ڈمپل کی نمائش کرتا جا کر جگہ واپس بیٹھ گیا ۔زلفی کا بس نہیں چل رہا تھا جان لے لیتا اسکی! مگر وہ زاویار زیدی تھا ۔آئلا ساری کاروائی ملاحظہ کرتے بمشکل ہنسی دبا رہی تھی۔
" ویسے زاوی تم زلفی بھائی کو اپنی نیو ایپیسوڈ میں گیسٹ کیوں نہیں لے لیتے۔لوگ بھی جان لیں گے زلفی بھائی کو" شرارت سے کہتے آئلا نے زاویار کو دیکھا
"بالکل کیا کہتے ہو زلکفل، پچھلا اگلا ریکارڈ تو ٹھیک ہے نا تمہارا؟ کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا نیکسٹ سنڈے میرے شو میں آنے پر؟؟؟ " گویا جلتی پر تیل چھڑکنا۔واقعی زاویار زیدی کو پراۓ پھڈے میں پڑنے کا زیادہ ہی شوق تھا۔ مگر یہاں تو پھڈا گھر کا تھا بلکہ گھر والی کا تھا۔
" نہیں میں بزی ہوں گا پھر کبھی سہی " روکھا سا وہ بولا تو سارا زیدی بھی مسکرائیں۔انہیں لگتا تھا زلفی بس ایسے ہی زاویار سے خار کھاتا ہے ۔جو ہوا اسے شاید بھول نہیں پا رہا ۔
زلفی نے جیسے تیسے چاۓ پی اور خالہ کو لے کر نکل گیا ۔جبکہ سارہ زیدی ارے ارے کرتی رہ گئ۔ وہانہیں گیٹ تک چھوڑنے کو باہر نکلیں تھیں اب پیچھے ان دو کے علاوہ زیاط تھا۔
"زیاط اپنی آئلا سے پوچھو کیا اسکی خالہ اسکا رشتہ لے کر آئ تھیں جو یہ انکے پاس یوں شرمائ لجائ سی بیٹھی تھی" زاویار کا میٹھا سا طنز آیلا کو آگ لگا گیا تھا
البتہ زاویار تو اب چاۓ میں بسکٹ ڈبوتا یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے اس کے علاوہ یہاں کوئی ہے ہی نہیں
"لے کر نہیں آئیں مگر لا تو چکی ہیں "غصے میں بول تو گئ مگر بعد میں احساس ہوا
"آیلا کیا مطلب تم اور زلفی انکل ۔۔۔۔" زیاط آنکھیں گول گول گھماتا بات درمیان میں چھوڑ گیا
بسکٹ ٹوٹا اور آدھا چاۓ کے کپ میں گر گیا۔اور جو منہ میں گیا اسکی بھی مٹھاس نہ رہی
" افف زیاط میں نے بس ایک بات کی ہے تم دونوں پتا نہیں بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہو "وہ چڑی
"ہممممممم! مگر یوں ہی کہتے کہتے کہیں سچ میں ہی نہ زلفی انکل کے پاس چلی جاؤ تم۔میری ٹیچر بھی اپنے کزن کے لیے ایسے ہی کہتی تھی اور پھر انکی شادی انہیں کے ساتھ ہو گئی تھی " زیاط کی بات پر دوسرابسکٹ ٹوٹا اور چاۓ میں ڈوب گیا۔زاویار نے ہاتھ صاف کرتے صوفے سے ٹیک لگا دی اسکا بھتیجا بسکٹ کو اسکے پیٹ میں جانے نہیں دے گا یہ تو تہہ تھا
"پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں" وہ کہتی ہوئی اٹھی اور گلاس وال کے پاس آکر کھڑی ہو گئ زاویار نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ اورنج کیپری اور شرٹ کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ تھا۔ جو نماز کی ادائیگی کے لیے جیسے حجاب میں لیا تھا تھا ویسے ہی ابھی بھی موجود تھا ۔
"مگر مٹھی بند کر کے دیکھو تو چار تو برابر ہی ہوتی ہیں" سامنے زیاط زیدی تھا جس سے بحث میں جیتنا ناممکن تھا
"تو سمجھ لو ۔میں وہ پانچویں انگلی ہو" مگر آیلا جیت سکتی تھی اس سے بھی اور اسکے چاچو سے بھی!
......................
"تم پر تو بیٹی کی محبت کی پٹی بندھی ہے۔اچھا ہے وہ ملک سے باہر ہے ۔تم کیوں میری زندگی تباہ کرنےپے تلے ہو" آواز میں بے چینی اور عجیب سا ڈر تھا۔چوہان صاحب نے فون کان سے ہٹاتے سکرین کو گھورا
"میں اسے مزید خود سے دور نہیں رکھ سکتا۔تم اچھے سے جانتی ہو وہ کیا ہے میرے لیے " چوہان صاحب کے انداز میں بیٹی کے لیے محبت ہی محبت تھی جیسے کہانیوں میں دیو کی جان اکثر ایک طوطے میں ہوتی ہے ویسے ہی زبیر چوہان کی جان بیلا چوہان میں تھی اور زبیر چوہان کو اپنی جان سے بھی عزیز تھا وہ طوطا
"اور تمہیں لگتا اسے تمہارے بارے میں معلوم یو گیا تو وہ تمہیں چھوڑ دے گی" سوال پر زبیر چوہان شدیدبد مزہ ہوۓ"تم اپنی زبان کو قابو میں رکھو ۔اور خبردار میری بیٹی کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو جان لے لوں گا میں تمہاری۔ اور جہاں تک بات اسکے پاکستان آنے سے حطرے کی ہے تو میں اپنا دیکھ لوں گا ۔تم نے کس بل میں چھپنا ہے وہ ڈھونڈو" کاٹ دار لہجے میں کہتا وہ فون بند کر چکا تھا۔دوسری جانب کے وجود نے بھی چٹاخ سے فون دیوار پر دے مارا "خود تو مرے گا یہ ساتھ مجھے بھی مرواۓ گا" طیش کے عالم میں وہ وجود اب چکر لگا رہا تھا
.............
اس وقت Alexander platzمیں کافی رش تھا۔آس پاس لوگوں کا بھیڑ تھا جس سے بے خبر کرسٹل ٹیبل کے اطراف رکھی کرسیوں پر بیٹھے وہ دونوں اپنے، اپنے نقطے پر نظرثانی کر رہے تھے۔بیلا ہاتھ میں پکڑے گلاس سے ٹھنڈی کافی وقفہ با وقفہ خود کے اندر اتارتی آس پاس کے ہجوم کو دیکھ رہی تھی کچھ لوگ خریداری کی غرض سے آۓ تھے مگر بہت سے لوگ محض سیر و تفریح کے لیے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔یہ برلن کی مشہور جگہوں میں سے ایک تھی ۔جبکہ دوسری طرف وہ تھا جو کب سے اسکے بولنے کا انتظار کر رہا تھا۔اٹھارہ انیس سالہ، ترکش نقوش والا ایلی خلیق بیلا چوہان کا listener تھا۔وہ دنیا کا واحد انسان تھا جو بیلا جیسی مشینی چیز کی آنکھوں میں دیکھ کر اسکے دل کا حال بتا سکتا تھا۔ بہت دیر خاموشی کے بعد بلا آخر وہ بولی۔
"انا بیتھ بوڑھی ہو گئی ہے۔اب وہ اکثر کافی میں ingredients بھول جاتی ہے"
ایلی نے اسے دیکھا ۔تو کیا وہ دو گھنٹے کی مسافت طے کر کے یہ بتانے آئ تھی؟اس نے کلائی پر بندھی بلیو واچ کو دیکھا ۔وہ ہائ سکول کا سٹوڈنٹ تھا اور اسکی کلاس کا وقت ہونے والا تھا۔
"کیا تم میرے لیے کافی بناؤ گے ایلی؟ "
ایلی چونکا مگر پھر مسکرا کر بولا
" مجھے کافی بنانا نہیں آتی ہے۔ہاں! اگر آپ بنانا سیکھا دیں گی تو میں ضرور بناؤں گا"
"مجھے بریانی بھی پسند ہے مگر یہاں جرمنی میں کوئی اچھی نہیں بناتا" اداسی سے اداسی تھی۔ایلی نے کچھ کہنے کو لب کھولے تو بیلا ناگواری سے بولی
"اب یہ مت کہنا کہ تم میرے لیے بریانی بنانا بھی سیکھ لو گے "
" اگر آپ کو پسند ہے تو سیکھ لوں گا " وہ مسکرایا تو بیلا نے اس پر گھورتی نگاہ ڈالی ۔اس میں اور بیلا میں ایک بات مشترکہ تھی وہ تھی انکی آنکھیں ۔ایلی خلیق سکاۓ بلیو کرسٹل نما آنکھوں کا مالک تھا۔بالکل بیلا جیسی۔وہ اکثر بیلا کو بتاتا تھا کہ اسکے دوست احباب بیلا کو اسکی سسٹر سمجھتے ہیں۔ مگر بیلا کو یقین نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا ایلی اس سے ایمپریس ہے شاید اسی لیے جھوٹی کہانیاں گھڑتا رہتا ہے۔۔۔
"ڈیڈ چاہتے ہیں میں واپس پاکستان چلی جاؤں"اس نے یہاں آنے کا اصل مدعا بیان کیا۔ایلی اسے سمجھتا تھا۔ اور وہ اس اٹھارہ انیس سالہ ترکش لڑکے کی بات کو اتنی ہی اہمیت دیتی تھی۔ جتنا ایک نارمل انسان ایک تجربے کار انسان کی بات کو دیتا تھا۔
"اور آپ کیا چاہتی ہیں؟" سوال پوچھا البتہ نظریں اسکی بلیک  پنسل ہیلز پر تھیں
"میں ۔۔۔۔" اور وہ کرسی کی پشت سے سر ٹکاۓ آنکھیں موندے خاموش ہو گئ جیسے کھوج رہی ہو ۔اپنی چاہت کو
"میں وہ چاہتی ہوں جو میں بہت عرصے پہلے کھو چکی ہوں۔وہ جو بہت ڈھونڈھنے بہت تلاشنے پر بھی نہیں مل رہا ۔وہ جو کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے یا شاید مٹ چکا ہے۔۔۔میرا خود کا وجود!" اب کی بار بولی تو آواز مدھم مگر پر اعتماد تھی ۔وہ یہی تو چاہتی تھی۔خود کی زات جو کہیں کھو گئی تھی اور وہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک چکی تھی ۔
"تم کیا چاہتے ہو ایلی خلیق؟" اسنے اب کی بار ایلی سے پوچھا تو اسنے بھی ہیلز سے نظریں ہٹا کر بیلا کو چونک کر دیکھا
"میں بہت ساری چیزیں چاہتا۔فار اگزامپل۔ میں چاہتا ہوں کہ میں ایک بڑا بزنس مین بن جاؤں ۔میرے پاس بہت سارا پیسہ ہو۔ اور میری ایک خوبصورت سی بیوی ہو۔دو بچے ہوں ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔لڑکی کے بال گھنگھریالے ہوں کیونکہ مجھے پسند ہیں گھنگھریالے بال اور۔۔۔۔فلحال میں وہ ڈونٹ ٹراۓ کرنا چاہتا ہوں مگر افسوس کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں " شروع میں پرجوش انداز میں کہتے آخر میں وہ اداسی سے بولا اور بیلا کے سفید کلچ کو دیکھا جس میں یقیناً پیسے تھے بیلا نے ناگواری سے آنکھیں گھمائیں
" تمہیں پتا ہے تم پر کتاب لکھی جاۓ نا تو اسکے ہر دو صفحوں کے بعد لکھا ہو گا 'اور ایلی خلیق کے پاس پیسے نہیں تھے' "چڑ کر وہ بولی مگر ایلی نے زیادہ اثر نہیں لیا۔
"اور بیلا چوہان پر کتاب لکھی جاۓ تو اسکے پہلے ہی پیج پر بڑا بڑا لکھا ہوگا 'یہ کہانی اس لڑکی کی ہے۔جو اپنی بیکار کی ہیلز کے لیے تو ہزاروں یورو پے کر سکتی ہے۔مگر ایک ہائی سکول کے سٹوڈنٹ کی معصوم خواہش پر چند یورو نہیں خرچ کر سکتی'" شاید ڈونٹ کا دکھ زیادہ ہی دل کو لگا تھا اس کے
"تم بہت بولنے لگے ہو ایلی " کہتے اس نے ڈونٹ منگوایا
"آپ کو پتا ہے ہم ایک ہی کام بار بار کیوں کرتے ہیں؟" اسکی بات نظر انداز کرتے اب ہیلز کو دیکھتے وہ سنجیدگی سے بولا تو بیلا چونکی شاید ڈونٹ کی خوشی نے اسکا دماغ کھول دیا تھا
" اسکی دو وجہ ہوتیں ہیں ۔یا تو ہمیں وہ کام پسند ہوتا یا ہم اسے کرنے سے ڈرتے ہیں اور بار بار کر کے ہم خود کو تسکین پہنچاتے ہیں تاکہ ہمارا ڈر ہم پر حاوی نہ ہو سکے۔یا ہم اس سے جان چھڑا سکیں " بیلا نے بے اختیار اپنی ہیلز کو دیکھا ۔وہ انسان آخر اسکے اتنے اندر تک کیسے جانک لیتا تھا؟
....................
رات کے نو بجھے تھے اور اسکے ساتھ ہی ریان کی آواز گھر میں گونجی جبکہ نمبردار صاحب نے اکتا کر پوتے کو دیکھا تھا
"دادی آپ کا فیورٹ شو لگ گیا ہے" اسنے کچن میں کھانا بناتی دادی سے کہا تھا۔ ایزل بھی آرام سے اٹھی اور روم سے باہر آتی دادا کے قریب ہی دھپکی
"دادا جان اب اتنی بھی کیا ناراضگی یار" اس نے شرارت سے کہتے انکے پاس آنا چاہا تو دادا نے بھی رخ موڑ دیا۔جنت بی بی نے دادا کی اچھی خاصی کلاس لی تھی۔ میٹھا کھانے پر۔ جو کے شوگر ہونے کی وجہ سے منع تھا انہیں ۔اور ریان نے بجائے انہیں روکنے کے تیلی کا کام کیا تھا۔جسکا دادا کو شدید صدمہ تھا
"تو کیسے دادی کو اور بھڑکا رہا تھا اپنی" دادا نے شکوہ کیا
"ہاں تو معاف کر دیں نا آپ تو ایسے منہ بنا کر بیٹھے جیسے پہلی بار آپکی 'عزت' ہوئ ہو دادی کے ہاتھوں ۔یہ تو روز کی بات یار" وہ انجانے میں دادا کا موڈ مزید خراب کر چکا تھا جبکہ ایزل حیرت سے ریان کو دیکھ رہی تھی
" کیا روز کی بات ہے ریان؟ " دادی جو ابھی آئ تھیں۔پوچھنے لگیں
" کچھ نہیں دادا بیگم! میں کہہ رہا تھا اب دادا کا موڈ خراب کرنے کی تک نہیں بنتی۔ اب یہ شو تو آپ روز دیکھتیں ہیں ۔یہ تو روز کی بات ہے" ریان نے شرارت سے کہا تو ایزل نے بھی اس "معصوم" انسان کی چالاکیاں ملاحظہ کیں
" ہاں توکیوں نا دیکھوں ۔یہ بوڑھے میان بھی تو ہر وقت اپنی سیاست لگاۓ رکھتے ہیں۔میرے شو دیکھنا بھی اتنا چبنے لگ گیا بھلا " دادی ہاتھ نچا نچا کر بولیں جبکہ ریان اب آنکھیں گول کرتے دادی کے افسوس میں شریک ہوا تھا
" ہاں بی بی دیکھو ۔ہم نے روکا تھوڑی ہے دیکھو دیکھو " دادا منہ بسور کر کنارے ہوۓ البتہ درد سے کراہے تھے
"نانا جان آپ کے درد ہے کیا؟ " ایزل پہلی بار بولی تھی
جبہی دادا نے جیسے اسے اپنا ہمدرد سمجھ کر دکھ بیان کیا
"چھوڑو زلے اب تو یہ درد مرنے کے ساتھ ہی ختم ہوگا بس چند دن گزار رہے ہیں "
"اتنی جلدی! ایسی قسمت کہاں میری" دادی بڑبڑائی تو ریان نے بھی ہنسی دبائ
"کیوں مرنے کے بعد میرے تم نے دوسری شادی کرنی ہے کیا؟" دادا کی برداشت بھی ختم ہوئ
"کیا فائدہ فضل. دین کو مرے بھی عرصہ ہو گیا " دادی دوبارہ بڑبرائیں اب کی بار تو ایزل اور ریان دونوں نے ہی حیرت سے دونوں بزرگوں کو دیکھا تھا"تو کیا ہوا بی بی؟ رشید تو زندہ ہے نا ابھی" دادا تڑپ کر بولے
"دادا آپ کو کہاں ملے؟" ریان نے حیرت سے پوچھا"مجھے کہاں ملنا بدبحت نے ۔اس دن چاۓ والے کے پاس بیٹھا دکھ گیا تو سلام کر لیا اور جانتے ہو ملنے کے بعد پہلا سوال کیا تھا یہی کہ جنت بہن کیسی ہے؟" دادا شدید بدمزہ ہوۓ
جبکہ ایزل میں شاید ریان کی روح آگئی تھی اسی لیے فل ایکسپریشن دیتے سن رہی تھی
"پھر آپ نے کیا جواب دیا" دونوں کا سوال بیک وقت تھا البتہ دادی تو ایسے تھیں جیسے آواز ہی نہ آرہی ہو
"میں نے کیا کہنا ۔کہہ دیا بہت پیاری ہیں جب سے آگے کے دو دانت اور سر کے بچے کچے بال بھی گرے ہیں اور ہی پیاری ہو گئ ہے" وہ دونوں بے ساختہ ہنس پڑے تھے قہقہہ لگاتے وہ دونوں دادا دادی کو بانہوں میں بھینچ چکے تھے
"دنیا سے بے خبر وہ گھر جنت سے کم نہیں تھا" ایزل سوچ کر رہ گئ۔
............
"ایلی خلیق سے ملنا ہے۔ " یہ جملہ کہتے وہ اب آس پاس کے اطراف کا جائزہ لے رہی تھی ۔یہ ایک چھوٹا سا مگر بہت خوبصورت گھر تھا۔گھر کے تین اطراف گلاس وال تھی جسے سکن کلر کے بلاینڈرز نے فلاحال ڈھکا ہوا تھا۔اوپر دو کمرے اور ایک اوپن کچن تھا ایک طرف ٹی وی لاؤنج بنا تھا۔ اور دوسری طرف گول سیڑھیاں تھی۔ایلی کا کمرہ بیسمنٹ میں تھا ۔گول سیڑھیاں اترتے اسنے دیوار پر لگی ان بیش قیمتی پینٹنگز کو دیکھا.......وہاں موجود ہر شے خوبصورت ہونے کے ساتھ کافی مہنگی بھی لگ رہی تھی ۔
"اور یہ کہتا اسکے پاس پیسے نہیں ہیں ۔" منہ بسور کر وہ سوچنے لگی
دروازے پر کھڑی بیلا نے نوک کیا ۔اور کچھ سیکنڈ کے بعد ہی وہ دروازہ کھولے اسکے سامنے کھڑا تھا۔بلیو شورٹ کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ میں بکھرے خلیے میں۔اسے حیرت سے اپنے گھر میں دیکھ رہا تھا
"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟" وہ بیمار تھا شاید! بیلا کو شبہ ہوا
"سوچا پاکستان جانے سے پہلے تمہارا غریب خانہ دیکھتی جاؤں" چاروں اطراف نظر گھماتے وہ طنزیہ بولی تو ایلی مسکرایا
"یہ سب میرے ڈیڈ کے پیسوں سے ہے۔" اس نے جیسے وضاحت دینا (یا خود کو غریب ثابت کرنا) ضروری سمجھا۔بیلا نے ناک سے مکھی اڑانے کے انداز میں ہاتھ جھلایا اور اندر داخل ہوئ
"ایمپریسوو" تمہارے ڈیڈ کافی امیر ہیں " وہ باقی گھر کی طرح اسکے کمرے کا بھی ایکسرے کرنے لگی
وائیٹ اینڈ بلیو تھیم میں وہ روم باقی گھر سے کافی مختلف تھا ۔بیلا دائیں جانب بنی دیوار کے سامنے کھڑی حیرت سے اب دیکھ رہی تھی ۔دیوار پر ہر جگہ سٹیکی نوٹ چسپاں تھے
جس پر مختلف لائنز لکھی تھی دیوار کے ساتھ ایک ٹیبل رکھی تھی جس پر مختلف رنگوں کے سٹکی نوٹس کے بنڈلز رکھے تھے ساتھ ہی قلمدان میں مختلف پین تھے اور دیوار کے کونے پر ایک ڈسٹ بن تھا جس کے آس پاس بہت سے نوٹس مروڑ کر پھینکے ہوئے تھے
"یہ کیا کرتے رہتے ہو تم ایلی؟" وہ حیران ہوئ دوسری جانب اس نے بھی سر کھجایا
"میں جو سوچتا ہوں ان الفاظ کو نوٹ کر لیتا ہوں اور پھر انہیں ایڈجسٹ کر کے لائن بناتا ہوں اور اچھی لگے تو وہ دیوار پر سجا دیتا otherwise انکا مقدر ڈسٹ بن ہوتا ہے۔
واہ تم مجھے حیران کر دیتے ہو لٹل ون " اسکے (لٹل ون) پر وہ آنکھیں گھما کر رہ گیا البتہ بیلا نے پین اٹھایا ساتھ ہی من پسند نوٹ کا بنڈل بھی ۔اسکا ارادہ سمجھتے ایلی نے بھی پین کے ساتھ ایک بنڈل لے لیا ۔
چیئر پر بیٹھتے اس نے لکھا
" you"
ایلی نے لکھا!
"pretty"
بیلا مسکرائ اور لکھا!
"anger"
ایلی نے بنا سوچے پین چلایا!
"bella chohan"
بیلا نے ہنسی دبائ اور لکھا!
"mera chuzaa"
ایلی نے حیرت سے اب کی بار ٹیبل پر چپکا نوٹ دیکھا وہ ہر لفظ لکھنے کے بعد اسے ٹیبل پر چپکا رہے تھے۔بیلا مسکرائ وہ جانتی تھی ایلی اردو نہیں سمجھتا۔ایلی نے پیپر ٹیبل سے ہٹایا اسے مسلا اور ڈسٹ بن میں پھینک دیا بیلا کا قہقہہ بلند ہوا تھا وہ اسکی اردو سے چڑتا تھا کیونکہ اسے سمجھ تو آتی نہیں تھی ۔
"اوکے اب تم لائن بناؤ میں دیکھتی ہوں" اسنے ٹیبل کے کونے پر بیٹھے ایلی سے کہا تو وہ بھی الفاظ کو دیکھنے لگا
"pretty, you, anger, mera chuza, bella chohan"
وہ مسکرایا لائن لکھی اور دیوار پر چپکا دی ۔فون میں سکرولنگ کرتی بیلا کو لگا تھا۔ وقت لگے گا۔ مگر اب حیرت سے لائن پڑھ رہی تھی
"Hey Bella chohan! In anger, you look pretty more "
ایلی اور بیلا دونوں کا ہی قہقہہ بلند ہوا تھا۔
Elli haleeq u are the most poor man of the world "
بیلا نے لکھا اور دیوار پر چسپاں کیا ۔
" مجھے پسند آئ یہ لائن " ایلی بولا تھا تب ہی ایلی کی میڈ ناک کرتی اندر داخل ہوئ وہ اسکی آل ٹائم میڈ تھی۔
ہاتھ میں پکڑی ٹرے انکے سامنے رکھتی وہ واپسی کی ہو لی
ایلی نے ترکش چاۓ بیلا کو تھمائ ۔
"تو آپ پاکستان جا رہی ہیں؟" بیلا نے سپ لیتے سر  ہاں میں ہلایا
"ہاں تم نے ہی تو کہا تھاکہ مجھے جانا چاہیے "
" اور میرا کہنا اتنا اہم بھی ہو سکتا ہے کسی کے لیے " ایلی نے سوچ ظاہر کی
"کسی کا نہیں معلوم پر بیلا چوہان کے لیے ایلی خلیق کا ہر لفظ اہمیت رکھتا ہے ۔تم دوست ہو میرے" دوستی بھی کتنا عجیب رشتہ ہوتا نا جس میں ایک غیر اتنا اہم ہو جاتا کہ اس کے سامنے کبھی کبھی خونی رشتے بھی بے مول لگتے ہیں
"اگر میں مر گیا تو مجھے یاد رکھیے گا " وہ گھم سم سا بولا
" میں نہیں رکھوں گی ایلی خلیق! " بیلا نے بنا وقت لیے کہا تھا۔الفاظ جتنے تلخ تھے لہجہ اتنا ہی پرسکون! اور ایلی خلیق کا دل سکڑا تھا۔بیلا نے بھلے اسے سب بتایا تھا مگر اس نے نہیں ۔اسکی وجہ یہ نہیں کہ بیلا پر اسے بھروسہ نہیں تھا بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ خود کے لیے کسی دوسرے کو دکھ یا تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔کم. از کم. جب تک زندہ تھا تب تک تو بلکل نہیں!
..............
بازوں کے لال ہوتے حصے کو اس نے بری طرح کھرونچا تھا۔اس مچھر نامی مخلوق نے اسکی نیند کے ساتھ سکون بھی برباد کر دیا تھا۔جب سے وہ آئ تھی یہی ہوتا تھا کہ جیسے ہی آنکھیں نیند سے لبریز ہوتی کہ ہوا کم اور آواز زیادہ پیدا کرنے والا چھت میں لگا اکلوتا پنکھا لائٹ چلے جانے کی وجہ سے بند ہو جاتا تھا اور گرمی اور حبس کے مارے اسکا دم گٹتا ۔پہلے دنوں میں تو وہ کسی نہ کسی طرح دو گھنٹے کی معمول کی لوڈ شیڈنگ گھپ اندھیرے میں چھت کو گھورتے گزار دیتی مگر اب تھوڑا مانوس یو جانے کے بعد وہ چھت پر آجاتی تھی وہاں گرمی تو نہیں تھی مگر مچھروں نے ضرور جان کھا لی ہوتی تھی ۔
ابھی بھی لائٹ چلی گئی تھی ۔دھت انکی ٹاٹمنگ کے۔وہ سوچ کر رہ جاتی۔
چھت کی دیوار پر دونوں بازوں رکھے وہہ اس ادھورے چاند کو گھور رہی تھی۔
وہ بھی تو ادھوری تھی بلکل اس ادھورے چاند کی طرح۔مگر یہ چاند ہمیشہ ادھورا تو نہیں رہتا تھا لبھی گھٹتا تو کبھی بڑھتا۔اور بلا آخر یہ بھی مکمل ہو جاتا تھا تو کیا وہ بھی کبھی مکمل ہو گی؟ کیا کبھی اسکا ادھورا پن بھی ختم ہوگا ۔وہ کلس کر سوچتی رہ گئ تب ہی فضا میں مردانہ پرفیوم کی خشبو نے اسکی سوچ کا سلسلہ روکا۔وہ اس خوشبو کی عادی یو گئ تھی۔یقیناً آنے والا ریان حسن تھا۔ایزل نے مڑ کر نہیں دیکھنا تھا اور نہیں دیکھا وہ آہستہ سے چلتا اسکے مقابل کھڑا ہوا۔
"تمہارے لیے یہ سب برداشت کرنا مشکل ہوگا نا؟ عادت جو نہیں تمہیں۔"
"ہاں یہ سب واقعی بہت مشکل ہے میرے لیے۔" وہ کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھی اسی لیے ہاں میں ہان ملا گئ
"سکون سے سو بھی نہیں پاتی ہوگی۔" نجانے پوچھا گیا یا بتایا گیا یا پھر طنز کیا گیا مگر ایزل کے لبوں پر اداس سی مسکراہٹ بکھری
"کیا تمہیں لگتا میں اس اے سی والے روم میں پرسکون نیند سوتی تھی؟" انداز ریان جیسا ہی تھا جبکہ ریان کو اسکی اداسی اور سکون دونوں سے کوئی سروکار نہیں تھا اسی لیے خاموش رہا
"تم چاہتے ہو میں چلی جاؤں؟" بلا آخر اسی نے دوبارہ بات کی
"بلکل مجھے تم اپنے گھر میں ہرگز بھی برداشت نہیں ہو۔یہ معصومیت کا ڈھونگ یہ محبت اور یہ سب برداشت کرنے کا مقصد کیا ہے۔ہمارے گھر سے چلی جاؤ زلے"
"کیا تمہیں ڈر ہے کہ میں تم لوگوں کی خوشیاں برباد کر دوں گی؟ " ایزل نے کسی جانے انجانے میں ابھرنے والا سوال داغا تو وہ نا چاہتے بھی تلخ ہوا
" یہ تو تم بتاؤ گی کہ تم کیا کرنے آئ ہو یہاں؟ویسے اگر میں کہوں ہاں تو؟ "انسان تلوار سے نہیں طعنے سے مارا جاتا ہے اور ایزل کو آج اس بات کا شدت سے احساس ہوا تھا۔جبکہ دوسری طرف ریان کو ندامت ضرور تھی اس سے ایسے بات کرنے پر مگر وہ بھی ناخق نہیں تھا جو اسنے دیکھا تھا جو سنا تھا اسکے حساب سے وہ کچھ اچھا بھی کر سکتی تھی بھلا؟؟؟؟ سر جھٹک کر اسنے سوچا
...................

سنھری دھوپWhere stories live. Discover now