قسط نمبر ٠٦

261 15 20
                                    

کبیر اور بہرام کی واپسی تک بارش زور پکڑ چکی تھی۔ سارے بڑے کمروں میں بند تھے جبکہ زین سمیت باقی سارے صحن میں بارش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ حمدان ستونوں کے پاس بیٹھا تھا، اوپر چھت ہونے کی باعث وہاں پانی نہیں آرہا تھا۔

"کیا کر رہے ہو تم سب اندر چلو بیمار پڑنا ہے کیا؟" کبیر بھاگتا ہوا ستونوں کے نیچے آیا تھا۔ اونچی آواز میں ان سب کو ڈپٹا جن پر کوئی اثر نہ پڑا۔

"بیٹھ جا یار کب سے منع کر رہا ہوں چاروں کو مگر نہیں بارش دیکھ کر لڑکیاں تو لڑکیاں ان جیسے لڑکوں کا دماغ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔" حمدان لاپرواہی سے بولتا اسے کھینچ کر ساتھ بٹھا چکا تھا وہ بھی آرام سے بیٹھ گیا لیکن چند لمحے گزرتے ہی کسی خیال کے تحت کبیر نے آس پاس دیکھا۔

"یہ مناب کہاں ہے؟" اس نے ہاتھوں سے گیلے بال پیچھے کرتے صحن میں نگاہ دوڑائی۔

"وہ محترمہ تو چھت پر پہنچی ہوئی ہیں۔" حمدان نے افسوس سے ہلاتے ہوئے بتایا۔ کبیر کا ہاتھ بے ساختہ ماتھے کو چھو گیا تھا۔ مناب سے ہر الٹے کام کی توقع ہر وقت کی جاسکتی تھی۔

"اس کو دیکھ ذرا کیسا بچہ بنا ہوا ہے کہیں سے لگتا ہے کہ تئیس کا ہونے والا ہے۔" حمدان نے ہنستے ہوئے اس کی توجہ بہرام کی طرف دلوائی جو زین کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گول گول چکر لگارہا تھا، ساتھ ساتھ اونچے قہقے بھی لگائے جارہا تھا۔

"یہ تو بچپن سے ہی بارش کا دیوانہ ہے۔ بابا ہی اسکو سدھار سکتے ہیں بس۔ اب کہہ رہا ہے مناب سے شادی نہیں کرے گا۔ کل دیکھا تھا اسے کیسے لڑ رہا تھا جب بشام نے مناب کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔ گدھا ہے پورا!" کبیر کے کل والے واقعے پر توجہ دلوانے پر حمدان کا فلک شگاف قہقہ گونجا۔

"عیوف بس کردو کتنا گھومو گی تمہیں دیکھ دیکھ کر مجھے چکر آرہے ہیں۔" بارش میں بھیگتا بشام ہونق بنا ان سب کو اچھلتا کودتا دیکھ رہا تھا۔

"اف اللہ چپ کرو تمہیں تو زندگی کو جینا ہی نہیں آتا۔ ناشکرے کہیں کے۔" اس نے گھومتے گھومتے ہی منہ کے زاوئیے بگاڑے۔ بہرام اب جھولے پر بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا جب اچانک نظر چھت کی طرف اٹھی جہاں وہ سیاہ شلوار قمیض میں ہمرنگ دوپٹہ اوڑھے آنکھیں موندے کھڑی تھی۔ لب مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے تھے جیسے کسی اور جہاں میں پہنچی ہوئی ہو۔ بہرام نے آنکھیں سکیڑ کر پہلی دفعہ اسے غور سے دیکھا تھا، وجہ آج کبیر کے ساتھ ہونے والی گفتگو تھی۔ وہ بلاشہ پیاری تھی، گندمی رنگت پر نیلی اور ہرے رنگ کے امتزاج کی آنکھیں، چھوٹی سی ناک، درمیانہ قد۔ ہلکے بھورے کمر تک آتے بال اس وقت بارش میں بھیگ کر کچھ چہرے سے چپکے ہوئے تھے باقی پیچھے کمر سے۔ بہرام کو یکدم ہی شرارت سوجھی تھی۔

"اوہو کالے گلاب کو تو دیکھو کیسے بارش میں کھڑا کسی کے خیالوں میں گم ہے۔" وہ اونچی آواز میں میں بولا تو سب نے چونک کر اسے پھر اس کی نظروں کی سمت میں دیکھا۔ مناب نے بھی پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں۔

نورِ صبح ازقلم عائشہ پریWhere stories live. Discover now