قسط نمبر: ٠١

922 46 214
                                    

"نورِ صبح"

چڑیوں کی چہچہاہٹ سے ایک نئی اور روشن صبح کا آغاز ہوچکا تھا۔ آسمان مختلف رنگ بکھیرتا اللہ تعالیٰ کی قُدرت کا منہ بولتا ثبوت دے رہا تھا۔ دور کہیں سے آتی بہتے جھرنوں کی کی آواز دل کو انوکھا سا سُرور بخش رہی تھی۔ سوات کا شہر مقبول ہی اپنے حسن کی وجہ سے تھا اور اس وقت بھی سوات اپنے حسن کے عروج پر تھا کہ ہر دیکھنے والی آنکھ خدا کے اس شاہکار کو سراہے بغیر نہ رہ پاتی۔

"پاکستان کا چھبیسواں اور خیبر پختون خواہ کا تیسرا بڑا شہر مینگورہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، قدرتی حسن سے مالامال سوات کی وادی میں موجود یہ شہر بھی قدرت کے حسین شاہکاروں میں سے ایک ہے، سیاحوں کی توجہ کا مرکز بننے والے ٹھنڈے پانی کے جھرنوں سے لے کر فلک کو چھوتے خوبصورت پہاڑوں تک ہر چیز تعریف کے قابل ہے، سوات کے رس بھرے آڑو اور انگور پاکستان کے لیے کسی طور نعمت سے کم نہیں ہیں، یہاں بسنے والوں کی مہمان نوازی بھی کمال ہے۔" سرسبز ڈھلوان کی خوبصورتی کو کیمرے میں محفوظ کرتے بہرام سوات کی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا۔

"آئیے آپکو لیکر چلتے ہیں مینگورہ کے وسط میں واقع ایک ایسے گھر میں جہاں کے مکینوں کے دل اور چہرے بھی یہاں کی طرح حسین ہیں سوائے ایک بل بتوڑی کے۔" گھر کے داخلی دروازے کو ذرا سا کھول کر ولاگ بناتا بہرام اندر کھڑی مناب کو دیکھتا بولا تھا لیکن کیمرہ اُسکی طرف نہیں کیا جبکہ مناب جو گھر میں اکیلی بور ہورہی تھی اس کے لقب پر اُسے غصے سے گھورنے لگی۔

"اگر مجھے دیکھ کر آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں بھی یہاں کا مکین ہوں تو ایسا نہیں ہے، آپکا قصور نہیں ہے میں ہوں ہی اتنا ہینڈسم کہ ہر کوئی شک میں مبتلا ہوجاتا ہے لیکن میرا تعلق کراچی سے ہے اور یہ گھر راسم صاحب کا ہے جو رشتے میں میرے پھوپھا لگتے ہیں اور عنقریب کچھ اور بھی لگنے والے ہیں۔" بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ سوات کی تعریف سے اپنی تعریف پر اُتر آیا لیکن آخری بات وہ مناب کی آنکھوں میں دیکھتے آہستہ آواز میں بولا جو مناب بخوبی سن چکی تھی لیکن اسے صرف خاموشی سے گھور رہی تھی اور یہی خاموشی بہرام کو کھٹک رہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے پسند کرتا تھا، بس ان کا رشتہ ہی ایسا تھا کہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کا دل ہر وقت مناب کو چھیڑنے پر آمادہ رہتا تھا۔

"یہ ہے گھر کا داخلی دروازہ۔" قدیم طرز پر بنے بھورے رنگ کے بھاری لوہے کے دروازے کو دھکیل کر پورا کھولتے بہرام نے ایک نظر اندر کھڑی مناب کو دیکھا جو اب تک خاموش کھڑی تھی، بہرام کو یہ خاموشی طوفان سے پہلے والی خاموشی لگ رہی تھی۔ آنکھ سے اسکو سائیڈ پر ہونے کا اشارہ کرتے اب وہ کیمرہ کا رخ موڑ رہا تھا۔ داخلی دروازہ عبور کرنے پر نظر سب سے پہلے اُن تین ستونوں پر پڑتی تھی جو وسیع صحن کے اُس پار موجود تھے۔ دروازے سے اُن ستونوں کو جوڑنے کے لیے سیمنٹ اور پتھروں کی روش موجود تھی۔ روش کے دائیں جانب سبزہ تھا جہاں ایک میز اور چند کرسیوں کے علاوہ ایک تخت رکھا تھا اور قطار میں کھڑے چند گھنے سایہ دار درخت موجود تھے جبکہ بائیں جانب چپس کا فرش تھا جس پہ دو چارپائیاں اور ایک لکڑی کا جھولا رکھا گیا تھا اور کونے میں دروازہ تھا جو کچن کا تھا۔ کچن کے دروازے کے برابر میں سیڑھیاں تھیں جو اوپر کی جانب جارہی تھیں۔

نورِ صبح ازقلم عائشہ پریWhere stories live. Discover now