Hudood e ishq (season 2)

By SM-writer

2K 55 28

Ye hudood e ishq ka sequel hai. .is main Ahad ki story bhi hai naeel aur maveea...story new hai.. More

Note
sneak peak
Episode 1
Episode 02
Episode 04
Episode 03
Episode 06
Episode 07
Episode 08
Episode 09
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 13
Episode 14
Episode 15
Last Episode

Episode 05

34 0 0
By SM-writer


آستر جو کہ برتن دھو کراور پورا کچن صاف کر کہ ،پھر سونے کا ارادہ ملتوی کر کہ پیپرز چک کرنے کا ارادہ کیا۔پہلے کمرے میں آئی جہاں محمود صاحب سورہے تھے۔آستر نے ان کی چادر درست کی پھر باہر نکل گئی اور پیپرز لے کر بیٹھ گئی۔

یا اللہ یہ کیا لکھا ہے اس بچے نے۔پوچھا کیا ہے لکھا کیا ہے۔۔(وہ ہاتھ میں پین تھامے خود سے باتیں کررہی تھی اور لال پین سے مارکنگ بھی کررہی تھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانی اس کہ گھٹنوں تک تھا۔احد بڑی مشکل سے وہاں پہنچا تاکہ پتا کرسکے کہ کوئی ہوسپیٹل ہے یہاں۔۔احد نے گیٹ کھٹکھٹایا ایک دفعہ،دو دفعہ ،تین دفعہ،،مگر کوئی نہیں آیا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیٹ کی اواز سن آستر نے حیرت سے گیٹ کی طرف دیکھا۔

اس وقت اور اس موسم میں کون ہوسکتا ہے ،السا تو نہیں ہوگی۔(آستر بڑبڑائی مگر دروازے پر دستک ہوتی جارہی تھی ،تین دفعہ کہ بعد وہ جو کوئی بھی تھا رک گیا)

آستر ہوسکتا ہے کسی کو کوئی مدد چاہیے ہو۔۔(اس نے دل نے آواز دی)یا اللہ کیا کروں جاوں یا نہیں۔۔(وہ اسی کشماکش میں تھی پھر ہمت کرکہ اٹھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخری بار ٹرائے کرتا ہوں (احد نے دل میں سوچا کیونکہ اسے ہمت نہیں ہارنی تھی،وہ مکمل بھیگ چکا تھا) احد نے ایک اور دفعہ گیٹ بجایا تو گھیٹ کھول گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آستر سامنے چھتری لےکر کھڑی تھی۔وہ اس چہرے کو کیسے بھول سکتا تھا۔آستر کا بھی یہ ہی حال تھا۔وہ دونوں حیرت زدہ سے وہاں کھڑے تھے۔مگر ایک کی آنکھوں میں نفرت اور دوسرے کی انکھیں بنا کسی تاثر کی تھیں۔پھر وہ ہوش میں آیا اور بولا)

مجھے مدد کی ضرورت ہے،میری بہن کو ڈاکٹر کہ پاس لے کر جانا یہاں کوئی ڈاکٹر ہے؟(احد نے التجائی نظروں سے اس سے پوچھا وہ بہت پریشان اور گھبرایا ہوا تھا)

کیا ہوا ہے آپ کی بہن کو؟(استر نے پوچھا کیونکہ اس کی گھبراہٹ صاف تھی)

وہ وہاں گاڑی میں ہے اور گاڑی بھی خراب ہوچکی ہے۔۔(احد نے یہ تو نہیں بتایا کہ اسے ہوا کیا ہے بس یہ بتادیا کہ وہ کہاں ہے)

یہاں ڈاکٹر تو نہیں ،،چلیں دیکھتے ہیں۔۔(آستر کہتے ہوئے گیٹ سے باہر نکلی وہ پانی میں بہت مشکل طریقے سے چل پارہی تھی۔چھتری اس کہ ہاتھ میں تھی اور احد اس کہ پیچھے۔آستر جب گاڑی ک پہنچی تو زوبیا کو دیکھ کر تھوڑی حیران بھی ہوئی اور گھبرا بھی گئی،پھر کچھ یاد آنے پر احد کی طرف مڑی اور بولی)

آپ انھیں لے کر گھر کہ اندر چلیں جلدی۔(وہ جلدی میں احد سے بولی)

مگر۔۔۔(احد کچھ کہتا کہ وہ بولی)

آپ کہ اگر مگر کہ جواب کا ٹائم نہیں ہے۔۔(آستر نے غصے سے کہا تو احد نے دروازہ کھولا فاطمہ باہر نکلیں پھر احد نے زوبیا کو گود میں اٹھایا تو آستر نے چھتری فاطمہ کو دی احد کہ اوپر چھتری کردے تاکہ زوبیا بھیگ ناجائے ۔

وہ لوگ زوبیا کو لے کر اندر آئے تو آستر ان سے پہلے اندر پہنچ چکی تھی اور کمرے سے اپنا مٹریس لائی اور دلان میں بیچھادیا )

یہاں لیٹادیں انھیں۔۔(آستر نے احد کو کہا) میں ابھی آتی ہوں۔(وہ کہہ کر باہر چلی گئی تو احد اور فاطمہ نے ایک دوسرے کو دیکھا کہ یہ کہا گئی پھر فاطمہ زوبیا کہ پاس بیٹھ گئیں اور احد چکر کاٹنے لگا)

آستر بھگتی ہوئی السا کہ گھر گئی اور زور زور سے دروازہ بجانے لگی۔۔السا کا بھائی باہر آیا)

آستر آپ اس وقت سب خیرت ہے؟ انکل ٹھیک ہیں؟(وہ فکر مندی سے بولا)

جی ضمیر بھائی بابا ٹھیک ہیں بس دادی کو لینے آئی ہوں۔ وہ کہتی ہوئی اندر گئی اور دادی کو ساری بات بتادی تو وہ بھی جلدی سے آستر کہ ساتھ چل دیں۔

آپ لوگ کہا جارہے ہیں میں بھی چلتا ہوں۔(ضمیر نے کہا تو آستر فوار بولی)

نہیں نہیں۔۔ضمیر بھائی آپ نہیں آیئےگا۔پلیز۔۔(کہہ کر دادی کو لےکر اپنے گھر آئی جہاں زوبیا کا چیخ چیخ کر برا حال تھا۔ دادی فورا اس کی طرف بڑھیں اور آستر سے بولیں )

اس لڑکے کو باہر نکالو۔۔(دادی کہ کہنے آستر احد کی طرف بڑھی اور بولی)

آپ باہر جاہیں۔۔(چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی وہ موقع کو سمجھتے ہوئے باہر صحن میں چلا گیا جہاں پانی برس رہا تھا،آستر نے بیچ کا گیٹ بند کیا اور اندر اگئی تو محمود صاحب کی آواز آئی تو آستر نے دادی کی طرف دیکھا تو وہ بولیں )

تم اپنے بابا کہ پاس جاو میں دیکھ لوں گی۔۔(ان کہ کہنے پر آستر محمود صاحب کہ پاس ائی تو وہ بولے)

بیٹا یہ کیسا شور ہے کیا ہورہا ہے باہر؟(وہ بہت پریشان تھے)

بابا کچھ نہیں ہوا(آستر نے انھیں تصیلی دی اور ساری بات بتادی پھر دادی کی آواز پر کمرے سے باہر نکلی اور وہ جو کہہ رہی تھیں وہ دیتی جارہی تھی اور گھنچکر بنی ہوئی تھی۔)

احد باہر دروازے کہ پاس ہی کھڑا تھا،دروازے کہ اوپر ایک جھججا تھا جس کہ نیچے وہ کھڑا تھا اور زوبیا کہ لیے دعا گو تھا۔)

یا اللہ میرے کیے کی سزا میری بہن کو نہیں دینا ،وہ بہت معصوم ہے اسے زندگی دے اور اس کہ بچے کو بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد بچے کہ رونے کی آواز آئی تو آستر جو کہ کچن میں کچھ لینے گئی تھی فورا بھاگتی ہوئی باہر آئی ،دادی بچے کو پکڑے ہوئے تھیں۔فاطمہ اور دادی مسکرارہی تھیں۔آستر ان کہ پاس آگئی زوبیا کی آنکھیں بند تھیں۔

دادی یہ؟(آستر نے زوبیا کی طرف اشارہ کیا جو کہ آنکھیں بند کیے ہوئے تھی)

وہ ٹھیک ہے بیٹا،(دادی نے اسے دلاسہ دیا تو وہ بچے کی طرف مڑی )

ماشاءاللہ بہت پیارا ہے یہ تو۔۔(آستر نے مسکراتے ہوئے بچے کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اب دادی کی گود میں تھا)

آستر۔۔(محمود صاحب کی آواز پر وہ مڑی تو دادی بولیں)

روکو میں بھائی صاحب سے ملوں (دادی بولیں اور بچے کو لے کر کمرے میں چلی گئیں)

اندر کون ہے؟(فاطمہ نے آستر سے پوچھا)

میرے بابا ہیں۔۔(آستر نے جواب دیا)

اچھا۔۔بیٹا تمہارا بہت بہت شکرایہ میں تمہاری احسان مند ہو۔۔تم نے جو کیا ہے وہ۔۔(آستر نے انھیں بیچ میں روکا اور بولی)

نہیں انٹی ایسی کوئی بات نہیں ۔۔آپ مجھے شرمندہ کررہی ہیں۔۔(آستر نے مسکرا کر بولا)

اچھا میں بھی تمہارے بابا سے مل لوں (وہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔تھوڑی دیرمیں زوبیا نے بھی آنکھیں کھول دیں اور وہ بولی)

میرا بچہ۔۔(وہ بےچینی سے بولی)

میں لاتی ہوں۔(آستر کہہ کر اندر گئی۔فاطمہ اور دادی کہ ساتھ باہر آئی ،دادی نے زوبیا کو اس کا بچہ دیا تو اسے چومنے لگی)

احد ۔۔۔۔(فاطمہ کو احد کا خیال آیا)بیٹا احد کو بلا دو۔(فاطمہ نے آستر سے کہا تو وہ سر ہلا کر چلی گئی)

آستر نے دروازہ کھولا تو وہ بےچین سا مڑا اور بولا)

زوبیا کیسی ہے؟وہ ٹھیک تو ہے نا۔۔۔

آپ کو اندر بلا رہی ہیں ۔۔(بنا اس کی بات کو جواب دیے وہ بولی تو احد فورا اندر کی طرف بڑھا)

پھپھو ۔۔(احد نے اندر آکر کہا تو وہ مڑی اور ان کہ ہاتھ بچے کو دیکھ کر وہ کشمکش میں مبتلا ہوگیا،کبھی وہ فاطمہ کو دیکھتا ،تو کبھی زوبیا کو جو اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔پھر آہستہ آہستہ قدم بڑھتا ہوا ان کہ پاس گیا اور بچے کو دیکھا تو فاطمہ بولیں )

ہمارا دوسرا احد۔۔(احد نے خوشی سے انھیں دیکھا اور اپنے لب بچے کی پیشانی پر رکھ دیے مگر گود میں نہیں لیا کیونکہ وہ بھیگا ہوا تھا۔)

ماشاءاللہ بہت پیارا ہے۔۔(احد پیار سے بولا)

آستر دروازے پر ہی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔احد دادی کی طرف مڑا اور ان سے بولا)

آپ کا بہت شکریہ ،میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں کہ آپ کا شکریہ ادا کرسکوں،(احد ان کہ پاس آیا اور ان سے بولا)

آرے نہیں بیٹا اللہ نے مجھے اس کام کہ لیے چنا تھا بس اس میں شکریہ کی کیا بات۔وہ تو آستر نے مجھے بلالیا ورنہ مجھے تو پتا بھی نہیں چلنا تھا،اللہ اس بچے کو نیک انسان بنائے۔۔(انھوں نے پیار سے احد کو کہا تو بولا)

آمین۔۔(اور پھر پیچھے مڑکر آستر کو دیکھا جو ابھی تک دروازے پر کھڑی تھی۔احد نے اگلے ہی سیکنڈ اپنی نگاہیں نیچے کرلیں کیونکہ وہ اب آستر کہ سامنے نظریں اٹھانے کہ قابل ہی نہیں رہا تھا۔)

بیٹا تم تو بہت بھیگ گئے ہو۔۔(دادی بولیں،کیونکہ احد جو کہ وایٹ ٹی شرٹ اور ٹراوزر پہنا ہوا تھا،بال بھیگے ہوئے تھے جن میں سے پانی کہ قطرے ٹپک رہے تھے۔)

آستر ۔۔(دادی نے آستر کو بلایا)

بیٹا تولیا لاکر دو ۔۔

جی۔۔(دادی کہ کہنے پر آستر آگے آئی اور کمرے میں چلی گئی پھر تولیا لے کر آئی اور احد کو دینے کہ بجائے دادی کو دی تو دادی نے تولیا احد کی طرف بڑھا دی۔جیسے اس نے تھام لیا اور اپنے بال سوکھانے لگا اور چہرا صاف کیا۔پھر تولیا آستر کی طرف بڑھا دی اور بولا)

شکریہ۔۔۔(مگر دیکھا ابھی بھی نہیں اس نے آستر کی طرف،استر نے تولیا لیا اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ وہ واپس آئی تو احد،زوبیا کہ ساتھ بیٹھا تھا جب کہ فاطمہ اور دادی صوفے پربیٹھی تھی۔بچہ بھی زوبیا کی گود میں تھا۔آستر آکر دادی کہ ساتھ بیٹھ گئی جب دادی بولیں)

بیٹا تم نے تو بچے کو گود میں بھی نہیں لیا جاو لے لو اب تو چپ ہے۔(کیونکہ جب آستر نے دیکھا تھا تو وہ بہت رو رہا تھا،)

نہیں دادی مجھے ڈر لگتا ہے وہ اتنا چھوٹا سا ہے۔۔(آستر کہ جواب پر سب ہنس دیے اوراحد نے اسے نظر اٹھا کر دیکھا جو کہ دادی کودیکھ رہی تھی،وہ ہنسا نہیں تھا،اسے اس وقت آستر واقعی بہت معصوم لگی،پھر اس نے اپنی نظریں پھیر لیں)

اچھا کوئی بات نہیں ،،ایک کام کرو بیٹا سب کہ لیے چائے بنالو سب دیکھو بھیگے ہوئے بھی ہیں۔تھوڑی گرمی پہچے گی۔۔(ایک یہ دادی بھی نئے نئے کام دے رہی ہیں،اب چائے بناو،یا اللہ مجھے برداشت کرنے کاحوصلہ دے۔۔۔۔۔۔آستر دل میں ہی سوچتی ہوئی کچن میں گئی۔)

احد بیٹا ایک کام کرو۔۔(فاطمہ احد سے بولیں)

جی پھپھو بولیں۔۔

بیٹا اندر آستر کہ والد ہیں تم ایک دوفعہ ان سے مل کر شکریہ کہہ دو۔۔

اندر ان کہ والد ہیں۔۔(احد نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا)

ہاں بیٹا۔۔

اچھا میں مل لیتا ہوں (احد کہتا ہوا اٹھا)

آستر کو جب فاطمہ کی آواز پہنچی تو اسے فکر ہوگئی کہ کہیں احد اس کہ بابا کو کچھ بولا نا دے اس کہ بارے میں ،آسترکی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ فورا باہر آئی جہاں ،فاطمہ اور دادی زوبیا سے باتیں کررہیں تھیں شاید اسے کچھ سمجھارہی تھیں اور احد کمرے کی طرف جارہا تھا جب آستر اس کہ پاس آئی اور بولی)

میرے بابا کو میرے بارے میں کچھ نہیں بولنا ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔(آستر نے التیجائی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی اور آنسو اس کی آنکھوں میں تیر رہے تھے۔وہ یہ ہی سمجھتی تھی کہ احد یہ نا کہہ دے کہ آپ کی بیٹی ایک فراڈ ہے ۔۔

احد نے اسے دیکھا تو دل کٹ کہ رہ گیا۔۔۔وہ ایسا سوچتی ہے اس کہ بارے میں۔۔صیح تو سوچتی ہے وہ۔احد نے نظریں نچی کرلیں اور ہاں میں سر ہلا کر اندر چلا گیا۔۔ احد اندر چلا تو گیا مگر اس کا دل بہت پریشان تھا اسے اس شخص پر بھروسہ نہیں تھا اس نے اگر بابا کو کچھ کہہ دیا تو۔۔۔وہ اپنے بابا سے بے حد محبت کرتی تھی وہ انھیں پریشان نہیں کرسکتی تھی)

اس نے جلدی سے چائے بنائی اور باہر لاکر سب کودی اور بولی)

میں بابا کو بھی چائے دے کر آتی ہوں۔۔(آستر نے دو کپ ٹرے میں لیے اندر گئی اسے دیکھنا تھا کہ اندر کیا چل رہا ہے،وہ اندر گئی تو محمود صاحب مسکراکر احد سے بات کر رہے تھے۔)

بابا چائے۔۔(آستر کہہ اندر آئی اور چائے کی ٹرے بیڈ ہر رکھ دی)

بیٹا لو چائے۔۔(محمود صاحب نے احد سے کہا تو اس نے مسکراکر چائے کا کپ اٹھایا اور لبوں سے لگایا اور آستر کو دیکھا)

آستر کو محمود صاحب کومسکراتا دیکھ کر سکون ہوا تو وہ باہر آگئی)

بارش تھی کہ روکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔ان کی گاڑی بھی خراب تھی اس لیے وہ واپس نہیں بھی جاسکتے تھے۔اس لیے آج رات انھیں یہیں روکنا تھا۔)

دادی آپ بے آرام ہورہی ہونگی میں ضمیر بھائی کو کال کرکہ بولاں۔۔آپ گھر جاکر آرام کرلیں۔(چائے پینے کہ بعد آستر نے دادی سے کہا کیونکہ وہ ضعیف تھی اس طرح انھیں بےآرام کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا اسے اس لیے بولی)

ہاں بیٹی بلالو۔۔(نھوں نے کہ تو آستر نے کال کی ،تھوری دیر میں ضمیر بھی اگیا مگر اندر نہیں آیا ۔۔آستر نے چھتری لی اور دادی کو پکڑکر باہر نکلی اور بولی)

دادی آپ کا بہت شکریہ۔اگر آپ نہیں آتیں تو وہ لڑکی۔۔پتا کیا ہوتا۔۔(آستر آگے نہیں بول سکی ،دادی مسکرایں اور آستر کا گال تھپک کر بولی)

اللہ تمہیں خوش رکھے۔(وہ کہہ کر باہر نکل گئی،آستر دروازہ بند کرکہ اندر اگئی)

آنٹی آپ اوپر لیٹ جایئں آرام کرلیں۔(آستر نے فاطمہ سے کہا رات کہ تین تو بج رہے نیند تو نہیں آنی تھی)

آستر نے بولا اور صوفے پر تکیہ رکھ دیا۔فاطمہ بھی لیٹ گئیں اور آستر آکر زوبیا کہ پاس بیٹھ گئی اور اس کہ بیٹے کہ ساتھ کھلنے لگی پھر بولی)

آپ نے کیا نام سوچا ہے ؟(آستر نے پوچھا تو زوبیا مسکرا دی اور بولی)

سوچے تو بہت سارے ہیں تم بتاو تمہارے ذہین میں کوئی نام ہے؟(زوبیا نے آستر سے پوچھا)

میرے ذہین میں تو نہیں (پھر روکی اور بولی) عبدالھادی کیسا رہے گا؟ ہدایت دینے والے کا بندہ۔۔۔؟

زوبیا اسے دیکھ کر مسکرائی مگر بولی کچھ نہیں تو آستر کو لگا شاید اسے اچھا نہیں لگا تو وہ بولی)

باقی آپ کو جو اچھا لگے۔۔(آستر نے کہا تو وہ فورا بولی)

ارے نہیں مجھے بہت اچھا لگا یہ نام ،ہم آج سے ایسے عبدالھادی ہی بلایئں گے۔۔۔(زوبیا نے مسکراتے ہوئے کہا تو آستر بھی مسکرادی)

کیا آپ نے ان کہ بابا کو بتایا؟(آستر نے زوبیا سے پوچھا تو وہ بولی)

احد بھائی نے بتادیا ہوگا۔۔(احد کہ نام پر اس کی مسکراہٹ غاہب ہوگئی)

پھر زوبیا کا نا ختم ہونے والا باتوں سلسلہ شروع ہوگیا،فاطمہ کی انکھ لگ گئی تھی۔آستر بھی اس باتوں کو سن کر مسکراتی ہوئی اسے سن رہی تھی کہ اچانک لائیٹ چلی گئی۔۔تو اندھیرا ہوگیا کسی کو کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا آستر اپنا موبائل ڈھونڈنے لگی کے احد کمرے سے باہرآیا اس کہ ہاتھ میں موبائل تھا جس کی ٹورچ لائیٹ جل رہی تھی۔

ٹورچ کی روشنی میں آستر کو بھی اپنا موبائل مل گیا اور وہ کمرے میں چلی گئی جہاں محمود صاحب سورہے تھے۔آستر وہیں بیٹھ گئی کیونکہ احد باہر تھا زوبیا کہ پاس اور آستر اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔)

احد نے آستر کو وہاں سے جاتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ وہ اس کی وجہ سے ہی گئی ہے۔وہ لمبی سانس لےکرزوبیا کہ پاس بیٹھ گیا )

تم نے فیصل کو بتادیا تھا نا ۔؟(زوبیا کہ پوچھنے پر اس نے زوبیا کو دیکھا اور بولا)

نہیں۔۔

ہیں ؟مگر کیوں؟

وہ وہآں پریشان ہوجاتا اور یہاں آبھی نہیں سکتا تھا۔اس لیے نہیں بتایا،ابھی بات کروا دیتا ہوں۔۔(احد نے کہتے ساتھ کال ملائی)

ہیلو فیصل یار بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔(وہ جو خواب غفلت میں سو رہا تھا،اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے)

کیا کہہ رہا احد ۔۔(فیصل ناسمجھی سے بولا)

ارے میرے یار آپ باپ بن گئے ہیں ۔۔یہ زوبیا سے بات کرو۔۔۔(فیصل تو سنتے ہی جھٹ اٹھا،جب کہ احد زوبیا کو اپنا موبائل دے کر باہر نکل گیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احد باہر آیا تو دیکھا بارش اب بہت ہلکی ہوگئی تھی،احد نے باہر کا گیٹ کھولا تو باہر پانی بھرا ہوا تھا ابھی تک،احد گیٹ بند کرکہ پلٹا اور گھر دیکھنے لگا،جہاں گیٹ سے ہی اندر آتے ایک چھوٹا سا صحن تھا اور ایک زینہ تھا جو چھت کوجاتا تھا،صحن میں ہی واشروم تھا اور اس کہ باہر سنک لگا جس پر ایک شیشہ تھا،اور اندر کا تو وہ دیکھ ہی چکا تھا کہ ایک کمرا تھا ،چھوٹا سا دلان تھا اور ایک کچن۔

احد سیڑیاں چلتا ہوا چھت پر چلا گیا۔جہاں ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور ہلکی ہلکی بوندیں اس کہ چہرے پر پڑرہی تھیں۔احد نے لمبی سانس لی اور آسمان کو دیکھنے لگا۔

تمہارے ظرف نے مجھے میری ہی نگاہوں میں گرادیا ہے آستر(آج پہلی بار اس نے اپنے منہ سے اس کا نام لیا تھا)۔۔۔۔۔میری برائی کا جواب تم نے جو نیکی سے دیا ہے۔۔۔مجھے اپنے آپ سے نفرت ہورہی ہے۔۔۔

عکس وآئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد

ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد (محسن نقوی)

تمہاری نفرت مجھ سے جائیز ہے۔۔۔میں اسی قابل ہوں۔۔۔(وہ خود سے باتیں کررہا تھا۔۔۔۔اسے رہ رہ کر اپنے کیے گئے ظلم یاد آرہے تھے اسے۔)

یا اللہ مجھے معاف کردے مگر تو بھی مجھے جب تک معاف نہیں کرے گا جب تک آستر مجھے معاف نہیں کرے گی۔۔۔۔معاویہ کہتی ہیں کہ اللہ اپنے حقوق تو معاف کردیتا ہے مگر بندوں کہ نہیں جب تک وہ خود معاف نہ کردیں۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اس کہ الفاظ وہیں دم توڑ گئے۔۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ بہت مشکل کام ہے)۔۔اذان کی آواز پر آئی تو اسے احساس ہوا وہ کافی دیر سے یہاں اپنی سوچوں میں گھم تھا۔۔۔سوچوں کہ سمندر سے باہرآیا۔۔اور اذان کا جواب دینے لگا۔۔نماز پڑھ نہیں سکتا تھا کپڑے گندے ہونے کی وجہ سے۔۔۔اذان کہ بعد کی دعا اور درودشریف پڑھ کر جب نیچے دیکھا تو لائیٹ بھی آچکی تھی تو وہ بھی نیچے اگیا۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لائیٹ آنے پر آستر باہر آئی تو زوبیا ابھی بھی موبائل پر بات کررہی تھی اور فاطمہ صوفے پر سورہی تھی مگر احد وہاں نہیں تھا۔۔۔۔اذان کی آواز آئی تو وہ کمرے آئی تو محمود صاحب بھی جاگ چکے تھے،آستر نے انھیں وضو کرایا اور ان کی ویل چیر پر بیٹھ بیٹھا دیا وہ نماز پڑھنے لگے تو آستر نے بھی وضو کی اور نمار پڑھنے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

احد نیچے آیا اور زوبیا کو ابھی تک فون پر لگا دیکھا تو نفی میں سر ہلایا اور اس کہ پاس آیا اور موبائل اس سے لیااور بولا)

کچھ باتیں بعد کہ لیے بھی رکھ لو۔۔(وہ طنزیہ بولا تووہ بولی)

آپ کو کیا مسلہ ہے۔۔۔دے دیں موبائل۔۔میرا گھرموبائل رہ گیا ہے اسکا فائدہ نہیں اٹھایں آپ۔۔(وہ منہ بناکر بولی)

ساری بیٹری ختم کردی بدتمیز۔۔(اس کی بات کا جواب دیے بنا موبائل کو دیکھتے ہوئے بولا اور کمرے کی طرف برھ گیا کہ انکل سے مل لے مگر جیسے ہی وہ اندر گیا۔۔۔۔تو اندر محود صاحب ویل چیر پر آگے نماز پڑھ رہے تھے اور ان کہ پیچے آستر۔۔مگر دونوں کی پیٹھ احد کی طرف تھی۔۔احد آرام سے دروازہ بند کرکہ باہر آگیا۔۔۔

کیا ہوا؟(اسے باہر اتے دیکھ زوبیا بولی)

وہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔۔۔(احد نے اسے وجہ بتائی)

اچھا۔۔۔بھائی ۔۔

ہمممم

یہ لوگ کتنے اچھے ہیں نا۔۔۔مطلب دنیا میں اسے لوگ بھی ہیں جو بناجان پہچان کہ ہماری مدد کررہے ہیں۔(زوبیا نے احد سے کہا)

ہاں دنیا میں ابھی اچھے لوگ موجود ہیں ۔۔۔اچھائی ابھی ختم نہیں ہوئی دنیا سے۔۔(احد نے کہتے ہوئے عبدالھادی کو اٹھایا اور بولا)

تم نے نام کیا سوچا اس کا۔۔؟

عبدالھادی ۔۔۔ہدایت دینے والے کا بندہ۔۔(زوبی نے مسکرا کر بتایا تو احد نے اسے ستاہیشی نظروں سے دیکھا اور بولا)

واہ بھئی نام بہت اچھا سوچا ہے۔

میں نے نہیں آستر نے بتایا تو مجھے پسند آیا تو میں یہ ہی رکھ دیا۔۔(زوبیا نے اسے سچ بتایا)

میں بھی کہو کہ تم انتا اچھا کیسے سوچ سکتی ہو۔۔(وہ اپنی مسکراہٹ دبتا ہوا بولا)

اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے،(وہ منہ بنا کر بولی )

تمہاری سوچ کی حد کہا تک ہے مجھے پتا ہے۔۔

اچھا کہا تک ہے؟(وہ لڑنے والے اانداز میں بولی)

اچھا بعد میں لڑلے نہ ابھی آرام کرو۔۔(احد اس کہ انداز پر بولا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آستر نماز پڑھ کراٹھی تو محمود صاحب بولے۔۔۔) بیٹا ناشتے کا انتیظام کرو سب کہ لیے۔۔

جی بابا۔۔(آستر کہہ کر باہر نکلی تو احد اور زوبیا کو بےحیث کرتے دیکھا پھر احد کہ کہنے پر وہ خاموش ہوگئی۔۔پھر زوبیا کی نظر آستر پر پڑی تو بولی)

آستر پلیز یہاں آونہ۔۔ دیکھو بھائی مجھ سے لڑرہے ہیں۔(زوبیا نے جب اس کا نام لیا تو احد نے اس کی طرف دیکھا نہیں مگر اس کا روم روم اس کہ جواب کا منتظر تھااس کی بات پر وہ مسکرائی اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔اور آستر بنا کچھ کہے اگے بڑھی تو احد فورا اٹھا اور بولا۔۔)

میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔(اس کہ کہنے پر استر نے اس کی طرف دیکھا مگر احد جب تک جاچکا تھا۔۔آستر نے اس کی پیٹھ کو گھورا۔۔۔بڑا آیا ۔۔میرے گھر میں آکر مجھے ہی روک رہا ہے۔۔آستر نے دل میں سوچا )

احد نے گیٹ کھولا تو سامنے ایک لڑکی اور لڑکا کھڑے تھے۔۔۔وہ دونوں ہی احد کو دیکھ کر حیران تھے۔اور احد ناسمجھی سے انھیں دیکھ رہا تھا۔۔)

جی کیا کام ہے کون ہیں آپ لوگ؟(احد کہ پوچھنے پر ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر لڑکی بولی)

یہ سوال تو ہمیں کرنا چاہیے کہ آپ کون ہیں اور اس گھر میں کیا کررہے ہیں ۔۔اور آپی کہا ہیں؟(السا کہ ایک ساتھ اتنے سوالات پھر احد نے حیرت سے اسے دیکھا)

میں۔۔۔(وہ آگے کچھ بولتا اس سے پہلے السا اسے سامنے سے ہٹاتی اندر چلی گئی۔۔اور احد گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا)

میری بہن ہے۔۔(احد کہ دیکھنے پرضمیر بولا تو احد نے اسے دیکھا اور دل میں بولا ۔۔۔۔تو میں نے کب چھیڑا ہے اسے ۔۔)

آپ شاید وہی ہیں جس کہ بارے میں دادی نے بتایا تھا۔۔۔میرا نام ضمیر ہے اور میں اسی گھر میں رہتا ہوں۔۔(ضمیر نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنا ہاتھ آگے کیا۔۔)

میرا نام احد ہے۔۔(اس نے بھی مسکراکر اس سے مصافہ کیا اپھر احد بولا)

کیا آپ مجھے بتاسکتے ہیں کہ یہاں مکینک کہاں ملے گا میری گاڑی خراب ہوگئی ہے۔۔

ابھی تو ہلکی ہلکی روشنی ہوئی ہے،ابھی تو کوئی دکان بھی نہیں کھلی ہوگی۔۔تھوڑی روشنی ہوجائے پھر آپ کو لےجاوں گا۔۔(ضمیر نے کہا)

بہت شکریہ۔۔(احد نے مسکراتے ہوئے کہا پھر وہ چلا گیااور احد اندر آگیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السا اندر بولتی ہوئی آئی ۔۔آپی آپی۔۔۔

کیا ہوا؟سب خیریت۔۔(آستر نے پوچھا)

ہاں ہاں سب ٹھیک ہے۔۔اپنے مہمانوں سے تو ملواہیں۔۔(السا کہ کہنے پر آستر نے مسکرا کر زوبیا کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرارہی تھی۔پھر زوبیا کا،فاطمہ کا جو اس کی آواز پر اٹھ چکی تھیں اور عبدالھادی کا تعارف کرایا۔ السا تو عبدالھادی کو گود میں لے کر پیار کرنے لگی اسے چھوٹے بچے بہت پسند تھے۔۔)

السا تم یہاں بیٹھو زوبیا کہ پاس میں ناشتہ بنالوں۔۔(آستر کہہ کر کچن میں چلی گئی تو فاطمہ بھی اس کہ پاس چلی آہیں اور بولیں)

بیٹا مجھے بتاو کیا کرنا میں بنادیتی ہوں۔۔(فاطمہ نے بڑے پیار سے کہا تو آستر بولی)

نہیں نہیں آنٹی میں کرلوں گی آپ آرام کریں تھک گئی ہونگی۔۔(آستر نے انھیں پیار کہا اور باہر بھیجا اور پھر آٹا کھوندھنے لگی۔۔)

احد جب اندر آیا تو السا اور زوبیا باتوں میں لگی تھیں اور عبدالھادی السا کی گود میں تھا۔۔۔ایک کم تھی کہ دوسری بھی مل گئی ۔۔(احد نے السا کو دیکھتے ہوئے کہا اور محمود صاحب کہ پاس چلا گیا۔۔)

انکل میں اندر آجاوں ۔۔(احد نے ان سے اجازت طلب کی)

ہاں ہاں بیٹا ۔۔(انھوں نے اسے اندر آنے کو کہا)

انکل ہم نے اکر آپ لوگوں کو تکلیف میں ڈال دیا ۔۔(وہ شرمندہ سا ہوکر بولا)

نہیں بیٹا،مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔۔(وہ مسکراتے ہوئے بولے اور پھر وہ دونوں باتوں میں لگ گئے جس میں محمود صاحب بول رہے تھے اور احد سن رہا تھا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کون ہیں ؟(السا نے زوبیا سے پوچھا احد کہ بارے میں)

میرے بھائی ہیں۔۔(زوبیا نے مسکرا کر بولا)

میں آپی کی مدد کروادوں زرا۔۔(السا بول کر کچن میں چلی گئی)

آپی میں کچھ مدد کروں؟(السا نے آستر سے کہا)

آگئی آپ کو میری یاد۔۔(آستر نے مسکرا کر بولا)

آپ کی یاد تو مجھے ہروقت آتی ہے۔۔۔(وہ فل ڈرامائی انداز میں بولی تو آستر ہنس دی)

ڈرامے باز ۔۔(آستر نے بول کر اس کہ سر پر چپٹ لگائی)

آپی آپ نے انھیں دیکھا؟

کیسے؟

وہ زوبیا کہ بھائی کو۔۔۔(احد کہ ذکر پر اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا) ان کی آنکھیں کتنی پیاری ہیں۔کیا پرسنلیٹی ہے اور آواز تو اففففف۔میں تو دیکھتی ہی رہ گئی۔۔(السا اپنی ہی بولتی جارہی تھی)

یہ دسترخوان لگا جاکر باہر۔۔۔(آستر کو اسےچپ کروانے کا یہ ہی حل سوجا)

جی اچھا۔۔(وہ دسترخوان باہر لے آئی تو آستر نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔ظاہری خوبصورتی کافی نہیں ہوتی السا،انسان کا کردار بہت معنی رکھتا ہے۔۔۔(آستر نے دل میں سوچا)

پھر ان دونوں نے مل کر ناشتہ لگایا۔۔۔اور محمود صاحب کہ لیے اور احد کہ لیے ایک ٹرے میں پراٹھے ،چائے اور آملیٹ رکھ کر السا کو دیا۔)

السا یہ اندر بابا کو دے آو۔۔۔(جی آپی السا نے ٹرے لی اور کمرے میں چلی گئی)

السا ٹرے لے کر اندر آئی اور بیڈ پر رکھ دی۔۔تو محمود صاحب بولے)

یہ السا ہے۔۔(محمود صاحب نے السا کا احد سے تعارف کرایا تو السا نے مسکراکر سلام کیا اور اس نے صرف سر ہلاکر سلام کا جواب دیا پھر وہ باہر اکر سب کہ ساتھ مل کر ناشتہ کرنے لگی اور محمود صاحب اور احد کمرے میں۔۔)

ناشتے سے فارغ ہوکر احد باہر نکل گیا اور تین چار گھنٹےکہ بعد آیا ۔۔تو زوبیا اور فاطمہ کو چلنے کا کہا۔۔۔آستر فاطمہ اور زوبیا سے ملی السا بھی وہی موجود تھی۔احد محمود صاحب سے ملا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔۔

احد باہر آیا تو آستر عبدالھادی کو پیار کر رہی تھی جو کہ زوبیا کی گود میں تھا۔۔۔احد ان کہ قریب آیا اور آستر سے بولا)

میں آپ کا شکریہ کن الفاظوں میں ادا کروں میرے پاس تو وہ لفظ ہی نہیں ہیں۔۔۔(احد کا وہی سنجیدہ لہجا اور اس کی گھمبیر سی آواز میں بولا)

اس کی ضرورت نہیں۔۔(آستر بنا اسے دیکھے بولی تو احد کو دکھ ہوا کہ وہ اسے دیکھنا بھی گورا نہیں کرتی۔۔)

بہت شکریہ۔۔(وہ بس اتنا ہی بولا اور باہر چلاگیا اور آستر نے اسے جاتا دیکھا تو سوچا)

اللہ کسی کو دے کہ آزماتا ہے تو کسی سے لے آزماتا ہے،میرے رب نے بھی مجھے آزمایا کہ تمہیں سامنے لاکر،کوئی اور وقت ہوتا تو میرا ردے عمل بھی دوسرا ہوتا۔۔۔مگر میں کیسے کسی معصوم کو تمہارے کیے کی سزا دے سکتی تھی۔۔۔۔میری رب سے دعا ہے کہ آج مل گئے ہو دوبارہ زندگی میں مت ملنا۔۔۔

آستر ۔۔(زوبیا کی آواز پر وہ حال میں لوٹی جو سامنے اپنی بانہیں پہلائے ہوئے اس کہ گلے لگنے کو تیار تھی آستر بھی مسکراکر اس کہ گلے لگ گئی۔)

آج یہاں سے ہم اپنی دوستی کی شروعات کرتے ہیں۔۔(زوبیا اس سے الگ ہوکر آستر اور السا کی طرف دیکھ کر بولی)

بلکل کیوں نہیں۔۔(السا جھٹ بولی جب کہ آستر نے مسکراکر سر ہلایا۔۔پھر وہ تینوں باہر تک آہیں تو احد اور فاطمہ زوبیا کا ہی انتیظار کررہے تھے،احد نے زوبیا کہ لیے گاڑی کا دروازی کھولا تو وہ عبدالھادی کو لے کر بیٹھ گئی اوراحد گاڑی میں بیٹھا اور دروازے پر دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھی بس السا کھڑی تھی۔۔احد نے گاڑی آگے بڑھا دی)

آستر اور السا نے مل کر پورے گھر کی صفائی کی۔۔۔۔آستر جب گھر میں ہوتی تھی تو السا کا سارا دن یہیں ہوتی تھی۔

آپی آپ تھک گئی ہونگی آرام کرلو۔۔رات بھر جاگی ہو۔۔(وہ کام سے فارغ ہوکر بیٹھیں تو السا بولی)

ہاں تھک تو گئی ہوں۔۔نماز کا ٹائم ہونے والا ہے اور کھانا بھی بنانا ہے۔۔(آستر نے کہا)

کھانے آپ فکر نہیں کرو۔۔کیونکہ آج میں بریانی بنانے والی ہوں۔۔بھائی کو سامان کی لسٹ دےدی ہے۔۔(السا نے خوشی سے کہا۔۔وہ جب بھی کچھ بناتی تھی آستر کہ لیے ضرور لاتی تھی اور آستر بھی کچھ نا کچھ بناکر اسے دیتی تھی۔۔)

اووو بریانی ہممم مزا آئے گا۔۔۔(آستر نے مسکراتے ہوئے کہا)

چلیں میں چلتی ہوں بھائی سامان لے آئے ہوں گے۔۔(السا کہہ کر اٹھی اور چلی گئی اور آستر محمود صاحب کہ پاس آئی اور انھیں کمرے باہر لے آئی۔۔)

ابھی گھر میں کیسی حل چل ہورہی تھی۔۔۔۔۔اور اب وہی سناٹا۔۔۔(محمود صاحب اپنے گھر کو دیکھتے ہوئے بولے)

بابا وہ سب صرف کچھ وقت کہ لیے تھا۔۔ہمیں تو ایسے ہی رہنا ہے نا۔۔(آسستر ان کہ گھٹنوں میں اپنے ہاتھ رکھ کر نیچے بیٹھ گئی اور انھیں سمجھانے لگی جو تھوڑے اداس لگ رہے تھے۔۔)

احد بہت اچھا بچہ ہے۔۔۔کہتا ہے آج سے آپ میرے دوست ہیں۔۔۔(وہ کہہ کر مسکرائے جب کہ آستر کہ چہرے اثرات بدل گئے وہ کچھ نہیں بولی)

آستر مجھے بہت خؤشی ہے کہ تم نے ان لوگوں کی مدد کی۔۔تمہیں پتا ہے کسی تکلیف کو محسوس کرنا بھی ایک بڑی نعمت ہے۔یہ محسوس کرنے کی صلاحیت بھی اللہ کی رحمت ہے۔یہ جو جسم پر کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے نا ہمیں وہ بھی اللہ کی رحمت ہے،دل کی نرمی بھی اللہ کی رحمت ہے،ہماری وقتی پریشانیاں اور تکلیفیں بھی رحمت ہیں،بس ہمیشہ اللہ سے اسکا فضل مانگتے رہنا چاہیے۔۔۔۔ہم نہیں جانتے کس چیز میں ہماری بہتری ہے۔(وہ اسے سمجھارہے تھے اور آستر ان کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہی تھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Continue Reading

You'll Also Like

73 3 3
احببت لافعل المستحيل ........،
3.7K 431 28
یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے ہم چاہے خود کو دینا کی رنگینیوں میں جتنا بھی گم کر...
78 7 4
قصتي شبه خيالية عشت باوجاع من الصغر لحد الكبر يوم ارتاح وعشرة ايام اتعذب بيهن وين ماروح المشاكل وراي اول فرحة حضيت بيها بحياتي مالحكت اتهنى بيها لاكن...
21.2K 1.1K 24
Deewangi e shouq: دیوانگیٔ شوق: دوستی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مخلص دوست کسی سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن بے غرض اور مخلص دوست بھی قسمت والوں...