قسط ۲۵ (آخری)

3.8K 221 80
                                    

"زمان"۔ امان کی چیخیں گونجی تھیں۔ خون میں لت پت، زمین پر ڈھیر ہوا زمان کا وجود دیکھ کر شانزہ کی بھی ساتھ چیخ نکلی۔ نظریں بےساختہ عدیل کی جانب اٹھی۔
"یہ کیا کیا تم نے"۔ وہ ششدر اور خوف کے ملے جلے جذبات سے چلائی۔ عدیل ساکت رہ گیا تھا۔ وہ گولی امان پر چلانا چاہتا تھا، مگر زمان سامنے آگیا تھا۔
"میں۔۔۔ وہ نہیں۔۔۔ وہ"۔ وہ ہکلایا۔
وقاص نے سہم کر بائیک عدیل کے بغیر چلادی۔ عدیل نے بھاگنا چاہا، مگر جیسے ہی مڑا تو انکشاف ہوا کہ وقاص اس کے بغیر ہی جاچکا ہے۔
"زمان"۔ امان نے اس کا چہرہ تھپکا۔
"شانزہ۔۔۔ شانزہ۔۔۔ زمان۔۔۔ گارڈز! ایمبولینس"۔ امان صدمے کے مارے چیخ رہا تھا۔ اس کا خون دیکھ کر اسے خوف محسوس ہورہا تھا۔ شانزہ منہ پر ہاتھ رکھے گھٹ گھٹ کر رونے لگی۔
"میں اسے مارنے آیا تھا مگر وہ۔۔۔۔۔ میری تم۔۔۔" عدیل ہکلایا۔
" دفع ہوجاؤ"۔ وہ حلق کے بل چیخی اور روتے ہوئے زمان کی طرف آئی۔ امان زمان کی یہ حالت دیکھتے ہوئے کمزور پڑنے لگا۔ اسے نہیں یاد وہ کس طریقے سے اسے ہسپتال لایا تھا۔
"شانزہ اسے۔۔۔ اسے اگر کچھ ہوگیا تو۔۔۔ شانزہ میں مرجاؤں گا کچھ کرو۔۔۔ کچھ کرو۔۔۔ اس نے یہ کیا کیا۔۔ میری ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا دے دی اس نے مجھے؟"۔ وہ دیوار کے ساتھ لگتا زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔
شانزہ کی سانسیں رک گئی تھیں۔ وہ اندر تھا۔ اس کا بھائی۔ اس کا دوست! وہ گھٹ گھٹ رونے لگی۔
وہ خود امان کو سنبھالنے کے قابل نہیں تھی۔ کب خبر پہنچی اور کب شانزہ کے گھر والے آئے اسے اس بات کی بھی خبر نہ ہوئی۔
فاطمہ زرد پڑتے چہرہ لئے کپکپاتی ہوئی اس کے پاس بیٹھی۔
"کہاں ہے زمان؟ مجھے کوئی بتا کیوں نہیں رہا شانزہ! کہاں ہے زمان؟"۔ اس نے سن بیٹھی شانزہ کو جھنجھوڑ ڈالا۔ نظریں بےاختیار بھٹک کر امان کی طرف اٹھیں جو خون میں لپٹی شرٹ پہنے زمین پر بیٹھا چیخ رہا تھا۔
"خ۔۔خون" وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی۔
"کیا کوئی مجھے بتائے گا وہ کہاں ہے؟ اسے کیا ہوا شانزہ۔۔۔ وہ ٹھیک ہے نا؟"۔ ہچکیوں سے روتے ہوئے وہ اسے ایک بار جھنجھوڑنے لگی۔
"دعا کرو صرف فاطمہ! ان کے لئے دعا کرو۔ دو گولیاں! دو گولیاں لگی ہیں انہیں۔۔۔ تمہیں پتا ہے انہیں کس نے ماری گولی؟"۔ شانزہ نے اس کے دونوں بازو مضبوطی سے پکڑے۔ پیچھے سے عدیل ہانپتا ہوا کوریڈور میں داخل ہوا۔
وہ ششدر ہوئی اسے تکنے تھی۔ ایک دم آنسو بہے اور بہتے چلے گئے۔
" میں نہیں چھوڑوں گی اسے۔۔ کس نے مارا ہے؟ مجھے بتاؤ۔۔۔"
انگلی سے فاطمہ کے پیچھے آتے عدیل کی طرف اشارہ کیا۔
"اس شخص نے!" فاطمہ نے اس کے اشارے کی طرف مڑ کر دیکھا اور ساکت رہ گئی۔ بس وہ وقت تھا اور اسے خبر نہیں تھی کہ اتنی جلدی اس کا دماغ سن ہوجائے گا وہاں موجود تمام نفوس بےیقینی سے عدیل کو دیکھنے لگے۔ قہر آلود نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اس کی جانب بھاگی۔
"کیوں آئے ہو تم!" اس نے قریب آکر اس کا گریبان پکڑا۔ اس کی عزت فاطمہ کی نظروں میں اتنی کم ہوگئی تھی کہ "بھائی" کہہ کر مخاطب کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
"مجھے نہیں پتا تھا اسے گولی۔۔۔ وہ مجھے"۔ عدیل نے گبھرایا۔
"اگر میرے بھائی کو کچھ ہوا تو ایک بات یاد رکھنا۔ امان کچھ نہیں کریں گے تمہارا جو میں کروں گی!"۔ وہ اتنی زور سے چیخی تھی کہ عدیل کو اپنے کان سن ہوتے محسوس ہوئے۔
جاوید صاحب قریب آئے اور ایک زناٹے دار تھپڑ عدیل کے منہ دے مارا۔
"یہ تربیت کی تھی تمہاری؟ کہ کسی کی جان لینے کی بھی ہمت آگئی! اگر پولیس آئی تو میں تمہیں نہیں بچاؤں گا عدیل! تم نے اپنی بہن کا گھر بسانے سے پہلے ہی اجاڑنے کا کیسے سوچ لیا؟ اس کے ہونے والے شوہر پر گولی چلادی؟"۔ ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر پڑا تھا۔
زمین پر بیٹھا امان سسک رہا تھا۔ اس کا بھائی اندر تھا بس اسے یہ یاد تھا۔
اس نے نگاہیں اٹھا کر عدیل کو دیکھا۔ امان اس لمحے اپنے آپ کو اتنا کمزور کرگیا تھا کہ اٹھنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ گارڈز آچکے تھے اور امان کے ارد گرد کھڑے تھے۔
"دیکھو میری بے بسی۔ کچھ بھی نہیں کر پارہا میں۔ میرے بھائی کا مجرم سامنے کھڑا ہے اور میں ہل بھی نہیں پارہا۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے عدیل۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے نہیں معلوم تھا میری غلطیاں مجھے اتنی بڑی بڑی سزائیں دیں گی۔ وہ میرا خون ہے۔ وہ آخری خونی سہارا ہے۔ میں تمہارا دشمن ہوں نا؟ اب ایسا کرو اپنے دشمن کے لئے دعا مانگو عدیل۔ دعا مانگو کہ میرا بھائی بچ جائے۔ میرا دل لرز رہا ہے شانزہ۔ میرا دم نکل رہا ہے۔۔۔ میں مرجاؤں گا اگر ایسے رہا کچھ دیر!"۔
شانزہ کا دل کانپا اور وہ چیختے ہوئے اس کی جانب بڑھی۔
"امان۔ امان کچھ نہیں ہوگا۔ وہ ٹھیک ہوجائیں گے خدارا"۔ وہ چیخ رہی تھی۔ اسے اپنا شوہر یوں تڑپتا ہوا نہیں دیکھا جارہا تھا۔
"ماما"۔ فاطمہ روتے میں سے چیخی تھی۔ صبور اس کی طرف بڑھیں۔
"وہ ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔ دعا کرو۔ اس وقت دعا سے بڑھ کر کچھ نہیں"۔ انہوں نے فاطمہ کو جنھجھوڑا۔
"ماما ان کو بولیں یہاں سے چلے جائیں۔ اماں میرا دل پھٹ جائے گا ان کو بولیں یہاں سے چلے جائیں۔ اماں وہ زمان اتنے خوش تھے آج۔۔۔ میرا بھائی اپنی بہن کی ہی خوشیوں کو کھاگیا اماں۔۔ ان کو بولیں یہاں سے دفع ہوجائے"۔ فاطمہ چیخ رہی تھی۔ ایک کہرام مچا تھا۔ صبور نے قہر آلود نگاہیں عدیل ہر ڈالی تھیں۔
ناصر صاحب کا دل بیٹھ گیا۔ وہ امان کی جانب آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھے۔
"اللہ سب ٹھیک کردے امان۔ بھروسہ کرو"۔ انہوں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دھرا۔
"میں مررہا ہوں انکل۔۔ میں مررہا ہوں۔۔۔ میرا بھائی۔۔۔ میرے بھائی کو بلاؤ۔۔ شانزہ اس سے کہو کہ امان اسے کبھی بھی نہیں ڈانٹے گا۔ تم دیکھنا وہ اٹھ جائے گا۔ وہ یقیناً مجھ سے خفا ہے۔ تمہیں پتا ہے نا وہ کتنا اچھا لگ رہا تھا آج۔ میرا بھائی۔ میرا۔۔ بھائی۔ اسے اٹھاؤ۔۔ اس سے کہو امان بلا رہا ہے اسے۔۔ اسے تکلیف ہورہی ہوگی۔ اس سے کہو وہ اپنے بھائی کے بغیر مر جائے گا۔ وہ میرا بھائی ہے شانزہ۔ شانزہ میرا دل۔۔ مجھے کچھ ہورہا ہے"۔ امان نے اپنے سینے کو مسلا۔
شانزہ کا دل کسی نے سختی سے مٹھی میں جکڑا۔
ناصر صاحب نے اسے سنبھالنا چاہا۔
" انکل مجھے چھوڑدیں۔ انکل میرا ہاتھ چھوڑیں۔ میرے بھائی کو بلائیں۔ مجھے اس کے پاس جانا ہے"۔ اس نے شانزہ کا ہاتھ تھام کر اٹھنا چاہا، مگر لڑکھڑا گیا۔ شانزہ پیچھے ہٹ کر ماں کے گلے لگ گئی۔ وہ روتی گئی ہچکیوں سے! وہ اس کا بھائی! وہ اندر تھا۔ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہا تھا۔ رمشا حیرت سے عدیل کو دیکھتی رہ گئی تھی اور اب فاطمہ کو سنبھال رہی تھی۔
امان نے گردن عدیل کی طرف موڑی۔
"دعا کرو میرے بھائی کو کچھ نہ ہو۔۔۔ دعا کرو گے نا؟" وہ اپنے دشمن کے پاؤں پڑرہا تھا۔ عدیل کا بدن کپکپایا۔ وہ بھاگتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
کتنے گھنٹے آپریشن کے بعد ڈاکٹر باہر آئے تھے۔ امان ان کی طرف بڑھا۔
"ایک گولی بازو پر لگی تھی جبکہ ایک کندھے کو چھو کر گزری تھی۔ ہم نے نکال دی۔۔ دعا کریں انہیں جلد ہوش آجائے"۔ یہ بات امان کو قدرے سکون میں لائی تھی۔
آدھا گھنٹا یونہی گزر گیا۔
"تم اور مت رو! دیکھو اپنی آنکھیں۔۔ کتنی سوج رہی ہیں۔ تمہیں پتا ہے میرا دل کتما پرسکون ہے جب سے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسے ہوش آجائے گا! جاؤ منہ ہاتھ دھو۔۔ اس کے لئے دعا مانگو۔۔۔۔ دل سے کی گئی دعا اللہ رد نہیں کرے گا! میں امان کو دیکھتی ہوں ان کی حالت ٹھیک نہیں!" کہتے ساتھ وہ اٹھ کر زمین پر بیٹھے امان کے پاس بیٹھ گئی۔ بے سدھ سا زمین کو یک ٹک گھوررہا تھا۔
"وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ ہوش آجائے گا! ڈاکٹرز نے کہا ہے نا؟" اس کا کندھا تپھکتے ہوئے وہ محبت سے کہہ رہی تھی۔
"میری امیدیں ماند پڑ رہی ہیں"۔ وہ دھیمی آواز میں خوفزدہ ہوکر بولا۔
"امیدیں اللہ سے لگائیں امان"۔ اسے یقین تھا اپنے رب پر۔
"میں کمزور ہورہا ہوں"۔
"ہاں آپ کمزور ہیں! آپ کا اللہ نہیں ہے کمزور۔۔۔ اس رب سے مانگیں جو مالک کل جہاں کا ہے"۔
امان نے اس کی بات کو دل پر محسوس کیا۔ وہ اثبات میں سرہلاتا ہوا اٹھ کر پرئیر روم کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
تقریباً دو گھنٹے بعد اسے ہوش آیا تھا۔ امان اب بھی پرئیر روم میں تھا۔ اسے خبر دی، مگر اس نے کہا کہ وہ شکرانہ پڑھ کر اس سے ملے گا۔ فاطمہ کی بھی ابھی واپسی نہیں ہوئی تھی اس لئے شانزہ نے سوچا کہ وہ اندر چلی جائے۔ وہ دروازہ دکھیل کر اندر داخل ہوئی۔ زمان کی جگہ جگہ پٹیاں بندھی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں بہت سا پانی آگیا۔ وہ چلتے ہوئے اس کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ تھوڑی آنکھیں کھول کر زمان نے اسے دیکھا۔
"امان ٹھیک ہے؟"۔ گھٹی گھٹی سی آواز سے زمان نے پوچھا۔ اتنی تکلیف میں ہونے کے بعد بھی اسے اپنے بھائی کی فکر تھی۔ شانزہ نے زیر لب مسکرا کر اثبات میں سرہلایا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔
"اچھا لگتا ہے ہمیں یوں تکلیف میں دیکھ کر؟"
زمان نے اسے دیکھا۔
"تمہیں تو کچھ نہیں ہوا نا؟"۔ وہ فکر مند ہوا
"ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ کو اپنی فکر نہیں ہوتی"۔
"میں ٹھیک ہوں شانزہ۔۔ یہ دیکھو زندہ ہوں! تمہیں یاد ہے ایک دفعہ لاؤنج میں امان مجھے تکیہ مارا تھا تو میں زمین پر گرگیا تھا؟ بس اس سے تھوڑا ذیادہ درد ہے"۔ وہ اس موقع پر بھی ہنسانے میں مصروف تھا۔ شانزہ ہنس دی۔
"سنو میری تکلیف کا امان کو مت بتانا! وہ کہاں ہے شانزہ؟"۔
"بہت برا حال تھا ان کا۔۔ نماز میں آپ کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں!"۔
"کیا ہوا تھا اسے؟"۔ وہ زیادہ بول نہیں پارہا تھا۔
"وہ بس چیخ رہے تھے! رورہے تھے۔ میں بہت ڈر گئی تھی بھائی"۔
زمان مسکرادیا۔
"فاطمہ آئی ہے مجھے دیکھنے؟"۔ زمان نے امید سے دیکھا۔
"وہ آرہی ہے زمان بھائی! باہر ہی ہے۔ میں بلالیتی ہوں۔ نماز پڑھ چکی ہوگی وہ!"۔ کہتے ساتھ وہ باہر جاکر فاطمہ کو اندر بھیج دیا۔
"کیسی ہو"۔ زمان چھوٹتے ہی پوچھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ وہ آبدیدہ ہوگئی۔
"مجھے ڈرادیا تم نے زمان! میں بہت روئی تمہارے لیے۔ میں ڈر گئی تھی بہت!"۔ کرسی پر بیٹھ گئی اور چہرہ ہاتھوں سے چھپالیا۔
"کچھ نہیں ہوا ہے مجھے! کیا تمہیں لگتا ہے زمان اتنی آسانی سے مرجائے گا؟ صرف طبیعتاً نہیں بلکہ میری ہڈیاں بھی ڈھیٹ ہیں"۔ زمان کے یوں کہنے ہر فاطمہ روتے میں ہنس دی۔
"باز آجاؤ" آنسو صاف کرتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
"کیا تم نے شادی کی بات کی گھر میں؟"۔
فاطمہ متحیر ہوئی۔ یہ کونسا موقع تھا یہ گفتگو کرنے کا؟
"ابھی ہوش میں آئے ہو تم اور دیکھو تو کیسی باتیں کررہے ہو! میں نکاح کی بات کروں گی بس تم اب جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ! میں امان بھائی کو بلا کر لاتی ہوں۔۔۔" اس کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے وہ باہر نکلی۔
اب زمان کو خود کو تیار کرنا تھا تاکہ امان کو سنبھال سکے۔
تقریباً پانچ منٹ بعد امان تیزی سے اندر داخل ہوا تھا اور اس کے قریب آیا تھا۔ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ لمحے گزر گئے، مگر امان کچھ بول نہ پایا۔ اس نے زمان کا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا۔ امان کے لب کپکپارہے تھے۔
"ہشششش۔۔ میں ٹھیک ہوں! سب ٹھیک ہے۔۔ یہ دیکھو مجھے! مجھے تو تکلیف نہیں ہورہی"۔ بائیں ہاتھ پر پٹی بندھی تھی اور دایاں ہاتھ امان کے ہاتھوں میں تھا۔
"مگر مجھے تکلیف ہورہی ہے! میں بھائی ہوں نا! میں بہت ڈر گیا تھا زمان۔ دیکھو تمہیں دو گولیاں لگی ہیں"۔
"لگی ہیں گولیاں، مگر اب مجھے درد ہی نہیں۔ دیکھو!" اس نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر دکھایا۔ تکلیف کی ایک لہر اٹھی تھی جسے وہ امان کے لئے فراموش کروا چکا تھا۔ امان نے بڑھ اس کا ہاتھ آرام سے نیچے کیا۔
"میں ڈر گیا تھا زمان۔ ایسا مت کرنا دوبارہ میرے ساتھ۔۔ کیوں آئے میرے سامنے؟ کیا ہوا اگر مجھے لگ جاتی گولی! تم آئیندہ ایسا نہیں کرو گے! اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو؟"۔
زمان نے اسے گھورا۔
"اگر تمہیں لگ جاتی گولی تو؟"۔
"مجھے لگ جاتی گولی، مگر تمہیں نہیں! میں مر بھی جاتا تو کچھ نہیں ہوتا اور اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں خود مرجاتا"۔
"پاگل نہ ہو تو"زمان نے نظریں پھریں۔
"ہوسکتا ہے پولیس آئے تفشیش کرنے!"۔ امان نے خبردار کیا۔
"کہہ دوں گا کہ مجھ سے ہی گولی چل گئی تھی غلطی سے"۔
"تم اس کا نام نہیں لو گے؟"۔
"نہیں! میں چکی نہیں پیسنا چاہتا۔ اس سے دور رہو تم۔۔ مجھے ڈرگتا ہے وہ تمہارے ساتھ کچھ نہ کردے امان، مگر مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرے گا! شاید اب باز آگیا ہو۔۔۔ ہم کیوں اب دشمنی پالیں۔ لیکن اگر یہ مجھے کہیں نظر آیا تو ایک تھپڑ منہ پر ضرور ماروں گا۔ تم چھوڑو نا ان باتوں کو۔۔ وہ بھوک لگ رہی ہے۔ تم میرے لئے لالی پاپ لینے گئے تھے۔ لائے نہیں؟"۔
وہ ایک ایسی شخصیت تھا جو اپنے بھائی کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ خود تکلیف میں تھا، مگر امان کے لئے اپنی تمام تکلیفیں بھولا ہوا تھا۔
"شاہ نواز سے منگوایا ہے تمہارے لئے بہت کچھ! شرط یہ ہے کہ تمہیں اس کے لیے جلدی سے ٹھیک ہونا ہوگا"۔ اس نے کہتے ساتھ اس کا ہاتھوں لبوں سے لگایا۔
"میں تمہاری بیوی ہوں کیا؟ میرا ہاتھ مت چوما کرو مجھے اپنا آپ لڑکی لگنے لگتا ہے"۔ برا سا منہ بناتے ہوئے ہاتھ چھڑایا۔ امان ہنس کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"دیکھو زمان میں کہنا تو نہیں چاہتا لیکن تم میرے بھائی ہو اور چونکے جڑواں بھائی تو مجھے تم سے بہت محبت ہے!"۔ اس نے محبت سے زمان کو دیکھا۔
"۲۴ سالوں میں پہلی بار یہ انکشاف ہوا ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ ورنہ آج تک مجھے یہی لگ رہا تھا کہ ہسپتال کے باہر رکھے جھولے سے اٹھایا گیا ہوں۔ کوئی بات نہیں! جو بھی ہو امان اب تم نے اظہار کر ہی دیا ہے تو میں تمہیں بتادوں مجھے شرم آرہی ہے۔ جاؤ یہاں سے!"
امان مسکرادیا۔ اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس کی پیشانی چومی۔
"تمہاری ماں ہوں میں کیا؟ جو مجھ سے اتنا چپک رہے ہو! یہی کہا تھا نا سسرال میں مجھے؟ شروعات تم نے کی تھی"۔ امان جانتا تھا وہ تب تک یوں پٹر پٹر بولتا رہے گا جب تک وہ اس کے ساتھ بیٹھا رہے گا۔ اس لئے اسے تاکید کرکے باہر نکل آیا۔ اس کے جانے کے بعد زمان نے بدن میں اٹھتی تکلیف جسے امان کی وجہ سے دبائی ہوئی تھی تیزی سے اٹھی۔ اس نے گہری سانس ہوا میں خارج کی۔
۔۔۔★★۔۔۔
ایک دن اور گزر گیا۔ سب ملے، مگر جاوید صاحب خاموش رہے۔ زمان نے ان کو گہرائی تک جاننے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ پولیس تفشیش کرنے آئی تھی جس پر زمان نے یہ بیان دیا تھا کہ گولی اس کے ہی ہاتھ سے غلطی سے چل گئی۔ اس نے عدیل کا نام تک نہیں لیا۔ اس کے بیان دینے پر جاوید صاحب ششدر رہ گئے۔ اگر زمان چاہتا تو عدیل سے بدلہ لے سکتا تھا۔ اگلے دن سورج کے طلوع ہوتے ہی جاوید صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔
"کیسے ہو برخوردار؟"۔
زمان مسکرادیا۔
"اب بہتر ہوں"۔
"عدیل کی طرف سے کیا میں معافی مانگ سکتا ہوں؟"۔ کچھ دیر توقف سے وہ بولے۔ چہرے سے ندامت چھلک رہی تھی۔
"جو معاملہ تھا ختم ہوگیا ہے انکل! اب سب ٹھیک ہے"۔ نرم انداز میں وہ بہت ادب سے بات کررہا تھا۔
جاوید صاحب نے اسے حیرانی سے دیکھا۔ ان کی آنکھیں پھٹنے کے قریب ہوگئیں۔
"بہت ظرف والے ہو تم"۔ وہ اٹھ کر اس کے پاس آئے۔
"میں چاہتا ہوں تم جلد ٹھیک ہوجاؤ زمان! میں اپنی بیٹی کی شادی میں دیر نہیں کرنا چاہتا"۔ وہ اس کے کانوں میں گویا خوشیوں کا سحر پھونک گئے تھے۔ وہ حیرانی سے انہیں دیکھتا رہا۔ پھر اس کی ریکوری بھی تیزی سے ہونے لگی اور وہ دن بھی آگیا جب وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے والا تھا۔
"چونکہ اب تم مکمل ٹھیک ہوچکے ہو تو میرا دل چاہ رہا ہے میں وہی کھیل کھیلوں جو کھیل تم نے میرے ساتھ ہسپتال کی واپسی پر کھیلا تھا"۔ شاطرانہ مسکراہٹ امان کے لبوں پر پھیلی۔ زمان گڑبڑایا۔ اس نے تھوک نگلا۔
"کک۔کون سا کھیل؟ یاد نہیں آرہا! لگتا ہے ایک گولی دماغ پر لگی تھی۔ میموری مکمل لاس ہوچکی ہے امان بھائی"۔ سر کجھاتے ہوئے وہ مسکرایا تھا۔
"یاد دلاؤں گا کوریڈور میں چلتے ہوئے، تم فکر نہ کرو!"۔
"شش۔شانزہ کہاں ہے؟"۔ اس کے پاس آخری راستہ یہی تھا۔
"میں نے اسے گھر بجھوادیا ہے! ایک ہفتہ ہوگیا ہے تمہیں ہسپتال میں رہے۔ اب میں تمہیں بتاؤں گا کہ کیسا لگتا ہے جب آپ کسی کے ساتھ یہ کھیل کھیلتے ہیں"۔ کہتے ساتھ اس کے قریب آیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ "پکڑو میرا ہاتھ"۔ اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا، مگر زمان اس سے دور ہٹا۔
"مجھے منظور ہے!"۔ زمان نے بنھویں اچکا کر اسے دیکھا۔ "مگر یاد کرو تم نے بدلے میں مجھے گدی سے پکڑ کر کمرے میں جاکر الٹا لٹکایا تھا۔ پھر میں بھی یہی کروں گا! کہو منظور ہے؟ دیکھو امان! منظور کر لو۔ کیونکہ تمہیں الٹا لٹکانے میں یہ دیکھو" اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا " یہاں سکون ملے گا"۔
امان گھور کر رہ گیا۔ کتنا خبیث شخص ہے یہ!۔ امان سوچ کر رہ گیا۔
"اپنا بےکار چلتا دماغ مت چلایا کرو"۔ کہتے ساتھ اسے سہارا دے کر اٹھایا۔
"بھائی مجھے سہارے کی ضرورت نہیں دماغ پر چوٹ نہیں لگی میرے جو تمہاری طرح چکرا جاؤں۔ جاسکتا ہوں میں! راستے سے ہٹو میرے" اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
زمان کے مکمل ٹھیک ہونے کے بعد جاوید صاحب نے اگلے مہینے دونوں کی شادی منعقد کردی تھی۔ گھر میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوئی تھیں۔ جیسے شانزہ نے اوپر والی منزل جہاں منہاج اور ماہ نور کا کمرہ تھا، اس کی مکمل صفائی کروائی تھی۔ وحشتوں اور اندھیرے کو کمرے سے نکال باہر کیا تھا۔ امان نے ماہ نور اور منہاج کی تصویر اپنے کمرے میں لگائی تھی اور ڈائری بھی اپنے پاس رکھی تھی۔ کچھ تصاویر زمان نے بھی اپنے کمرے میں وال پر لٹکائی تھیں۔ منہاج کے کپڑے امان اور زمان نے آپس میں بانٹ لئے تھے۔ ہفتے میں دو تین دفعہ وہ دونوں منہاج کے کمرے میں قیام ضرور کرتے۔ اس کمرے سے انہیں ماہ نور اور منہاج کی خوشبو محسوس ہوتی۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت قدم لڑکھڑاتے ضرور تھے۔ وہ ڈائری امان نے بہت حفاظت سے رکھی تھی۔ اس میں منہاج کی زندگی تھی۔ اس ڈائری میں موجود ایک ایک لفظ گواہ تھا کہ انہیں پڑھنے اور لکھنے والے کا دل بہت بڑا تھا۔
بس اب یہ کہ وہ اپنی زندگی اپنے ماں باپ کے دیئے گئے سبق اور تاکیدوں کے عین مطابق گزارنے کوشش کررہے تھے۔ منہاج ٹھیک کہا کرتا تھا۔
کسی ایک کی غلطی نسلیں تباہ کردیتی ہے۔
وہ ایک غلطی ہوئی تھی کسی زمانے میں کسی شخص سے!
منہاج نے یہ بھی ٹھیک کہا تھا کہ امان اس کا عکس ہے۔ اس کی چال بھی منہاج کی طرح تھی۔ بات کرنے کا انداز ہوبہو ویسا تھا۔ بنھویں اچکا کر مسکرانا گویا قیامت بن کر ڈھاتا تھا۔
عدیل یہاں نہیں تھا اب۔ وہ جاچکا تھا۔ بہت دور! سب سے دور! ہاں مگر اس کی کال ضرور آئی تھی۔ امیدیں ماند پڑ رہی تھی مگر حوصلہ ابھی بھی نہیں چھوڑا تھا۔ وہ پشیمان تھا۔
شانزہ نے بےدھیانی میں کال ریسیو کی تھی۔
"ہیلو!"۔ دوسری طرف خاموشی پاکر شانزہ نے ابتدا کی۔ "ہیلو؟ کون ہے؟" اس کا نمبر شانزہ کے پاس محفوظ نہیں تھا۔
"ہیلو شانزہ"۔ دھیمی آواز میں اس نے جواب دیا۔ شانزہ ٹھٹھکی۔
"عدیل؟ کیوں فون کیا ہے آپ نے؟ زندگیاں تباہ کرکے بھی چین نہیں ملا آپ کو؟ آئیندہ یہاں فون نہیں کیجئے گا"۔ کہتے ساتھ اس نے غصے میں فون رکھنا چاہا، مگر عدیل کی آواز نے اسے روکا۔
"میں جارہا ہوں شانزہ! میں ملک سے باہر جارہا ہوں! ہمیشہ کے لئے۔۔۔ دعا کرو کبھی نہ لوٹوں"
شانزہ ساکت ہوئی۔
"میں دعا کروں گی تم کبھی نہ لوٹو!"۔ شانزہ نے تلخی سے کہا۔ عدیل نے تکلیف سے آنکھیں میچیں۔
"آج فلائٹ ہے میری! میں جارہا ہوں تاکہ تم مجھے آئندہ نہ دیکھ سکو، تمہیں غصہ نہ آئے! تم میری غیر موجودگی میں چاچو اور چاچی سے ملنے بلا جھجھک آؤ!"
"خدا حافظ!" شانزہ نے کہہ کر کال کاٹ دی اور موبائل بیڈ پر پھینک دیا۔
اس بات کو بھی بہت دن گزر گئے تھے اور وہ دن بھی آ پہنچا جس کے لئے زمان نے بہت انتظار کیا تھا۔
زمان کی آواز آنے پر وہ نیچے اتری تھی۔
"جی زمان بھائی اور یہ کیا اتنی خراب حالت بنائی ہوئی ہے؟" وہ حیرانی سے اس کو دیکھ رہی تھی جو پسینے سے شرابور باہر سے آیا تھا۔۔
"تھک گیا ہوں یار"۔ وہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا۔ وہ واقعی تھکا ہوا تھا۔ جسے دسمبر کے مہینے میں پسینہ آرہا تھا وہ یقیناً بہت کام کرکے آرہا ہوگا۔
"شادی ہے آج آپ کی! اب ایسا کریں تھوری دیر آرام کریں"۔
زمان کو کچھ یاد اٹھ کھڑا ہوا۔
"کیا تم میرے ساتھ بابا کے روم میں چلو گی؟"۔
شانزہ نے ناسمجھی میں ہامی بھری اور اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی منہاج کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"زمان بھائی شادی کا جوڑا تو پریس کروالیا تھا نا؟ آپ نے نہ مجھے دکھایا جوڑا اور نہ امان کو۔ وہ بار بار پوچھ رہے تھے"۔
"آؤ تمہیں دکھاؤں جوڑا!"۔ معنی خیز انداز میں دیکھتا ہوا مسکرایا اور وارڈروب کی جانب بڑھا۔ وہ اس کے پیچھے ہولی۔
وارڈروب کھول کر اس نے سامنے لٹکے جوڑا کو باہر نکالا۔
"یہ پہننے والا ہے تمہارا بھائی!"
شانزہ ٹھٹھکی۔ وہ منہاج کی شادی کی شیروانی تھی۔ شانزہ کا دل کانپ اٹھا۔
"میں آج بابا جیسا لگنا چاہتا ہوں! یہ دیکھو یہ واچ!" اس نے دراز میں رکھی واچ نکالی۔
"وہ تصویر جو میں نے اپنے کمرے میں لگوائی ہے، اس تصویر میں بابا اپنی شادی پر یہ واچ ہاتھ میں پہنے تھے! یہ واچ اتنی پرانی ہے کہ اب کام نہیں کرتی! میں اسے ٹھیک کرواؤں گا" وہ محبت سے اس واچ کو اپنے ہاتھوں میں گھما رہا تھا۔
"اگر یہ ٹھیک نہ ہوسکی تو؟" شانزہ دھیما بولی۔
"تو میں اس گھڑی کو ایسے ہی پہن لوں گا!" وہ درازیں دیکھنے لگا۔
"آپ بہت اچھے ہیں زمان بھائی! میں واقعی نہیں جان سکتی کہ باپ کے بنا زندگی گزارنا کیسا تکلیف کا عالم ہوتا ہے! جو مجھ پر گزرا ہی نہیں میں وہ کیسے جان سکتی ہوں؟"۔ وہ اعتراف کرتے ہوئے اس کی پشت کو تک رہی تھی۔
"میرا چہرہ کوئی پڑھنے کی کوشش تو کرے!" وہ اپنی کہہ رہا تھا۔ دراز نکال کر وہ بستر پر بیٹھا۔
"چہرے پر غم کے آثار بتارہے ہیں تکلیف بہت ہے"۔ وہ اس کے چہرے کے تاثرات جانچنے لگی۔ دراز میں جھانکتے زمان نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔
"میرا چہرہ پڑھنا بند کرو"۔ اسے گھورتا ہوا وہ پھر سے دراز میں ہاتھ ڈال کر کچھ ڈھونڈنے لگا۔
"کسی کی یاد آرہی یے؟"۔ وہ بستر کے دوسرے کنارے پر آبیٹھی۔
"میں نے کہا نا! میرا چہرہ پڑھنا بند کرو شانزہ"۔
"مجھ سے چھپائیں گے اب آپ؟ کیا مجھ پر یقین نہیں؟"۔
لمحوں کی خاموشی پھیلی۔
"میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوجائیں گے اگر میں نے نام لیا، مگر میں کیا کروں میں خود پر قابو نہیں رکھ پارہا ہوں۔ میں بابا کو یاد کررہا ہوں۔ میں ماما کے لئے تڑپ رہا ہوں"۔ اس سے برداشت نہ ہوا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "آج میرے اتنے بڑے دن میں میرے پاس ماں باپ نہیں! یہ وہ دن ہے جس میں ماں اپنے تمام خواہشیں اور ارمان پورے کرتی ہے. یہ وہ دن جب باپ اپنے بیٹے کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ اس کا بیٹا کتنی جلدی بڑا ہوگیا۔ وہ اسے محبت سے دیکھتا ہے اور رشک کرتا ہے۔ میں اِس کمرے میں اپنی تسکین کے لئے آتا ہوں شانزہ!۔ اس کمرے میں  ماں باپ کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔ سب ختم ہوگیا ہے شانزہ!۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کتنا اچھا ہوگیا ہے نا کہ اب سب ٹھیک ہوگیا یے؟ تم لوٹ آئی ہو۔ میری کون سی نیکی کام آگئی جو آج فاطمہ میرے نام ہونے جارہی ہے۔ امان اب ٹھیک ہوگیا ہے، مگر ایسا نہیں ہے شانزہ! میں اور امان کہیں نہ کہیں ادھورے ہیں! کہیں نہ کہیں خلا ہے ہماری زندگیوں میں۔ میں بابا کو یاد کرنا چاہتا ہوں اور ماما کو سوچنا! خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ دہرانے کا فائدہ نہیں! تم امان کو مت بتانا کہ میں بابا کی شیروانی پہن رہا ہوں! میں اسے سرپرائز دینا چاہتا ہوں!" وہ آخری بات کہتے ہوئے مسکرایا تھا۔
کیا شخص تھا وہ؟ روتے میں مسکرانا کوئی اس شخص سے جانے۔ درد دلوں میں چھپانے میں وہ ماہر تھا۔
"میں نے اس دراز سے بابا کی بہت سی چیزیں لے لی ہیں۔ اگر بابا اس وقت ہوتے تو وہ مجھے منع نہیں کرتے، مگر یوں چوری کرتے ہوئے یہ ضرور کہتے کہ "زمان تم کبھی نہیں بدل سکتے!" وہ قہقہ لگاتے اور مجھے اپنے سینے میں چھپالیتے اور میں ہر بار کی طرح کہتا "بابا مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا" تمہیں بتاؤں وہ کیا جواب دیتے؟ وہ کہتے "کوئی بات نہیں زمان! آپ کے بابا آپ سے بہت محبت کرتے ہیں"۔ مجھے میری ماں بھی بہت یاد آتی ہے شانزہ! میں رویا کرتا تھا نا تو وہ کہتی تھیں کہ "زمان ماما کو تکلیف ہورہی ہے آپ رویا مت کریں!"۔ شانزہ تم سوچتی ضرور ہوگی کہ میں غم میں ڈوبا ہوتا ہوں مگر آنسو نہیں بہتے؟  اس لئے کہ اگر میں رویا تو ماما کو تکلیف پہنچے گی! میں اب اللہ کے سامنے روتا ہوں! اپنے بھائی کے لئے! اپنے لئے! اپنے اہلِ خانہ کے لئے۔ اگر ماما ہوتی نا تو وہ بہت خوش ہوتیں! خوش تو بابا بھی بہت ہوتے، مگر کہتے ہیں کہ ماں اپنے بیٹوں کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے جھوم سی جاتی ہیں۔ ماما کو بیٹیاں بہت پسند تھیں۔ تمہیں پتا ہے وہ اپنی "پرسنز" کہتی تھیں! وہ کہتی تھیں تم میری محبت ہو! " وہ آخری جملہ کہتے ہوئے ہنسا تھا۔
"میری محبت ہو۔۔ میں ۔۔۔۔ ان کی محبت۔۔۔تھا"۔ آواز حلق میں پھنس گئی۔ شانزہ کے آنکھیں بھیک گئیں۔
"آپ بہت ظرف والے ہیں زمان بھائی"۔
زمان مسکرایا۔
"ہاں ہوں گا، مگر تمہارے جتنا بڑا نہیں ہے میرا ظرف!۔  پتا ہے کیوں؟"۔
"کیوں؟"۔ وہ حیران تھی۔
"اگر میں تمہارے جگہ ہوتا۔ پہلی بات ہوتا تو نہیں کیونکہ تم لڑکی ہو لیکن چلو فرض کر لیتے ہیں کہ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں کبھی بھی امان کی جانب پلٹ کر نہیں آتا۔ اس شخص کی جانب تو بلکل بھی نہیں جس نے آپ سے نکاح زبردستی کیا ہو۔ جس کی وجہ سے آپ کے گھر والے آپ سے منہ پھیر گئے۔ تم کسی کو پسند کرتی تھیں اور سب سے بڑی بات ہی یہ کہ وہ تمہارا منگیتر بھی تھا۔ کچھ خواب تھے تمہارے جسے امان نے کچل دیئے۔ ہیں نا؟ وہ شخص جو تمہارا منگیتر تھا تمہیں اب بھی یاد آتا ہوگا۔ بہت کم سہی، مگر یاد ضرور آتا ہوگا۔ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اسے کبھی معاف نہ کرتا۔ کبھی پلٹ کر نہ آتا۔ میں اسے تڑپتا چھوڑدیتا! جب تم گئی تو مجھے محسوس ہوا تھا کہ تم کبھی نہیں پلٹو گی، مگر میں تو اصل زندگی میں اس کا بھائی ہوں۔ میں اسے تڑپتا نہیں دیکھ سکتا اس لئے تمہارے واپس آنے کی دعائیں مانگتا رہا۔ لیکن اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو پلٹ کر ہی نہ آتا"۔ شانزہ اسے غور سے سن رہی تھی۔ وہ بات بلکل سچی کیا کرتا تھا۔
"سچ کہتے ہیں آپ! مگر جو انہوں نے کیا وہ ہوش میں نہیں تھے۔ زمان بھائی؟ ایک بات کہوں آپ سے؟ برا تو نہیں مانیں گے؟"۔ زمان نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کہو"۔ مسکرا کر اجازت دی۔
"انہیں نفسیات کا مسئلہ تھا۔ یہ بات آپ جانتے تھے کہ وہ نارمل نہیں تھے۔ آپ تو بھائی تھے نا! آپ نے علاج کیوں نہیں کروایا؟ جو بھی ہوا پہلے اس گھر میں اس سب سے ان کی شخصیت بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے ماضی کو حاوی کرلیا تھا خود کے اوپر! وہ پاگل ہوگئے تھے۔ انہیں علاج کی بہت ذیادہ ضرورت تھی زمان بھائی! آپ نے کیوں نہیں دکھایا ان کو کسی ڈاکٹر کو؟"یہ وہ سوال تھا جسے شانزہ بہت عرصے سے پوچھنا چاہتی تھی۔
زمان سوچ میں پڑگیا وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔
"تم ٹھیک کہتی ہو شانزہ! کچھ غلطیاں مجھ سے بھی ہوئی ہیں۔ وہ غلطیاں جس سے تمہاری زندگی بھی خراب ہوگئی تھی۔ وہ پہلے یہ بات کبھی قبول نہیں کرتا کہ اسے نفسیات کا مسئلہ ہے۔ ہاں مگر یہی بات وہ اب قبول کرتا ہے کہ ماضی میں اس کو نفسیات کا مسئلہ رہا ہے اور وہ اب پشیمان ہے۔ اپنی ہر غلطی پر۔ اسے ہونا بھی چاہئے۔ اس کو ساری زندگی یہ سوچ کر شرمندگی ہوگی کہ اس نے جو کیا غلط کیا۔  تمہارے معاف کرنے پر ایسا نہیں ہے کہ وہ مطمئن ہوگیا۔ وہ اب بھی شرمندہ ہے اور ساری زندگی اسے اس بات کا افسوس رہے گا کہ اس نے تمہارے ساتھ جو کیا غلط کیا"۔
وہ خود بھی اعتراف کرتا تھا کہ اس سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں جیسے امان کا علاج بہت پہلے کروادینا چاہیئے تھا۔ کچھ چیزیں بہت پہلے ہی ٹھیک ہوجانی چاہیئے تھیں۔
شانزہ نے نظریں جھکائیں۔ ایسا نہیں تھا وہ مجبوری میں آئندہ کی زندگی امان کے ساتھ گزاردے گی۔ اسے اپنے مجازی خدا سے محبت ہوچکی تھی۔ وہ صرف اس کی تھی، مگر یہ پچھتاوا بھی امان کے ساتھ رہنا ضروری تھا کہ اس نے جو کیا غلط کیا!
"باتیں پرانی ہوگئی ہیں زمان بھائی! اب تو سب ٹھیک ہے! میں بہت ذیادہ خوش ہوں اب! بڑی خوشی کی بات یہ ہے میرے لئے کہ میں نے اپنے دل کی سنی! میرا دل یہی چاہتا تھا کہ میں لوٹ آؤں۔ تو کیا اتنے عرصے بعد بھی میں اپنی نہ سنتی؟ میں نے اپنی خواہش کا احترام امان کے پاس لوٹ کر کیا۔ اب سب ٹھیک ہے۔ خیر پتا ہے شام ہونے میں وقت کتنا کم رہ گیا ہے؟" آخر میں شانزہ نے وقت دیکھ کر اسے یاد دلایا۔
"وقت کم ہے اور کام ذیادہ! چلو پھر میں یہ کپڑے پریس کرنے کلثوم کو دیتا ہوں اور یہ گھڑی بھی ٹھیک کروانی ہے۔ میں آج بہت خوش ہوں" اس نے دراز اٹھا کر وارڈروب میں دراز پھر سے لگائی۔ شانزہ اس کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل آئی۔ زمان نے کمرے میں ایک بھرپور نظر دوڑائی اور ٹھنڈی سانس بھرتا نیچے ہولیا۔ 
۔۔۔★★۔۔۔
"آج ہماری بیٹی رخصت ہوجائے گی جاوید! میرا دل گبھرارہا ہے"۔ صبور کھڑکی پاس کھڑے جاوید صاحب کے پاس آئیں اور پیچھے سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"آج نہیں تو کل رخصت تو ہونا ہی ہے صبور!" وہ دھیمی آواز میں جواب دیا۔
"اگر اس خوشی میں عدیل بھی شامل ہوتا کتنا اچھا ہوجاتا نا؟" ان کے کندھے پر سر رکھ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگیں۔
"کس منہ سے آتا؟ کیا سامنا کر پاتا؟" ان کا لہحہ یک دم تلخ ہوا۔ صبور نے آنکھیں میچیں۔
"فاطمہ کو پارلر سے کب لینا ہے صبور؟"۔
"میں اس کو کال کرلیتی ہوں"۔ وہ موبائل لینے بستر کی جانب بڑھیں۔
"تیاری مکمل ہے نا؟" جاوید صاحب نے آنکھوں میں آئی نمی کو ہاتھ سے صاف کیا۔ ان کی پیاری بیٹی رخصت ہونے جارہی تھی۔
"الحمداللہ ہوگئی ہے مکمل" صبور نے جواب دیا۔
جاوید صاحب کو پتا ہی نہ چلا کب ان کے آنسوؤں تیزی آگئی۔  وہ واشروم کی جانب بڑھ گئے۔
۔۔۔★★۔۔۔
"ہمیشہ کی طرح بےانتہا خوبصورت!"۔ امان چلتے ہوئے اس کے قریب آیا۔
اس نے گلابی رنگ کا شرارہ پہنا تھا۔ ہلکا لائٹ میک پارلر سے کروایا تھا۔ کانوں میں جمھکے اور گلے میں پتلی سی چین۔ وہ اس وقت خوبصورتی کا مجسمہ لگ رہی تھی۔
"آپ بھی بہت اچھے لگ رہے ہیں امان"۔ سفید کرتے شلوار پر گہرا نیلا واسٹ کوٹ اور نکھرا نکھرا چہرہ۔ وہ مدھم سا مسکرایا۔
"میں تو ہمیشہ اچھا لگتا ہوں"۔ وہ اپنی ہی بات پر ہنسنے لگا۔ وہ بھی ساتھ ہنس دی۔
"اس میں واقعی کوئی شک نہیں امان!"۔ محبت بھری نگاہیں امان کے چہرے پر سے ہٹنے کو تیار نہ تھیں مگر حیا نے جلد ہی آلیا۔
"نوازش آپ کی"۔ امان نے شرارتی انداز میں کہا۔
یہ گہرا نیلا واسٹ کوٹ بھی منہاج کا تھا۔
شانزہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور لبوں سے لگایا۔ امان متحیر ہوا۔ اس کی نظریں شانزہ کے اس انداز پر اٹک گئیں۔ شانزہ نے اس کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ اس بار یہ طریقہ شانزہ نے اپنایا تھا۔ وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ اس کے اس انداز پر امان نے اس کے دونوں ہاتھوں کو باری باری لبوں سے لگا کر آنکھوں پر رکھا تھا اور وہ اس سب میں صرف مسکراتی رہی۔
"کیا کوئی اللہ کا بندہ میری تعریف کرنا چاہے گا کیونکہ میں تیار ہوچکا ہوں"۔ زمان کے کمرے سے آتی آواز پر وہ دونوں حیران ہوئے اور پھر ہنس دیئے۔
"آجائیں اب دلہے کو بھی دیکھ لیتے ہیں ہم!"۔ اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی وہ آگے بڑھی۔ دونوں ساتھ زمان کے کمرے میں داخل ہوئے۔
جب زمان سنگھار میز سے پلٹا تو امان اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ وہ ہوبہو منہاج بابا لگ رہا تھا۔
"تم نے بابا کی شیروانی پہنی ہے نا؟"۔ لہجے میں حیرانی واضح تھی۔ زمان نے اثبات میں سرہلایا۔
"بلکل"۔
"زمان بھائی! بہت اچھے لگ رہے ہیں ماشاءاللہ! تو کیا منہاج بابا کی گھڑی ٹھیک ہوئی؟"۔ شانزہ نے نظروں سے اس کے کلائی میں بندھی گھڑی کی جانب اشارہ کیا۔ زمان نے گھڑی کو دیکھا تو سر جھٹکا۔
"نہیں ہوئی!"۔
کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔ امان سے رہا نہیں گیا وہ اس کے قریب آکر اس کے گلے سے لگ گیا۔
"اللہ تمہیں خوش رکھے زمان! تم بہت اچھے لگ رہے ہو!" وہ اس کو سختی سے بھینچا ہوا تھا۔
"شانزہ! میرے لیے دعا کرنے والے اس شخص سے کہو کہ یہ بھی اپنے خوش رہنے کی دعا مانگے!۔ کیونکہ اگر یہ خوش رہے گا تو میں بھی خوش رہوں گا!" امان نے اس کی کمر سہلا کر پیشانی چومی۔
شانزہ نے زیر لب آمین کہا تھا اور یہ بھی دعا کی تھی کہ اس کے اہلِ خانہ پر خوشیوں کا سایہ رہے!۔
"کتنے دنوں بعد نہا کر آئے ہو شاید اس لئے ذیادہ اچھے لگ رہے ہو"۔ امان نے چھیڑا۔
"ہر جگہ میرے راز مت کھولا کرو امان! اور آج اس گھر میں کسی کا اضافہ ہونے والا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اسے میرے اتنے گھٹیا راز پتا چلیں"۔ وہ ہر چیز کو انجائے کرنے والا بندہ تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ آج صبح سے اب تک تیسری دفع نہا چکا ہے اور اس بات کا علم امان کو بھی تھا، مگر وہ چھیڑنے سے باز نہیں آتا۔
امان کا قہقہ بلند ہوا جبکہ شانزہ نے ہنسی قابو کرنے کے لئے منہ پر ہاتھ رکھا۔
"اسے خود ہی پتا چل جائیں گے جب وہ تمہارے ساتھ رہے گی"۔ ہنستا ہوا وہ زمان کے کپڑوں پر پڑتی سلوٹیں درست کرنے لگا۔
"بہت دیر ہورہی ہے جلدی آجائیں۔ ماما کا فون آیا تھا کہ وہ پہنچ چکے ہیں ہال! اب ہمارا انتظار ہے"

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Mar 06, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now