قسط ۱۳

4K 214 67
                                    

وہ پوری رات صحیح سے سو نہیں پائی۔ کروٹ بدل کر آنکھیں کھولیں ۔ امان گہری نیند میں تھا۔ کچھ لمحوں تک تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور جب سمجھی تو وہ سہم کر اٹھ بیٹھی۔ نکاح نامہ، عروسی لباس، ناقابلِ یقین لمحے۔ آنکھیں پھر گیلی ہوگئیں۔ اس نے کپڑوں پر نظر ماری تو یاد آیا اس نے کپڑے چینج کرلئے تھے۔ وہ بغیر آواز کئے بیڈ سے اٹھی اور آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے کھڑکی سے جھانکنے لگی۔ کھڑکی سے گیراج نظر آرہا تھا۔ اس نے اس ڈر سے پلٹ کر امان کو دیکھا کہ کہیں وہ جاگ تو نہیں گیا مگر وہ اس کو گہری نیند میں پاکر پھر سے نیچے جھانکنے لگی۔ چوکیدار گیٹ پر نہیں تھا اور گارڈز بھی اکا دکا نظر آرہے تھے۔ وہ یہاں سے بھاگ سکتی تھی یہ موقع اچھا تھا۔ وہ راستہ سمجھنے لگی۔ اس نے ڈوپٹہ اپنے گرد اچھے سے پھیلایا۔ وہ اب دیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سرعت سے پلٹی کہ کسی کے سینے سے ٹکرائی۔ خوف سے شانزہ کی چیخیں نکل گئیں۔ اس کا دل گویا حلق میں آگیا ہو۔ خمار آلود لہجے میں وہ پوچھنے لگا۔
"کہاں کی تیاریاں ہیں زوجہ؟"۔ شانزہ کی تو زبان کو ہی تالا پڑگیا۔ اس نے آنکھیں جپھکیں۔
"جانتی ہو میں تم سے محبت نہیں کرتا شانزہ! میں تم سے عشق کرتا ہوں۔ اب میری ہی رہو گی!".
"دل نہیں ہے آفس جانے کا مگر میٹنگ بہت ضروری ہے آج کی"۔ اس نے شانزہ کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگایا۔
"کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا جس سے مجھے غصہ آئے! خدارا"۔ شانزہ پیچھے ہوئی۔
"امان مجھے گھر جانا ہے"۔ وہ معصومیت سے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے بولی۔ "مگر صرف ماما سے ملنا ہے۔ کسی سے نہیں ملنا سوائے ماما کے"۔ وہ سر جھکا کر آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
"گھر کو بھول جاؤ تو بہتر ہے!"۔ وہ پلٹا اور الماری سے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلا گیا۔ آنسوؤں نے بےاختیار شانزہ کو آلیا۔ وہ رونے لگی۔ تو کیا اب ساری زندگی ماں کی شکل نہیں دیکھنے کو ملے گی؟۔ وہ چینج کرکے آیا تو شانزہ نے جلدی جلدی آنسو پونچھے اور خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی۔ امان نے ایک مسکرا کر اسے دیکھا اور تیار ہونے لگا۔ 
"میں آفس جارہا ہوں!"۔ اس نے چابی اٹھائی اور اس کی جانب آیا۔ شانزہ نے سر جھکا لیا۔
"امان اپنی بیوی کو دل سے چاہتا ہے"۔ وہ مسکرایا۔ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے چوما اور پھر آنکھوں سے لگایا۔ شانزہ سرخ ہوئی۔
"کیا پتا آج آفس سے جلدی آجاؤں! مگر پھر دہرادوں کہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنا کہ شادی کے پہلے دن میں کچھ کر بیٹھوں!"۔ آخر میں وہ سخت ہوا۔
"اللہ حافظ"۔ وہ کہہ کر پلٹ گیا۔ شانزہ کی جان میں جان آئی۔
"کرتے رہو مجھ سے محبت! مگر یہ دل کہیں تمام ہوچکا ہے! تم نے میرا سب کچھ چھین لیا۔ میں تمھیں سکون سے نہیں رہنے دوں گی"۔ اور وہ اب جانتی تھی اسے کیا کرنا ہے۔ وہ جاچکا تھا۔ گارڈز تھے مگر اکا دکا۔ مگر وہ صحیح وقت کا انتظار کررہی تھی۔
 ۔۔۔★★۔۔۔
سورج کی کرنیں جب کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ آنکھیں کسمساتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ زمین پر ہی سو گیا تھا۔ وقت دیکھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور ڈائری بھی اٹھالی۔ ڈائری کو دراز میں رکھ کر وہ سنگھار میز پر جھک کر خود کو دیکھنے لگا۔ وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اسی دم موبائل بجنے لگا۔
"ہیلو"۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا۔
"حیرت ہے! زمان شاہ آج بغیر الارم کے اٹھ گیا! وہ بھی اتنی جلدی؟"۔ امان مسکرا کر بولا۔
"تمھیں کیسے پتا میں نے الارم نہیں لگایا تھا؟ کیا پتا لگایا ہوا ہو"۔
"کیونکہ میں جانتا ہوں! اور تمھیں تو گہرائی تک جانتا ہوں!"۔
"ہاں اور چاہتا ہوں کہ تم کسی اور کو بھی مجھے جاننے کا موقع دو"۔ وہ کھسیانا ہوا۔
"ہاں تمھاری ڈور شادی پر آکر ہی اٹکتی ہے!"۔ امان نے فون کو گھورا۔
"ہاں صرف میری ہی تو اٹکتی ہے ہوسکتا ہے تم نے شادی کرلی ہو چھپ کر اور مجھے بتایا نہ ہو!"۔ زمان نے ہنس کر امان کو چھیڑا۔ امان ٹھٹھکا، مگر کچھ نہ بولا۔ جواب نہ پاکر زمان نے موبائل کر دیکھا کہ کہیں کال تو نہیں کٹ گئی۔
"ارے میں مذاق کررہا ہوں مجھے پتا ہے امان ایسا نہیں کرسکتا! کم از کم تم نہیں!"۔ وہ مسکرایا۔ اور یہ بات بھی امان کو خاموش کرگئی۔
"کیا ہوا؟ سانپ سونگھ گیا کیا؟"۔ لہجے میں حیرت تھی۔
"نہیں بس یونہی! خیر تم بتاؤ کام ٹھیک چل رہا ہے؟"

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now