قسط ۱۲

4.4K 195 53
                                    

"چھوڑیں مجھے کک۔کہاں لے کر جارہے ہیں؟"۔ وہ دروازہ کھولنے لگی۔ امان اندھا دھن گاڑی چلا رہا تھا۔
"ایسا مت کریں! کیوں لے کر جارہے ہیں اور کہاں؟"۔ وہ رونے لگی۔
"بیوی بنانے لے جارہا ہوں اور تمھارے سسرال!" آگے کی سمت دیکھتے ہوئے اس نے مختصراً جواب دیا۔
"نن۔نہیں! مجھے چھوڑیں پلیزز!! خدارا یوں نہ کریں!! مجھے نہیں کرنا نکاح آپ سے!" وہ چیخ رہی تھی اور امان کو کسی چیز کی فکر نہ تھی۔ گھر کے سامنے گاڑی روک کر ہارن بجایا۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا تو اس نے گاڑی اندر لا کر پارک کی۔ عالی شان عمارت کو دیکھ کر شانزہ کا دل خوف سے پھٹنے لگا۔ امان اترا اور دوسری جانب کا دروازہ کھول کر اسے بھی اتارا۔ شاہ نواز اور سلیم بھاگتے ہوئے آئے۔
"قاضی اور گواہوں کا انتظام کرو!"۔ وہ حکم دیتا اسے کھینچتا اپنے کمرے میں لے آیا۔
"آج کے دن تم میرے نام کردی جاؤ گی! اور اس کے بعد اگر زبان پر عدیل کا لفظ آیا تو امان ہر کھیل کا ماہر کھلاڑی ہے"۔ دانت پیس کر کہتے ہوئے اس نے شانزہ کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ شانزہ کو اس کی رگیں پھولتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ حلق سے ایک لفظ ادا نہ ہو پایا۔
"آج کے بعد تمھارے لب "امان" کا نام دہرائیں گے۔ وہاں جاؤ گی جہاں امان اجازت دے گا اور امان صرف وہاں اجازت دے گا جب وہ خود تمھارے ساتھ ہوگا۔ میرے پیچھے اس گھر سے باہر قدم نکالا تو یہ ٹانگیں کاٹ ڈالوں گا اور یہاں سے بھاگنے کا سوچنا مت کیونکہ جب میرے اندر غصہ جنم لیتا ہے تو مجھے خود بھی ہوش نہیں رہتا"۔ وہ کہہ کر پلٹا، مگر جاتے جاتے پھر پلٹ کر اسے دیکھا۔
"میں کمرے کا دروازہ لاک نہیں کررہا کیونکہ میں جانتا ہوں اب تم میری قید سے قیامت تک نہیں نکل سکتی!"۔ وہ کہہ کر چلاگیا۔
شانزہ گویا اپنے حواس کھونے لگی۔
اس ایک گھنٹے میں کیا کیا ہوچکا تھا اس کی زندگی میں۔۔۔۔
ایک ہی وقت میں زندگی کا دوسرا رخ دیکھنے کو مل گیا تھا۔
"نن۔نہیں مجھے جانا ہے! مم۔مجھے یہاں نہیں رہنا"۔ وہ رونے لگی۔ بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف آئی۔ گارڈز سیڑھیوں پر ہی کھڑے تھے۔ وہ سہم کر پھر اندر آگئی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے! زمین پر سر پکڑ کر بیٹھتی چلی گئی۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ سارا دن مصروف ہی رہا۔ رہ رہ کر نظر منہاج کی ڈائری پر پڑتی، مگر وہ آج وقت نکال لے گا اسے یقین تھا۔ شام ہونے کو تھی اور اسے شدت سے رات کا انتظار تھا۔ امان کو کال کی تھی مگر امان شاید مصروف تھا اس لیے زیادہ بات نہیں ہوپائی۔ وہ ڈائری جس میں ایک شخص کی موت تک لکھے گئے الفاظ موجود تھے۔ جن میں آنسو بھی تھے، خوشی بھی تھی، خون بھی تھا اور سکون بھی تھا۔ وہ ان لفظوں کا مطلب نکال لے گا اسے یہ بھی یقین تھا۔ اس کا باپ اتنا ظالم نہیں تھا وہ یہ بھی جان لے گا۔ ماضی منہاج کو بھی کھا گیا تھا وہ یہ بھی جان لے گا۔ دردِ دل بڑھ جائے گا وہ یہ جانتا تھا، مگر وہ حقیقت جان کے رہے گا اس نے یہ ٹھان لیا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ کمرے میں آیا اور اس کے آگے چار پانچ شاپنگ بیگز رکھ کر اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ وہ سہم گئی۔ اس نے ڈوپٹہ اپنے شانوں پر ٹھیک طرح پہنا اور برستی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"ان میں شادی کے جوڑوں کے ساتھ کچھ اور بھی سامان ہے۔ چونکہ میں مرد ہوں تو میک اپ کا اتنا نہیں پتا تھا اس لئے تقریباً سارا ہی اٹھا لایا۔ شادی کے دو جوڑے ہیں۔ ایک سفید ہے اور ایک لال! گھر میں عورتیں نہیں ہیں اس لئے مجھے علم نہیں ہے شادی کے موقع پر ذیادہ تر کونسا رنگ پہنا جاتا ہے!"۔ وہ اپنی کہی جارہا تھا اور شانزہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔
"مگر مجھے نکاح نہیں کرنا!"۔ وہ چیخ پڑی۔
"یہ لال جوڑا مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے ایسا کرنا ابھی یہ پہن لینا"۔ اس نے جوڑا نکال کر اپنے آگے رکھا۔
"میں پہنوں گی ہی نہیں یہ جوڑا"۔ وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئی بولی۔
"بیوٹیشن آرہی ہے کچھ وقت میں۔ تمھیں تیار کر جائے گی! بہتر یہی ہے کہ تم شاور لے کر یہ جوڑا پہن لو، کیونکہ نکاح کی مجھے بے حد جلدی ہے"۔ وہ اس کی بات اگنور کئے اپنی دھن میں کہا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں لال ہوگئیں۔
"میرے ساتھ زبردستی کریں گے؟"۔ وہ دھیمے اور ٹوٹے لہجے میں بولی۔
"آج سے پہلے تمھاری سنی ہے کیا؟"۔ گہری نگاہ اس پر ڈال کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"مم۔مجھے نہیں کرنی شادی! مم۔مجھے گھر چھوڑ آئیں! آپ کی وجہ سے ہوا ہے سب۔ میں اور عدیل بہت خوش تھے مگر درمیان میں آپ آئے امان!"۔ وہ چیخی مگر وہ اس سب میں یہ بھول بیٹھی کہ جس نام کو لینے کے لئے اس نے منع کیا تھا وہ اس نے ایک بار پھر لے لیا تھا.
"گارڈز" وہ اتنی زور سے چیخا کے شانزہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔ دو گارڈز اندر آئے۔
"جی دادا!"۔
"تیز دھار والا چاقو لاؤ اس کی زبان کاٹنی ہے"۔ شانزہ کی تڑپ سے چیخیں نکلیں۔۔گارڈز نے جیب سے ہی نکال کر دے دیا۔ امان نے انہیں جانے کا اشارہ کیا اور اس کے قریب آیا۔ وہ تھوک نگلتے ہوئے پیچھے ہوئی۔
"منہ کھولو"۔ اس نے شانزہ کو جبڑے سے پکڑا۔
"کیوں؟"۔ وہ درد سے کراہی۔
"اب نہیں نکلے گا عدیل کا نام تمھاری زبان سے! منہ کھولو"۔ وہ چیخا۔
"امان! امان نہیں! معاف کردیں امان۔ خدارا! اب کبھی بھی ایسا نہیں ہوگا۔ میرا آپ سے وعدہ ہے"۔ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔
"آواز بند اب!"۔ اس نے چاقو نیچے کیا۔ شانزہ نے منہ پر ہاتھ رکھا تاکہ آواز نہ نکلے۔
"مجھے ابھی بھی آواز آرہی ہے!"۔ وہ سختی سے بولا۔
"میں نہیں رورہی"۔ وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔
"ہاں ہنس رہی ہو تم تو"۔ وہ طنزیہ بولا۔
"میں جارہا ہوں دس منٹ میں بیوٹیشن آجائے گی۔ شاور لے کر کپڑے بدلو۔ کچھ گھنٹوں میں نکاح ہے ہمارا"۔ وہ کہہ کر پلٹ گیا۔ شانزہ نے روتے روتے دیوار سے ٹیک لگالی۔
۔۔۔★★۔۔۔
"۲۱ جون۔
ہیلو ڈائری! میری آج تم سے پہلی ملاقات ہے۔ اوہ میں نے تمھیں اپنا نام نہیں بتایا۔ میرا نام منہاج سمیع شاہ ہے کیونکہ میرے پاپا کا نام سمیع شاہ ہے۔ اس لئے میرا نام بھی منہاج سمیع شاہ ہے لیکن مجھے سمیع نام اپنے آگے لگانا ذیادہ پسند نہیں اس لیے میں سب کو اپنا نام "منہاج شاہ" بتاتا ہوں۔ کیا تم میری دوست بنو گی؟ میں ماما سے کہتا ہوں مجھ سے بات کریں لیکن وہ کہتی ہیں ان کے پاس میرے لئے وقت نہیں! وہ مصروف رہتی ہیں۔ بابا اور ماما کی اکثر لڑائی رہتی ہے اس لئے بابا دفتر سے دیر سے آتے ہیں جبھی میں ان سے مل نہیں پاتا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی میری باتیں سنے اور سمجھے لیکن لگتا ہے نہ بابا کو اور نہ ماما کو مجھ میں دلچسپی ہے۔ کل میں بہت رویا اور ماما سے کہا کہ کوئی تو میری باتیں سنے اور آج انہوں نے اتنی پیاری سی ڈائری میرے حوالے کی اور کہا کہ میں ڈائری لکھا کروں! ارے میں نے تمھیں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ میں ۱۰ سال کا ہوں اور پانچویں جماعت کا طالب علم ہوں۔ میرا پسندیدہ رنگ نیلا ہے۔ ٹیچرز مجھے کہتی ہیں کہ میں بہت ذہین ہوں۔
بائے ڈائری ماما مجھے رات کے کھانے کے لئے بلا رہی ہیں۔ لگتا ہے آج پھر بابا غصے میں ابھی تک گھر نہیں آئے۔ ہم کل ملیں گے۔ تمھارا بہتریں دوست جو صرف تمھارا ہے۔۔۔
منہاج!"۔
زمان نے صفحہ پلٹا۔
"۲۲ جون
ڈائری تم بہت موٹی ہو ہاہاہا"۔
زمان پڑھ کر بےاختیار مسکرایا۔
"۲۳ جون
سوری ڈائری میں نے تمھیں موٹی کہا۔ لیکن تم مجھے موٹی اچھی لگتی ہو۔ میرے کچھ دوست بھی ڈائری لکھتے ہیں لیکن ان کے پاس میری جتنی موٹی ڈائری نہیں! وہ اپنی پوری زندگی اپنی پتلی سی ڈائری میں نہیں لکھ پائیں گے! انہیں کچھ عرصے بعد ہی دوسری ڈائری خریدنی پڑ جائے گی، مگر میں نہیں سمجھتا۔ میں اپنی پوری زندگی کی کہانی تمھارے صفحوں پر ہی لکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ڈائری بدل کر نئی لیتے جائے گے جیسے کوئی دوست بدل رہے ہوں، مگر مجھے صرف تم پسند ہو۔ میں تمھاری جگہ اور کسی کو نہیں دوں گا۔ ویسے ایک بات تو بتاؤ! کیا میں واقعی بہت بولتا ہوں؟ میری ٹیچرز کہتی ہیں کہ میں بڑی بڑی باتیں کیا کرتا ہوں۔ وہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ مجھے کیا ہوا ہے؟ اور پھر پوچھتی ہیں کہ یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں؟ ڈئیر ڈائری میں ابھی صرف دس سال کا ہوں اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ باتیں میں نے کہیں سے سیکھی ہیں! میری ماما کو بابا بلکل بھی نہیں پسند۔ وہ ان سے بدتمیزی کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ بابا ان کو طلاق دیں۔ ڈئیر ڈائری! یہ طلاق کیا ہوتی ہے؟ کیا اس کے بعد ماما بابا سے نہیں ملیں گی؟ مجھے ماما بہت پسند ہیں اور بابا بھی،مگر وہ سارا دن فون پر بھی بابا سے لڑتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ انہیں چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ مجھے ڈر لگتا ہے مگر میں کبھی خاموش رہتا ہوں اور کبھی چھپ چھپ کر رو لیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا ماما ہمیں چھوڑ کر جائیں! کل میرے اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ماما اور بابا دونوں میرے ساتھ چلیں۔ میرے سارے دوست ہمیشہ اپنے ماما پاپا کے ساتھ آتے ہیں! وہ تو ساتھ گھومنے بھی جاتے ہیں، مگر میری ماما میرے پاپا سے لڑتی رہتی ہیں جو مجھے پسند نہیں۔ آج بابا آئیں گے تو میں ان سے کہوں گا۔ ماما کو منانا مشکل ہے مگر امید ہے وہ مان جائیں گی۔ بائے بائے۔ (اور آگے دل بنایا ہوا تھا)"
تو کیا دادا اور دادی ایک دوسرے کے ساتھ خوش نہیں تھے؟ زمان کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
"۲۳ جون رات کا وقت
مبارک ہو تم کو بابا اور ماما مان گئے۔ میں ماما کے سامنے اتنا رویا کہ ماما کو ماننا پڑا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میں اپنے دوستوں کی طرح اپنے ماما، پاپا کے ساتھ جاؤ گا۔ بابا نے کہا ہے وہ واپسی میں آئس کریم بھی کھلائیں گے! بائے ڈائری! رات ہوگئی ہے اور اب مجھے لگتا ہے کہ خوشی کے مارے مجھے نیند نہیں آنے والی! میں تمھیں کل بتاؤں گا ابھی کے لئے خدا حافظ"۔
زمان نے تیزی سے صفحہ پلٹا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اگلا دن اس کا کیسا گزرا۔
"۲۶ جون" یہ تو ۲۶ کی ہے! ۲۴ جون کی ڈائری کدھر ہے؟ وہ ڈھونڈنے لگا۔ شاید منہاج نے لکھی ہی نہیں تھی۔
"۲۶ جون
"کیسی ہو ڈائری؟ مگر میں ٹھیک نہیں ہوں۔ مجھے رونا آرہا ہے۔ مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا! ہم اس دن گئے تھے میٹنگ میں مگر ماما اور بابا وہاں سب کے سامنے جھگڑنا شروع ہوگئے تھے۔ میرے ٹیچرز انہیں دیکھ کر حیران ہورہے تھے اور دوست دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میں بہت رورہا ہوں ڈائری! آئم سوری! میرے آنسو تمھارے صفحے گیلے کررہے ہیں، لیکن یہ سوکھ جائیں گے کوئی بات نہیں۔ میں کل اسکول گیا تھا اور میرے دوست مجھے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میں اب اپنے ماما اور پاپا کو کہیں لے کر نہیں جاؤں گا! وہ دونوں لڑتے رہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ میں ان سے اتنا ناراض ہوگیا ہوں کہ میں نے کل رات کا کھانا بھی نہیں کھایا اور آج صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا۔ لیکن میں چھوٹا ہوں نا؟ تو میرے جسم کے اعضاء بھی چوٹے ہیں۔ اب مجھے بھوک لگ رہی ہے مگر ماما کو میری فکر نہیں۔ اب دوپہر ہوگئی ہے سوچ رہا ہوں کہ ماما کی غیر موجودگی میں کچھ کھالوں تاکہ انہیں خبر نہ ہو۔ مجھے امید ہے بابا مجھے کال کریں گے اور پوچھیں گے کہ کیا میں نے کھانا کھایا؟ میں ناراضگی سے کہوں گا "نہیں"پھر دیکھنا وہ آج میری وجہ سے جلدی آئیں گے اور میرے لئے کھانے کی چیزیں بھی لے آئی گے۔ میرے پاس بہت سارے بڑے موبائل ہیں، مگر مجھے ان میں اپنا دوست نہیں مل سکا جو مجھے تم میں مل گیا۔ کیا میں زیادہ بول رہا ہوں؟ لیکن تم بہت اچھی ہو! کم از کم یہ نہیں بولتی کہ منہاج بس کرو میرے سر میں درد ہورہا ہے! ہاں ماما ضرور کہتی ہیں۔ اور پتا ہے کیا؟ اب میں رو بھی نہیں رہا! اب میں بابا کی کال کا انتظار کررہا ہوں! لو میرے موبائل کی بیل بج رہی ہے۔ میں آتا ہوں"۔
"بابا کا فون تھا وہ میرے لئے آج جلدی گھر آرہے ہیں! ماما ان کے گھر آنے کا سن کر کسی پارٹی میں چلی گئی ہیں۔ اب گھر میں صرف میں اور ملازم ہیں۔ یہ پہلی دفع نہیں ہے! خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ یونہی کرتی ہیں! میں ہوم ورک کرنے جارہا ہوں اللہ حافظ"۔
زمان نے ایک ساتھ بہت سے صفحے پلٹے۔
"۲۲ اگست
آج ماما پاپا پھر لڑے اور میں روتا رہا"۔
"۲۳ اگست
میں روز کی لڑائیوں سے تھک گیا ہوں! میں اب اندھیرے میں چیختا ہوں۔ کیا میں پاگل ہوگیا ہوں؟"۔
"۲۶ اگست
اگر میں نہیں ہوتا تو کیا پھر ماما پاپا کے ساتھ خوش رہتیں؟"۔
"۲۸ اگست
ماما چیختی ہیں! مجھ پر بھی اور پاپا پر بھی"۔
اس نے پھر بہت سے صفحے آگے کئے۔
"آج میں گیارہ سال کا ہوگیا ہوں اور پاپا چاہتے ہیں کہ ہم تینوں مل کر کہیں لنچ کریں۔ پاپا نے ماما سے کہا مگر ماما کہتی ہیں کہ وہ یہ سب کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں طلاق چاہئے۔ اور آج کا دن بھی برباد ہوگیا۔ خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"۔
زمان نے ایک صفحہ آگے کیا۔
"۵ اکتوبر
میں تکلیف میں ہوں۔ طلاق کا مطلب جو جان گیا ہوں۔ پاپا خاموش ہیں کیونکہ ماما کی ضد بہت بڑھ گئی ہے۔ لگتا ہے پاپا میری ماما کو بہت چاہتے ہیں۔ میں بہت دکھی ہوں! ماما اس دن غصے میں تھیں۔ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا۔ میں نے ان کی گود میں سر رکھا تو انہوں نے میرا سر جھٹک دیا اور کہاں پتا نہیں کیوں میں مصیبت پیدا ہوگیا ہوں! میں رورہا ہوں ڈائری! میں اور زیادہ رونا چاہتا ہوں۔ میں تو صرف روتا ہی رہتا ہوں۔ کیا میں پاگل ہوں ڈئیر ڈائری؟خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"۔
زمان نے تھوک نگلا اور پھر سے بہت سے صفحے آگے کئے۔
"میری دکھ درد کی ساتھی بھی صرف تم ہو اور تم بھی صرف میری ہو۔ کاش میری ایک چھوٹی سی بہن ہوتی۔ مجھے بہنیں بہت پسند ہیں۔ میں نے ماما سے کہا کہ وہ مجھے اللہ میاں سے بہن لے کر دیں مگر انہوں نے جواب میں مجھے تپھڑ ماردیا۔ خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے۔ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو اللہ میاں سے اپنے لئے بہت ساری بیٹیاں خریدوں گا"۔
زمان نے ایک وقت میں بہت آگے سے کتاب کھولی۔ اس سے یہ الفاظ پڑھنا اب ناممکن ہورہا تھا۔ اس نے منہاج کی زندگی کے کچھ سال آگے کئے۔
"۹ ستمبر"
"وہ چلی گئیں۔ میرے ساتھ سترہ سال گزار کر وہ مجھے اور پاپا دونوں کو چھوڑ گئیں۔ آج میں پاپا پر پہلی بار چیخا۔ میں اپنی اندر کی بھڑاس نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے پاپا سے کہا اگر آپ نے ان پر ہاتھ اٹھایا ہوتا تو وہ سہم جاتیں اور جدائی کا نام دوبارہ نہیں لیتیں۔ پاپا کی آنکھیں جیسے پتھرا گئی تھیں۔ شاید وہ میری بات سے متفق تھے۔ اگر میری بیوی مجھے چھوڑ جانے کا اشارہ بھی دے گی تو میں اسے اتنا ماروں گا کہ وہ آئندہ جانے کا نام نہیں لے گی۔ میں اپنے باپ کو دیکھ چکا ہوں اور میں نہیں چاہتا میں اپنی زندگی اپنے باپ کی طرح خاموش رہ کر گزاروں۔ میں تاریخ نہیں دہراؤں گا! میں مکمل پاگل ہوچکا ہوں۔ کالج میں بھی کسی سے بات نہیں کرتا۔ مجھ سے ٹیچر کہتی ہیں کہ میں اتنا پڑھائی میں کمزور کیوں ہوگیا ہوں؟ جس کو گھر کا ذہنی سکون میسر نہ ہو وہ بھلا انسان کیا کرسکتا ہے۔ a boy in pain۔"
"۱۶ ستمبر
آج ہمیشہ کی طرح ٹیچر نے سب طالبِ علم سے ایک اچھی بات پوچھی۔ حسبِ معمول مجھے بھی کھڑا کیا گیا۔ میں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ جس کی زندگی میں پیسا ہو اس کو ہی سکوں اور عیش و عشرت میسر ہوں! ہماری زندگی میں پیسا نہیں بلکہ ذہنی سکون معنی رکھتا ہے! میرے یہ سب کہنے پر ٹیچر نے مجھے اکیلے میں بلا کر پوچھا کہ کیا میری طبیعت ٹھیک ہے؟ وہ حیران تھیں کہ سترہ سال کا لڑکا اس طرح کی باتیں کیوں کرنے لگا۔ جبکہ وہی سترہ سال کا لڑکا دن اور رات دونوں میں اپنے کمرے میں بتیاں بجھا کر تنہا بیٹھنے کا عادی ہے۔ میں صرف مسکرادیا۔ میرا جواب نہ پاکر وہ چاہتی ہیں کہ میرے ماما پاپا کل اسکول آئیں مگر میں اپنی ماما کا نہیں بتانا چاہتا تھا کہ وہ میرے پاپا سے طلاق لے کر کسی اور شخص کے پاس چلی گئیں اس لئے میں نے کہہ دیا کہ ماما ورلڈ ٹور پر گئی ہیں اور پاپا اکثر آفس میں بزی رہتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کچھ دنوں بعد پاپا ویل چیئر پر آنے والے ہیں! انہیں ماما سے بہت محبت ہے اور وہ ان کی جدائی برداشت نہیں کر پارہے۔ خیر چھوڑو سب ٹھیک۔۔ ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now