قسط ۶

3.6K 178 22
                                    

"تم نے اُس لڑکی کو دیکھا تھا زمان؟"۔ امان نے راکنگ چئیر پر جھولتے ہوئے پوچھا۔ زمان جو کیبورڈ پر تیزی سے انگلیاں چلا رہا تھا چونک اٹھا۔ ایک شکوہ کن نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس نے پھر سے لیپ ٹاپ پر نظریں مرکوز کیں۔
"ہاں جس کی خاطر تم نے مجھے غلطی کہا"۔ وہ خفا خفا سے انداز میں بولا۔
"ہاں وہی"۔ وہ گویا یہاں موجود ہی نہیں تھا۔ زمان نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی۔
"تو؟"۔
امان چونکا۔
"ہاں! وہ لڑکی! وہ۔."
"وہ کیا امان؟" زمان بلند آواز میں بولا.
"نہیں وہ بس۔۔۔"
"پہلے یہ بتاؤ کون سی والی لڑکی؟ جس نے تمھیں بھائی بولا تھا؟"۔ زمان نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔
"اس نے مجھے نہیں تمھیں بھائی بولا تھا"۔
اس نے تیور چڑھائے۔
"دو اپنے آپ کو تسلیاں! کام کرو بھائی کام۔ اس طرف دماغ نہیں لگاؤ"۔ وہ ہنس کر پھر سے لیپ ٹاپ دیکھنے لگا تھا۔
"مگر وہ!"۔ اس نے بات ادھوری چھوڑی۔
زمان نے اسے دیکھا۔
"کیا؟"۔
"وہ اچھی لگی" وہ کھل کر مسکرایا۔
زمان نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔
"تم مسکرائے! دل سے؟ سیریسلی؟"
"ہاں میں انسان ہوں مسکرا نہیں سکتا کیا؟"۔ امان نے بنھویں اچکائیں۔
"او یہ نئے نئے انکشاف ہورہے ہیں مجھ پر۔ خیر تم کم ہی مسکراتے ہو جبھی کہا!" زمان کے کہنے پر امان نے اسے گھورا۔ اس دم امان اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں گھر جاہا ہوں"۔ گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے اس نے ایک اور نیا انکشاف کر ڈالا۔
"تم کام چھوڑ کر گھر جارہے ہو!"۔ زمان نے آنکھیں پھاڑیں۔
"ہاں! تم نے جانا ہے؟"۔
"ہاں!"۔
"جیسے تمھیں صحیح لگے۔ کام کرتے رہو" وہ کہہ کر پلٹا۔
"بھائی میں نے کہا ہے کہ مجھے جانا ہے!"۔ وہ لیپ ٹاپ بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"ہاں کام چور! آجاؤ!"

"اور جو تم دکھارہے ہو؟"۔ اس نے گھورا۔
"بس آج کام کرنے کا دل نہیں چاہ رہا شاید تھک گیا ہوں!"۔
"ہمیں ایک گھنٹہ ہی ہوا ہے آفس آئے ہوئے"۔ اس نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"تو بیٹھو تم میں جارہا ہوں!"۔ وہ دروازہ کھول کر باہر چلاگیا۔
زمان کاغزات وغیرہ سمیٹنے لگا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"اب ٹھیک ہوں ماما میں۔ بخار میں کمی آگئی ہے!"۔ وہ مسکرا کر بولی اور پانی کا گلاس لبوں پر لگالیا۔
"چلو شکر ہے خدا کا!"۔ انہیں اطمینان محسوس ہوا۔
"کیا بابا آئے؟" وہ پھر سے باپ کی رٹ لگا رہی تھی۔
"آنے والے ہیں!"۔
"میں کپڑے چینج کررہی ہوں!"۔ وہ اٹھی اور الماری میں کپڑے تلاش کرنے لگی۔
"ٹھیک ہی تو ہو!"۔ انہوں نے اسے سر تا پیر دیکھا۔
"نہیں اماں! ابا آنے والے ہیں۔ ذرا تیار ہی ہوجاؤں۔ غلطی سے اگر نظر پڑ گئی مجھ پر تو شاید پیار ہی آجائے"۔ وہ الماری میں منہ دیئے پتا نہیں کونسا جوڑا نکالنے والی تھی۔
نفیسہ کا دل بوجھل ہوا۔ کمرے میں رکنا محال تھا۔ وہ باہر آگئیں۔ کچن کی طرف دوڑ لگائی ورنہ وہ آتے ہی چیخنے چلانے کے بہانے ڈھونڈتے۔ بیٹی کی پیدائش پر جتنا وہ خوش تھے، رمشا کے بعد اب بیٹی ہی بھولے بیٹھے تھے۔
۔۔۔★★۔۔۔
وہ اس وقت گارڈن میں بیٹھا موبائل پر مصروف تھا۔ زمان اس کی سامنے والی چئیر پر آبیٹھا۔ امان نے موبائل پر سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو خود بھی اب موبائل پر مصروف تھا۔ وہ اٹھا اور اندر لاؤنج میں آبیٹھا۔ وہ تھوڑی دیر سکون سے بیٹھنا چاہتا تھا جو زمان کے ہوتے ہوئے اسے میسر نہ تھا۔ مگر ہائے رے اس کی قسمت! پانچ منٹ بھی نہ گزرے کے زمان موبائل پر نگاہیں مرکوز کئے اس کے سامنے پھر صوفے پر آبیٹھا۔ کوئی تاثر دیئے بنا وہ موبائل پر ہی مصروف تھا۔ امان نے ایک گہری سانس لی۔ وہ اس کے ساتھ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ سوائے پنکھے پر الٹا لٹکانے کے۔ وہ اس موقع پر صرف ایک گہری سانس لے سکتا تھا۔
"کیا کررہے ہو تمھاری سانسوں کی آوازیں مجھے ڈسٹرب کررہی ہیں!"۔ زمان نے گھور کر کہا۔
"اور مجھے تم! اگر ڈسٹرب ہورہے ہو تو وہاں سے اٹھ کر کیوں آئے؟"۔ امان نے دانت پیسے۔
"میری مرضی!"۔ زمان نے بنھویں اچکائیں۔
امان نے نفی میں سر ہلایا جیسے وہ اس کا کچھ نہیں کرسکتا۔
"زمان!"۔
"ہنہہ"۔
"آخری بار کب نہائے تھے؟"۔ پتا نہیں کیوں امان کا دل چاہا وہ زمان کو چھیڑے۔
"ہیں کیوں؟" زمان بوکھلایا اور اپنی شرٹ سونگھنے لگا۔ "نہیں اسمیل تو نہیں آرہی!"
"نہائے کب تھے؟" اس نے بات پھر دہرائی۔
"ارے کچھ وقت پہلے تو نہایا ہوں!"
"کب؟"۔
"کل ہی تو نہایا ہوں"۔ وہ مطمئن تھا اور امان نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
"کل؟ اور تم اسے کچھ وقت پہلے کا نام دے رہے تھے؟"۔
"ہاں زیادہ نہانا صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا! کم نہائیں پانی بچائیں!"۔
امان نے اسے ناگواری سے دیکھا۔
زمان ہنوز موبائل پر مصروف تھا۔
"افف!"۔
"تمھیں کیا مسئلہ ہے؟"۔
"کمرے میں جاؤ اور مجھے ڈسٹرب مت کرو!"۔ امان نے سختی سے کہا۔
"میں کیوں جاؤں کمرے میں؟ اور میں تمھیں ڈسٹرب نہیں کررہا تم مجھے کررہے ہو!"
"تمھاری موجودگی میری لئے ڈسٹربنس ہی ہے زمان شاہ!"۔ وہ دانت پیس کر بولا۔
"ہاں ٹھیک ہے جارہا ہوں! مگر اب میں تمھیں وہ بات بھی نہیں بتاؤں گا جو میں نے معلوم کروائی ہے"۔ وہ اٹھا اور پیر پٹختا دھیرے دھیرے مڑنے لگا کہ اب امان اسے روکے گا۔
"نہیں سننا مجھے تمھاری بیکار معلومات"۔
"مت سنو اس لڑکی کا نام جس نے تمھیں بھائی سے مخاطب کیا تھا"۔ وہ ہنسا اور مڑ کر جانے لگا۔
امان کے کان کھڑے ہوئے۔
"سنو!"۔
زمان مڑا۔
"مجھے نہیں سننا تمھاری بیکار بات!" وہ کہہ کر پھر سے پلٹنا لگا۔
"اگر اب نہیں بیٹھے تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہو گا"۔ وہ اطمینان سے زمان کو دیکھنے لگا۔
"یعنی میری بلی مجھ کو میاؤں؟"۔
"محاورہ غلط فٹ کردیا ہے آپ نے!" امان نے لبوں کے پیچھے مسکراہٹ چھپائی۔
"یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے؟"۔
امان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ہاں اب تھوڑا تھوڑا ٹھیک ہے!"۔
زمان صوفے پر دھنسا۔
"بولو؟"۔
"پہلی بات یہ اپنی دماغ میں بٹھا لو کہ اس نے تمھیں بھائی بولا تھا مجھے نہیں! اور ویسے اس کا نام بتا رہے تھے تم شاید۔۔۔"
امان کے لہجے سے "ویسے مجھے پرواہ نہیں اگر تم بتادو تو بھی ٹھیک" والی کیفیت ٹپک رہی تھی۔
زمان تو پہلے ہنسا اور پھر ضبط کرکے بولا۔
"نہیں میں کسی کا نام نہیں بتا رہا تھا۔ تم نے بولا ہے کہ بتاؤ!"
"میری طرف سے کوئی زبردستی نہیں۔ اگر تم بتانا چاہو تو بتاسکتے ہو میں سن رہا ہوں!"۔ وہ بظاہر موبائل پر مصروف رہا جیسے ظاہر کررہا ہو اسے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
"نہیں نہیں! یہ کوئی خاص بات نہیں! زبردستی نہیں ہے۔ چھوڑو!"۔
امان نے اسے دانت پیس کر دیکھا۔
"ہاہاہا اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے! اس لڑکی کا نام شانزہ ہے! شانزہ ناصر"
"شانزہ"۔ امان نے زیر لب نام دہرایا۔ مسکراہٹ تھی جو اس کے لبوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ جسے زمان نے دیر تک غور سے دیکھا تھا۔
"ویسے زمان تم نے کیوں معلوم کروایا؟"۔ امان نے حیرت سے پوچھا۔
"وہ دوسری والی لڑکی کے لئے معلوم کروایا تھا تو اس کا بھی پتا چل گیا۔ کاؤ بوائے ٹائپ لڑکی جو ہے!" زمان نے دانت دکھائے۔
"تو کیا ہے اس کا نام؟" امان ٹانگ ٹانگ پر جمائے پوچھنے لگا۔
"فاطمہ جاوید!"
"دوست ہیں؟"
"نہیں! کزنز"۔
"بس یہی پتا چلا؟"
"ہاں فالحال یہی! باقی معلومات بھی نکلواؤں گا اور مجھے کوئی عشق وشق نہیں ہوا اس "فاطمہ" نام کی لڑکی کے ساتھ! بس پہلی ملاقات اچھی رہی! میں دوسری ملاقات چاہتا ہوں۔ بھلا پہلی ملاقات میں کبھی محبت ہوئی ہے کسی کو؟"۔ وہ گارڈن کی طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے بولا۔
"ہمم! خیر میں کمرے میں جارہا ہوں۔ آفس سے گھر اور گھر سے آفس! ڈرائیونگ آسان نہیں۔ میری کمر میں درد ہے تھوڑا آرام کرنا چاہتا ہوں"۔
"چلو اچھا ٹھیک ہے!"۔ زمان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"اور جب میں نے یہ کہہ دیا کہ "میں آرام کرنا چاہتا ہوں!" اس کا مطلب ہے نہ مجھے اپنے کمرے سے کھٹ چاہیے نہ تمھارے کمرے سے پٹ!" امان نے بنھویں اچکائیں۔
"میرے کمرے کی تو چلو سمجھ آتا ہے! تمھارے کمرے میں اگر آواز آئی تو اس کا زمہ دار میں کیوں ہونے لگا؟"
"کیونکہ آپ اکثر میرے کمرے میں ہی پائے جاتے ہیں! قارون کا خزانہ جیسے میرے ہی کمرے میں ہے"۔ ایک تیز نگاہ اس پر ڈال کر وہ سیڑھیاں چڑھ گیا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"بابا میری طبیعت بگڑی تھی لیکن اب میں ٹھیک ہوگئی ہوں اور یہ دیکھیں یہ کپڑے میں نے آپ کے لئے پہنے ہیں!"۔ وہ چہک کر ان کو بتارہی تھی۔
"ہمم اچھا ٹھیک ہے۔ اچھی لگ رہی ہو! مگر رمشا کہاں ہے؟"۔ وہ مسلسل ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ جیسے تلاش کررہے ہوں۔
"یونی سے آئی تھی سر میں درد تھا تو اب تک سورہی ہے"۔ نفیسہ بول کر چپ ہوئیں۔ ناصر صاحب کی تیوریاں چڑھیں۔
"سر میں درد تھا؟ دوائی دی اسے؟"۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"کہاں ہے بچی؟"۔ وہ پریشانی سے بولے۔
"کمرے میں ہے اپنے!"۔ نفیسہ کے یہ کہتے انہوں نے فوراً اس کے کمرے کی جانب دوڑ لگائی۔ ان کے جاتے نفیسہ نے ایک ترچھی نگاہ وہاں کھڑی شانزہ پر دوڑائی۔ آنکھیں میں ٹمٹماتے چمکتے آنسو تھے۔
"آپ کے بابا تھکے ہوئے ہیں۔ جبھی توجہ نہیں دی"۔ وہ صرف ایک تسلی ہی دے سکتی تھیں۔ ہاں وہ تسلی جو ہمیشہ دے آئی تھیں۔ شانزہ کا دل چاہا پھوٹ پھوٹ کر رودے۔ یہ تکلیف تو زخم لگنے کے تکلیف سے بھی بھاری تھی۔ ایک اپنا جو سب سے بڑھ کر تھا اپنا۔ اپنے کا درد چھوڑ کر دوسروں کا درد کم کرنے چلا تھے۔ تکلیف،دکھ، درد کو اکھٹا کرو تو یہ اذیت بنے گی۔ ایک باپ جو ہر جگہ آپ کو تحفظ دیتا ہے۔ معاشرے کی تلخیوں سے بچاتا ہے! روز جس کی بانہوں میں بیٹھ کر بچپن سے اب تک وہ ایک ایک بات بتانا چاہتی تھی! وہ شاید اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔وہ ہنستی تو آنسو چھلک پڑتے۔ وہ روتی تو روتے روتے گھگھی بندھ جاتی۔
پاس تو تُو بہت ہے۔
مگر دل دونوں کے دور دور!
۔۔۔★★۔۔۔
سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر پڑیں تو وہ اٹھ بیٹھی۔ آنکھیں مسلی تو پتا چلا کہ رات کو رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی ہیں۔ ٹھنڈا پانی منہ پر مارتے ہوئے وہ فریش ہوکر باہر نکلی۔
"تم تیار ہوکر باہر آجاؤ!"۔ نفیسہ کمرے میں داخل ہوئی تو شانزہ واشروم سے باہر نکلی تھی۔
"جی ماما"۔ وہ فرمانبردار بچوں کی طرح تیار ہونے لگی۔ دل تھا کہ بے حد بوجھل۔
دس پندرہ منٹ بعد نفیسہ پھر کمرے میں داخل ہوئیں۔
"ہوگئی تیار تو آجاؤ۔ باہر بابا بیٹھے ہیں تمھارے! ناشتہ کرلو بابا کے ساتھ!"۔
"رمشا کہاں ہے؟"۔ اس نے نظریں اٹھا کر ماں کو دیکھا۔
"وہ وہیں تمھارے بابا کے ساتھ میز پر ناشتہ کررہی ہے!"۔
"ماما! میں بغیر ناشتے کے جاؤں گے بھوک نہیں ہے مجھے!" وہ کہہ کر بستہ اٹھانے لگی۔
"مگر۔۔۔۔" اس نے نفیسہ کی بات کاٹی۔
"ماما مجھ سے جھوٹی شکایتیں برداشت نہیں ہوتیں! وہ جھوٹ بولتی ہے منہ پر! پھر بابا مجھے بہت ڈانتے ہیں اور ویسے بھی بابا کے لئے میرا دل مرگیا ہے۔ اب دل نہیں ان کے لئے تیار ہونے کا، ان سے باتیں کرنے کا"۔ وہ بستہ اٹھا کر باہر نکلی۔
"فاطمہ"۔ اوپر کی جانب آواز لگائی۔
"ہاں؟ تم تیار ہوگئی؟ میں بس ابھی آئی نیچے!"۔ فاطمہ نے اس کی تیاری دیکھی تو سمجھ گئی اور کچھ ہی منٹوں میں نیچے آگئی۔
"واہ بھئی اتنی جلدی آپ تیار ہوگئیں! مبارک ہو مجھے بھی اور آپ کو بھی"۔ وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔ شانزہ محض مسکرا ہی سکی تھی۔ فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور وہ دونوں ساتھ باہر نکلیں۔
"پیدل جائیں گے۔ انکل نے کہا تھا وین نہیں آئے گی آج!" شانزہ نے یاد دلایا۔
"او ہاں!" فاطمہ نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
"فائدا نہیں سر پیٹنے کا چلو!" اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے دکھیلا۔
"کسی بڑے سے بول دیتے ہیں گھر میں! کوئی تو چھوڑ دے گا ہمیں"۔ فاطمہ نے مشورہ دیا۔
"جاوید تایا تو ہیں نہیں گھر میں! عدیل بھائی کے پاس بائیک ہے اور بابا رمشا کو یونی چھوڑنے جائے گے اپنی گاڑی میں!"۔ شانزہ نے اسے صورتحال سمجھائی۔
"تو گاڑی ہے۔ بائیک نہیں! تین چار لوگ آرام سے آجائیں گے!"۔ فاطمہ نے بھنویں اچکائیں۔
"تو کیا تم رمشا کو نہیں جانتی؟ یا میرے بابا کو؟ وہ کہتے ہیں انہیں آفس کے لئے لیٹ ہوتا ہے اور تمھارا کالج تو قریب میں ہے تو پیدل چلے جایا کرو! اگر میں چھوڑنے جاؤں گا تو میرا رووٹ آؤٹ ہوجائے گا۔ رمشا کی یونیورسٹی دور ہے اور آفس کے راستے میں پڑتی ہے۔ اس لئے اسے چھوڑ سکتا ہوں! ساری دنیا کو اپنی گاڑی میں بٹھا سکتے ہیں چاہے روٹ خود کا لاہور کا ہو اور دوسرے کا اسلام آباد کا اور میری لئے صرف بہانوں کی لمبی سی نہ ختم ہونے والی فہرست!"۔ اس نے ایک سانس میں سب بتایا تھا۔
"چھوڑو! خود ہی چلیں گے اور راستے میں اگر گولا گنڈا والا ملا تو وہ بھی کھائیں گے!"۔ فاطمہ نے اس کی توجہ اس موضوع سے ہٹانا چاہی۔
"صبح سویرے کونسا گولا گنڈا والا موجود ہوتا ہے؟" اس نے بجھے دل سے کہا۔
"چلو اب منہ مت پھلاؤ! واپسی میں لیں گے!"۔ وہ اس کے گال کھینچتی آگے بڑھی۔
۔۔۔★★۔۔۔
صبح سے دوپہر کیسے ہوئی امان کو پتا بھی نہ چلا لیکن زمان کو لگ پتا گیا تھا۔
"میں تھک گیا ہوں! مجھے گھر جانا ہے!" وہ کمر سیدھا کرکے بولا۔
"کام ختم کرلو! پھر ساتھ ہی چلتے ہیں!"۔ امان نے کاغزات پر نظریں مرکوز کرکے دھیمی آواز میں بولا۔
"کرلیا ہے میں نے کام۔ باس بھلا کیا کام کرے گا اور گھر چلتے ہیں! قسم سے ایک کپ کافی خود بناکر دوں گا۔" وہ اٹھ کر پھیلے کاغزات سمیٹنے لگا۔ امان کا کام بھی ختم ہوا تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"سنو! جلدی آجاؤ۔ چھٹی ہوئے دس منٹ ہوگئے ہیں! ادھر آؤ!" فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور روڈ کے بیچ میں کھڑے گولے گنڈے والے کے پاس لے آئی۔ اس سے گولا گنڈا خرید کر وہ وہیں کھڑے ہوکر کھانے لگی تھیں۔ اتنے میں سامنے سے گاڑی اسپیڈ میں آکر رکی۔ اگر ڈرائیور بریک نہ مارتا تو یقیناً ایکسیڈنٹ ہوجاتا۔ اندر گاڑی میں موجود نفوس غصے میں باہر آیا تھا۔
"میڈم دیکھ کر چلا کریں!"۔
فاطمہ کے اس شخص کو دیکھ کر تیور چڑھے۔
"او مسٹر جڑواں! میری بات سنیں ہم یہاں پہلے سے کھڑے تھے۔ گاڑی بھگاتے ہوئے آپ کے جڑواں بھائی آرہے تھے!" اس نے زمان کو گھورا۔ امان شانزہ کو دیکھ رہا تھا۔
"ہاں یہ تو آپ لوگوں کی تفریح کی جگہ ہے نا؟ سڑک کے بیچ میں! ابھی اڑا دیتے ہم تم دونوں کو!" شانزہ زمان کی بات پر بے اختیار ہنسی۔ امان نے اس پر سے بہت مشکل سے نظریں ہٹائیں۔
۔۔۔★★۔۔۔

وحشتِ آوارگی (مکمل) Where stories live. Discover now