قسط ۱۴

402 36 1
                                    

لاسٹ سیمسٹر کے امتحانات ہو چکے تھے اور نتیجہ بھی آ چکا تھا اور سب پاس بھی ہو گئے تھے اور خوش بھی تھے مگر سحر جس کا دل کہیں کھویا ہوا تھا اور کھونا بھی ظاہر تھا آخر پیپرز کے دو ہفتے بعد اس کی اور عاصم کی شادی کی تاریخ طہ پائی تھی اور اب دن گزرتے جا رہے تھے اور وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی آخر کر بھی کیا سکتی تھی دنوں کو بڑھنے سے روک تو نہیں سکتی تھی اور دن اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہے تھے ۔
سحر شادی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے  اب تو میرے ساتھ چل کر شوپنگ کر آؤ ویسے تو ساری صرف میں نے اور امی نے کی ہے مگر کچھ تو تم اپنی مرضی سے لے آؤ ۔ مومل سحر سے مخاطب تھی جو بیڈ پر لیٹی کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔
بھابی آپ لوگ جو لے آئے ہو مجھے پسند ہے ۔ اس نے تھکی آواز میں بولا ۔
اچھا کم از کم شادی کا جوڑا ہی دیکھ آؤ چل کر پھر نہ کہنا کہ شادی کا جوڑا بھی تمہاری پسند کا نہیں ملا تمہیں ۔ مومل نے اکتا جانے والے انداز میں بولا ۔
اب تو جوڑا فائنل ہو چکا ہے اب کچھ ہو بھی نہیں سکتا اور مجھے آپ لوگوں کی پسند پر پورا یقین ہے ۔
سحر پتا ہے نہ کہ پرسوں سے مائیو پر بیٹھ رہی ہو تم ۔ مومل نے خبر دینے کے انداز میں بولا ۔
ہاں بھابی معلوم ہے ۔
تو کسی سے ملنا وغیرہ ہے تو آج ہی مل آؤ پھر کوئی تمہیں گھر سے باہر نکلنے نہیں دے گا ۔
مجھے کسی سے نہیں ملنا اور ویسے یہ شادی سے پانچ دن پہلے مائیو بیٹھنے کی کیا تک ہے مجھے سمجھ نہیں آتی بھئی دو دن تک تو ٹھیک ہے مگر پانچ دن ۔ اس نے اکتائے ہوئے انداز میں بولا ۔
اب یہ تو تم امی سے ہی پوچھو اب اکلوتی بیٹی ہو تم ان کی تو سب رسمیں تو وہ پوری کریں گی نہ ۔
بھابی !
ہاں بولو سحر ۔
وہ شہزل کی کال تو نہیں آئی آپ کو ۔
مومل سحر کو دیکھنے لگ گئی کہ شادی سے ہفتہ پہلے یہ شہزل کا پوچھ رہی ہے حالانکہ اس کی زبان پر تو عاصم کا نام ہونا چاہیے مگر شہزل کا نام ہے کچھ لمحے بعد اس نے بولا ۔
نہیں کیوں ۔
وہ ایک ہفتہ ہو گیا ہے اس سے بات کیے ہوئے کوئی کال ہی نہیں آئی اس کی ۔
کر لے گا کال تم فکر مت کرو ۔
************************************
آج سحر کو مائیو بیٹھے تیسرا دن تھا یعنی پرسوں اس کا نکاح تھا ۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی کسی گہری سوچ میں تھی کہ موبائل پر کسی کی مال آئی موبائل پر ابھرنے والا نمبر شہزل کا تھا ۔
آخر یہ اسے کیوں کال کر رہا ہے اس نے مشکل سے فون اٹھایا اور ہمت کرتے ہوئے کال اٹھاتے بولی ۔
ہاں شہزل بولو ۔
مجھے تم سے ملنا ہے ۔ بنا کسی سوال جواب کے اس نے کہا ۔
مگر میں تم سے نہیں مل سکتی ، تم سے کیا میں کسی سے نہیں مل سکتی ۔ اس نے جواباً کہا ۔
اگر تم نہیں آئی تو میں تمہارے گھر پہنچ جاؤں گا ۔
میں پھر بھی تم سے نہیں مل سکتی ۔ وہ اپنی بات پر قائم تھی ۔
سوچ لو آج نہ آئی تو پوری زندگی ترس جاؤ گی مجھ سے ملنے کے لیے ۔
اس کی اس بات نے اس کو حیران اور پریشان کر دیا ۔
شہزل بچے مت بنو میں نہیں آ سکتی ۔ سحر اپنی بات پر بضد رہی ۔
ٹھیک ہے پھر پورے دو گھنٹے بعد نیوز میں خبر سن لینا ایک لڑکے نے چھت سے کود کر اپنی جان دے دی ۔ اس نے سنجیدہ لہجے میں بولا
بکواس بند کرو ابھی تمہاری عقل ٹکھانے پر نہیں ہے لگانی ہی پڑے گی کہاں ہو تم ۔سحر نے غصے میں بولتے ہوئے کہا۔
ریسٹورینٹ میں ۔ صرف دو گھنٹے کا وقت ہے تمہارے پاس ۔
گھر میں اس وقت صرف ارہم اور فرقان موجود تھے مومل اور امی بازار گئی ہوئی تھی اور کاشان آفس تو سحر ان دونوں کی نظروں سے چھپتے ہوئے نکل گئی باہر کھڑی گاڑی سٹارٹ کی اور پوری سپیڈ سے ہوٹل کی طرف بڑھ گئی کوئی ایک گھنٹے میں وہ ریسٹورینٹ پہنچ گئی دور سے ہی ایک میز پر وہ اسے دیکھائی دے چکا تھا اس نے تیز قرم بڑھاتے ہوئے اس کی طرف رخ موڑا ۔ شہزل نے اسے اپنے سامنے پایا تو کھڑا ہو گیا اور پھر ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر آ لگا ۔ سحر کو خود سمجھ نہیں آئی کہ آخر اس نے شہزل پر ہاتھ کیسے اٹھا دیا۔
سحر کی آنکھیں ہلکی سی بھیگی ہوئی تھی ۔
تمہارا دماغ ٹھیک ہے اور اگر نہیں ہے تو بھی ایک اور تھپڑ سے تو ٹھیک ہو ہی جائے گا ۔ اس نے غصے میں بولا ۔
ٹھیک ہے عقل میری اور ویسے بھی میں کون سا سچ میں مارنے والا تھا وہ تو میں نے تمہیں یہاں بلانے کے لیے کہا تھا ایسے تو تم آنے سے رہی ۔ اس نے شرافت سے بولا ۔
اچھا اور ایسی کون سی آفت آ گئی تھی کہ آج ہی بات کرنی ضروری تھی ۔
آفت آئی نہیں تھی آنے والی تھی ۔ اس نے سنجیدگی سے کہا ۔
کیا مطلب ۔ سحر نے حیرانی سے کہا ۔

Will you marry me ? اس نے قدموں پر جھکتے ہوئے کہا ۔
سحر کو اس کی اس حرکت پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔
یہ کیا مزاق ہے شہزل ۔
کوئی مزاق نہیں ہے شادی کے لیے کہہ رہا ہوں خودکشی کے لیے تھوڑے کہہ رہا ہوں ۔
میری شادی ہے پرسوں ۔
شادی ہے ۔ ہوئی تو نہیں ہے ۔ اس نے سنجیدگی سے کہا ۔
ایک ہی بات ہے ۔ سحر نے اسی حیرانی سے کہا ۔
ایک بات نہیں ہے ۔
ویسے بھی تم شادی شدہ ہو اور مجھ میں اتنی غیرت تو ہے کہ ایک شادی شدہ مرد سے اس قسم کی گفتگو سے گریز کروں ۔ سحر نے سنجیدگی سے کہا ۔
شادی شدہ تھا ہوں نہیں ۔ اس نے سکون سے کہا ۔
کیا مطلب ۔ سحر نے حیرانی سے کہا ۔
آج ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی میری طلاق ہو گئی ہے اور سب سے پہلا کام میں سب سے ضروری کام کر رہا ہوں ۔ اس نے اسے پھر سے حیران کرتے ہوئے کہا ۔
تم پاگل خانے سے تو بھاگ کر نہیں آ رہے ۔ اس نے حیران ہوتے ہوئے کہا ۔
آیا تو نہیں ہوں ۔ ہاں چلا ضرور جاؤں گا اگر تم نے مجھے انکار کیا تو ۔
دیکھو شہزل میں جا رہی ہوں یہاں سے ۔ اس نے واپس مڑتے ہوئے کہا ۔
سحر ۔ شہزل نے اس کا ہاتھ پکرتے ہوئے کہا ۔
کیا مسئلہ ہے ۔ اس نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ۔
ایک بات سن تو لو میری مجبوری کیا تھی ۔ میں نے ہمیشہ تم سے محبت کی ہے ہمیشہ تمہیں چاہا ہے اور تمہیں پانے کی خواہش کی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جتنی محبت میں تم سے کرتا ہوں اس سے دگنی تم مجھ سے کرتی ہو ۔
ہاں بولو جو بولنا ہے ۔
میں نے یہ شادی مجبوری میں کی تھی میں نے کیا حیا نے بھی یہ شادی مجبوری میں ہی کی تھی ۔ ہماری شادی ایک کونٹریکٹ میرج تھی اور آج ہم دونوں نے ڈیورس لے لی ہے ہم دونوں پر بہت دباؤ تھا دادا چاہتے تھے کہ ہم دونوں کی شادی کر دی جائے تاکہ حیا شوبز میں شادی نہ کر لے اور اسی لیے انہوں نے ہمارے والدین پر زور دیا کہ اگر یہ شادی نہ ہوئی تو انہیں جائدات سے عاق کر دیا جائے گا اور پھر ہماری شادی کر دی گئی مگر ہم دونوں نے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ ہم چھ مہینے بعد یہ شادی ختم کر دیں گے کوئی معقول وجع بنا کر وہ بھی کسی کو پسند کرتی ہے ۔ شہزل نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا ۔
سحر کو یہ سب سن کر جھٹکا لگا مگر اس نے یہی ظاہر کیا کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہی ظاہر کرتے ہوئے بولی
تو۔
تو ۔ تو کیا سحر میں تمہیں بتا رہا ہوں ہوں اور تم کہہ رہی ہو تو ۔
ہاں تو ۔ میں کیا کروں ۔ مجھے تم سے کوئی محبت نہیں ہے اور میں کوئی بول نہیں ہوں جو آج کسی کے کورٹ میں اور کل کسی کے کورٹ میں ۔ میں ایک انسان ہوں ۔ جزبات رکھتی جیتی جاگتی انسان اور میں جا رہی ہوں ۔
سحر واپس جانے لگی تو شہزل نے اسے روکنے کی کوشش کی کہ ایک دم ایک مکا اس کے منہ پر آ کر لگا اور وہ مکا عاصم کی طرف سے اس کے منہ پر مارا گیا تھا اس نے اسے مارنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ بول رہا تھا ۔
شرم ہے تجھ میں کہ نہیں اپنے دوست کی ہونے والی بیوی پر نظر رکھتے ہوئے ۔
بظاہر تو وہ اس بات پر اس کی دہلائی کر رہا تھا مگر اصل وجع تھی کہ اسے اس دن کا حساب چکانا تھا اور اسی لیے اس نے ان ان جگوں پر اسے مارا جہاں کچھ عرصہ پہلے اس کی دھلائی کی گئی تھی بس فرق اتنا تھا کہ اس کی دھلائی بند کمرے میں کی گئی تھی اور شہزل کی وہ کھلم کھلا کر رہا تھا ۔
سحر نے اسے روکنے کی کوشش کی اور پھر ریسٹورنٹ سٹاف نے آکر اسے روکا مگر تب تک وہ پوری کثر نکال چکا تھا ۔
اس نے شہزل کو چھوڑتے ہوئے سحر کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے مڑ کر شہزل کو آنکھ ماری اور بتا دیا کہ وہ بھی اسی کا یار ہے ۔

تم یہاں کیسے ۔ سحر نے سوال کیا
بس کسی کام سے آیا تھا ۔ اس نے بولا
اور وہ کام ہو گیا ۔ یہ جملہ عاصم نے دل میں بولا تھا ۔
*******************************

  کچھ کہا ہوتا (✔Completed)Where stories live. Discover now