...

142 19 15
                                    


قسط ۴

عشال ، سارہ اور  مریم آج تینوں جس خوشی اور دلچسپی سے یونی آئی تھی شاید ہی کبھی آئی ہوگئی۔

کیمپس میں انٹر کرتے ہی خوشگوار سے ماحول نے نے ان کا استقبال کیا،
خیمے کی شکل میں پردوں کا ایک بڑا سا روم  بنایا گیا تھا معلوم ہو رہا تھا کے وہ خاص لڑکیوں کے لئے تھا اور اُس کے اِرد گرد بنچس اور کرسیاں تھی شاید وہ مرد حضرات کے لیے تھی۔
ڈھیر سارے سپیکرز لگے ہوئے تھے۔
ہاتھ میں گلدستے لیے آج  وہ ٹیچرس فرنٹ پہ تھی جو ہمیشہ یونی کے پروگرامز  میں آخر میں ہوا کرتی تھی ، " نقاب پوش ٹیچرز "  جو  صفیہ جیسوں کے نزدیک " اولڈ فیشن " کہلاتی تھی۔

آج اچانک مینجمنٹ کو اُن نقاب پوش  اولڈ فیشن ٹیچرز کی ضرورت محسوس ہوئی تھی ،
آج اچانک ہی کیمپس میں لڑکیوں اور لڑکوں کی جگہ الگ کردی گئی تھی پردہ تھا درمیان میں۔
یہ اچانک ہوا  تھا ، اس معجزے کی طرح جس طرح صالحہ حیدر کا اس گیسٹ یہاں آنا تھا۔
ہاں! یہ اچانک ہی ہوا تھا يا پھر غیب سے ہدایت ہوئی تھی۔
مریم  کی خاموشی پسند فرمائی گئی تھی یا پھر عشال کے غصے میں کی جانے والی دعا ،
یا پھر سارہ کی غیر دین ہوکر دین میں دلچسپی۔
سعدیہ کا گمراہ ہوجانا یا پھر صفیہ کی جہالت۔
اُسکی مصلحت ہی تھی وہ ہی جانتا تھا۔

لیکن اس یونی میں اسلامک اسکالر کا لیکچرر یہ بات ناقابلِ یقین تھی ۔

لیکن آج اس یونی کی ہوا میں بڑی ٹھنڈک تھی ، غضب کا سکون تھا۔
  کیونکہ آج اس پروگرام میں  فوٹوگرافرز ، سنگرز ، لائیٹنگز ، آرٹسٹ سب ندارد تھے۔

" مجھے بھی  ایک بات نہیں سمجھ آئی۔  " عشال جو خیمے نما کو گھوری  رہی تھی اچانک بول اٹھی۔

" کیا ؟ " سارہ نے فوراً پوچھا۔

"  آڈیٹوریم ہوتے ہوئے ، یہ خیمہ کیوں ؟ عشال کی آواز سوچ میں ڈوبی ہوئی سی لگی۔

" یہ راز بھی جلد ہی ہم پر کھولے گا۔ " سارہ نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا عشال کی ہنسی نہ روک سکی۔
۔۔۔۔۔۔

زن سے ایک کار کیمپس کے اندر داخل ہوئی تھی سب کی توجہ اسی طرف تھی وہ سیاہ کار تھی اس کا دروازہ کھولا اور  بلیک جوتی میں قید پیر  باہر کی طرف نکلتا دکھائی دیا فوراً سے وہ نقاب پوش گاڑی سے باہر نکلی تھی۔
سیاہ رنگ کا ڈھیلا سا عبایا ویسے ہی بڑا سا دوپٹہ سر کے گرد لپیٹا ہوا تھا، اور خوبصورت سا سیاہ نقاب جس میں بہت باریک جگہ تھی جہاں سے آنکھیں نمایاں ہوتی ، اور آنکھوں سے پتہ چلتا تھا کے چہرے پر ایک مدھم سے مستقل مسکان ہے۔
اُن کے گرد ایک چادر تھی کے اگر وہ کسی ضرورت کے تحت اپنے ہاتھ کو حرکت بھی دیتی تو دوپٹہ نظر نہ آتا۔
ایک ہاتھ میں ٹیب ، دوسرے ہاتھ میں سیاہ وائلیٹ کے ساتھ اپنا عبایا سنبھالتی ، سرسری سی نگاہ خیمے پر ڈالتی ،نظر جھکائے خیمے  کی جانب بڑھ گئی۔
ٹیچرز نے  اُنھیں گلدستے دیے، سلام دعا کے تبادلے کے بعد وہ اندر کی طرف چلی گئی۔
وہ اسٹیج تک پہنچتی جب تک ہم سب بھی اپنی نستت سنبھال چکے تھے۔
اور پروگرامز کی طرح وہاں شور نہیں تھا، بلکل خاموشی تھی ،
سب بلکل سیٹ تھا،

آخرینWhere stories live. Discover now