Episode 16

68 1 0
                                    


"اسد کہاں جا رہے ہو؟"
حریم اس کے عقب میں چلتی ہوئی بولی۔

"مارکیٹ جا رہا تھا تمہیں کچھ چائیے؟"
اسد حریم کو دیکھتا ہوا بولا۔

"نہیں میں ویسے پوچھ رہی تھی۔ ٹھیک یے تم جاؤ۔۔۔"
حریم مسکراتی ہوئی بولی۔

لبنا ایمن کے ساتھ مصروف تھی۔ حریم نے موقع کو غنیمت جانا اور سٹور روم کی جانب چلنے لگی۔
طویل راہداری کے اختتام پر ایک کمرہ تھا جسے سٹور روم کا نام دیا گیا تھا۔

حریم دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔
تاریکی کے باعث کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
حریم نے سوئچ بورڈ کی تلاش کی غرض سے ٹارچ آن کر لی۔
بورڈ پر ہاتھ مارا تو تاریکی روشنی میں تبدیل ہو گئی۔

حریم کھانستی ہوئی آگے آ گئی۔
کمرہ عجیب و غریب سا معلوم ہو رہا تھا۔
ایک طرف ردی پڑی تھی جس میں پرانی فائلز اور کتابیں تھیں۔
اس کی مخالف سمت میں صوفے پڑے تھے جو گرد سے اٹے تھے۔کھڑکی کے ساتھ ایک الماری تھی۔
حریم الماری کی جانب بڑھ گئی۔
ماضی کیا تھا وہ انجان تھی۔

"میرا ماضی تو ماما بابا کی موت ہی ہے اس کے علاوہ کیا؟ اور تب تو میں چار یا پانچ سال کی تھی مجھے تو کچھ یاد بھی نہیں۔۔۔"
حریم الماری کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"مجھ سے کیا رشتہ ہو سکتا ہے اس کا؟ مجھے اچھے سے یاد ہے بچپن سے سب کہتے تھے کہ ماما بابا نے میرا رشتہ اسد سے طے کیا تھا۔ پھر کون سا رشتہ ہے اس کے ساتھ؟"
حریم الجھتی جا رہی تھی۔

اس نے اپنے والدین کو ہمیشہ تصویر میں دیکھا تھا کیونکہ جس عمر میں حریم تھی اس عمر کی باتیں یاد رہتی ہیں نہ ہی شکلیں۔
حریم نے ہاتھ بڑھا کر الماری کھولنی چاہی۔

لیکن یہ کیا؟
الماری لاک تھی۔
حریم کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"میں نے پہلے کبھی سٹور روم میں قدم نہیں رکھا۔ یہاں گند میں پڑی یہ الماری لاک کیوں ہے؟ کچھ تو ہے جس سے مجھے انجان رکھا گیا ہے۔۔۔"
حریم سوچتی ہوئی پیچھے ہو گئی۔

زمین پر ایک طرف البم پڑا تھا۔
حریم کے چہرے پر شناسائی کی رمق تھی۔

"شاید یہی البم میں بچپن میں دیکھا کرتی تھی۔۔۔"
حریم نے بولتے ہوۓ البم اٹھا لیا۔
البم میں حریم اسد اور دونوں کے والدین تھے۔

"یہ ہاتھ کس کا ہے؟"
حریم ایک تصویر پر ٹھٹھک گئی۔
حریم نے تصویر باہر نکالی۔

"ایسا معلوم ہو رہا ہے کسی نے اس کنارے سے تصویر کاٹ دی ہے اور یہ ہاتھ جس کسی کا بھی ہے اسے چھپانے کے لئے ایسا کیا گیا۔۔۔"
حریم تصویر کا جائزہ لیتی ہوئی بول رہی تھی۔

"کہیں یہ ہاتھ اس نقاب پوش کا؟ اس نے کہا مجھ سے گہرا رشتہ ہے۔ اور یہاں اس تصویر میں یہ ہاتھ مطلب اس تصویر میں ایک فرد اور بھی تھا۔۔۔"
حریم آگے کرتی ہوئی بول رہی تھی۔
مزید تین تصویریں ایسی ہی تھیں جنہیں کاٹا گیا تھا۔

"جو بھی راز ہے مجھے معلوم کرنا ہوگا اور مجھے لگتا ہے وہ راز اس الماری میں ہے۔۔۔"
حریم البم ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی۔

ایک عرصہ ہو گیا اس نے بچپن کی تصویریں دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔
حریم کے پاس صرف ایک تصویر تھی جس میں اس کے ماما اور بابا کے مسکراتے ہوۓ چہرے تھے۔
ٹائم دیکھتی ہوئی حریم باہر نکل آئی۔
دروازہ احتیاط سے بند کرکے لاؤنج میں نکل آئی۔

"اس نقاب پوش سے ملنا ہوگا شاید کچھ اور معلوم ہو جاےُ۔۔۔"
حریم سوچتی ہوئی زینے چڑھنے لگی۔

حریم بیگ کندھے پر ڈالے دوپٹہ سر پر لئے کمرے سے نکل رہی تھی جب لبنا نے اسے آواز دی۔
"جی تائی امی؟"
حریم گردن گھما کر انہیں دیکھنے لگی۔

"بیٹا کہاں جا رہی ہو تم؟"
وہ حریم کے پاس آتی ہوئی بولیں۔

"وہ مجھے میک اپ کا سامان چائیے تھا۔۔۔"
حریم نے بہانہ بنایا کیونکہ میک اپ کا سامان وہ خرید چکی تھی۔

"بیٹا شادی سر پر ہے اور تم اب مارکیٹ جاؤ گی اچھا نہیں لگتا تم ایمن کو بول دو وہ اسد کے ساتھ جا کر لے آےُ گی۔۔۔"
وہ نرمی سے بولیں۔

"نہیں تائی امی مجھے اپنی سکن کو دیکھ کر لینا ہے ایمن کیسے لا سکتی ہے؟"

"اچھا پھر کوشش کرنا بیٹا جلدی آ جانا کیونکہ اسد کو معلوم ہوا تو ناراض ہو گا کہ تمہیں اکیلی بھیج دیا ایمن کارڈز پر نیم لکھ رہی ہے ورنہ اسے بھیج دیتی ساتھ۔۔۔"
وہ تاسف سے بولیں۔

"میں اسد سے بات کر لوں گی آپ فکر مت کریں۔۔۔"
حریم کہتی ہوئی زینے اترنے لگی۔
"مجھے یقین ہے آج بھی تم ضرور آؤ گے کیونکہ تم میرا تعاقب کر رہے ہو۔۔۔"
حریم بولتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
************
"احمد تو پاگل ہو گیا ہے کیا؟"
ماحد اس کے عقب سے چلایا۔
احمد نے گردن گھما کر اسے دیکھا اور مسکرانے لگا۔

"ایک تو ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود تو چھٹی لے آیا اور اب یہاں سمندر پر کیا تک بنتی تھی آنے کی؟"
ماحد کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔

منورا کی سنہری ریت سورج کی کرنوں سے سونے کی مانند چمک رہی تھی۔
شفاف نیلگوں پانی تاحد نظر پھیلا ہوا تھا۔

سمندر کی لہریں شور مچاتی ساحل پر آ رہی تھیں۔
احمد ساحل پر بیٹھ گیا۔
ماحد کو اب سچ میں اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو رہا تھا۔

"احمد تیرا زخم گیلا ہو جاےُ گا۔۔۔"
وہ متفکر سا بولا۔
ماحد کو فکر تھی لیکن احمد کو نہیں۔

"کچھ نہیں ہوتا یار۔۔‍۔"
احمد لاپرواہی سے بولا۔

لہریں آتیں اور احمد کے پاؤں بھگو کر چلی جاتیں۔
ماحد نا چاہتے ہوۓ بھی بیٹھ گیا۔

"مجھے لگتا ہے گولی تیری ٹانگ پر نہیں دماغ پر لگی تھی۔۔۔"
ماحد خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔
احمد قہقہ لگاتا ماحد کو دیکھنے لگا جو تپا بیٹھا تھا۔

"مجھے بھی ایسا ہی معلوم ہو رہا ہے۔۔۔"
احمد محظوظ ہوتا ہوا بولا۔
ماحد سر جھٹک کر فون کو دیکھنے لگا۔
احمد اپنی سوچ میں غرق ڈوب گیا۔
************
حریم اسی مال میں کھڑی تھی جہاں جب وہ نقاب پوش سے ملا تھا۔
حریم متلاشی نگاہوں سے گرد و پیش کا جائزہ لے رہی تھی۔

"مجھے ڈھونڈ رہی ہو؟"
وہی دھیمی آواز ، نرم سا لہجہ۔
حریم نے گردن گھما کر عقب میں دیکھا۔
وہ آج بھی کل والے حلیے میں تھا۔

"تمہیں بہت مس کرتا ہوں میں۔۔۔"
وہ آنکھوں میں نمی لئے بولا۔
حریم جتنا حیران ہوتی کم تھا۔

"کیوں مس کرتے ہو مجھے؟"
حریم اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"مجھے تم سے شکایت ہے حریم۔ تم مجھے بھول گئی۔ تم مجھے مس نہیں کرتی۔۔۔"
اس کی آواز درد بھری تھی۔
نجانے کیا تھا اس کے لہجے میں حریم کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔

"کون ہو تم؟ مجھے کچھ بھی یاد نہیں"
حریم تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی۔

وہ آگے بڑھا اور حریم کو سینے سے لگا لیا۔
حریم ہکا بکا رہ گئی۔
صرف ایک لمحہ اور پھر وہ پیچھے ہوتا حریم کی نگاہوں سے دور ہو گیا۔
حریم ابھی تک ششدر تھی اس کی حرکت پر۔

"وہ پھر چلا گیا۔ سب مجھے پاگل کر رہے ہیں۔۔۔"
حریم دانت پیستی ہوئی بولی۔

"پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ۔ مجھے کچھ یاد نہیں وہ کہتا ہے میں اسے مس کیوں نہیں کرتی۔ عجیب پاگل انسان ہے۔‍۔۔"
حریم تیز تیز بولتی پارکنگ کی جانب چلنے لگی۔

اسد کو بتانا وہ یکسر فراموش کر گئی تھی۔
فون کا لاک کھولا تو پھر سے میسجز کی بھرمار تھی۔

"احمد تم مجھے نظر آ جاؤ اپنے ہاتھوں تمہارا قتل کروں گی۔۔۔"
حریم نمبر بلاک کرتی ہوئی غرائی۔

"کبھی وہ نقاب پوش اور کبھی یہ احمد۔۔۔"
حریم ہنکار بھرتی اسد کو میسج کرنے لگی۔

گھر پہنچتے ہی ثمینہ پھوپھو سے سامنا ہو گیا۔
حریم نے بادل نخواستہ انہیں سلام کیا اور حال احوال دریافت کرنے لگی۔
اسد حریم کو ہی دیکھ رہا تھا۔

حریم کے چہرے کی جھنجھلاہٹ وہ محسوس کر رہا تھا۔
حریم کے جاتے ہی اسد بھی اٹھ گیا۔
حریم منہ دھو کر کھڑکی میں کھڑی ہو گئی۔

اسد ناک کر کے اندر آ گیا۔
حریم اسی پوزیشن میں کھڑی تھی۔

"ھان کیا کوئی بات تمہیں تنگ کر رہی ہے؟"
اسد بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔

"نہیں۔ تمہیں کیوں لگا؟"
حریم طمانیت سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"ایسے ہی مجھے لگا۔۔۔"
اسد کھڑکی سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
حریم پھر سے باہر دیکھنے لگی۔

"تم خوش ہو؟"
اسد کی نظریں حریم کے چہرے کے گرد تھیں۔

"تمہیں کیا لگتا ہے؟"
حریم نے الٹا سوال داغا۔
اسد شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔

"آف کورس خوش ہوں۔۔۔"
حریم ہلکا سا مسکرائی تو اسد کے اعصاب ڈھیلے پڑے۔

"ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔۔۔"
اسد حریم کو دیکھتا ہوا بولا۔

حریم مسکرا کر اسے دیکھنے لگی۔
اسد جیب میں ہاتھ ڈالے باہر نکل آیا۔

"مجھے صبح چابی چائے ہر حال میں۔۔۔"
حریم دروازہ بند کر کے چلائی۔

"تمہاری شادی ہے نہ جو ٹائم نہیں ہے چپ چاپ کل چابی دے جانا ورنہ سر اعجاز کو فون کر دوں گی میں پھر خود جواب دینا۔۔۔"
حریم نے درشتی سے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
"سب کا دماغ آسمان پر چڑھا ہوا ہے۔۔۔"
حریم بڑبڑاتی ہوئی ٹہلنے لگی۔
***********
"تم نے کس سے پوچھ کر میری الماری کو ہاتھ لگایا؟"
احمد حلق کے بل چلایا۔
زویا سہم کر دو قدم دور ہٹ گئی۔

"کیا بکواس کر رہا ہوں میں؟"
زویا کو خاموش پا کر احمد غرایا۔

"و وہ انکل نے کہا تھا کہ آپ کا کمرہ۔۔۔"
زویا گھبراتی ہوئی بولی۔

"مجھ سے پوچھا تھا تم نے؟"
احمد آگے بڑھ کر اس کی بازو دبوچتا ہوا بولا۔

اس کی فولادی گرفت پر زویا کراہ اٹھی لیکن منہ سے ایک لفظ نہ نکالا۔
احمد کی انگلیاں زویا کو بازو میں دھنستی محسوس ہو رہی تھیں۔

"کتنی بار تمہیں کہا ہے کہ میرے کمرے میں مت آیا کرو۔ کون سی زبان میں سمجھاؤں؟"
احمد کی آواز بند دروازے سے باہر جا رہی تھی۔

"سو سوری انکل نہ نے کہا تھا ورنہ میں تو نہیں۔۔۔"
زویا کا سانس اٹکا ہوا تھا۔

"آئیندہ اگر تم نے میری اجازت کے بغیر اس کمرے میں قدم بھی رکھا تو وہ حشر کروں گا یاد رکھو گی۔۔۔"
احمد جھٹکے سے اس کی بازو آزاد کرتا ہوا بولا۔
زویا نے دیوار کا سہارا لے لیا۔

"چلو نکلو میرے کمرے سے۔۔۔"
احمد انگلی اٹھا کر دروازے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
زویا مرے مرے قدم اٹھاتی دروازے کی جانب بڑھنے لگی۔

"جان نہیں ہے؟ اتنی دیر میں بندہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔۔۔"
احمد اشتعال انگیز آنکھوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

زویا تیزی سے باہر نکل گئی۔
احمد سے زور سے دروازہ بند کر لیا۔

وہ غصیلی فطرت کا مالک تھا لیکن مشن کی ناکامی کے باعث زیادہ غیض سے کام لے رہا تھا۔
احمد نے فائلز چیک کیں۔
ایک پرانے کیس والی تھی اور ایک نئے کیس والی۔

"شکر ہے فائلز کھول کر نہیں دیکھی اس نے ورنہ سب معلوم ہو جاتا۔۔۔"
وہ سیکرٹ سروسز میں ہے اس راز کی حفاظت اسے اپنی جان سے زیادہ کرنی تھی۔

"پتہ نہیں کیسے میں لاک کرنا بھول گیا۔۔۔"
وہ خفگی سے الماری لاک کرتا ہوا بڑبڑایا۔

زویا کچن میں آ گئی۔
سفید بازو پر احمد کی انگلیوں کے سرخ نشاں واضح تھے۔

"کتنے ظالم ہیں آپ۔۔۔"
زویا اپنی بازو دیکھتی ہوئی بولی۔
آنسو بہتے ہوۓ اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے۔

"انکل جتنے نرم ہیں یہ اتنے ہی سخت۔ کیا ہو گیا اگر میں نے بنا پوچھے روم کی صفائی کر دی تو؟ آخر کو شادی ہونے والی ہے بعد میں بھی تو میں ہی کروں گی نہ۔۔۔"
زویا اشک بہاتی بازو مسل رہی تھی۔

وہ اکثر احمد کے غصے سے خائف ہو جاتی تھی لیکن یہ رشتہ پھر بھی نبھا رہی تھی اور اس میں زیادہ کردار زویا کا ہی تھا۔ زویا کی بجاےُ کوئی اور لڑکی ہوتی تو یہ رشتہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔
زویا چہرہ صاف کر کے سفیر صاحب کے کمرے میں چلی گئی۔

"زویا مجھے بتاؤ احمد نے کچھ کہا یے؟"
زویا کی روئی ہوئی آنکھیں دیکھ کر وہ سمجھ گئے۔

"نہیں انکل بس ایسے ہی۔۔۔"
زویا نے ٹالنا چاہا۔

"مجھے آواز آ رہی تھی اس بدتمیز کی لیکن میں نماز پڑھ رہا تھا مجھے بتاؤ زویا کیوں ڈانٹ رہا تھا وہ تمہیں؟"
سفیر صاحب خفگی سے بولے۔

زویا نے الف تا ہے ساری کہانی ان کے گوش گزار کر دی۔
"جاہل کو قدر ہی نہیں ہے۔ میں ٹھیک کرتا ہوں اسے۔ اتنے دن بعد آیا ہے اور آتے ہی یہ سب۔۔۔"
وہ برہمی سے بولے۔

"نہیں انکل آپ کچھ مت کہنا ورنہ وہ غصہ کریں گے کہ میں نے آپ کو کیوں بتایا۔۔۔"
زویا کے چہرے پر خوف کی لکریں تھیں۔

"تم ڈرو مت۔ باپ ہوں اس کا سیدھا بھی میں ہی کروں گا۔۔۔"
وہ چھڑی کا سہارا لیتے کھڑے ہو گئے۔
زویا نے انہیں سہارا دیا۔

احمد بیڈ کی پشت سے ٹیک لگاےُ آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔
احمد کو گولی لگی ہے سفیر صاحب اس بات سے ناآشنا تھے۔

"کیوں بچی کو خوفزدہ کرتے رہتے ہو؟"
سفیر صاحب کی رعب دار آواز گونجی۔

احمد نے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا۔
"میں نے کیا گن رکھ دی تھی اس کے سر پر؟"
احمد بیزاری سے بولا۔

"وہ کب سے میری خدمت کر رہی ہے۔ اس گھر کو سنبھال رہی ہے اور تم اس کی قدر کرنے کی بجاےُ اسے ڈانٹتے رہتے ہو۔۔۔"
برہمی سے بولتے بولتے وہ ہانپنے لگے۔
احمد سانس خارج کرتا خود کو نارمل کرنے لگا۔

"بابا میں نے اسے بلا وجہ نہیں ڈانٹا۔ جب میں ہزار بار کہہ چکا ہوں کہ میری اجازت کے بغیر وہ میرے کمرے میں نہیں آےُ گی پھر کیوں آئی وہ؟"
احمد ضبط کرتا ہوا بولا۔

"تمہارا دماغ خراب ہے اور کچھ نہیں۔ اپنا رویہ بدلو لڑکے شادیاں ایسے نہیں نبھائی جاتیں۔۔۔"
وہ خفگی سے بولے۔

"جی اچھا۔۔۔"
احمد نے بات ختم کر دی۔
وہ تاسف سے احمد کو دیکھتے باہر نکل گئے۔
************
حریم دعا مانگ رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔
ہاتھ منہ پر پھیر کر حریم جاےُ نماز تہ لگانے لگی۔

"جی خان بابا؟"
حریم دروازہ کھولتی ہوئی بولی۔

"بیٹا آپ کے لئے کچھ آیا ہے۔۔۔"
"اچھا میں دیکھتی ہوں آپ اپنا کام کریں۔۔۔"
حریم دروازہ بند کرتی باہر نکل آئی۔

"یقیناً چابی دینے آیا ہو گا۔۔۔"
حریم بڑبڑاتی ہوئی تیزی سے زینے اترنے لگی۔
گیٹ تک پہنچتے پینچتے اس کا تنفس تیز ہو چکا تھا۔

"میڈم یہ چابی۔۔۔"
وہ مودب انداز میں میں پیکٹ حریم کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔

"جتنی لیٹ تم نے کام کیا ہے دل تو کر رہا ہے سر کو بلوا لوں ابھی۔۔۔"
حریم گھوری سے نوازتی ہوئی بولی۔

"سوری میڈم۔۔۔"
وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔

حریم سر ہلاتی اندر آ گئی۔
وہ جلد از جلد وہ الماری کھول کر دیکھنا چاہتی تھی۔

"ایسا کون سا راز ہے جو چھپا کر رکھا ہے سب سے۔۔۔"
حریم بولتی ہوئی راہداری میں چلنے لگی۔
سب شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
آج حریم کی مہندی تھی۔

حریم کے اندر کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔
وہ گاہے بگاہے اپنے عقب میں نظر ڈالتی جا رہی تھی۔
سٹور کا دروازہ احتیاط سے بند کر کے حریم نے لائٹ آن کر لی۔
چابی ہاتھ میں لئے وہ الماری کے سامنے آ گئی۔

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Where stories live. Discover now