Episode 10

69 0 0
                                    


گھنٹہ بھر حریم احمد سے بات کرتی رہی پھر لبنا کی آواز سن کر فون دراز میں رکھا اور آئینے کے سامنے آ گئی۔
احمد کا بدلا روپ دیکھ کر حریم خوش تھی۔

"سو میرے آفیسر تم بھی اسی کشتی کے مسافر ہو۔۔۔"
حریم بالوں میں برش کرتی ہوئی مسکرائی۔

"السلام علیکم!"
حریم ثمینہ کے گلے لگتی ہوئی بولی۔

"وعلیکم السلام! کیسی ہو بیٹا؟"
وہ صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولیں۔

"میں ٹھیک پھوپھو آپ سنائیں؟"
حریم کی نگاہ اسفند پر پڑی۔

"شکر اللہ کا۔۔۔"
ثمینہ مسکراتی ہوئی بولی۔

"ایمن جلدی آؤ نہ۔۔۔"
لبنا مسکراتی ہوئی بولی۔

"ھان آپی کیسی ہیں آپ؟"
اسفند خوشدلی سے بولا۔

"بلکل ٹھیک اور تم؟"
حریم مسکراتی ہوئی بولی۔

"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔۔"
وہ ایمن کو دیکھتا ہوا بولا۔

ایمن چاےُ کا کپ پکڑا رہی تھی ثمینہ کو۔
حریم نے اسفند کی نظروں کا تعاقب کیا۔
وہ گھر پر کم ہی رہتی تھی لیکن پھر بھی ہر شے پر نظر رکھتی۔

"پھر شادی کا کیا ارادہ ہے؟"
ثمینہ چاےُ کا سپ لیتی ہوئی بولی۔

حریم کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"آخر آپ سب کو میری شادی کی اتنی فکر کیوں ہے؟"
یکدم حریم پھٹ پڑی۔

ایمن صوفے پر ٹک گئی۔
"ھان کیا ہو گیا بیٹا؟"
لبنا نرمی سے استفسار کرنے لگی۔

"جب سے آئی ہوں صرف یہی ایک ٹاپک ہے سب کے پاس شادی شادی شادی جب کرنی ہو گی کر لوں گی آپ سب کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے خود کما رہی ہوں خود کھا رہی ہوں کسی پر بوجھ نہیں ہوں میں۔۔۔"
حریم چلاتی ہوئی زینے چڑھنے لگی۔

ثمینہ لب بھینچے لبنا کو دیکھنے لگی۔
حریم کی عادت سے سب واقف تھے۔

اسے اپنے معاملات میں کسی کی مداخلت پسند نہیں تھی۔
وہ ضبط کر رہی تھی گزشتہ ایک روز سے اور اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔

"تم تو جانتی ہو بن ماں باپ کی بچی ہے پیار تو بہت دیا لیکن پھر بھی دل میں خلش تو رہ ہی جاتی ہے۔۔۔"
لبنا ثمینہ کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔

"لیکن پھر بھی انسان کو وقت کے ساتھ خود کو بدلنا چائیے لیکن ھان آج بھی ویسی ہی ہے۔۔۔"
ثمینہ تاسف سے بولی۔

ایمن اسفند کی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی۔
ھان کا خیال آیا تو کھڑی ہو گئی۔

"ماما میں آتی ہوں ابھی۔۔۔"
وہ کہتی ہوئی چلی گئی۔

اسفند بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔
ایمن کمرے میں آئی دروازہ لاک کیا اور فون اٹھا کر اسد کا نمبر ملانے لگی۔

"ہاں ایمن بولو؟"
اسد فائل دیکھتا فون کان سے لگا کر بولا۔

"وہ ھان پھوپھو پر غصہ کر کے اپنے کمرے میں بند ہو گئی ہیں۔۔۔"
ایمن کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے بات کرے۔

"واٹ؟ کس بات پر؟"
اسد کی پیشانی پر شکنیں ابھریں۔

"پھوپھو شاید شادی کی بات کر رہی تھیں تو وہ ناراض ہو کر چلی گئیں۔۔۔"
ایمن تاسف سے بولی۔

اسد فائلز کو دیکھنے لگا جو نہایت اہم تھیں۔
"اچھا میں آتا ہوں ابھی گھر۔۔۔"
اسد نے کہتے ساتھ ہی فون رکھ دیا۔

"ھان کتنی لکی ہیں آپ۔ اسد ایک فون کال پر آپ کے لئے آ رہے ہیں۔۔۔"
ایمن کہتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی۔

بیس منٹ بعد اسد حریم کے کمرے کے باہر کھڑا تھا۔
حریم کے کمرے کی چابی صرف اسد کے پاس تھی۔
دروازہ کھول کر اسد اندر آ گیا۔

حریم گھٹنوں پر سر رکھے سسک رہی تھی۔
اسد کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔

"ھان یہ سب کیا ہے؟"
اسد کہتا ہوا اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔

"مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔۔۔"
حریم مدھم آواز میں بولی۔

"میری بات سنو اِدھر دیکھو؟"
اسد اس کا چہرہ اوپر اٹھاتا ہوا بولا۔
حریم نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"کیا ہوا تھا؟"
وہ نرمی سے استفسار کر رہا تھا۔

"کیوں سب میرے پیچھے پڑ گئے ہیں؟ میری زندگی ہے میری شادی میں جب مرضی کروں۔۔۔"
حریم اشک بہاتی بول رہی تھی۔

اس نیم تاریکی میں بھی اسد اس کے آنسو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔
"اچھا ٹھیک یے کوئی ہماری شادی کی بات نہیں کرے گا جب تم کہو گی تب ہو گی شادی اوکے؟"
اسد اس کے بال سنوارتا ہوا بولا۔

"اگر آج ماما بابا ہوتے تو کسی کو حق نہ ہوتا میری زندگی کے فیصلے لینے کا۔۔۔"
حریم اسے دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔

"آج بھی کسی کو حق حاصل نہیں ہے سمجھی میں کہہ رہا ہوں نہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔۔۔"
اسد اس کا چہرہ صاف کرتا ہوا بولا۔

"تم تو آفس گئے تھے۔۔۔"
حریم کو یکدم احساس ہوا۔

اسد کوٹ پہنے ٹائی لگاےُ تیار تھا۔
"جی ہاں آفس گیا تھا۔۔۔"
اسد اس کے چہرے پر آےُ بال کان کے پیچھے اُڑستے ہوۓ بولا۔

"تمہیں ماما کی یاد نہیں آتی؟"
حریم کھوےُ کھوےُ انداز میں بولی۔

"ایک بھی دن ایسا نہیں جب ان کی یاد نہ آےُ۔۔۔"
اسد بھی غمگین ہو گیا۔

"کیوں چلے گئے وہ؟"
حریم چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ رونے لگی۔

اسد حریم کو دیکھتا اس بات سے انجان تھا کہ وہ بھی رو رہا ہے۔
"ھان تمہیں سمجھایا تھا نہ پھر کیوں خود کو اذیت دیتی ہو؟"
اسد بےبسی سے بولا۔

"مجھے نہیں سمجھ آتا اسد کچھ سمجھ نہیں آتا۔ میں پاگل ہو جاؤں گی۔۔۔"
کمرے میں اب حریم کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔

"ھان اگر تم اب خاموش نہ ہوئی تو میں ایک تھپڑ لگا دوں گا آئی سوئیر۔۔۔"
اسد خود کو سنبھالتا ہوا بولا۔

حریم چہرہ اوپر اٹھاےُ خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔
"شادی کے بعد ہم یہاں سے شفٹ ہو جائیں گے اس کے بعد کوئی بھی تمہارے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔۔۔"
اسد اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا آہستہ سے بول رہا تھا۔

اسد کا آنچ دیتا لہجہ حریم کو کنفیوز کر گیا۔
"تم جاؤ آفس۔۔۔"
حریم اپنے ہاتھ نکالتی ہوئی بولی۔

"تم سیٹ ہو گی تو میں جاؤں گا ۔۔۔"
اسد پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔"
حریم چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔

"اچھا یہ بتاؤ تمہارے لئے کیا لاؤں؟"
اسد کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔

حریم سوچتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"جلدی بولو دیر ہو رہی ہے۔۔۔"
اسد گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔

"مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔"
حریم معصومیت سے بولی۔

"میں خود لے آؤں گا۔ تم ٹھیک ہو نہ؟ جاؤں اب؟"
اسد دروازے میں رک کر گردن گھما کر اسے دیکھنے لگا۔

حریم نے اثبات میں گردن ہلا دی۔
"ایسے نہیں۔۔۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔

"ہاں میں ٹھیک ہوں اب جاؤ۔۔۔"
حریم لائٹ آن کرتی ہوئی بولی۔

اسد مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔
حریم واش روم میں گئی اور پانی کے چھینٹے منہ پر مارنے لگی۔
تولیے سے منہ صاف کرتی وہ باہر نکلی تو فون رنگ کر رہا تھا۔

احمد کا نام دیکھ کر حریم ششدر رہ گئی۔
"ہیلو؟"
حریم حیرت سے بولی۔

"کیا کر رہی تھی؟"
احمد کی گھمبیر آواز حریم کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"کچھ نہیں بیٹھی تھی بس۔۔۔"
حریم سے کوئی بات نہیں بنی۔

"تم صحیح کہتی تھی میں سچ میں تمہیں مس کر رہا ہوں۔۔۔"
احمد کا آنچ دیتا لہجہ حریم کو الجھا رہا تھا۔

"احمد؟"
"تمہیں سننے کے لیے تو فون کیا ہے بولو؟"
احمد کے لہجے میں بے قراری تھی۔

"ڈوب کے مر جاؤ۔۔۔"
حریم غصے سے چلائی۔

"واٹ؟"
احمد بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

"کیا سمجھتے ہو تم خود کو؟"
حریم کسی کا غصہ کسی پر نکال رہی تھی۔

"میں نے کیا کہا؟"
احمد متحیر تھا۔

"جب بولتی تھی تب منہ سیدھا نہیں ہوتا تھا تمہارا اور اب مجھے مس کر رہے ہو؟"
حریم کیا بول رہی تھی وہ خود بھی انجان تھی۔

"ویٹ ویٹ۔ تم میرا دماغ خراب مت کرو۔۔۔"
احمد کو غصہ آ گیا۔
یہ چونچلے وہ نہیں کر سکتا تھا۔

"جس کا دماغ پہلے سے خراب ہو اسے خراب نہیں کیا جا سکتا۔۔۔"
حریم تیوری چڑھا کر بولی۔

"مجھے لگتا ہے آج تم مرچیں کھا کر آئی ہو۔۔۔"
احمد محظوظ ہوتا ہوا بولا۔

"مجھ سے بات مت کرو۔۔۔"
حریم کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔

"پھر اپنی منگیتر سے کر لوں؟"
احمد شرارتی انداز میں بولا۔

"نہیں افشاء سے کرو نہ نمبر دوں تمہیں؟"
حریم دانت پیستی ہوئی بولی۔

"کیسے چپک چپک کر باتیں کرتے تھے اس کے ساتھ؟"
حریم اسے آڑے ہاتھوں لیتی ہوئی بولی۔

احمد قہقہے لگا رہا تھا۔
"تم کیوں جل رہی ہو؟"
احمد پیٹ پر ہاتھ رکھے ہنس رہا تھا۔

"تم کیوں ہنس رہے ہو لطیفے سنا رہی ہوں کیا؟"
حریم کو مزید غصہ آنے لگا۔

"تمہاری شکل تصور کر رہا ہوں۔۔۔"
احمد پہلی بار کھل کر ہنس رہا تھا۔

"بھاڑ میں جاؤ تم۔۔۔"
حریم نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
گھڑی دیکھ کر دوپٹہ اٹھایا اور وضو کرنے چلی گئی۔

ایمن اسد کی تصویروں پر ہاتھ پھیر رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔
جلدی جلدی تصویریں دراز میں رکھیں اور چہرے پر ہاتھ پھیرتی دروازے کے پاس آ گئی۔
اسفند کو دیکھ کر چہرے پر مایوسی چھا گئی۔

"ایمن تم ایسا کیوں کرتی ہو؟"
اسفند الجھا الجھا سا اندر آ گیا۔

"کیسا؟"
ایمن انجان بنی۔

"تم بچی نہیں ہو جو تمہیں ہر بات کا مطلب سمجھایا جاےُ۔۔۔"
اسفند غصے سے گویا ہوا۔

دروازہ زور سے بند کر دیا۔
ایمن نے زور سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔

"تم نے ممانی سے کیا کہا؟"
وہ ایمن کا رخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔

"کیا کہا میں نے؟"
ایمن معصومیت سے بولی۔

اسفند دانت پیستا اسے گھورنے گا۔
"ایمن مجھے پاگل مت بناؤ۔۔۔"
اس کے لہجے میں چوٹ تھی۔

"اگر تم کسی اور کو پسند کرتی ہو تو مجھے بتا دو میں راستے سے ہٹ جاؤں گا۔۔۔"
اسفند آنکھوں میں نمی لئے بولا۔

"جس سے محبت کرتی ہوں وہ تو چاہ کر بھی میرے نہیں ہو سکتے۔۔۔"
ایمن دل ہی دل میں خون کے آنسو پیتی ہوئی بولی۔

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔"
ایمن چہرہ اٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"ٹھیک ہے پھر اگر تم نے میرے علاوہ کسی سے شادی کی تو میں خودکشی کر لوں گا اور اسے دھمکی ہر گز مت سمجھنا۔۔۔"
اسفند انگلی اٹھا کر بولتا تیزی سے باہر نکل گیا۔

ایمن ہکا بکا سی دروازے کو دیکھنے لگی۔
"یا اللہ! یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"
ضبط کے باوجود ایمن کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

اس نے دروازہ لاک کر لیا۔
دراز سے اپنی ڈرائینگ نکالی اور پین پکڑ کر زمین پر بیٹھ گئی۔
جب بھی اسد کی یاد شدت پکڑ جاتی تو وہ یہی سرگرمی شروع کر دی۔

ایمن اشک بہاتی سفید صفحے پر اے حرف لکھ رہی تھی۔
اس کی ڈرائینگ اچھی تھی وہ مختلف انداز میں اسد کا نام لکھتی رہتی۔
اسد کا نام دیکھ کر وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

اس کے نام میں اتنی طاقت تھی کہ روتے ہوۓ بھی مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔
رات کو ایمن کمرے سے باہر نکلی تو نظر ھان اور اسد سے ٹکرائی جو ریلنگ کے ساتھ کھڑے بات کر رہے تھے۔

"اسد مجھے نہیں جانا۔۔۔"
یہ بات حریم کوئی دسویں مرتبہ بول چکی ہو گی۔

"اب اگر تم نے منع کیا تو مجبوراً مجھے اٹھا کر لے جانا پڑے گا۔۔۔"
اسد معصومیت سے بولا۔

حریم نے اسے گھورا۔
"چلو نہ یار مجھے کچھ دکھانا ہے تمہیں۔۔۔"
اب اسد منت پر اتر آیا۔

"اچھا میں بیگ اٹھا لاؤں۔۔۔"
اتنے اصرار پر حریم انکار نہ کر سکی۔

اسد کا چہرہ کھل اٹھا۔
کہیں خوشیاں تھیں تو کہیں غم۔
کسی کو سکھ مل رہا تھا تو کسی دکھ۔
ایمن نے دروازے کو پکڑ لیا۔

آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
ایمن سیڑھیوں کی جانب چل دی۔

"ایمن؟"
اسد بولتا ہوا اس کے پیچھے آ گیا۔

"جی؟"
ایمن چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگی۔

"تمہیں وہ سوال سمجھ نہیں آےُ تھے نہ؟"
اسد پیشانی پر بل ڈالے اسے گھور رہا تھا۔

"میں نے بتایا تو تھا تھوڑا تھوڑا۔۔۔"
ایمن سر کھجاتی ہوئی بولی۔

"وہ تھوڑا تھوڑا نہیں بلکل بھی نہیں ہوتا ہے۔۔۔"
اسد خفگی سے بولا۔

"آپ نے میرا بیگ کھولا تھا؟"
یکدم ایمن کو فکر ہوئی۔

"ویسے ایک بات بتاؤ تمہیں اپنا نیم بہت پسند ہے؟"
اسد آگے کو ہوتا آہستہ سے بولا۔

"کیوں؟"
ایمن کی پیشانی پر شکنیں ابھریں۔

"تمہارے بیگ میں بہت سی پینٹنگز پڑی تھیں اے لکھا ہوا تھا۔ کیا راز ہے؟"
اسد کا اشارہ اسفند کی جانب تھا۔

"اس میں راز والی کون سی بات ہے؟ سب کو اپنا نیم پسند ہوتا ہے آپ کو نہیں پسند؟"
ایمن نے اس کی توجہ دوسری جانب مبذول کرانی چاہی۔

وہ جانتی تھی اسد کا جواب کیا ہو گا۔
"نہیں مجھے اپنا نہیں پسند۔۔۔"
اسد منہ بناتا ہوا بولا۔

اسد کے عقب سے حریم آتی دکھائی دی۔
"جن کا نیم آپ کو پسند ہے وہ خود ہی آ گئیں ہیں۔۔۔"
ایمن آبرو سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

اسد نے گردن گھما کر حریم کو دیکھا اور مسکرانے لگا۔
"تمہاری کلاس میں آ کر لوں گا یہ مت سمجھنا بچ گئی تم۔۔۔"
اسد گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔

ایمن ہلکا سا مسکرائی اور سائیڈ پر ہو کر انہیں گزرنے کا راستہ دیا۔
"کاش آپ کے ساتھ میں ہوتی؟"
ایمن حسرت زدہ سی انہیں جاتا دیکھنے لگی۔

"کاش یہ کاش نہ ہوتی زندگی میں۔۔۔"
ایمن چہرہ اوپر اٹھاتی ہوئی بولی۔

اگر زندگی میں یہ کاش نہ ہو تو کوئی حسرت باقی نہ رہے۔
نہ دل میں نہ زندگی میں۔

"کیا دکھانا تھا مجھے؟"
حریم خفگی سے دیکھتی ہوئی بولی۔
وہ دونوں مال میں کھڑے تھے۔

اسد نے اسے چلنے کا اشارہ کیا۔
یہ ایک جیولری کی شاپ تھی۔
"دیکھو میں ایک غریب سا بندہ ہوں زیادہ افورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔"
اسد بے چارگی سے بولا۔

حریم نے اس کے شانے پر ایک پنچ مارا۔
"یار رحم کیا کرو مجھ پر میں کہاں تمہارے پنچ برداشت کر سکتا ہوں۔۔۔"
اسد اپنی بازو سہلاتا ہوا بولا۔

"آنکھیں بند کرو۔۔۔"
حریم کو بیٹھتے دیکھ کر اسد گویا ہوا۔

"کیوں؟"
حریم کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"بند کرنی ہے کھولنی نہیں۔۔۔"
اسد نے اسے گھورا۔

حریم نے اثبات میں سر ہلا دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
اسد اس کے عقب میں کھڑا ہو گیا۔

اسد کے ہاتھ میں ایک نیکلس تھا جس میں سیاہ رنگ کا ڈائمنڈ مبسوط تھا۔
حریم کی بے داغ گردن میں اس نے وہ نیکلس پہنا دیا۔
حریم کی گوری رنگت پر وہ نیکلس چار چاند لگا رہا تھا۔

حریم نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔
آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو بے اختیار ہاتھ اس سیاہ رنگ کے ننھے سے ہیرے پر گیا۔

حریم کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔
وہ اکثر اسد کو کہتی تھی اسے سیاہ رنگ کے ہیرے بہت پسند ہیں۔
حریم کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔

حریم نے نگاہیں اوپر کیں آئینے میں اسد کا عکس دکھائی دیا جو اس کے عقب میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔
آنسو پلکوں کی باڑ کو توڑ کر باہر نکل گئے۔

"ٹینشن مت لو یہ میری حق حلال کی کمائی سے لیا ہےچوری نہیں کیا میں نے۔۔۔"
اسد اسے روتا دیکھ کر مظلومیت سے کہتا ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

"تم نے۔۔ کیوں لیا یہ اسد؟"
حریم اٹک اٹک کر بولی رہی تھی۔

"یہ سوال بلکل بیکار ہے تم ایسا کرو جا کر ایمن کے لئے کچھ لے لو میں بل دے کر آتا ہوں۔۔۔"
اسد اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔

حریم جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
وہ اٹھ کر دکان سے باہر نکل آئی۔

حریم اسد کو سوچتی ہوئی چل رہی تھی۔
احمد فون پر نگاہیں جماےُ چل رہا تھا۔
یکدم لب مسکرانے لگے۔
چہرہ اٹھا کر دیکھا تو سامنے حریم تھی۔

"کہاں گم ہو پاٹنر؟"
احمد اس کے سامنے چٹکی بجاتا ہوا بولا۔

"تم! یہاں؟"
حریم حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکی۔

"کیوں میں نہیں آ سکتا یہاں؟"
احمد آبرو اچکا کر بولا۔

"نہیں میرا مطلب تم جیسے سڑیل لوگوں کا یہاں کیا کام؟"
حریم بازو سینے پر باندھتی ہوئی بولی۔

احمد آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے لگا۔
"تمیز سے بات کیا کرو؟"
وہ انگلی اٹھا کر بولا۔

"قمیض میں بے ہمیشہ پہنی ہوتی ہے البتہ تم ہمیشہ شرٹ میں ہوتے ہو یہ رول خود پر لاگو کرو۔۔۔"
حریم گھورتی ہوئی بولی۔

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Where stories live. Discover now