"واپس چلا جاؤں؟"
احمد افشاء کو خاموش پا کر بولا۔

"تمہیں واپس بھیج سکتی ہوں کیا؟"
پیشانی پر بل ڈالے وہ احمد کو دیکھنے لگی۔

"آؤ بیٹھو۔۔۔"
وہ مسکراتی ہوئی بیڈ کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

بیڈ کے گرد چوکور قالین بچھایا ہوا تھا۔
بیڈ کی پشت والی دیوار ہلکی جامنی رنگ تھی جب کہ باقی دیواریں سفید رنگ کی تھیں۔
دائیں جانب سنگھار میز اور بائیں جانب کھڑکی پر سفید اور ہلکے جامنی رنگ کے قد آور پردے گرے ہوۓ تھے۔
احمد سانس خارج کرتا دھپ سے بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

"اور بتاؤ دو دن کیسے گزرے؟"
احمد ہاتھ میں کشن پکڑے افشاء کو دیکھ رہا تھا۔

"بہت برے گزرے ہیں۔۔۔"
افشاء کے مخملی چہرے پر بیزاری تھی۔

"کیوں؟"
احمد کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"وہ جو لڑکی لاےُ تھے بخدا میرا بس چلتا نہ تو اس کا کام تمام کر دیتی۔۔۔"
افشاء سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔

"تنگ کر رہی ہے؟"
احمد دلچسپی لیتا ہوا بولا۔

"ایسا ویسا۔۔۔"
افشاء منہ بناتی ہوئی بولی۔

"پھر میرے لئے پرفیکٹ رہے گی۔۔۔"
احمد بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا۔

"تمہاری وجہ سے تو نرمی سے ڈیل کر رہی تھی ورنہ اب تک اس کے چہرے کا نقشہ بگاڑ چکی ہوتی میں۔۔۔"
افشاء نزاکت سے بال پیچھے کرتی ہوئی بولی۔

"اچھا بتاؤ کون سے کمرے میں ہے وہ؟ بہت تھکا ہوا ہوں میں۔۔۔"
احمد انگڑائی لیتا ہوا بولا۔

"تیسرے کمرے میں ہے۔۔۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔

"پھر صبح ملتے ہیں۔۔۔"
احمد اس کے گلے لگتا ہوا بولا۔

"جاؤ اپنی جوانی کا مزہ لو۔۔۔"
افشاء اس کا شانہ تھپکتی ہوئی بولی۔

احمد نے جیب میں ہاتھ ڈال کر فون نکالا اور باہر نکل گیا۔
اسکرین پر انگلی چلاتا وہ چہرہ جھکاےُ چل رہا تھا۔

دوسری جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔
کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا تھا۔

اس نیم تاریکی میں بھی احمد اس لڑکی کا وجود دیکھ سکتا تھا۔
وہ چہرہ موڑے صوفے پر بیٹھی تھی۔

احمد نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا اور کمرہ روشنی میں نہا گیا۔
روشنی میں اس لڑکی کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

پھر چہرہ موڑ کر اس نفس کو دیکھنے لگی جس نے اس تاریکی کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔
ناک پر غصے سجاےُ وہ پاؤں نیچے کرتی سلیپر پہننے لگی۔

"تم؟"
احمد سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
احمد کے چہرے پر شناسائی کی رمق تھی جس کے باعث وہ تلخ ہو گیا ورنہ یہ طرز تخاطب نہیں تھا ان کا۔

Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)Où les histoires vivent. Découvrez maintenant