"ارے، کہاں جا رہی ہو ؟" ابتہاج اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولا تھا ۔
امسال جواب دیے بغیردھاڑ سے الماری کا دروازہ بند کر کے ٹیرس پہ چلی گئی تھی۔

"ہاہاہا ! میری آتش فشاں۔" ابتہاج ہنستے ہوئے بولا تھا۔
ابتہاج کا یقین مزید بڑھ گیا تھا کہ اْس کی محبت اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امسال ٹیرس پہ آ کر کھڑی ہوئی تھی اور ایک گہرا سانس لیا تھا۔ آنکھوں میں آئے آنسو جو وہ کب سے روکے ہوئی تھی اب بہہ نکلے تھے۔ابتہاج کا یوں کسی اور سے نکاح کی خواہش کا اظہار کرنا اْسے تکلیف دے رہا تھا۔ ابتہاج کی کچھ دیر پہلے کی گئی باتیں اب بھی اْس کے کانوں میں گونج رہی تھیں، اْسے رونے کے ساتھ ساتھ شدید غصہ بھی آ رہا تھا۔

امسال سے کچھ فاصلے پہ پھولوں کے گملے موجود تھے، ایک گملے میں بہت سارے گلاب کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ امسال نے ایک پھول توڑا تھا اور اْسے دیکھنے لگی تھی، اْسکی نظر ٹہنی پہ موجود نوک دار کانٹوں کی جانب تھی۔ ابتہاج کی باتیں ایک بار پھر یاد آئی تھیں اور اس بار غصہ بھی اتنا شدید تھا کہ بغیر سوچے سمجھے وہ اپنی مٹھی بھینچ چکی تھی ۔ نوکیلے کانٹے اْس کے ہاتھ میں پیوست ہوئے تھے اور اْس کا ہاتھ بْری طرح زخمی کر گئے تھے۔
امسال کو تکلیف محسوس نہ ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے خون کے ننہے قطرےفرش پہ ٹپکے تھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی جب وہ واپس نہ آئی توابتہاج اْٹھ کر ٹیرس پہ گیا تھا۔ امسال سامنے ہی کھڑی تھی، آدھے کھلے لمبے بال ہوا سے اْڑ رہے تھے اور وہ خود سامنے کسی غیر مرعی نکتے کو دیکھ رہی تھی۔

"یہاں کیوں آگئی تم ؟" ابتہاج امسال کے بلکل پیچھے کھڑا ہو کر بولا تھا لیکن امسال کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا تھا۔

"کیا ہوا ؟ رو کیوں رہی ہو ؟" ابتہاج کو اندازہ نہیں تھا کہ اْس کے مزاق کے نتیجے میں امسال ایسے رونے  لگے گی۔
امسال نے ابتہاج کا ہاتھ جھٹکا تھا جس سے ابتہاج کی نظر امسال کے ہاتھ پہ پڑی تھی۔ مٹھی میں لال گلاب تھا خون کے ساتھ۔

"اوہ گاڈ ! پاگل تو نہیں ہو تم ؟ یہ کیا کیا ہے تم نے ہاں ؟!" ابتہاج انتہائی غصے میں گویا ہوا تھا۔

"مٹھی کھولو امسال ! چھوڑو اْسے ورنہ مجھ سے بْرا کوئی نہیں ہوگا۔" امسال مٹھی نہ کھول رہی تھی جس کی وجہ سے ابتہاج کا غصہ مزید بڑھ رہا تھا۔

"چھوڑیں میرا ہاتھ !"  امسال اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی لیکن ابتہاج کی گرفت مضبوط تھی۔

ابتہاج نے نہ صرف امسال کی مٹھی کھول کر پھول کو پھینکا تھا بلکہ کڑی نظروں سے گھورتے ہوئے اْسے دوبارہ کمرے میں لے آیا تھا۔

"چھوٹی بچی ہو تم جو یہ پاگل پن کیا ہے ؟!" ابتہاج پٹی کرنے کے ساتھ ساتھ امسال کو مسلسل ڈانٹ رہا تھا جبکہ وہ خاموش بیٹھی تھی۔
اْس وقت تو درد نہیں ہوا تھا لیکن اب شدت کے ساتھ محسوس ہورہا تھا۔

داستانِ قلب (مکمل)Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora