عزیزِ جاناں Episode 06

6 1 0
                                    

گاڑی کے ہارن کی آواز سے میری تائی جی دروازے کی طرف دیکھنے لگی حاشر اور زائمہ کو ساتھ داخل ہوتا دیکھ انہیں تھوڑی حیرت ہوئی تو انہوں نے پوچھا " اسے تم لینے گئے تھے"
"اسلام علیکم امی" حاشر اپنی امی کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا
اور زائمہ جا کے اپنے والد سے گلے لگ کے سلام کرتی ہے "اسلام علیکم آپ جلدی گھر آگئے ڈیڈی"
"وعلیکم اسلام میرا بچہ."
"یاسر اور مومی کہاں ہیں اگر تم اسے لینے گئے تھے تو" تائی جی نے پھر پوچھا
"مجھے پتہ نہیں امی زائمہ کا رزلٹ تھا تو میں اسے لینے چلا گیا ."
"اچھاااا؟؟؟" زائمہ نے اسے یوں دیکھا جیسے اس کی آنکھیں ابھی ہی سب کچھ بیان کر دینگی اور تائی جی کو یہ دیکھ کر دونوں پر شک ہوا تو حاشر نے فوراً کہا"ہاں بس اسی لئے چلا گیا ورنہ تو کوئی بات نہیں تھی
" تمہارا رزلٹ تھا آج ؟ پھر کیا بنا؟"
"چھوڑیں ڈیڈی ان باتوں میں کچھ نہیں رکھا"
زائمہ کے اس فوری جواب پہ حاشر کو ہنسی آگئی
" ہنس لیں آپ تو... "زائمہ نے گھورا
"تو کیا کروں اتنے اچھے نمبرس پر بھی تمہارا منہ بن جاتا ہے اب میں تمہارے لیے نمبرس تو نہیں خرید سکتا نا"
" استغفر اللہ. دیکھ لیں ڈیڈی کیسی باتیں کر تے ہیں حاشر بھائی میں نے بھلا کب کہا نمبرس خریدنے کے لیے"
" کہا نہیں لیکن منہ ویسا ہی بنا لیا ہے" حاشر مسلسل زائمہ کو چھیڑے جارہا اور ساتھ موبائیل میں بھی مصروف تھا
"ایک منٹ ادھر لائیں موبائیل بتائیں آپ کا پھر دیکھتے ہیں " زائمہ نے چڑھ کر کہاتو حاشر تھوڑا گھبرا گیا
" میں مزاق کر رہا ہوں میری بہن تم دل پہ لے لیتی ہو"
"اچھا بس " تائی جی نے یہ سلسلہ توڑتے ہوئے کہا " بتاؤ کیا رزلٹ ہے؟ "
"ٹاپ کیا ہے امی اس نے ٹاپ... پورے کالج میں. اور نا شکری دیکھ لیں اس کی بس. "
"نہیں کرو... کیا واقعی؟؟؟"
"نہیں مما . تھرڈ رینک ہے میری " یہ کہہ کہ زائمہ واپس اپنے والد کے سینے لگ کے اداسی سے کہتی ہے
" تو کیا ہوا میرا بچہ.. تھرڈ رینک بھی تو ٹاپ ہی ہوتی ہے"
"نہیں ڈیڈی بس فرسٹ رینک ہی ٹاپ ہوتی ہے. "
ابھی ان کی فیملی کے درمیان یہ باتیں ہو ہی رہی تھی کہ اچانک زائمہ کے والد میرے تایا جی کے فون کی رنگ بجتی یے اور سامنے سے ایک شخص بڑ ی ہی خوش مزاجی اور گرم جوشی سے سلام کرتا ہے جبکہ زائمہ اب تک اپنے والد کے سینے لگی ہوئی تھی پر اس گرم جوش آواز سے زائمہ ضرور ٹھنڈی پڑ گئی تھی ایک آہ بھری اور نظریں اٹھا کہ تیز نگاہوں سے اپنے والد کو دیکھنے لگی . ظاہراً آواز کافی مانوس تھی والد کے لئے شہد اور بیٹی کے لیے زہر. یہ آواز تایا جی کے کافی پرانے دوست کی تھی جس کے سنتے ہی تایاجی کے چہرے پر بھی خوشی صاف نظر آرہی تھی جسے دیکھ کر زائمہ مسلسل irritate ہو رہی تھی.
"وعلیکم اسلام سر فراز.. " جتنا جوش سلام میں تھا جواب اس سے بھی کافی زیادہ اثر دار تھا
"کیا حال ہے یار"
"سب ٹھیک بس تم سناؤ کیسے یاد کیا"
"ہاں خوشخبری دینی تھی ایک بس تو سب سے پہلے تمہیں یاد کیا"
" چلو جی شروع ہوگیا ان کا شو "زائمہ کافی بیزاری سے والد کی گود چھوڑتے ہوئے" اب سن لیں بس انکی فخریہ پیشکش کا شو اوف"
تایاجی اسے گھورتے ہیں تو وہ خاموش ہوجاتی ہے اور تایاجی واپس فون پر مصروف ہوجاتے ہیں
"اچھا کیسی خوشخبری ."
" ارے بیٹا اپنا یار ٹاپ کیا ہے نا اس نے اپنے گریجوئیشن کے فرسٹ ایر میں "
"بیٹا اپنا؟؟؟؟ اپنا بیٹا ؟ " زائمہ نے حاشر کی طرف دیکھا اور طنزیہ لہجے سے کہا "اپنی پیشکش کو میرے والد کے سر پر کیوں مار رہے ہیں ...عجیب مخلوق.. " زائمہ مسلسل بیزاری کا اظہار کر رہی تھی.
"اچھا.. کون نمیر ؟ ماشاء اللہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے. "
"ہاں ..بس خدا کا کرم ہے..الحمد للہ"
"خدا کا یا ان کا اپنا کرم ہے؟ خدا ہی جانے" زائمہ کے اس بات نے حاشر کو بہت زور سے ہنسا دیا تھا اور اب زائمہ اور حاشر دونوں بھی تایا جی کی تیز نگاہوں کا شکار ہورہے تھے. دونوں معصومیت سے صوفے کا سہارا لے کر بیٹھ گئے تو دونوں دوستوں کی بات آگے بڑھی
" چلو بہت مبارک ہو تمہیں "
" شکریہ شکریہ بس اسی خوشی میں شام میں ایک چھوٹا سا گیٹ ٹوگیدر رکھا ہے گھر پر اس کا انویٹیشن دینے کے لیے کال کیا تھا. "
"ہاں ہاں ضرور بالکل"
"اور ہاں وہ نمیر نے بتایا مجھے زائمہ نے بھی تھرڈ رینک لیا ہے اسے بہت مبارکباد دینا میری طرف سے اور اسے بھی اپنے ساتھ لانا.. بہت خوشی ہو گی"
یہ سن کے تو زائمہ کا غصہ بھڑکنے ہی لگا تھا. جو کہ تایا جی کو پہلے ہی نظر آگیا تھا اس لییے وہ کور اپ کرنے میں کامیاب ہوئے
"اچھا دیکھتے ہیں میں کہونگا اسے لیکن تمہیں تو آجکل کے بچوں کا پتہ ہی ہے. اسلیے اس کا انتظار نہ کرنا مشکل ہے اسکا تو. "
"نہیں نہیں بہانے نہ بنانا کچھ. مجھے بات بھی کرنی ہے کچھ ضروری ملو مجھے آ ج شام... "
" اچھا ٹھیک ہے میں کو شش کرونگا.."
باتیں کرتے ختم ہوتے ہی زائمہ کے دماغ کا بمب پھٹ پڑا
"یہ آپ کے ریڈیو خان کے یہاں آپ خود ہی جائیے گا اکیلے مجھ سے بالکل امید نہ کر نا "
زائمہ کی اس بات اور غصہ کو دیکھ کر تایا جی کو بے تحاشہ ہنسی آگئی
" ریڈیو خان !!!!"
"ہاں ریڈیو خان ..ہر جگہ ہی اپنے فخریہ پیشکش کا شو اوف شروع کر دیتے ہیں "
"تمہیں آخر مسئلہ کیا ہے میرے دوست سے؟"
"مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے ان سے وہ تو بس اپنی اولاد کی محبت میں گرفتار ان کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں میں انہیں کچھ نہیں کہتی وہ جو کریں.. لیکن ان کی اولاد!!!! استغفراللہ... "
" ویسے آ پ خود سوچیں ڈیڈی.. رزلٹ آئے ہوئے دو گھنٹے نہیں ہوئے ہیں اور شام کے 4 بج رہے ہیں.. اتنی جلدی انہوں نے گیٹ ٹو گیدر بھی ارینج کر لیا... Looking like پہلے سے تیاری کر رکھی تھی. "حاشر نے تعجبیہ لہجے سے یہ کہا جیسے والد کو آگاہ کرنا چاہتا ہو.
"تم دونوں کا مطلب میں بہت اچھی طرح سے سمجھ رہاہوں لیکن صرف کہنے سے کچھ نہیں ہوتا.. پروف چاہیے پروف.. بنا پروف میرے دوست پر الزام نہ لگاؤ بس" تینوں ایکدوسرے کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور میری معصوم تائی جی جن کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو آخر بول اٹھی
" کیا ہو رہا ہے کو ئی مجھے بھی سمجھا دو"
حاشر نے بڑ ھ کر انہیں گلے لگا لیا"ارے میری معصوم امی... زمانۂ پر آشوب کی نیرنگیاں ہیں بس آپ زیادہ خود کو تکلیف نہ دیں "

------------------------
"یہ لاسٹ ایئر جلدی ختم ہو تو میں آگے بڑھوں" یاسر اپنے دوستوں کے ساتھ میری طرف بڑھتا ہوا دور سے ہی نظر آ گیا تھا. اور میں اس کا اس طرح اپنی طرف بڑھنا دیکھ رہی تھی.
"چلو خیر ہے بس جہاں تین سال وہیں یہ آخری سمسٹر بھی گزر ہی جائیگا. "
"ہاں.. گزر جائے بس اٹکے نہ"
"ہاں یار.. "
میرے قریب آنے تک اس کے دوست سارے منتشر ہو چکے تھے. اور وہ میرے سامنے واحد شخص باقی بچا تھا. اور کیا فرق پڑتا ہے دنیا بھری ہوئی ہو تب بھی تو وہ میرے آگے بالکل اس طرح ہے جیسے دنیا کا واحد ترین شخص ہو جسے میں دیکھوں چاہوں اور محسوس کروں. یاسر میرے لیے ایک لا حاصل حسرت ہے. میں جتنا بھی دیکھوں جتنا بھی چاہوں یا نہ بھی دیکھوں نہ بھی چاہوں پھر بھی میری حسرتوں پر میرا کوئی اختیار نہیں میں کس طرح اس کی اس بلا کی محبت کا شکار ہو گئی آخر میں نے کیوں دنیا نہیں دیکھی اس کے سوا
"ہیلو..... مومی ؟؟؟"
"او میڈم.... زندہ ہو؟"
اس کے اس دخل سے میں اس کی دنیا سے اپنی دنیا میں لوٹ آئی.
" ہاں زندہ ہوں. مجھے کیا ہونا ہے. "
"میں تمہیں کال کرنے والا تھا پر تم مجھے یہیں مل گئی کہیں اور ہی کھوئی ہوئی.. خیر چلو مما کی کال آئی تھی گھر پھپھو آنے والی ہیں تو جلدی جانا پڑے گا"

--------------------------

"کیا کہا پھپھو آنے والی ہیں " اپنی ماں سے اچانک یہ جملہ سن کر زائمہ گھبرا کے فوراً کھڑی ہو گئی.
" ہاں لیکن تمہیں کیا ہو گیا یہ سن کر" تائی جی اس کے اس ری ایکشن پر تھوڑی حیران ہوئی لیکن مجھے کوئی حیرانی نہیں تھی. کیونکہ میں نے اس کی آنکھوں میں یہ چمک پہلے بھی دیکھی تھی پر پہلے اتنی مطمئن نہیں ہوا کر تی تھی جتنی اب تھوڑی تھوڑی ہونے لگی تھی.
" اچھا تو پھر اکیلی تو وہ بھی نہیں آئینگی. وہ بھی اپنی فخریہ پیشکش ساتھ لائینگی ہیں نا.. "
" تو اب تمہیں اس بیچارے سے کیا مسئلہ ہے ؟" زائمہ کے اس ہر لمحے بدلتے رویہ سے تائی جی پریشان ہو رہی تھی.

" شام کو پارٹی میں ضرور آنا مجھے تمہارا انتظار رہیگا" ایک میسج زائمہ کے فون اسکرین پر پاپ اپ ہوا. جسے دیکھ کر زاائمہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا " مر جاؤ انتظار کر کر کے"
"خدا کا خوف کرو اگر اسے کچھ ہو گیا نا تمہاری بد دعائیں ذمہ دار ہوگی دیکھ لینا" میری معصوم تائی جی اسے اس طرح سمجھا رہی تھی جیسے ان کے سمجھانے کا کوئی اثر ہونا تھا."ویسے پھپھو تمہاری ممکن ہے میرے بھائی کے ساتھ آئیں بس کیونکہ میں نے کہا بھی تھا آہان کو ساتھ لائیں لیکن اس کی مصروفیات ہیں "
"اوہ! اچھا.... "
ویسے تو زائمہ کا ری ایکشن کافی obvious تھا لیکن ممکن ہے شاید ایسا صرف مجھے لگ رہا ہو اس لئے باقی کوئی سمجھ نہیں پایا.

__________To be continued

Ai ajuns la finalul capitolelor publicate.

⏰ Ultima actualizare: Jan 15 ⏰

Adaugă această povestire la Biblioteca ta pentru a primi notificări despre capitolele noi!

عزیزِ جاناں ❤ Unde poveștirile trăiesc. Descoperă acum