قسط نمبر اڑتالیس

Start from the beginning
                                    

اب کیسی طبیعت ہے تمہاری...؟ دانش نے اس کے پاس آ کر پوچھا-

ٹھیک ہوں... اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے وہ کراہ کے رہ گیا تھا-

تم رکو یار میں مدد کرتا ہوں... دانش نے آگے بڑھ کر اسے اٹھنے میں مدد کی تھی اور اس کی پست پر تکیے درست کر کے اسے بیٹھنے میں مدد کی تھی -

دانین اندر ہی اندر کٹ کے رہ گئی تھی کہ اس سب کے درمیان اس نے ایک نظر بھی اسے نہیں دیکھا تھا...اسے پیاس لگی تھی اس لیے وہ پانی کی طرف دیکھ رہا تھا جو کہ دانین کی طرف رکھا تھا مگر وہ اس سے کہنا نہیں چاہتا تھا -

کچھ چاہیے تھا آپ کو... اس کی نظروں کو ٹیبل کی طرف دیکھ اس نے پوچھا تو وہ کچھ نہیں بولا -

پانی پلا دو یار... اس نے دانش سے کہا... دانش نے حیرت سے اسے دیکھا جو اتنی دیر سے مسلسل دانین کو نظرانداز کر رہا تھا -

اس کے کہنے پر دانین نے گلاس میں پانی بھر کر اس کی طرف بڑھایا تھا جسے اس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا... دانش نے دانین کے ہاتھ سے پانی لے کر اسے پلایا تھا... دانین نے اس کے گریز، اس کے نظرانداز کرنے کو بری طرح محسوس کیا تھا -

میں سمرہ کو چھوڑنے گھر جا رہا ہوں... رات تک تمہارے پاس آؤں گا... ابھی میں چلتا ہوں...دانش کہہ کر اٹھ گیا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ وہ آپس میں بات کر لیں اور اس کی ناراضگی دور ہو... اس لیے وہ چلا گیا تھا-

***

دانش نے جانے کیا کہہ کر ابراہیم حیات شاہ اور ان کی بیگم کو راضی کیا تھا گھر جانے کے لیے... جو وہ اس کے ساتھ ہی واپس چلے گئے جب کہ وہ دونوں اسے ہاسپٹل میں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے مگر دانش کے کہنے پر واپس چلے گئے تھے -

***

دانش کے جانے کے بعد وہ تھوڑی دیر ویسے ہی بیٹھا رہا تھا پھر ایک ہاتھ سے تکیا درست کر کے لیٹنے لگا تھا جب اس کے ہاتھ کے زخم پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے درد ہوا تھا... وہ اس کے قریب آئی تھی -

میں مدد کر دوں... کہتے ہوئے وہ اسے لیٹنے میں مدد کرنے لگی تھی-

مجھے آپ کی مدد یا آپ کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے... آپ جائیں یہاں سے...بے رخی سے کہا گیا تھا جو اس کے دل پر تیر کی طرح لگا تھا... اس نے اس کی محبت دیکھی تھی...اس کا غصہ نہیں دیکھا تھا اور یہ اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا لیکن اس سب کی وجہ بھی وہ ہی تھی تو اب برداشت تو کرنا تھا اس کے مان جانے تک-

***

رات تک وہ ایسے ہی بیٹھی رہی تھی... اس نے بات کرنے کی کوشش کی مگر دوسری طرف سے نو لفٹ کا بورڈ لگا ہوا تھا اور وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی کہ وہ اس سے کوئی بات کر سکے... تب ہی ڈاکٹر اور نرس کمرے میں داخل ہوئے تھے... انھوں نے اس کا چیک اپ کیا اور کھانے اور دوائیوں کی ہدایت دیتا ہوا چلا گیا-

میرا عشق تم ہو (مکمل) Where stories live. Discover now