Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum S...

By Tisha_Gohar

23.4K 1K 113

زندگی میں کبھی کبھی اندھیرے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان اندھیروں کا مقصد ہمیں وہ چاند دکھانا ہوتا ہے جو ہم دن کی روشن... More

Episode 1.
Episode 2.
Episode 3.
Episode 4.
Episode 5.
Episode 6.
Episode 7.
Episode 8.
Episode 9.
Episode 10.
Episode 11.
Episode 12.
Episode 13.
Episode 14.
Episode 15.
Episode 16.
Episode 17.
Episode 18.
Episode 19.
Episode 20.
Episode 21.
Episode 22.
Episode 23.
Episode 24.
Episode 25.
Episode 26.
Episode 27.
Episode 28.
Episode 29.
Episode 30.
Episode 31.
Episode 32.
Episode 33.
Episode 34.
Episode 36.
Episode 37.

Episode 35.

578 21 2
By Tisha_Gohar

# ”محبت کچھ یوں ہے تم سے“
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 35

زویا دس ماہ کی ہو گٸ تھی اور بولنے لگی تھی۔ پہلا لفظ اس نے بابا کہنا ہی سیکھا تھا۔ سکندر کی گردن فخر سے اونچی ہو جاتی تھی اور وہ الماس کو چڑانے والی نظروں سے دیکھتا تھا جب زویا اسے بابا کہہ کر بلاتی تھی۔ الماس کو کبھی ہنسی آتی اور کبھی وہ جھنجھلا جاتی تھی۔

الماس نے اپنے بھاٸ کےمتعلق سکندر کے کان کھانے شروع کر دیٸے تو اس کو سچ بتانا ہی پڑا۔ لیکن بعد میں اسے احساس ہوا کہ نہ بتانا ہی بہتر تھا۔

وہ چھٹی پہ ایک دن کے لیے گھر آیا تو الماس نے پھر سے اس سے اپنے سگے بھاٸ کے متعلق پوچھا۔

”آپ نے کچھ پتا چلایا میرے بھاٸ کے بارے میں؟“

الماس نے بے تابی سے پوچھا۔

”نہی“

سکندر نے زویا کو گود میں بٹھایا ہوا تھا اور اس سے کھیل رہا تھا۔

”کیوں؟ اب تو اتنے دن ہو گۓ ہیں۔ آپ کے لیے کیا مشکل ہے اس کو ڈھونڈنا“

الماس کے انداز میں بے چینی تھی اور سکندر کا اطمنان اسے مزید بے چین کر رہا تھا۔

”تم کیا کرو گی اس سے مل کر۔۔۔۔“

سکندر کا انداز صاف ٹالنے والا تھا۔

”کیا مطلب کیا کروں گی۔ وہ بھاٸ ہے میرا۔۔۔۔۔۔۔“

الماس نے تیزی سے بولا پھر شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔

”مجھے تو لگتا ہے آپ کی نیت ہی نہی ہے مجھے میرے بھاٸ سے ملوانے کی۔ ورنہ کب کا اسے ڈھونڈ چکے ہوتے آپ“

سکندرنے رک کر گہرا سانس لیا پھر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے سوچ لیا کہ اب اس قصے کو بھی نمٹ جانا چاہیے ورنہ الماس یہ راگ بند نہی کرے گی۔

”جسے تم اپنا بھاٸ سمجھ رہی ہو وہ میرا جونٸیر ہے“

سکندر نے صاف لفظوں میں اسے بتایا۔

”کیا؟۔۔۔۔۔۔میرا بھاٸ آپ کا جونٸیر ہے؟ آپ کو پتا تھا پھر بھی آپ نے مجھے نہی بتایا؟“

وہ پہلے حیران ہوٸ پھر ناراضگی والا انداز اپنا لیا۔

”وہ صرف میرا جونٸیر ہے۔ تمھارا بھاٸ نہی ہے۔“

سکندر نے اسے صحیح بات سمجھانے کی کوشش کی۔

”کیا مطلب؟ سندس تو کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔“

الماس مزید الجھ رہی تھی۔

”میرا جونٸیر تمھارا بھاٸ نہی ہے وہ تمھارا بھاٸ بن کر گیا تھا سندس کے پاس۔“

سکندر نے اس کی بات کاٹ کر تفصیل سے اسے سمجھایا۔ وہ کچھ دیر الجھن زدہ نگاہوں سے سکندر کو دیکھتی رہی، پھر ایک دم تاثرات بدلے۔

”تو آپ کا جونٸیر میرا بھاٸ بن کے کیوں گیا تھا سندس کے پاس؟“

اب وہ آٸ تھی اصل بات کی طرف۔

”کسی کام سے بھیجا تھا۔“

سکندر نے پھر بات گول کرنی چاہی۔ مگر اب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

”ایسا کون سا کام تھا کہ اسے میرا بھاٸ بننا پڑا؟ آپ مجھ سے کیا چھپا رہے ہیں؟“

الماس نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔ اس نے زویا کو واکر میں ڈالا اور خود اٹھ کر اس کے برابر کھڑا ہو گیا۔

”تمھارا بیک گراٶنڈ چیک کروایا تھا بس اس لیے کوَر میں وہ تمھارا بھاٸ بن کر چلا گیا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ تم دوبارہ اس سہیلی سے ملو گی ورنہ اس کا کوَر چینج کروا دیتا۔“

سکندر نے جھنجھلا کر کہا مگر الماس کو تو پتنگے لگ گۓ اور اس کے بعد جو ہوا وہ سکندر کے وہم و گمان میں بھی نہی تھا۔ الماس اس سے خوب لڑی تھی۔

”آپ کو مجھ پہ اب بھی اعتبار نہی؟ اسی لیے آپ نے میرا بیک گراٶنڈ بھی چیک کروایا؟ اور میں یہی سمجھتی رہی کہ آپ کو میری سچاٸ پہ یقین آ گیا ہے۔ آپ کو تو میرا بیک گراٶنڈ چیک کروا کے یقین آیا تھا نہ کہ میرے کہے ہوۓ لفظوں پہ“

”کیسی باتیں کر رہی ہو؟ اعتبار کیاتھا تو شادی کی تھی نا۔ اور یہ شادی سے بہت پہلے کی بات ہے“

سکندر نے اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔

”میں کیسے مان لوں؟ اتنا عرصہ آپ نے مجھ سے یہ بات چھپاٸ۔ اب بھی اگر سندس سے میری ملاقات نہ ہوتی تو مجھے تو پتا ہی نہی چلتا“

وہ سمجھنے کے موڈ میں بالکل نہی لگ رہی تھی۔

”پاگل تو نہی ہو گٸ ہو؟ اب کیا مسٸلہ ہے تمھیں؟ میں شوہر ہوں تمھارا، ہماری ایک بیٹی ہے۔ اب شک کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟“

”آپ کو مجھ پہ اعتبار تھا ہی نہی۔ شروع سے۔۔۔۔اور میں بے وقوف یہی سمجھتی رہی کہ آپ سچ میں مجھ سے محبت کرنے لگے ہیں۔۔۔۔اب اگر کل کو پھر آپ کو میرے متعلق کوٸ نٸ بات پتا چلے گی تو آپ مجھے گھر سے نکال دیں گے“

”دماغ خراب ہو گیا ہے تمھارا؟ میں کیوں نکالوں گا تمھیں گھر سے؟“

سکندر کو غصہ آ گیا تھا اس کی تکرار پہ۔

”اگر آپ کو مجھ پہ اعتبار ہوتا تو میرا بیک گراٶنڈ نہ چیک کرواتے۔“

”ہر بات اپنے اندازوں سے مت سوچا کرو۔ ضروری نہی کہ بے اعتباری کی وجہ سے ہی بیک گراٶنڈ چیک کروایا ہو۔ کوٸ اور وجہ بھی ہو سکتی ہے“

سکندر نے اسے تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ اپنی ضد پہ ہی اڑی رہی۔ وہ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہی تھی کہ کوٸ اور وجہ ہو گی۔ اور وجہ ہو بھی کیا سکتی تھی؟ اسے لگا سکندر صرف اس سے جھوٹ بول کر بات کو گھمانے کی کوشش کر رہا ہے۔

”اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ بتاٸیں پھر؟“

سکندر کچھ کہنے لگا تھا، مگر کہتے کہتے رک گیا۔ اگر وہ وجہ بتاتا تو اسے پوری کہانی بتانی پڑتی اور اس کہانی کی بہت سی باتیں ایس تھیں جو اس نے سارا کو بھی اسے بتانے سے منع کر رکھی تھیں۔

”ہر بات تمھیں بتانے کا پابند نہی ہوں میں“

سکندر نے اسے گھورا۔

”دیکھا۔۔۔۔۔۔ مجھے پتا تھا آپ نے صرف مجھے بے وقوف بنایا ہے۔ اگر مجھ پہ اعتبار ہوتا تو مجھ سے پوچھتے۔ میں خود ہی آپ کو سب کچھ بتا دیتی۔ لیکن میرے بتانے پر بھی آپ نے ماننا نہی تھا اسی لیے میرا بیک گراٶنڈ چیک کروایا کہ میں واقعی جھوٹ تو نہی بول رہی۔۔۔۔“

”بس کرو الماس۔۔۔۔۔بے تکے اندازے مت لگاٶ۔ مجھے تم پہ اعتبار ہے۔ اور یہ جو فضول باتیں تمھارے دماغ میں گھس گٸ ہیں انھیں فوراً سے پہلے نکال دو۔ یہ ہمارے رشتے کے لیے اچھا نہی ہے“

سکندر نے اسے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہی مانی۔

”آپ نے دھوکہ کیا ہے میرے ساتھ۔۔۔۔۔اب کیا بچا اس رشتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

الماس کو بڑے زور کا چکر آیا تھا۔ اس نے ایک دم سکندر کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑ لیا۔ سکندر ایک دم گھبرا گیا تھا۔

”الماس۔۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔الماس۔۔۔۔تم ٹھیک ہو؟۔۔۔۔کیا ہوا؟“

وہ اپنے گھومتے سر کو تھام کر سکندر کے سہارے پر کھڑی تھی۔ سکندر نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور گلاس میں پانی ڈال کر لایا اور اسے دیا۔

”یہ لو پانی پیو۔“

اس نے گلاس تھام لیا اور پانی پی لیا۔ سکندر نے گلاس اس کے ہاتھ سے لے کر ساٸیڈ پر رکھ دیا۔ اس نے الماس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔

”کیا ہوا ہے؟ طبیعت ٹھیک ہے تماری؟“

سکندر کو نٸ فکر لگ گٸ۔ وہ جتنا بھی جھگڑتی، تھی تو اس کی بیوی اور اس کے دل میں رہتی تھی، چاہے وہ جتنا بھی انکار کرے۔

”نہی۔نہی۔۔پتا نہی، دل گھبرا رہا ہے۔۔۔سر گھوم رہا ہے“

الماس کو اپنی کیفیت سمجھ نہی آ رہی تھی۔ سکندر اٹھ گیا اور زویا کو گود میں اٹھا کر الماس کو بھی اپنے ساتھ باہر لایا۔

”بھابھی، میں الماس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہا ہوں، اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہی ہے“

سکندر نے سارا کو بتایا تو اس نے فقط اثبات میں سر ہلا دیا۔ سکندر نے احتیاط سے الماس کو گاڑی میں بٹھایا اور زویا کو اپنی گود میں۔ کلینک زیادہ دور نہی تھی۔ ڈاکٹر نے چیک اپ وغیرہ کر کے کچھ ٹیسٹس لکھ دیے۔ رپورٹس کل ملنے کا بتا کر ڈاکٹر نے دواٸیں لکھ دیں اور ضروری ٹریٹمنٹ کے طور پر ایک ڈرپ بھی چڑھا دی۔

”آپ کی واٸف میں کافی ویکنیس ہے۔ ان کی ڈاٸٹ کا خیال رکھیں۔ کمزوری سے بھی چکر وغیرہ آ جاتے ہیں۔“

سکندر نے الماس کی طرف دیکھا۔ وہ خود زیادہ تر گھر پہ ہوتا ہی نہی تھا۔ الماس کھانے پینے میں کمی کرتی تھی تو وہ نوٹ نہی کر پایا۔ اس کے سامنے تو ٹھیک ہی کھاتی تھی۔

سکندر اس کی دواٸیں وغیرہ اور فروٹ کے کر اسے گھر واپس لے آیا اور سارا کو اس ساری صورتِ حال کا بتایا۔

”میں دھیان رکھوں گی اب کہ یہ کھانے پینے میں ڈنڈی نہ مارے۔“

الماس نے بے چارگی سے سارا اور تیکھے انداز سے سکندر کو دیکھا جو اس کی شکایتیں لگا رہا تھا۔ الماس کو ایسا ہی لگا حالانکہ وہ صرف ڈاکٹر کی کہی باتیں دہرا رہا تھا۔

سکندر نے الماس کا خیال رکھا تھا مگر الماس اس سے بات نہی کر رہی تھی۔ اس کے باوجود اس نے الماس سے کسی قسم کا برا برتاٶ نہی کیا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ بیماری میں انسان چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ سکندر ایک دن رک کر چلا گیا تھا مگر الماس نے اس سے دوبارہ سیدھے منہ بات نہی کی تھی۔ جاتے وقت وہ اسے گلے لگانے کے لیے قریب ہوا تو بھی الماس نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر اسے روک دیا۔ اس نے بھی زیادہ زور نہی دیا۔ اسے لگ رہا تھا وقتی غصہ ہے اتر جاۓ گا۔

۔۔۔

سکندر واپس چلا گیا تھا اور جاتے ہوۓ اس نے رپورٹس بھی لے لی تھیں۔ آتے ساتھ ہی کام میں یوں مصروف ہو گیا تھا وہ کہ رپورٹس کھولنے کا وقت بھی اسے نہی مل سکا۔ چھے گھنٹے لگا تار کام کرنے کے بعد بالآخر اس نے رپورٹس کا لفافہ اٹھایا اور کھولا۔ ابھی کاغذ انفولڈ بھی نہی کیا تھا کہ اس کا فون بجا۔ اس نے کالر آٸ ڈی دیکھا تو سارا کا نام جگمگا رہا تھا۔ سکندر نے بغیر ایک منٹ ضاٸع کیے فون اٹھایا۔

”جی بھابھی۔۔۔۔۔“

”سکندر۔۔۔۔۔الماس پتا نہی کہاں چلی گٸ ہے“

سارا کی گھبراٸ ہوٸ آواز سکندر کے کانوں میں پڑی تواس کا دماغ بھک سےاڑ گیا۔

”کیا مطلب۔۔۔۔۔ کہاں چلی گٸ؟“

سکندر کو سمجھ نہی آ رہا تھا کہ کیا چل رہا ہے۔

”پتا نہی۔۔۔زویا کو بھی گھر پہ چھوڑ گٸ ہے اور خود اکیلی پتا نہی کہاں چلی گٸ۔ میں کافی دیر سے انتظار کر رہی تھی مجھے لگا شاید باہر گٸ ہو کسی کام سے لیکن اس کے کچھ کپڑے بھی نہی ہیں الماری میں۔۔۔۔سکندر پلیز اسے ڈھونڈو میں بہت پریشان ہوں“

سارا رو دینے والی ہو رہی تھی۔ زویا کو اس نے سنبھال لیا تھا لیکن الماس کی فکر اسے کھاۓ جارہی تھی۔

سکندر نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں۔ اسے الماس سے اس قدر بےوقوفی کی امید نہی تھی۔ وہ بے بسی سے اپنی کنپٹیاں مسلنے لگا۔ تھوڑی دیر سوچ بچار کے بعد اسے اندازہ ہو کیا تھا کہ کہاں گٸ ہوگی۔ اس کے پاس فون بھی نہی تھا ورنہ وہ ٹریس کر لیتا۔۔۔۔لیکن اچانک اسے یاد آیا کہ اس نے ایک ماٸیکرو ٹریسر اس کے پرس میں ڈالا تھا۔ اگر الماس اس پرس کو ساتھ لے کر گٸ ہو تو وہ اسے ڈھونڈ سکتا تھا۔

سکندر نے ایک منٹ بھی ضاٸع کیے بغیر اس کی لوکیشن سرچ کی۔ اور اس کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ وہ سندس کے گھر گٸ تھی۔ سکندر نے سکون کا سانس لیا۔ کم از کم وہ محفوظ تھی۔ اس نے سارا کو اطلاع دی اور کہا کہ وہ ایک دو دن میں اسے لے آۓ گا۔

دو دن بعد اسے کچھ وقت مل گیا تو وہ الماس کو لینے سندس کے گھر پہنچ گیا۔

سندس نے ہی دروازہ کھولا تھا۔

”ارے۔۔۔سکندر بھاٸ آپ؟ الماس کو نہی لاۓ ساتھ؟“

اس کے بننے پر سکندر نے زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجاٸ۔

”اسے کیسے لا سکتا تھا، وہ تو یہیں ہے نا“

سکندر کے دوٹوک انداز پر سندس نے تھوک نگلا۔

”نہی۔۔۔وہ یہاں تو نہی آٸ“

سندس نے پھر سے بہانہ ڈالنے کی کوشش کی۔

”تمھیں لگتا ہے میں بغیر کنفرم کیے یہاں آ گیا ہوں؟ مجھے پتا ہے وہ یہیں ہے۔ بلاٶ اسے“

سکندر کا رعب ہی کافی تھا۔ سندس نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔

”اچھا آپ اندر تو آٸیں۔۔اندر بیٹھ کر بات کر لیجیے گا“

وہ چپ چاپ غصیلی نظریں لیے اندر داخل ہوا۔ سندس کی امی پڑوس میں گٸ ہوٸ تھیں۔ الماس اندر مزے سے لیٹی ہوٸ تھی۔ سندس نے اسے سکندر کے آنے کا بتایا۔

””سکندر بھاٸ تمھیں لینے آۓ ہیں“

”کیا؟ کیا مطلب؟ تم نے انھیں بتا دیا میں یہاں ہوں؟“

الماس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوۓ آہستہ سے چیخنے والے انداز میں کہا۔ سکندر کو اس کی آواز آ گٸ تھی لیکن وہ وہیں بیٹھا رہا۔ اسے شدید غصہ آ رہا تھا الماس پہ۔

”میں نے نہی بتایا، انھیں پہلے سے پتا تھا۔ اب جاٶ وہ ویٹ کر رہے ہیں باہر“

سندس نے اسے بھیجنا چاہا مگر وہ پھر وہیں بیٹھ گٸ۔

”ان سے کہہ دو میں ان سے ملنا نہی چاہتی“

الماس کا پیغام سندس نے سکندر تک پہنچا دیا تھا۔

”اسے کہہ دو شرافت سے آجاۓ ورنہ میں زبردستی لے جاٶں گا، اور وہ جانتی ہے مجھے اچھی طرح۔۔۔اگر میں کہہ رہا ہوں تو ایسا کر بھی دوں گا“

سکندر نے اتنا اونچا بولا کہ اندر بیٹھی الماس نے با آسانی سن لیا تھا۔ الماس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ کافی غصے میں لگ رہا تھا۔

سندس اسکا پیغام لے کر اندر گٸ اور جب اگلے دو منٹ تک وہ باہر نہی آٸ تو وہ خود ہی اٹھ کر اندر چلا گیا۔ الماس نے بے اختیار دروازے کے فریم میں اس کا مضبوط وجود دیکھا تو دل کی دھڑکن تیز ہوٸ۔ وہ غصیلی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ الماس کا سانس رکنے لگا تھا لیکن وہ خود کو مضبوط ظاہر کیے بیٹھی رہی۔

“If you will excuse us....”

سکندر نے سندس سے کہا تو وہ سر ہلا کر باہر نکل گٸ۔

”یہ کیا حرکت ہے؟ اس طرح بغیر بتاۓ گھر چھوڑ کر آنا کہاں کی عقلمندی ہے؟“

سکندر کی آواز میں بھی غصہ تھا لیکن الماس نے سوچا اگر اب کمزور پڑی تو اسے ساری زندگی ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔

”تو کس کو پرواہ ہے میری؟ جہاں اعتبار ہی نہ ہو وہاں رہنے کا کیا جواز بنتا ہے؟“

سکندر ایک دم اس کے قریب آیا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنے برابر کھڑا کیا۔

”تم بیوی ہو میری۔۔۔۔یہی جواز کافی ہے۔ گھر چھوڑنے کی کیا تُک تھی؟ اگر کہیں جانا تھا تو مجھے بتاتی یا بھابھی کو۔۔ وہ کتنی پریشان ہو گٸ تھیں تمھارے لیے۔۔۔تمھیں زرا سا بھی خیال نہی آیا؟ اور زویا کو بھی تم چھوڑ آٸ۔۔۔۔“

”میں نہی چاہتی تھی میری طرح وہ بھی بغیر رشتوں کے پلے۔۔۔اس لیے چھوڑ کر آٸ ہوں۔ اگر میری بیٹی آپ پر بوجھ ہے تو میں اسے اپنے ساتھ لے جاٶں گی“

الماس کی بات نے سکندر کے دل میں ایک کانٹا چبھویا۔ اس نے الماس کے بازو کو زور سے جھٹکا دیا تو اس کے لبوں سے سسکاری نکلی۔

”میرا بازو چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے“

”بات سنو میری۔۔۔۔۔میں لحاظ کر رہا ہوں کیونکہ ہم کسی اور کے گھر میں کھڑے ہیں۔۔۔۔میں یہاں تماشا لگانا نہی چاہتا۔۔۔۔ورنہ جو حرکت تم نے کی ہے میرا دماغ گھمانے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے چپ چاپ اب تم میرے ساتھ چلو گی۔“

سکندر نے اسے بازو سے پکڑ کر باہر لے جانا چاہا تو اس نے چھڑانے کے لیے مزاحمت شروع کر دی۔

”چھوڑیں مجھے۔۔۔میں نہی جاٶں گی آپ کے ساتھ“

الماس کے دو ٹوک انکار پر سکندر کے غصے میں مزید اضافہ ہوا۔ اس نے چبھتی ہوٸ غصیلی نظریں الماس پہ گاڑ دیں۔ الماس کو اس کے اس روپ سے بہت خوف آتا تھا۔ بہت عرصہ پہلے اس نے اس کا یہ روپ دیکھا تھا۔ شادی کے بعد وہ ہمیشہ اس سے نرمی سے ہی پیش آیا تھا۔

”الماس مجھے مجبور مت کرو کہ میں تمھارے ساتھ زبردستی کروں۔“

”آپ میرے ساتھ جو کر سکتے تھے کر چکے ہیں۔ اب مجھے میرے حال پہ اکیلا چھوڑ دیں۔ مجھے نہی چاہیے کسی کی کوٸ ہمدردی۔ میں اب سکون چاہتی ہوں۔۔۔۔“

وہ رو پڑی تھی۔ سکندر کا ارادہ تھا اسے اچھا خاصا ڈانٹنے کا مگر اس کے آنسو دیکھ کر اس کا دل پگھل گیا۔ اس کا غصہ ایک دم نیچے آیا تھا۔ یہ لڑکی اس کے لیے بہت خاص تھی۔ وہ اسے تکلیف میں نہی دیکھ سکتا تھا۔ سکندر نے اس کا بازو چھوڑا اور دونوں ہاتھ مضبوطی سے تھام لیے۔ الماس نے چھڑانے کی کوشش کی لیکن اس نے گرفت مضبوط رکھی ہوٸ تھی۔

”ہمیشہ اپنے بارے میں سوچتی ہو۔۔۔۔زرا بھی خیال نہی آیا کہ اس طرح سب کچھ چھوڑ کر یہاں چلی آٶ گی تو پیچھے میرا کیا حال ہوگا؟ بھابھی کتنا پریشان ہوں گی؟ زویا تمھیں کتنا مِس کرے گی؟ خدا خدانخواستہ اگر تمھارے ساھ کچھ ہو جاتا تو؟“

الماس نے روتی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھ اور کچھ کہنے کے لیے لب کھولے تو سکندر نے بوسہ لے کر اس کے الفاظ ہونٹوں سے ہی چن لیے۔

”باقی باتیں گھر جا کر۔۔۔۔“

وہ پھر سے اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا لیکن الماس وہیں رک گٸ۔ سکندر نے مڑ کر دیکھا۔ وہ اب بھی اپنی ضد پر اڑی ہوٸ تھی۔

”میں نہی جاٶں گی آپ کے ساتھ۔۔۔“

سکندر نے ایک گہرا سانس لیا پھر اس کی طرف دیکھا۔ اب وہ سنجیدہ ہو چکا تھا۔

”شرافت سے آ رہی ہو یا نہی؟“

سکندر کی دھمکی نے اسے اندر سے ڈرایا تھا لیکن وہ بظاہر مضبوط ہی بنی کھڑی رہی۔

”آپ چاہے مجھے جان سے مار دیں میں پھر بھی آپ کے ساتھ نہی جاٶں گی“

”میں کب سے برداشت کر رہا ہوں، تم میرا ضبط آزما رہی ہو۔۔۔۔“

سکندر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔اس کے اس قدر غصیلی آواز اور انداز پر الماس کی بولتی ایک دم بند ہوٸ تھی۔ سانس بھی اٹک گیا۔

”جس وقت سے بھابھی کا فون آیا کہ تم گھر پہ نہی ہو مجھے اس وقت سے یہی پریشانی ہو رہی تھی کہ اکیلی کہاں جا سکتی ہو تم؟۔۔۔۔ اور تم اس وقت جس جگہ موجود ہو یہ ہمارے گھر سے سات گھنٹے دور ہے۔ میں ساڑھے تین گھنٹے ڈراٸیو کر کے تمھیں لینے آیا ہوں۔ تمھیں زرا سا بھی ڈر نہی لگا یوں اکیلے ٹرین میں سفر کرتے ہوۓ؟ بھول گٸ ہو کہ کس طرح تم ہمارے گھر آٸ تھیں؟ اگر خدا نخواستہ تمھیں کوٸ کڈنیپ کر لیتا تو؟ یہاں میری جان ہلکان ہو رہی تھی اور تمھیں کوٸ پرواہ ہی نہی ہے۔۔۔۔۔۔۔بہت نخرے اٹھا لیے۔۔۔۔۔اب گھر جا کر دماغ درست کروں گا میں تمھارا“

آخر میں سکندر کا لہجہ کچھ سخت ہو گیا۔ سکندر نے اسے دونوں بازوٶں میں اٹھا لیا۔ وہ مزاحمت کرنے لگی۔ وہ اسے اٹھاۓ باہر نکلا تو سندس کی امی بھی گھر میں داخل ہو رہی تھیں۔ سکندر نے انھیں سلام کیا۔

”وعلیکم سلام بیٹا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟“

وہ پرانے خیالا ت کی تھیں، سکندر کو اس طرح الماس کو اٹھاۓ ہوۓ دیکھ کر انھیں شرم آ رہی تھی۔

”آنٹی میں اسے لینے آیا ہوں مگر یہ جانا نہی چاہتی۔ اس لیے کچھ ضروری اقدامات کر رہا تھا“

سکندر نے الماس کو نیچے اتار دیا تھا لیکن اس کی کلاٸ جکڑ لی۔

”اچھا کیا بیٹا تم اسے منانے آۓ۔ میاں بیوی کو تین دن سے زیادہ ناراض نہی رہنا چاہیے۔ میں بھی اسے یہی سمجھا رہی تھی۔ یہ گھر تمھارا میکہ ہے، جب تمھارا دل چاہے آٶ لیکن شوہر کو ناراض کر کے نہی۔ جو عورت اپنے شوہر کو ناراض کر کے سوتی ہے فرشتے ساری رات اس پہ لعنت کرتے ہیں“

انھوں نے درس دینا ضرری سمجھا اور سندس منہ نیچے کر کے مسکرانے لگی۔

”سن لیا؟ اب چلو۔۔۔۔“

اس نے الماس کو دیکھا پھر سندس کی امی کی طرف مڑا۔

ٹھیک ہے آنٹی خدا حافظ۔“

وہ الماس کو لے کر باہر نکل آیا۔ اس کی ہر مزاحمت دم توڑ رہی تھی لیکن پھر بھی وہ رک نہی رہی تھی۔ سکندر نے اسے گاڑی میں دھکیلا اور خود ڈراٸیونگ سیٹ سنھال لی۔

”آپ میرے ساتھ زبردستی نہی کر سکتے“

جب کچھ نہی بن پڑا تو وہ بے بس سی ہو کر اس سے لڑنے لگی۔

”بالکل کر سکتا ہوں لیکن کرنا نہی چاہتا۔“

”جھوٹ بولتے ہیں آپ۔۔۔سب کچھ کر کے بھی معصوم بن رہے ہیں“

”کیا کِیا میں نے؟ گھر چوڑ کر، بغیر بتاۓ، زویا کو چھوڑ کر تم آٸ۔۔۔مجھے اور بھابھی کو اتنی ٹینشن میں ڈالا۔ میں لینے آیا ہوں تو بھی اتنے نخرے دکھا رہی ہو۔۔اور اب بھی خود کو مظلوم سمجھ رہی ہو“

سکندر کی نظریں سڑک پر تھیں لیکن الماس کو ان کی تپش اپنے پورے وجود میں محسوس ہو رہی تھی۔

”تو غلطی تو آپ کی ہے۔ مجھ پہ اعتبار کرتے تو یہ سب نہ کرتے“

”بس۔۔۔۔ایک ہی بات کو لے کر تم مجھ سے دور جانے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہو۔ لیکن آٸندہ کی نا اگر ایسی کوٸ حرکت تو مجھ سے برا کوٸ نہی ہوگا۔۔۔۔“

سکندر نے دھمکی دی تو وہ خاموش ہو گٸ لیکن اندر ہی اندر اسے آگ لگی ہوٸ تھی۔

”آپ سے برا کوٸ ہے بھی نہی“

الماس زیرِ لب بڑبڑاٸ تو سکندر کا بے اختیار اپنا سر پیٹ لینے کو دل چاہا۔ اس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔

کچھ دیر گزری تو الماس نے پھر بولنے کی کوشش کی۔

” مجھے بھوک لگی ہے“

سکندر نے اس کی بات سننے سے پہلے ہی اسے انگلی اٹھا کر بولنے سے روکا۔

”چُپ“

مگر پھر احساس ہوا کہ وہ بھوک کا کہہ رہی تھی۔ پانچ گھنٹے کا سفر تھا، بھوک تو لگنی تھی۔ الماس نے منہ بنا لیا۔ سکندر نے اگلا جو بھی ہوٹل آیا، وہاں گاڑی روک دی۔

”آٶ“

وہ خود باہر نکلا اور اسے بھی آنے کو کہا لیکن وہ دونوں بازو سینے پہ لپیٹے منہ پھلا کر بیٹھی رہی۔ سکندر کچھ دیر انتظار کرتا رہا لیکن اس کے ارادے نہی لگ رہے تھے باہر آنے والے۔ وہ ہوٹل سے کھانا ڈلوا کر گاڑی میں ہی لے آیا۔

”بیگم صاحبہ آپ کے نخرے بہت ہیں اور پھر بھی آپ خود کو معصوم کہتی ہیں“

سکندر کا غصہ اتر گیا اس کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر۔ الماس اب بھی منہ پھلا کر بیٹھی رہی۔ سکندر کو اس پہ بے ساختہ پیار آنے لگا۔

”گھر جا کر لینا جتنا غصہ کرنا ہے۔ ابھی کھانا کھا لو ورنہ دیر ہو گٸ تو رات یہیں گزارنی پڑے گی“

بہانہ کام آ گیا تھا۔ الماس نے کھانا کھانا شروع کر دیا تھا۔ سکندر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ ساتھ ساتھ وہ خود بھی کھا رہا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ بل وغیرہ دے کر آیا اور دوبارہ گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ اس دوران دونوں نے کوٸ بات نہی کی۔

۔۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

❤ براۓ مہربانی اگر آپ کو کہانی اچھی لگی ہو تو کمنٹ کر کے ضرور بتاٸیں اور ہر قسط کو ووٹ بھی کر دیں۔ نیچے دیے گۓ سٹار کو کلک کر کے۔
شکریہ ❤

Continue Reading

You'll Also Like

1.2K 93 28
Ap plZ mjhe mere ghar jane dein Lekin kyun ?? Kyun ke ap ek ache kidnapper hain Dekhye jannat kidnapper acha ,bura nhi hota ,,kidnapper toh kidnapp...
404K 22.1K 53
Mehr-o-Mah (مہر و ماہ) - The sun and the moon A collection of short stories filled with love, spice, drama and a roller coa...
125K 7.1K 46
A journey of Two people who were broken. Ahil Raza & Hoorain Ahmad Kabhi kabhi humara guzra hua kal humare ane wale kal ko bhi khaa jata he. Hume...