Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum S...

By Tisha_Gohar

23.5K 1K 113

زندگی میں کبھی کبھی اندھیرے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان اندھیروں کا مقصد ہمیں وہ چاند دکھانا ہوتا ہے جو ہم دن کی روشن... More

Episode 1.
Episode 2.
Episode 3.
Episode 4.
Episode 5.
Episode 6.
Episode 7.
Episode 8.
Episode 9.
Episode 10.
Episode 11.
Episode 12.
Episode 13.
Episode 14.
Episode 15.
Episode 16.
Episode 17.
Episode 18.
Episode 19.
Episode 20.
Episode 21.
Episode 22.
Episode 23.
Episode 24.
Episode 25.
Episode 26.
Episode 27.
Episode 28.
Episode 29.
Episode 31.
Episode 32.
Episode 33.
Episode 34.
Episode 35.
Episode 36.
Episode 37.

Episode 30.

620 28 0
By Tisha_Gohar

# ”محبت کچھ یوں ہے تم سے“
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 30

الماس کو پھر سے کل والی بات یاد آ گٸ تھی جب وہ سارا سے اپنے جذبات بیان کر رہی تھی اور سکندر نجانے کب سے اس کے پیچھے کھڑا سن رہا تھا۔

وہ اس وقت اس کے اس قدر نزدیک تھا، الماس کو حیا نے گھیر لیا مگر سکندر کے الفاظ سن کر الماس کو اس کی ناراضگی کا بھی خیال آیا۔ وہ مذاق میں نہی کہہ رہا تھا۔ اسے واقعی الماس پہ غصہ آ رہا تھا۔ ایسا بھی کیا شرمانا۔ مگر وہ لڑکی نہی تھا، مرد تھا۔ ورنہ الماس کی کیفیت سمجھ جاتا۔

”نہی۔۔۔ایسی تو بات نہی ۔۔۔ پتا نہی بیٹھے بیٹھے کیسے آنکھ لگ گٸ۔“

وہ اس کے بازوٶں کے حصار میں قید تھی اور نکلنے کے پر تول رہی تھی لیکن سکندر کی گرفت سے لگتا نہی تھا کہ وہ اتنی آسانی سے اسے جانے دے گا۔

”بیٹھے بیٹھے نہی لیٹے لیٹے۔۔۔۔جب میں آیا تھا تو تم یہاں لیٹی ہوٸ تھیں اور گہری نیند میں سو رہی تھیں۔ نہی، آج تم مجھے بتا ہی دو، اگر تمھیں یہ کمرہ زیادہ پسند ہے یا یہ صوفہ زیادہ کمفرٹیبل ہے تو میں بھی ادھر ہی سو جایا کروں گا“

الماس کو اس کی بات نے شرمندہ کر دیا تھا۔ وہ بے ساختہ اپنا نچلا ہونٹ کاٹتے ہوۓ ادھر ادھر نظریں گھما کر دیکھنے لگی۔ سکندر نے الماس کی گھبراہٹ محسوس کرلی تھی۔

”ایسے مت کیا کرو۔۔۔۔میں جب بھی آتا ہوں تم مجھ سے دور بھاگ جاتی ہو۔ تم سے شادی میں نے اس لیے تو نہی کی تھی کہ پھر بھی ترستا رہوں تمھارے لیے۔ صرف دیکھنا ہی ہوتا تو تم اسی گھر میں رہ رہی تھیں، مجھے شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“

سکندر کےاتنے بے باک انداز اور الفاظ پر الماس کا دل زور سے دھڑکا اور اس کی آنکھوں پر حیا کا بوجھ بڑھ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوٸ جسارت کرتا، الماس نے پھر اس سے بھاگنے کی کوشش کی تھی۔

”وہ۔۔۔میں۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔مجھے لگتا ہے۔۔۔۔باجی۔۔۔باجی بلا رہیں مجھے“

اسے بوکھلاہٹ میں کچھ سمجھ نہی آیا کہ کیا کرے۔ جو منہ میں آیا بول دیا۔

سکندر کی گرفت اتنی سخت نہی تھی لیکن اتنی کمزور بھی نہی تھی کہ وہ آسانی سے نکل جاتی۔ پھر بھی اپنا پورا زور لگا کر وہ اس کے بازوٶں کی قید سے آزاد ہونے میں کامیاب ہو ہی گٸ۔ اس کے جانے کے بعد سکندر نے دروازے کو دیکھتے ہوۓ  گہرا سانس لے کر اپنے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔

وہ تقریباً بھاگتے ہوۓ اپنے کمرے میں آٸ اور کچھ لمحے لگا کر اپنی اتھل پتھل سانسوں کو نارمل کیا۔ ھر منہ ہاتھ دھونے باتھ روم میں چلی گٸ۔ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے لگے تو حیا سے تمتماتا سُرخ چہرہ نارمل ہوا اور وہ اپنی دھڑکن بھی کسی حد تک قابو کر چکی تھی۔

سارا نے بچوں کو ناشتہ کروا کر سکول بھیج دیا تھا اور خود بھی وہ ناشتہ کر کے برتن سمیٹ رہی تھی۔ الماس کو ڈراٸنگ روم سے نکلتے دیکھ کر ایک معنی خیز سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ رقص کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں الماس کچن میں ناشتہ بنانے آ گٸ۔
سارا کے چہرے پہ نظر پڑی تو وہ مسکراۓ جا رہی تھی۔ اس کی معنی خیزی والی مسکراہٹ دیلھ کر الماس اندر ہی اندر نروس ہونے لگی۔

وہ ناشتہ تیار کر چکی تھی جب سکندر بھی اٹھ کر ڈراٸنگ روم سے باہر آیا۔ وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور دس منٹ بعد اپنا دستی بیگ اٹھا کر باہر آیا۔ وہ منہ ہاتھ دھو چکا تھا اور چہرے سے کافی فریش لگ رہا تھا لیکن تاثرات بالکل سنجیدہ تھے۔ وہ مذاق کے موڈ میں بالکل نہی تھا۔

الماس ڈاٸننگ ٹیبل پر اس کا اور اپنا ناشتہ رکھ کر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اسے یوں بیگ اٹھاۓ باہر آتا دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا۔

سارا نے غور سے باری باری دونوں کی شکلیں دیکھیں۔ کل تک تو سب کچھ بدلا ہوا تھا اور آج ان دونوں کے چہرے کچھ اور کہانی سنا رہے تھے۔

”سکندر؟ سب ٹھیک ہے؟“

سارا نے اسے مخاطب کیا تو پہلے اس نے الماس کی طرف ایک سنجیدہ نظر ڈالی پھر سارا کو دیکھ کر اثبات میں سر کو ہلکا سا ہلایا۔

”جی بھابھی۔۔۔بس آج کل کام کا لوڈ زیادہ ہے۔“

الماس کواس کی پُر شکوہ نگاہیں محسوس ہو گٸ تھیں لیکن اس وقت وہ کچھ کہہ کر سارا کے سامنے اپنے شوہر کے ہاتھوں شرمندہ نہی ہونا چاہتی تھی۔ وہ باہر جانے لگا تو سارا نے پھر کہا۔

”اچھا ناشتہ تو کر لو“

سارا نے میز پہ رکھے ناشتے کی طرف اشارہ کیا تو وہ کھڑے کھڑے ہی اپنی گھڑی دیکھ کر نفی میں سر ہلاتے ہوۓ بولا۔

”مجھے دیر ہو جاۓ گی۔“

”کہاں جا رہے ہیں؟“

الماس نے چپ شاہ کا روزہ توڑ ہی دیا بالآخر۔ اس کے جانے کی بات سن کر اس کا دل ڈھیروں اداسیوں میں گھِر گیا تھا۔

”تم سے مطلب؟“

الماس تو الماس، سارا کو بھی اس سے اس طرح کے جواب کی توقع نہی تھی۔ وہ ناراض تھا، الماس سمجھ رہی تھی، لیکن اس طرح سے بات کرنا۔۔۔۔الماس کو شرمندگی بھی ہوٸ لیکن غصہ بھی آیا۔

”سکندر کیا ہو گیا ہے؟ یہ کس انداز میں بات کر رہے ہو تم؟“

سارا کو اچھا نہی لگا۔ الماس کی صورت رونے والی ہو گٸ تھی۔

”غلط کیا کہا میں نے؟ جب بھی آتا ہوں محترمہ کے پاس میرے لیۓ وقت ہی نہی ہوتا۔ کسی کام سے آیا تھا کل، سوچا کچھ گھنٹے گھر گزار لوں۔ لیکن یہ چاہتی ہیں کہ مجبوری میں کی تھی شادی تو ساری زندگی اس کو مجبوری ہی بناۓ رکھنا ہے۔“

الماس کی آنکھوں میں آنسو بھرے لگے۔ پہلی بار بھی اس نے اسے اسی لہجے میں ذلیل کیا تھا اور آج پر وہ سارا کے سامنے اسی طرح اسے ذلیل کر رہا تھا۔ الماس کے دل میں اس کے لیے جو نرم جذبات پیدا ہوۓ تھے وہ فی الوقت کہیں بہت دور چلے گۓ تھے۔

الماس روتے روتے منہ پہ ہاتھ رکھ کر سسکتی ہوٸ اندر چلی گٸ۔ وہ غصے میں وہیں کھڑا رہا۔

”سکندر؟ یہ سب کیا تھا؟“

سارا کو اس پہ اور غصہ آنے لگا۔ رات کو تو وہ اسے سمجھا رہی تھی کہ الماس کا خیال رکھے۔

”بھابھی۔۔۔۔اسے بھی احساس ہونا چاہیے۔ جب مجھے اس کی توجہ کی ضرورت ہے تو وہ مجھے نظر اداز کرتی ہے۔ ایسا کب تک چلے گا؟“

سارا چپ ہو گٸ تھی۔ کہہ تو ہ بھی ٹھیک رہا تھا۔

وہ بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا اور سارا نے الماس کے کمرے کا رخ کیا۔

”میری جان۔۔۔۔روٶ تو مت۔۔“

سارا نےاسے اپنے ساتھ لگالیا۔

”آپ نے دیکھا تھا نا؟ وہ کیسے مجھ سے بدتمیزی کر کے گۓ ہیں“

وہ سارا کے ساتھ لگی سسکتی اور روتی رہی۔

”میں جانتی ہوں، بس تم چپ ہو جاٶ شاباش، رونا نہی اب۔ “

سارا نے اسے خود سے الگ کر کے اس کے آنسو پونچھے اور اس کی طرف فکرمندانہ انداز میں دیکھا۔

”الماس میری جان، وہ تمھارے رویے سے دل برداشتہ ہوگیا ہے۔ تم ہر بار اسے دیکھ کر جب اس سے دور دور رہنے کی کوشش کرتی ہو، اسے لگتا ہے تم اسے نظرانداز کرتی ہو“

سارا نےاسے سمجھایا تو اس نے بھیگی آنکھیوں سے سارا کو دیکھا۔

”باجی۔۔۔۔آپ سمجھ رہیں میں جان بوجھ کر ایسا کرتی ہوں؟“

سارا نے نفی میں سر ہلایا۔

”نہی میری جان۔۔۔میں بس تمھیں یہ بتا رہی ہوں کہ اسے ایسا ہی لگتا ہے۔ وہ تمھارا وقت چاہتا ہے۔ تمھاری توجہ اور پیار چاہتا ہے جو تم اسے نہی دے رہی ہو۔ ایک تو ویسے ہی وہ اتنا مصروف رہتا ہے کہ گھر ہی بہت کم آتا ہے، اوپر سے تم جب اسے نظرانداز کرو گی تو وہ ایسا ہی ری ایکٹ کرے گا نا“

الماس کو سمجھ آ گیا تھا کہ سارا کیا کہنا چاہ رہی ہے لیکن اس کا سکندر پہ غصہ اب بھی قاٸم تھا۔

”ٹھیک ہے باجی میں کوشش کروں گی آٸندہ آپ کو یا ان کو شکایت کا موقع نہ ملے“

الماس نے اچھے بچوں کی طرح سارا کو یقین دلایا تو اس نے مسکرا کر الماس کو اپنے ساتھ لگا لیا۔

۔۔۔

سکندر گھر سے نکلا تھا تو اس کا مواڈ ٹھیک نہی تھا۔ اندر کہیں اسے الماس کا خیال آ رہا تھا۔ اس نے وہ باتیں اسے احساس دلانے کے لیے کی تھیں۔ سارا کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرتے سن کر اسے اتنا تو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس سے نفرت نہی کرتی تھی اور ناپسند بھی نہی کرت تھی۔

محبوب کی ناراضگی کا خوف انسان کو کچھ بھی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ یہی سوچ کر اس نے آنے سے پہلے الماس سے اس طرح بات کی کہ شاید وہ اس طرح سکندر کی ناراضگی کے ڈر سے اس سےدور رہنا چھوڑ دے۔

اسے الماس کے رونے سے تکلیف ہوٸ تھی لیکن وہ مزید اس play hard to get والے کھیل کو جاری نہی رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا اگر اگلی مرتبہ الماس نے اسے پھر سے نظرانداز کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کی ایک نہی چلنے دے گا۔

۔۔۔

دو ہفتے سکندر کے یے تو بہت ہی مصروف گزرے تھے۔ الماس کو جب جب اس کی بدتمیزی یاد آتی تھی اس کا غصہ اور بڑھ جاتا تھا۔ اسے سکندر کی یاد بھی آ رہی تھی لیکن اس کا غصہ کرنا بالکل پسند نہ آیا تھا۔

سکندر کو ایک دن کا آف مل گیا تھا۔ وہ پہلی فرصت میں گھر جانا چاہتا تھا۔ اسے امید تھی کہ اس بار الماس کا رویہ پہلے سے بہتر اور سکندر کے حق میں ہو گا۔

گھر کے باہر گاڑی کا ہارن سنا تو الماس کا دل ایک دم دھڑکا۔ اس کے وجود میں ایک خوشی اور اطمنان کی لہر دوڑ گٸ۔ وہ فوراً سے باہر جاکر اس سے ملنا چاہتی تھی لیکن ساتھ ہی پچھلی مرتبہ والی بدتمیزی یاد آ گٸ۔  الماس کے مسکراتے ہونٹ ایک دم سکڑے تھے۔ وہ وہیں رک گٸ۔

وہ آہستہ سے چلتا ہوا اندر آیا تو اسے دیکھ کر چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گٸ۔ وہ اس وقت چاۓ کے لوازمات تیار کر رہی تھی۔

”ارے واہ۔۔۔ تمھیں کیسے پتا میں آنے والا ہوں؟“

وہ کھانے کی چیزوں کو دیکھتے ہوۓ بولا۔

”آپ کب آتے ہیں کب جاتے ہیں، مجھے اس سے کیا مطلب؟“

وہ سپاٹ چہرہ لیۓ اپنا کام کرتی رہی۔ سکندر کی مسکراہٹ ایک دم غاٸب ہوٸ تھی۔ وہ کچھ دیر کے لیے بھول گیا تھا کہ یہ کوٸ عام لڑکی نہی، الماس ہے۔

”اچھا؟۔۔۔۔۔۔تو پھر کس سے مطلب ہے؟“

وہ اس کے نزریک ہوا تو چاۓ ڈالتے ہوۓ اس کے ہاتھ کانپے اور تھوڑی سی چاۓ چھلک کر الماس کے ہاتھ پہ گر گٸ۔ الماس کے منہ سے ہلکی سی سسکاری نکلی۔

”میری نزدیکی سے تم اتنا گھبراتی ہو کہ چاۓ ڈالتے ڈالتے تمھارے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔۔۔۔“

وہ اس کے پیچھے آ کر اور قریب ہوا اور اس کے ہاتھ سے چاۓ کی چھانی اور پتیلا پکڑ لیا۔ اور کپوں میں خود چاۓ انڈیلنے لگا۔ الماس سلیب اور سکندر کے بیچ میں ہی پھنس گٸ۔

”۔۔۔۔۔میری آمد پر تمھارے کان دروازے کی طرف لگ جاتے ہیں کہ کب میں اندر آٶں گا۔۔۔۔۔“

وہ اب دوسرے کپ میں چاۓ ڈال رہا تھا۔ الماس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

”۔۔۔۔۔اور پھر تم مجھ سے ناراضگی کا دکھاوا کر کے پھر سے بھاگنے کی کوشش کرو گی۔۔۔۔۔۔“

وہ چاۓ کا پتیلا اور کپ ایک طرف رکھ کر خود اس کے سامنے سلیب سے ٹیک لگا کر ٹِک گیا اور الماس کو اپنے سامنے کر کے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ الماس جھینپ گٸ۔ وہ کتنا نوٹس کرتا تھا اسے۔

الماس کچھ کہنے کی ہمت نہی کر پا رہی تھی۔ الفاظ جیسے کہیں اُڑ گۓ ہوں۔ تھوڑی دیر پہلے جو غصہ آیا تھا وہ نجانے کہاں غاٸب ہوگیا تھا۔
سارا اور بچے چاۓ کے لیے باہر آۓ تو سکندر نے فوراً اپنی جگہ چھوڑی اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ سارا مسکراٸ۔

”تمھارا آج کل مجھے کچھ سمجھ نہی آرہا سکندر۔ کبھی بھی تمھارا موڈ اچھا ہو جاتا ہے اور کبھی بھی بگڑ جاتا ہے۔ پچھلی بار تم نے اچھا نہی کیا تھا الماس کے ساتھ اور ابھی دیکھو، ایسے مسکرا رہے ہو جیسے کچھ ہوا ہی نہی تھا۔۔۔“

سارا نے مصنوعی غصہ اختیار کرتے ہوۓ کہا تو اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوٸ۔

”آپ فکر نہ کریں بھابھی۔ میں نے الماس سے معافی مانگ لی ہے اور اس نے مجھے معاف بھی کر دیا۔ اب آپ بے فکر ہو جاٸیں۔“

الماس کو آگ ہی لگ گٸ اس کے اس قدر کھلے جھوٹ پہ۔

”کب مانگی معافی؟ اور یہ مت سمجھیۓ گا کہ میں آپ کو معاف کر دوں گی“

اس کے ایکدم سے تیز تیز بولنے پر سارا اور سکندر سمیت بچوں نے بھی الماس کو دیکھا۔

”آپی آپ چاچو کو ڈانٹ رہی ہیں؟“

آمنہ کو اچھا نہی لگا کہ اس کے فیورٹ چاچو کو اس کی فیورٹ آپی ڈانٹے۔

”ہاں۔ ڈانٹ رہی ہوں“

اس نے خفا سی ہوتے ہوۓ آمنہ کو دیکھ کر کہا۔

”آپ کے بے بی کو اچھا نہی لگے گا کہ آپ اس کے پاپا کو ڈانٹ رہی ہیں“

سکندر اتنے زور سے ہنسا کہ الماس کو گھبراہٹ کے ساتھ ساتھ شدید غصہ بھی آ گیا۔

”کہاں ہے بےبی؟“

الماس نے غصے سے آمنہ کو گھورا۔

”اوپر ہے نا اینجلز کے پاس۔ وہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ آپ اس کے پاپا کو ڈانٹیں گی تو وہ آپ سے ناراض ہو جاۓ گا اور گھر نہی آۓ گا پھر۔ پھر آپ کو چاچو سے سوری کرنا پڑے گا ورنہ اینجلز کے پاس ہی رہے گا وہ“

آمنہ نے الماس کو سمجھایا تو وہ شرم کے مارے نظریں اٹھانے کے قابل نہی رہی۔ وہ گھبراہٹ اور الجھن زدہ نظروں سےسب کو دیکھتے ہوۓ پیر پٹخ کر وہاں سے چلی گٸ۔ سکندر دیر تک ہنستا رہا۔ اسے آمنہ کی بات اور الماس کے ری ایکشن نے بہت لطف دیا تھا۔

اس کے بعد وہ کمرے سے نہی نکلی۔ اندر سے دروازہ بھی لاک کر لیا۔ وہ سکندر سے ناراض تھی لیکن اس وقت وہ شرمندگی کے باعث اس کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہی تھی۔ سکندر نے کھانا زینب کے ہاتھوں کمرے میں بھجوا دیا تھا۔ اس نے وہیں کھا لیا۔

وہ تھوڑی دیر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ سب سو گۓ تو اس نے بھی اپنے کمرے کا رُخ کیا۔ دروازہ لاک تھا مگر اس کے پاس چابی تھی۔ نہ بھی ہوتی تب بھی وہ آرام سے کھول لیتا۔

الماس نے الماری کھول لی اور اپنے آپ کومصروف ظاہر کرے کے لیے کپڑے ترتیب سے رکھنے لگی۔

وہ کمرے میں آیا تو الماس الماری میں گھسی کھڑی تھی۔ کبھی کچھ اوپر والے خانے میں رکھتی اور کبھی کچھ نیچے۔ سکندر نے اندر آ کر دروازہ بند کر دیا اور اس کے پیچھے کچھ فاصلے پہ کھڑا ہو گیا۔ وہ انجان بنی اپنا کام کرتی رہی۔ وہ کافی دیر اس کی توجہ کا منتظر ہا مگر وہ تو لگتا تھا ساری رات یہی کرے گی۔

”اب اتنی بھی کیا مصروفیت کہ ایک نظر مڑ کے بھی نہی دیکھا۔ میں کب سے کھڑا ہوں یہاں۔“

سکندر نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانی چاہی۔

”تو بیٹھ جاٸیں۔ کھڑے کھڑے تھک جاٸیں گے۔“

الماس نے کام کرتے کرتے بے نیازی سے کہا۔ سکندر نے گہرا سانس لیا اور پھر ایک دم سے اس کے ہاتھ سے سارے کپڑے لے کر الماری میں ٹھونسے اور الماری بند کر دی۔ الماس نے اپنی گھبراہٹ چھپانے کے لیے بناوٹی التاہٹ چہرے پہ سجا کر اس کی طرف دیکھا۔

”آپ مجھے کام کیوں نہی کرنے دے رہے؟“

”شوہر تمھارے سامنے کھڑا ہے، تم سے کچھ توجہ مانگ رہا ہے اور تم یہ فضول کام لے کر بیٹھ گٸ ہو۔ مجھے بے وقوف سمجھا ہوا ہے؟“

الماس کا حلق سوکھنے لگا۔ وہ سمجھ گٸ تھی سکندر کی نظروں کی زبان، مگر جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کر رہی تھی۔

”آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ مجھے آپ پہ اعتبار نہی ہے“

وہ منہ پُھلا کر بولی تو سکندر نے گہرا سانس لیا۔

”اب کیا جھوٹ بولا میں نے؟“

الماس الجھن کا شکار ہو گٸ۔ اب کیا جواب دیتی اسے۔

”وہ۔۔۔۔آپ مجھے جان بوجھ کر پریشان کرتے ہیں۔۔۔پہلے آپ نے مجھے اتنا ذلیل کیا پھر معافی مانگ لی پھر ذلیل کیا اور پھر معافی مانگ لی۔ آپ کے لیے یہ سب کھیل ہو گا میرے لیے نہی ہے۔ ایک ہی بار بتا دیں کہ چاہتے کیا ہیں آپ مجھ سے؟“

اس نے سکندر کو ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس کھیل کا ماہر تھا۔ وہ سنجیدہ چہرے لیے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھتا رہا۔

”تم جانتی ہو اچھی طرح میں کیا چاہ رہا ہوں۔ بات کو گھماٶ مت“

سکندر نے گھور کر اس سے کہا تو وہ بار بار پلکیں جھپکاتے ہوۓ اپنی گھبراہٹ کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

”میں کوٸ بات نہی گھما رہی۔۔۔آپ۔۔۔۔۔آپ اس دن مجھے اتنی باتیں سُنا کے۔۔۔۔۔۔۔۔“

اسکے الفاظ منہ میں ہی رہ گۓ جب سکندر نے ایک دم سے اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے لیا۔

”جانتا ہوں میں نے تمھیں ہرٹ کیا تھا“

ایک تو اس کا انداز اوپر سے اس کی آواز اور اس کے ہونٹوں پہ جمی نظریں۔۔۔۔۔۔الماس کا سارا غصہ ہوا ہو گیا اور اس کی آواز گلے میں ہی اٹک گٸ۔

سکندر نے اسے سوچوں میں غرق پایا تو آہستہ سے اس کے ہونٹوں پہ اپنے لب رکھ دیے۔

”سوری۔۔۔۔۔“

سکندر نے آہستہ سے کہا تو الماس ایک دم ہوش میں واپس آٸ اور پیچھے ہونے کی کوشش کی مگر اس کی گرفت بہت سخت تھی۔ وہ مسلسل اپنے آپ کو اس کی گرفت سے آزاد کروانے لگی۔ اس کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔

”میں آپ کو۔۔۔۔۔۔۔معاف نہی کروں گی کبھی۔۔۔۔“

الماس خوفزدہ سی ہرنی لگ رہی تھی جو اس وقت کی شکاری کی قید میں پھنس گٸ ہو۔

”اب بھی نہی؟“

اس نے الماس کے داٸیں گال کو چوما۔ وہ اور جھینپ گٸ۔اور خود کو اس کی گرفت سے چھڑانے لگی۔

”اب؟“

سکندر نے اس کے ناک پہ بوسہ دیا۔ الماس کی پلکیں لرزنے لگیں۔ اس نے مزاحمت روک دی اور کسی خوفزدہ سی ہرنی کی طرح سکندر کو دیکھا۔ اس کے بازو اس کے کمر کے گرد حماٸل تھے اور آنکھوں میں ایک خاص قسم ک چمک تھی۔ الماس کے دونوں ہاتھ اس کے سینے پہ دھرے اسکے اور الماس کے درمیان فاصلہ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

”آٸی لَو یو مسز الماس سکندر“

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

۔۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

❤ براۓ مہربانی اگر آپ کو کہانی اچھی لگی ہو تو کمنٹ کر کے ضرور بتاٸیں اور ہر قسط کو ووٹ بھی کر دیں۔ نیچے دیے گۓ سٹار کو کلک کر کے۔
شکریہ ❤

Continue Reading

You'll Also Like

71.9K 3.1K 8
‎اسرار asrār Keeping secret; concealment, suppression; secrecy, secret, mystery
71.2K 5K 20
𝐏𝐚𝐚𝐤 - پاک /pure/ 𝙎𝙖𝙧𝙩𝙖𝙖𝙟 𝙎𝙖𝙡𝙖𝙪𝙙𝙙𝙞𝙣 𝘼𝙡𝙖𝙢 : 𝘛𝘩𝘦 𝘧𝘶𝘵𝘶𝘳𝘦 𝘩𝘦𝘪𝘳 𝘰𝘧 𝘈𝘭𝘢𝘮 𝘬𝘰𝘩𝘴𝘢𝘢𝘳, 𝘈 𝘳𝘶𝘵𝘩𝘭𝘦𝘴𝘴 𝘭...
18.2K 1.6K 53
Abhi to ishq main aisa bhi haal hona hay K ashq rokna tum se mohaal hona hay Har aik lab pe hay meri wafa k afsanay Tere sitaam ko abhi lazawal hona...
670K 15.1K 26
بقلم / الشيماء محمد ( شيموووو)