Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum S...

By Tisha_Gohar

23.5K 1K 113

زندگی میں کبھی کبھی اندھیرے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان اندھیروں کا مقصد ہمیں وہ چاند دکھانا ہوتا ہے جو ہم دن کی روشن... More

Episode 1.
Episode 2.
Episode 3.
Episode 4.
Episode 5.
Episode 6.
Episode 7.
Episode 8.
Episode 9.
Episode 10.
Episode 11.
Episode 12.
Episode 13.
Episode 14.
Episode 15.
Episode 16.
Episode 17.
Episode 18.
Episode 19.
Episode 20.
Episode 21.
Episode 23.
Episode 24.
Episode 25.
Episode 26.
Episode 27.
Episode 28.
Episode 29.
Episode 30.
Episode 31.
Episode 32.
Episode 33.
Episode 34.
Episode 35.
Episode 36.
Episode 37.

Episode 22.

567 27 7
By Tisha_Gohar

# "محبت کچھ یوں ہے تم سے"
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 22

"تمھں کہاں ملا وہ؟"

سارا اب تک اس بات کو ہضم نہی کر پا رہی تھی کہ الماس کا ایکس ہزبینڈ انھیں مل سکتا ہے۔ اور ملا بھی کس کو؟ سکندر کو۔

سارا نے الجھن زدہ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا۔ سکندر نے اسے مختصراً ساری بات بتانا شروع کی۔

۔۔۔

کاشی نےالماس کی تصویر کو دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔ وہ کوٸ عام سی لڑکی نہی تھی۔ اگر ہوتی بھی تب بھی جو کچھ کاشی نے کیا، وہ اس لڑکی کو کبھی نہی بھول پاتا۔ اسے آزادی دینے کے چکر میں ہی وہ در بدر ہو رہا تھا۔

سکندر نے کاشی سے پوچھا۔


"تم اس لڑکی کوکیسے جانتے ہو؟"

کاشی نے بتایا کہ یہ وہی لڑکی ہے جسے اس نے لیاقت بھٹی سے بچایا تھا۔ سکندر کو سمجھ نہی آ رہا تھا کہ اصل کہانی کیا ہے؟ سب کچھ گڈ مڈ ہورہا تھا۔ کاشی الماس کو جانتا تھا۔ الماس نے کبھی کاشی کا ذکر نہی کیا۔ اس نے تو کہا تھا کہ اس کا شوہر اسے ٹرین میں ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اس کے پاس طلاق نامہ بھی تھا۔

سکندر اپنے ذہن میں ابھرتے سوالوں کا جواب پانے کے لیے کاشی کو اپنے کیبن میں اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ دروازہ اچھی طرح بند کر کے وہ کاشی کی طرف مُڑا۔ وہ دونوں ہی اس وقت عجیب سی شاک کی کیفیت میں تھے۔

"مجھے پوری بات بتاٶ شروع سے"

سکندر نے کہاتو وہ تھوڑا بے چین ہوا۔

"ایک بات بتا دو۔۔یہ لڑکی ٹھیک ہے؟ میرا مطلب ہے تم جانتے ہو یہ کہاں ہے؟"

کاشی کی آواز میں بے چینی سکندر نے محسوس کر لی تھی۔

"تم مجھے اپنی کہانی بتاٶ پھر میں تمھارے ہر سوال کا جواب دوں گا۔"

سکندر نے اسے ہاں یا ناں کوٸ جواب نہی دیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرتا سکندر کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ کرسی پہ بیٹھ گیا اور سر جھکا کر کہنے لگا۔

"میں نے لیاقت بھٹی کے لیے بہت سارے کام کیے ہیں لیکن پہلی مرتبہ میں نے وہ کیا جس کی وجہ سے میری زندگی اس وقت سے عذاب بنی ہوٸ ہے۔ پتا نہی میں نے ٹھیک کیا تھا یا غلط، لیکن اس وقت مجھے یہی ٹھیک لگا تھا۔"

وہ تھوڑی دیر رکا، سانس لیا اور پھر کہنا شروع ہوا۔

"تم جانتے ہو کہ لیاقت بھٹی کا گروہ لڑکیوں کی سمگلنگ کا ایک ریکیٹ ہے۔ یہ لڑکیوں سے نکاح کر کے انھیں کہیں اور لے جا کر بیچ دیتا ہے اور پھر ان سے دھندا کرواتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر ایسی لڑکیوں کو ٹاگٹ کرتے ہیں جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ غریب یا مجبور یا بے سہارا ہوں۔ یا ان کی فیملی پوزیشن ویک ہو تاکہ وہ لوگ اپنی مسنگ لڑکی بھی کلیم نہ کر سکیں۔ یہ لوگ لڑکیوں کو طلاق نہی دیتے۔ یہ ان کا طریقہ نہی ہے۔ پہلے کچھ دن انھیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں پھر آگے بیچ دیتے ہیں۔ قانوناً وہ ان کے نکاح میں ہی رہتی ہیں۔ یہ جان نہی چھوڑتے ان کی۔
اس لڑکی۔۔۔الماس نام ہے اس کا۔۔۔ہمارا ایک آدمی میرج بیورو میں کام کرتا ہے۔ اس نے اس رشتے کا بتایا تو لیاقت بھٹی نے مجھے بھیج اس سے نکاح کرنے کے لیے۔ وہ خود اس وقت اس شہر میں موجود نہی تھا۔ الماس کے گھر والوں کو شادی کی جلدی تھی۔ لیکن شادی سے دو دن پہلے لیاقت بھٹی واپس آگیا اور اس نے امتیاز سے ٹارگٹ لڑکی کی ڈیٹیل مانگی تو اس کی تصویر دیکھ کر اس کی نیت بدل گٸ۔ اس نے مجھ سے کہا میں لڑکی بالکل صحیح سلامت اس کے حوالے کر کردوں۔ وہ اس لڑکی کو  آگے بیچنا نہی چاہتا تھا۔ پہلے جتنی بھی لڑکیاں لاٸ جاتی تھیں وہ لیاقت اور اس کے دوسرے آدمیوں کے ہاتھ لگنے کے بعد آگے بیچی جاتی تھیں لیکن اس بار اس نے سب کو منع کر دیا تھا کہ اس لڑکی کو لیاقت بھٹی لے علاوہ کوٸ اور ہاتھ نہی لگاۓ گا۔

میں اسے نکاح کر کے لے جا رہا تھا۔ نکاح صرف ایک ڈرامہ تھا مگر اس لڑکی کے چہرے پہ خوشی اور اوراطمنان دیکھ کر مجھے اس پہ بہت ترس آیا تھا۔
وہ بہت سی چیزوں سے انجان تھی۔
اس کے والدین نے اسے بیچا تھا۔ وہ یہ بات نہی جانتی۔ میں یہ سن کر بہت حیران ہوا تھا کہ کوٸ والدین اپنی اولاد کو کیسے بیچ سکتے ہیں۔ اس رشتے والی عورت نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اس کے سگے ماں باپ نہی تھے۔ اس بات نے مجھے اور بےچین کر دیا۔ پانچ لاکھ اس کی قیمت لیاقت بھٹی نے ادا کی تھی۔ میں ٹرین میں اسے لے آیا تھا لیکن میرا دل اندر سے مجھے بے چین کر رہا تھا۔ مجھے پہلی دفعہ کوٸ غلط کام کرتے ہوۓ اچھا نہی لگ رہا تھا۔  میں نے اس کا زیور اور پیسے سب نکال لیے تھے اور طلاق نامہ نامہ اس کے پرس میں رکھ آیا۔ میں اسے ٹرین میں ہی چھوڑ کر اتر گیا اور مجھے لگا تھا میں یہ زیور اور پیسے لیاقت کو دے کر کہوں گا کہ لڑکی کو جانے دے لیکن  وہ غصے سے پاگل ہو گیا۔ میں نے اسے اتنا جنونی پہلے کبھی نہی دیکھا تھا۔ پھر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ زیور نقلی تھے۔ اسے لگا میں نے اسے دھوکا دیا ہے۔ ایک تو لڑکی اس کے ہاتھ سے نکل گٸ اور پیسے بھی نہی ملے۔ اس نے اپنے آدمیوں کو مجھے مارنے کا حکم دے دیا۔ میں بہت مشکل سے وہاں سے بھاگا۔ اس کے بعد میں نہی جانتا وہ کہاں گٸ اور میں خود بہت مشکل میں پھنس گیا تھا۔ اس کے آدمی مجھے ہر جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔۔“

وہ کہہ کر چپ ہوا اور سکندر کی جانب دیکھا۔ اس کے چہرے پر اتنی سختی شاید ہی کبھی کسی نے دیکھی ہو گی۔

”تمھیں اس کو یوں بیچ راستے چھوڑتے وقت خیال نہی آیا کہ درندے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ اگر کوٸ اسے پھر سے کسی اور لیاقت بھٹی کے پاس لے جاتا تو؟“

سکندر کی آواز اتنی گہری اور رعب دار تھی کہ کاشی اندر سے ڈر گیا۔

”مجھے اس وقت یہی ٹھیک لگا۔ میں اس کو اصل بات بتا بھی نہی سکتا تھا۔ اگر وہ پولیس میں میری شکایت کر دیتی تو میں پھنس جاتا۔ مجھے لگا وہ خود ہی کسی دارلامان میں چلی جاۓ گی۔“

کاشی کی نظروں اور آواز میں بے چینی تھی۔ سکندر اس وقت بہت سی کیفیات کا شکار تھا۔ اسے یہ سوچ کر خوف آ رہا تھا کہ اگر سارا وہاں نہ پہنچتی تو الماس کا کیا ہوتا۔

”مجھے بتاٶ یہ کہاں ہے؟ میں بس یہ تسلی کرنا چاہتا ہوں کہ وہ محفوظ ہے یا نہی؟“

سکندر کو اس وقت کاشی پہ بہت غصہ آ رہا تھا۔ مگر کاشی ہی کی وجہ سے آج الماس اس کے گھر میں تھی۔ اس لیے اس نے اس کے ساتھ زیادہ سختی نہی برتی تھی۔

”وہ محفوظ ہے۔ اور بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن دوبارہ تم اس لڑکی کا ذکر نہی کرو گے۔ کسی سے بھی۔“

سکندر اسے یہ بتا کر کوٸ رسک نہی لینا چاہتا تھا کہ وہ اس کی بیوی ہے اور اس کے گھر میں ہے ۔

کاشی کی رکی سانس ایک دم بحال ہوٸ تھی۔ لیکن سکندر اب اس سے اور بھی زیادہ محتاط ہو گیا تھا۔

۔۔۔

سکندر سارا کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس نے کاشی کی باتیں مختصراً سارا کو بتا دیں۔ وہ بات کر کے رکا اور گہرا سانس لیا۔ سارا کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آ گٸ تھی۔ الماس اس سارے قصے سے انجان تھی اور اس کے لیے یہی بہتر تھا کہ وہ انجان ہی رہتی۔

دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوٸ تو سکندر نے بے اختیار دروازے کہ جانب گردن گھماٸ تھی۔ سارا نے جلدی سے خود کو نارمل کیا اور آنکھوں کی نمی اندر دھکیلی۔ الماس چاۓ کی ٹرے اٹھاۓ اندر داخل ہوٸ۔ ٹرے میں ایک کوکیز کی پلیٹ تھی اور ایک پلیٹ میں اس نے کاجر کا حلوہ رکھا تھا۔ وہ ٹرے کو ساٸیڈ میز پر رکھ رہی تھی۔ سکندر نے بہت بے تاب اور فکرمند نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔ الماس نے اس کی نظریں اپنے چہرے پہ محسوس کیں تو اس کا ہاتھ پہلی دفعہ سکندر کے سامنے کانپا تھا۔ ٹرے میں تھر تھراہٹ پیدا ہوٸ تو سکندر نے ایک دم سے ٹرے کے نیچے ہاتھ رکھا۔ الماس نے بحاظت ٹرے میز پر رکھ دی اور جانے کے لیے مُڑی۔

”الماس، تم بچوں کا دھیان رکھو، میں سکندر سے کچھ بات کر رہی ہوں، تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔ کسی کواس طرف مت آنے دینا۔“

سارا نے حفاظتی اقدام کے طور پہ الماس کو ہدایات دیں۔ الماس نے اس کی بات پہ سر ہلایا اور باہر نکل گٸ۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے والے واقعے کے باعث سکندر سے نظریں چرا رہی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ سکندر نے اسے کبھی چھوا ہو اور وہ بھی اس انداز میں۔ وہ آنکھیں نہی اٹھا پا ری تھی۔ اس کی آنکھوں پہ حیا کا بوجھ اس کی پلکیں مزید بھاری کر رہا تھا۔ وہ ہمشہ ہی اس کی موجودگی میں نروس ہو جاتی تھی اور آج تو بات ہی کچھ اور تھی۔

سکندر نے اس کے جانے کے بعد بھی نظریں دروزے پر لگا رکھی تھیں جب کچھ لمحے گزر گۓ تو اس نے رُخ واپس سارا کی طرف موڑا۔

"الماس کو یہی پتا  ہے کہ ایک رشتے کروانے والی نے اس کے لیے فارن نیشنل لڑکے کا رشتہ بتایا تھا اور اس کے ماں باپ نے اچھا رشتہ ہونے کی وجہ سے اس کی شادی کر دی۔ وہ یہ نہی جانتی کہ رشتے کی آڑ میں وہ الماس کو گھر سے نکالنا چاہتے تھے۔ اگر اسے پتا چلے گا تو اسے بہت دُکھ ہو گا۔ میں نہی چاہتا وہ اندر سے اور دُکھی ہو جاۓ۔“

سکندر کو یہ سب کہتے ہوۓ بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ اسے اب احساس ہو رہا تھا کہ وہ الماس کا نازک سا دل کس طرح سے توڑ چکا تھا۔ وہ سب سے دور اور اکیلی تھی۔ نجانے کس مشکل سے وہ ریلوے اسٹیشن سے اس کے گھر پہنچی تھی۔ کیا کیا گزری ہو گی اس پر جب اسے پتا چلا ہوگا کہ اس کا شوہر طلاق دے کر کہیں چلا گیا ہے اور اس کے پاس واپسی کے لیے بھی کوٸ جگہ نہی ہے۔ الماس کا اوور ری ایکٹ کرنا سکندر کو سمجھ آ رہا تھا۔ اس کا سکندر کے کہے الفاظ نہ بھولنا اسے بالکل ٹھیک لگ رہا تھا۔ لیکن وہ اسے سچ بتا کر مزید دکھی نہی کرنا چاہتا تھا۔

”وہ لوگ بہت خطرناک ہیں بھابھی۔ اور مجھے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ لیاقت بھٹی کے لوگ الماس کو ابھی تک ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپ سے بس میں یہ کہنے آیا ہوں کہ الماس کو کسی بھی طرح گھر سے باہر مت جانے دیجیے گا نہ ہی اسے گھر پر اکیلا چھوڑٸیے گا۔ جب تک میں اس لیاقت بھٹی کو پکڑ نہی لیتا اور یہ سارا مسٸلہ سلجھا نہی لیتا، آپ اسے کسی کے سامنے بھی مت کریے گا۔ آج کل میرا اسکیجیوٸل بہت ٹف ہے۔ ابھی بھی بہت مشکل سے ٹاٸم نکال کر آیا ہوں زیادہ دیر نہی رکوں گا۔ مجھے بس اس کی فکر ہو رہی ہے۔“

سکندر نے بے اختیار فکر مند آنکھوں سے دوبارہ دروازے کی طرف دیکھا جیسے وہ اس دروازے کے پار سے الماس کو دیکھ رہا ہو۔ سارا نے اس کی بات سمجھ کر اثبات میں سر ہلایا اور اسے تسلی دی۔ وہ اس وقت واقعی بہت تھکا ہوا اور پریشان لگ رہا تھا۔ سارا جانتی تھی وہ الماس کے لیے کتنا پوزیسیو ہو رہا تھا۔

"اچھا تم فکر نہ کرو۔ میں اس کا خیال رکھوں گی۔ تم یہ گاجر کا حلوہ کھاٶ۔ تمھاری بیوی نے ہی بنایا ہے۔"

سارا نے ماحول کا تناٶ اور اداسی کم کرنے کے لیے کہا تو اس سارے وقت میں وہ پہلی بار مسکرایا تھا۔ اس نے پلیٹ اٹھاٸ اور سارا حلوہ کھا لیا تھا۔ حلوہ کھاتے وقت وہ کسی گہری سوچ میں گُم لگ رہا تھا۔ جب وہ سارا گاجر کا حلوہ کھا چکا تو چاۓ کا کپ اٹھا لیا۔ وہ اکثر الماس کے ہاتھ کی چاۓ مِس کرتا تھا۔

"سچ پوچھو تو میں واقعی خوش ہوں تم دونوں کے لیے۔ تمھارا اس کی زندگی میں ہونا ہی میرے لیے لیے اطمنان کا باعث ہے۔ بس اب جلدی سے مجھے تاٸ اماں بنا دو۔"

سارا نے کہا تو آخری جملے پر وہ ایکدم چونکا۔ چاۓ پیتے پیتے اسے اچھو لگنے لگا تھا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے کپ سے آخری گھونٹ بھر کر کپ واپس میز پر رکھ دیا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔

”آپ کی بہن کو مجھ سے کافی شکایتیں ہیں۔ اس نے مجھے اب تک معاف نہی کیا۔“

سکندر نے زرا سا سر اور نظریں جھکا کر کہا۔ اس کی آواز میں بھی اداسی تھی۔

"اوہ ماٸ گاڈ۔ سکندر تم نے مجھے پہلے کیوں نہی بتایا؟ میں تو یہی سمجھتی رہی کہ اب سب ٹھیک ہو گیا ہے تم دونوں کی بیچ۔“

سارا کو اس کی بات سن کر حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد تو الماس نارمل ہو گٸ ہو گی۔

”کچھ ٹھیک نہی ہوا ہے۔ سچ بتاٶں بھابھی تو اب مجھے عجیب سا خوف ہونے لگا ہے۔ مجھے یوں لگنے لگا ہے جیسے اسے مجھ سے کوٸ چھین لے گا۔ تھک گیا ہوں میں خود سے لڑتے لڑتے۔ میں اب اور انتظار نہی کرنا چاہتا۔ سمجھ نہی آرہا کہ کیا کروں؟“

اس کی سوٸ وہیں آ کر رک گٸ تھی۔

"تم کہو تو میں بات کرتی ہوں اس سے۔"

سارا نے اس کی بات سن کر اس سے پوچھا تو اس نے گہری سانس لی۔

"ٹھیک ہے، آپ بھی کوشش کر کے دیکھ لیں۔"

وہ مزید کچھ دیر اس سے الماس کے بارے میں بات کرتا رہا پھر واپس چلا گیا۔ جاتے وقت اس نے ایک نظر بچوں کے کمرے کی طرف ڈالی تھی جہاں الماس بچوں کے ساتھ موجود تھی۔ وہ اندر نہی گی تھا، سیدھا باہر ہی نکل گیا۔

۔۔۔

الماس رات کو سونے کے لیے لیٹی تو اسی واقعے کو سوچتی رہی۔ سکندر کے لہجے، اس کی آواز اور اس کے انداز میں کچھ ایسا تھا جو الماس کو چونکا رہا تھا۔ سکندر نے پہلے کبھی الماس کے یوں قریب آنے کی کوشش نہی تھی۔ شادی والے دن بھی اور ولیمے کے بعد جب سکندر کے ارادے وہ سمجھ گٸ تھی، تو اس نے اپنی مجبوری ظاہر کر کے اسے باور کرا دیا تھا کہ وہ اس سے دور ہی رہے اور سکندر نے دوبارہ اس کے قریب آنے کی کوشش نہی کی۔

اس نے ہمیشہ الماس سے فاصلہ ہی رکھا تھا۔ پانچ مہینوں سے وہ اس سے صرف ضرورتاً بات کیا کرتا تھا۔ اس نے سونا بھی لان میں شروع کر دیا تھا۔ کبھی کبھار اسے ڈراٸنگ روم میں بھی سوتے ہوۓ دیکھا تھا الماس نے۔

الماس اندر سے ریلیکس ہو گٸ تھی۔ اسے محسوس ہی نہی ہوتا تھا کہ اس کی شادی ہو گٸ ہے۔ وہ اسی طرح رہ رہی تھی جیسے پہلے رہتی تھی۔ بس اتنا فرق آیا تھا کہ اس کا سکندر کا سامنا بہت کم ہوتا تھا اور بات تو اس سے بھی کم۔ الماس یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ اسی لیے ایسا کر رہا ہے کیونکہ وہ خود بھی اس شادی کےحق میں نہی تھا اور اب اسے الماس کے سامنے دکھاوا کرنے کی ضرورت نہی تھی۔

لیکن شام والے واقعے نے اس کی سوچوں کو منتشر کر دیا۔ وہ کوٸ اور ہی سکندر لگ رہا تھا۔ اسے اپنے بازوٶں میں بھیچ کر وہ کتنی دیر اسی طرح کھڑا رہا تھا جیسے وہ اسے خود سے الگ کرنا ہی نہ چاہتا ہو۔ سکندر کا لمس، فکر مند ہونا، اس کی خیریت پوچھنا، یہ سب دکھاوا نہی تھا۔ اس کا دل ایک دم خوش گمانیوں میں گھرنے لگا تھا لیکن اس کے دماغ نے اسے ڈپٹ کر چپ کروا دیا تھا۔ وہ ماننا ہی نہی چاہتی تھی کہ سکندر اس کی پرواہ کرتا ہے۔

وہ خوش گمانی کی اس کیفیت میں نہی رہنا چاہتی تھی۔اسے ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خوش ہو اور پھر سے اس کی ساری دنیا ہی پلٹ جاۓ۔

۔۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

❤ براۓ مہربانی اگر آپ کو کہانی اچھی لگی ہو تو کمنٹ کر کے ضرور بتاٸیں اور ہر قسط کو ووٹ بھی کر دیں۔ نیچے دیے گۓ سٹار کو کلک کر کے۔
شکریہ ❤

Continue Reading

You'll Also Like

432K 22.8K 53
Mehr-o-Mah (مہر و ماہ) - The sun and the moon A collection of short stories filled with love, spice, drama and a roller coa...
211K 8.2K 9
A simple short story filled with love 💕 #2 in lovestories 30/12/19
33.8K 2K 31
اذا وقعت في حب شخصين وعليك الاختيار بينهم ف اختار الثاني لان لو قلبك يحب الاول لما دق للثاني بين نارين