Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum S...

By Tisha_Gohar

23.4K 1K 113

زندگی میں کبھی کبھی اندھیرے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان اندھیروں کا مقصد ہمیں وہ چاند دکھانا ہوتا ہے جو ہم دن کی روشن... More

Episode 1.
Episode 2.
Episode 3.
Episode 4.
Episode 5.
Episode 6.
Episode 7.
Episode 8.
Episode 9.
Episode 10.
Episode 11.
Episode 12.
Episode 13.
Episode 14.
Episode 15.
Episode 16.
Episode 17.
Episode 19.
Episode 20.
Episode 21.
Episode 22.
Episode 23.
Episode 24.
Episode 25.
Episode 26.
Episode 27.
Episode 28.
Episode 29.
Episode 30.
Episode 31.
Episode 32.
Episode 33.
Episode 34.
Episode 35.
Episode 36.
Episode 37.

Episode 18.

567 26 2
By Tisha_Gohar


# ”محبت کچھ یوں ہے تم سے“
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 18

وہ اس کے سامنے کتنے آرام سے سب کہہ گٸ تھی۔ مگر اندر اس کا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔ وہ تو پہلے بھی سکندر کے سامنے نہی جاتی تھی۔ اس کا دل سکندر کو دیکھ کر بلا وجہ ہی زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیتا تھا۔

وہ اس کی موجودگی میں خواہ مخواہ ہی نروس ہو جاتی تھی اور جس طرح وہ گہری نظروں سے الماس کو دیکھتا تھا جیسے اندر تک جھانک رہا ہو، الماس کو اس سے الجھن ہونے لگتی تھی، ایک انجانا سا خوف ہونے لگتا تھا۔ اب تو ان کے رشتے کی نوعیت ہی بدل گٸ تھی۔ وہ اندر ہی اندر شرم سے لال ہو رہی تھی، مگر بھلا ہو میک اپ کی تیہوں کا جس نے اس کے چہرے کے اصلی رنگ کو چھپا دیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ اس کے سامنے آۓ گا تو وہ اپنی ٹانگوں پہ کھڑی بھی نہی رہ سکے گی۔

دروازے پہ دستک سن کر اس نے اسے اندر آنے کا کہہ تو دیا تھا مگر دھڑکن کو قابو کرنا اس کے بس میں نہی تھا۔ اسے لگ رہا تھا وہ اس کی دھڑکن سن لے گا۔ الماس نے اپنا چہرہ اس سے موڑ رکھا تھا اور اپنے اندر ہمت پیدا کر کے مڑی تھی لیکن اس کی قربت نے اسے پھر سے اندر سے کمزور کر دیا تھا۔

وہ جن حق بھری اور چمکتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا، الماس اس کے ارادے جان چکی تھی لیکن اس کے ذہن سے وہ باتیں نہی نکل پا ری تھیں جو اس سے شک کی بِنا پر سکندر نے کہی تھیں۔ اس نے بہتر یہی سمجھا کہ اسے بتا دے وہ اس رشتے کے لیے تیار نہی تھی اور مجبوراً مانی ہے۔ لگتا تو اسے بھی یہی تھا کہ سکندر بھی مجبوراً مانا ہو گا لیکن کیونکہ وہ مرد تھا تو اپنی مرضی اس پہ مسلط کر سکتا تھا۔

الماس نے یہی سمجھا تھا کہ وہ اب چونکہ اس کی ملکیت بن گٸ ہے، چاہے زبردستی ہی سہی، تو وہ بھی دوسرے مردوں کی طرح اپنے حقوق باقاعدگی سے وصول کرے گا۔ مگر اس کی باتیں سن کر سکندر کو بہت غصہ بھی آیا تھا اور اس کی انا یہ گوارا نہی کر رہی تھی کہ وہ الماس کی باتیں سننے کے بعد اس کے پاس اسی کمرے میں ٹھہرتا۔

سکندر باہر نکل گیا تو وہ ریلیکس ہو کر بیٹھ گٸ تھی۔ شکر کہ سکندر نے کوٸ جسارت نہی کی تھی ورنہ وہ وہیں کھڑے کھڑے بے ہوش ہو جاتی۔

۔۔۔

سکندر اس سے یہ توقع نہی کر رہا تھا۔ کیسے دھڑلے سے اس نے ان کے بیچ لکیر کھینچ دی تھی۔ اس کے دماغ میں ایک لفظ اٹک گیا تھا۔ کاغذی رشتہ۔

وہ ان کی شادی کو محض ایک فارمیلٹی سمجھ رہی تھی۔ وہ خواہ مخواہ ہی اتنا خوش ہو رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا الماس اگر مان گٸ ہے تو شادی کے بعد اپنے اور اس کے درمیان کنجاٸش پیدا کرے گی۔ ان کے تعلقات بہتر ہو جاٸیں گے۔ وہ اس کی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتا تھا مگر الماس کے الفاظ اور اس کا لہجہ سکندر کو بہت بری طرح ہرٹ کر گۓ تھے۔

اس نے کپڑے بھی نہی بدلے تھے۔ وہ اب بھی شادی کی شیروانی میں تھا۔ رات کے اس پہر یوں بھی سب لوگ سونے کے لیے جا چکے تھے۔ گھر کے اندرونی حصے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سب تھک کر گہری نیند میں سو رہے تھے۔ ایک وہ تھا جو باہر لان میں جھولے پہ بیٹھا اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

جھولے پہ بیٹھے بیٹھے اسے الماس کا خیال آیا۔ وہ بھی کل اسی جگہ بیٹھی تھی پیلے اور سبز مہندی کے جوڑے میں۔ اسے مہندی کے لباس اور پھولوں کا زیور پہنے دیکھ کر سکندر کے دل میں کتنے ہی نٸے خوابوں نے جنم لیا تھا۔ وہ اس دن بازار میں اسے اشتیاق سے خوفزدہ دیھ کر اس کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ سکندر جب جب یہ سوچتا کہ اشتیاق نے الماس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا ہو گا، اس کا خون کھولتا تھا۔

صرف الماس نہی، وہ کسی بھی مظلوم لڑکی کے لیے ایسا ہی محسوس کرتا لیکن الماس کی طرف متوجہ ہونا اسے خود بھی الجھا رہا تھا۔ شادی کے بارے میں اس نے نہی سوچا تھا مگر پھر اسے الماس کی موجودگی کا احساس انوکھے سے احساس میں جکڑنے لگا۔ وہ اس لڑکی کو اپنے ارد گرد پا کر جو اندرونی سکون محسوس کرنے لگا تھا، اسی احساس نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کروایا تھا۔ اس نے بہت سوچ سمجھ کر، ہر لحاظ سے پرکھ کر الماس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہ بے سہارا لڑکی تھی مگر دل کی صاف اور نیت کی اچھی تھی۔ اس کے ساتھ ایک برا تجربہ ہو چکا تھا مگر اس نے پھر بھی خود کو ٹوٹنے نہی دیا تھا۔ بظاہر نازک سی نظر آنے والی الماس اندر سے بہت مظبوط تھی، سکندر کو اس کی یہی خوبی سب سے زیادہ اچھی لگی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا سارا سے الماس کی اور اپنی شادی کی بات کرے گا۔ وہ جانتا تھا کہ الماس اس سے ناراض ہے ان باتوں کی وجہ سے جو اس نے اسے آزمانے کے لیے کہی تھیں اسی لیے وہ زیادہ اس کے سامنے نہی آتی تھی۔ سکندر نے سوچا تھا کہ شادی ہو گٸ تو وہ اس کی ساری غلط فہمیاں دور کر دے گا۔

لیکن تھوڑی دیر پہلے جو گل فشانیاں الماس نے اس کے سامنے کی تھیں، اس نے سکندر کومزید الجھا دیا تھا۔ معاملہ اتنا آسان نہی تھا جتنا اس نے سمجھ لیا تھا۔ وہ کچھ وقت اکیلے گزارنا چاہتا تھا اپنے ذہن کو پر سکون کرنے کے لیے۔ مگر الماس کی باتیں بار بار اس کے ذہن میں گونجنے لگیں۔ ان سوچوں کو دماغ سے جھٹکنے کی کوشش سے تھک کر اس نے اپنا سیل فون نکال لیا اور کیس کے متعلق سوچنے لگا۔ کچھ دیر میں وہ جھولے پر ہی سو گیا۔

۔۔۔

صبح وہ جلد ہی جاگ گیا تھا۔ خود کو جھولے پر لیٹا پایا تو رات والے واقعات پھر سے ذہن میں تازہ ہو گۓ۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اندر آ گیا۔ الماس نے اب تک کپڑے تبدیل نہی کیے تھے۔ وہ اسی سرخ عروسی لباس میں بیڈ کے ایک طرف نیم دراز سی سو رہی تھی۔ ماتھے کا ٹیکہ، ناک کی نتھ، کانوں کے آویزے، گلے کا ہار، ہاتھوں کی انگوٹھیاں، کلاٸیوں میں چوڑیاں اور کنگن اور اس کے ہاتھوں، بازوٶں اور پیروں پر لگی مہندی، ہر چیز سکندر کو کسی جسارت کےلیے اکسانے لگی تھی۔ مگر وہ اس کی باتیں سوچ کر ضبط کر گیا۔

اس کی بیوی سجی سنوری اس کے کمرے میں اس کے سامنے اور اس کی دسترس میں تھی، لیکن مسٸلہ دسترس کا تھوڑی تھا۔ مسٸلہ اس کے دل کا تھا جو الماس کو پوری محبت اور مان سے اپنانا چاہتا تھا۔ اسے الماس کی چالاکی پہ بے پناہ غصہ آنے لگا تھا۔ وہ چپ چاپ کپڑے نکال کر خاموشی سے نہانے چلا گیا۔ نہا کر نکلا وہ تب بھی اسی طرح گہری نیند سو رہی تھی۔ سکندر کے جی میں آیا کہ کوٸ جسارت کرے مگر انا بیچ میں آگٸ۔ وہ اپنا سامان لے کر ایک آخری نظر الماس پہ ڈالتا گھر سے چلا گیا۔
۔۔۔

سکندر کو الماس کی رات والی حرکت پہ جو غصہ آ رہا وہ اس نے کٸ مجرموں کو مار پیٹ کر نکالا تھا۔ اس کی ذاتی زندگی میں تو اس سے کچھ خاص فرق نہ پڑا مگر مجرموں نے اس کی مار کھا کر کٸ باتیں اگل دی تھیں۔ اس نے خود کو کام میں مزید مصروف کر لیا۔

اگلے ہفتے ولیمہ تھا اور اس کی ٹیم کے لوگ بھی مدعو تھے۔ سب تو نہی آ سکے مگر کچھ آ گۓ تھے۔

اس  نے پورا ہفتہ الماس سے کوٸ بات نہی کی تھی۔ وہ گھر پہ نہی تھا لیکن کال کر سکتا تھا اور وہ بھی نہی کی۔ کٸ بار خیال آیا تھا اس سے بات کرنے کا۔ سارا سے اس نے دو تین بار فون پہ بات کر کے حسن کے ساتھ ساتھ الماس کی بھی خیریت پوچھ لی تھی۔

”بات کروا دیتی ہوں خود ہی پوچھ لینا“

سارا نے کہہ کر فون الماس کو دیا تو الماس نے خاموشی سے تھام لیا اور کچھ نہی بولی۔ سکندر کچھ دیر انتظار میں رہا کہ شاید وہ خود ہی کچھ کہہ دے مگر اس طرف سے کوٸ آواز نہی آٸ تو سکندر نے خود ہی بات کا آغاز کرنے کی کوشش کی۔

”کیسی ہو؟“

”ٹھیک ہوں“

اتنا کہہ کر الماس پھر سے خاموش ہو گٸ۔ سکندر انتظار میں تھا کہ شاید اخلاقاً ہی وہ اس کی بھی خیریت پوچھ لے مگر اس نے ایک ”ہوں“ بھی منہ سے نہی نکالی۔ سکندر نے غصے سے فون ہی بنر کر دیا۔
وہ ناراض تھا اور چاہتا تھا کہ الماس کو احساس ہو مگر وہاں تو جیسے پرواہ ہی نہی تھی۔

۔۔۔

ولیمے کے دن کا ڈریس سی گری اور سی بلیو کنٹراسٹ میں تھا۔ آج بھی وہ اسی طرح حسین لگ رہی تھی۔ اس سے لاکھ ناراضگی سہی مگر سکندر کی نظرہیں بار بار بھٹک کر الماس پر جا رہی تھیں۔ اور وہ ازلی بے نیاز بنی اس کے برابر بیٹھی تھی۔ آج کی تقریب نمٹاتے نمٹاتے بھی رات دیر ہی ہو گٸ۔

الماس نے کمرے میں آتے ساتھ ہی چینج کرلیا تھا اور اب سادہ سے لباس میں دوپٹہ اچھی طرح پھیلاۓ وہ بیڈ کی ایک طرف دراز ہو کر سونے کی تیاریوں میں تھی۔ سکندر چینج کر کے باتھ روم سے باہر آیا اور بیڈ پر لیٹنے کے لیۓ آگے بڑھا تو وہ ایک دم اٹھ بیٹھی۔

”کیا ہوا؟“

الماس کو یوں اٹھتا دیکھ کر اس نے بے ساختہ پوچھا تھا۔

”وہ۔۔۔میں۔۔۔۔ صوفے پر سو جاتی ہوں۔۔۔۔ آپ ادھر  آرام سے سو جاٸیں۔“

کہہ کر وہ تکیہ اٹھا کر سوفے پر جانے لگی تو سکندر نے اسے روک دیا۔

”یہ آپ کا کمرہ ہے۔ میری وجہ سے خود کو بے آرام کرنے کی ضرورت نہی ہے۔ میں باہر جا رہا ہوں۔“

وہ اس سے کہہ کر اپنا فون اٹھا کر کمرے سے چلا گیا۔ الماس کو محسوس ہوا تھا کہ اسے برا لگا ہے مگر اسی میں اس کی عافیت تھی۔ وہ پھر سے بیڈ پر دراز ہو گٸ اور کچھ دیر میں سو بھی گٸ۔

سکندر لان میں جھولے پر آ کر بیٹھ گیا۔ اسے الماس پہ غصہ آ رہا تھا۔ یہ بات کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ میں صوفے پہ سو جاتی ہوں؟

وہ اب نامحرم تو نہی تھا، شوہر تھا اس کا۔ سکندر کو بہت برا لگا تھا اس کا یوں کہنا، اسی لیے وہ باہر آ گیا۔ اب اسے نیند نہی آ رہی تھی۔ بار بار الماس کا سجا سنورا روپ اس کے خیالوں میں ابھر رہا تھا اور اس کے دل کو بے کل کر رہا تھا۔ وہ زچ ہونے لگا۔ اس نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

”۔۔۔کیا مصیبت ہے۔۔۔“

وہ کوفت سے بڑبڑایا تھا۔ بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے جھولے پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کو گردن گھما کر دیکھا تو اس کے کمرے کی کھڑکی بھی بند تھی۔ وہ اب بھی اندر جا سکتا تھا مگر جانا نہی چاہتا تھا۔

اس نے اپنا فون نکالا۔ کچھ تو کرنا تھا اسے اور اس وقت وہ ”کچھ“ اس کا کام تھا جس نے اس کا دھیان واقعی بٹا دیا تھا۔

۔۔۔

اسے نہی معلوم ہوا کب اس کی آنکھ لگی۔ وہ پھر سے وہیں جھولے پر ہی نیم دراز ہو کر سوگیا تھا۔ صبح ہو چکی تھی۔ سارا باہر لان میں پودوں کو پانی لگانے آٸ تو اسے جھولے پر سوتے ہوۓ دیکھ کر کچھ حیرت کا شکار ہوٸ۔

”سکندر؟ تم یہاں کیوں سو رہے ہو؟ اٹھو اپنے کمرے میں جاٶ۔“

سارا نے اسے ہلایا تو وہ نیند بھری آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا۔ نیند کی کمی کے باعث اس کی آنکھیں  سرخ ہو رہی تھیں۔ ایسی صورت میں اگر کسی کو وہ ذرا سے غصے سے بھی دیکھ لیتا تو سامنے والا یوں ہی ڈر جاتا۔ سکندر نے آنکھیں پوری کھولیں پھر گردن گھما کر ارد گرد دیکھا تو اندازہ ہوا کہ سورج نکل آیا ہے۔

”پتا نہی کیسےآنکھ لگ گٸ“

اس نے اٹھ کر گردن اور بازو کے پٹھے اسٹریچنگ کر کے ریلیکس کیے۔ سارا نے غور سے اسے دیکھا۔ وہ کچھ اداس سا لگ رہا تھا۔ لگ ہی نہی رہا تھا کہ وہ نیا نویلا دولہا ہے۔

”سکندر“

سارا نے اسے پکارا تو وہ جو اندر جانے لگا تھا،  رک گیا۔

”جی بھابھی“

”سب ٹھیک ہے نا؟ کوٸ بات ہوٸ ہے؟ تم یہاں کیوں سو رہے تھے؟“

سارا نے تشویشناک انداز میں پوچھا تو اس کے استفسار پر سکندر کے چہرے پر خفگی عود آٸ۔

”یہ آپ اپنی بہن سے پوچھیں کہ میں یہاں کیوں سو رہا تھا۔“

وہ خفا سے انداز میں کہہ کر اندر چلا گیا۔ سکندر نے اپنے کمرے کا دروازہ بجانے کی کوشش بھی نہی کی تھی اور سیدھا نہانے چلا گیا۔ اسے پھر سے رات والی بات یاد آگٸ تھی۔ الماس کی طرف اس نے نگاہ نہی کی تھی۔ وہ اب اسے مکمل نظرانداز کر رہا تھا۔ الماس کے رویے سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس سے دور رہنےکی کوشش کر رہی ہے۔ وہ اس وقت الماس کی طرف سے اتنا ہرٹ تھا کہ کسی سے کچھ کہہ بھی نہی رہا تھا۔ الماس کو لگا شاید وہ اس کی باتوں کے پیشِ نظر اسے اس کے حال پہ چھوڑ چکا ہے اور personal space دے رہا ہے۔

سب باری باری جاگ گۓ تھے اور ناشتے کی ٹیبل کے گرد جمع ہو رہے تھے۔ سارا نے حسن کو بازار سے کچھ چیزیں لانے بھیجا تھا۔ سکندر کو وہ دولہے والا پروٹوکول دے رہی تھی ورنہ چیزیں بھی وہی لے کر آتا۔

سارا نے الماس کے کمرے کا دروازہ بجایا تو وہ کچھ دیر میں تیار سی ہو کر باہر آ گٸ۔ سادہ عام لباس میں بھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اس کے جہیز اور بری کی چیزیں مشترکہ ہی تھیں۔ کچھ کپڑے سارا کی پسند کے تھے اور کچھ سکندر کی۔ پیسے البتہ سکندر نے ہی دیے تھے۔ سارا نے کچھ چیزیں اپنی طرف سے دونوں کے لیے لی تھیں۔ اس وقت جو پیلا اور نارنجی رنگ کا جوڑا وہ پہن کر نکلی تھی وہ سکندر کی پسند کا تھا۔ اس نے بہت خوبصورت رنگ منتخب کیے تھے۔

الماس کو اس بارے میں کچھ معلوم نہی تھا۔ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ سارا نے ہی اپنی مرضی اور پسند سے شاپنگ کی ہے۔ اس نے زیور کے نام پہ کچھ بھی نہی پہنا ہوا تھا۔ چہرہ بھی دھلا دھلایا تھا۔ بچوں کی سکول سے چھٹی کرواٸ گٸ تھی اور وہ اسی میں خوش تھے۔ سارا نے باری باری سب کو جگایا اور ناشتے کے لیے بلایا۔

نینی بھی آج کل اس کی شادی کی وجہ سے ادھر ہی آ گٸ تھیں۔ سارا نے اسے سکندر کے برابر والی کرسی پہ بٹھا دیا تھا اور اس کے لاکھ کہنے اور کوشش کرنے کے باوجود اسے کوٸ کام نہی کرنے دیا۔
ان کی شادی ہوۓ ایک ہفتہ ہو چکا تھا مگر شادی کے بعد سے یہ دونوں کا آفیشلی دوسرا دن تھا۔ سارا ان دونوں کو ان کی شادی کا ”دوسرا دن ایک ساتھ“ گزارنے دینا چاہتی تھی مگر الماس بہت نروس ہو رہی تھی۔

رات کو سکندر کے چہرے پہ غصہ اور ناراضگی وہ دیکھ چکی تھی مگر اس وقت اتنی پرواہ نہی کی۔ اب رہ رہ کر اسے اپنی عقل پہ افسوس ہو رہا تھا۔ کیا ہوتا اگر وہ چپ چاپ سو جاتی۔ اس نے کون سا اسے کمرے سے نکال دینا تھا۔ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ سکندر اس سے اس لیے خفا ہے اور اس لیے یوں منہ پھلا رکھا ہے کہ سارا نے اسے پتا نہی کیسے شادی کے لیے مجبور کیا ہو گا۔

سارا اور نینی نے ناشتہ لگایا اور سکندر نے خاموشی سے ناشتہ شروع کردیا۔ سب نے اس کی اس حرکت کو نوٹ کیا تھا۔ وہ بہت خاموش تھا۔ آمنہ الماس کی گود میں آ گٸ۔

”آپی۔ آپ کل بہت پیاری لگ رہی تھی بالکل پرنسس جینوبی جیسی۔ اور چاچو تو بالکل پرنس لگ رہے تھے۔“

اس نے اپنی فیورٹ پرنسس کا نام لیا جو اس کی پسندیدہ بابربی مووی
Barbie in the 12 dancing princess
کی ہیروٸین تھی۔

اس کی بات پر الماس نے ساتھ بیٹھے سکندر کو دیکھا جو یوں کھا رہا تھا جیسے وہ اکیلا ہے اور کوٸ آس پاس موجود نہی ہے۔ الماس کو بے اختیار اس کا کل والا عکس یاد آیا۔ ڈارک بلو بلیک شیڈ کرے تھری پیس سوٹ میں وہ واقعی کوٸ مغرور شہزادہ ہی تو لگ رہا تھا۔ تنے ہوۓ نقوش کے ساتھ جب کسی سے بات کرتے مسکراتا تھا تو الماس کی دھڑکن یوں ہی تیز ہونے لگتی تھی۔ وہ نظریں چرا رہی تھی۔

اسے یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ اس مغرور شہزادے کے عشق میں گرفتار ہو کر خوار نہ ہو جاۓ۔ وہ مغرور شہزادہ تو اسے پسند بھی نہی کرتا تھا۔ اور یہ شادی بھی اس نے اپنی بھابھی کے کہنے پر کی تھی۔

سکندر کھا چکا تھا اور کھاتے ہی میز سے اٹھ کھڑا ہوا۔

”کدھر کی تیاری ہے دولہے میاں؟“

حسن نے اسے اٹھتے دیکھ کر شرارتی انداز میں پوچھا تھا۔

”کام ہے۔“

اتنا مختصر جواب؟ لفظوں سے زیادہ اس کے انداز نے سب کو چونکایا تھا۔

”آج کے دن بھی تمھیں کام کی پڑی ہے؟ میرا تو پلان تھا ہم کہیں آٶٹنگ پہ چلتے، سب مل کے ایک ساتھ۔“

حسن نے اسے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔

”معذرت۔۔ بھاٸ مجھے بہت ضروری کام ہے۔ آپ لوگ چلے جاٸیں۔“

سکندر نے صاف صاف انکار کیا تھا۔

”سمجھ گیا۔ تم ہمارے ساتھ جانا نہی چاہتے۔ ہم کباب میں ہڈی جو بن جاٸیں گے۔“

حسن نے شرارت سے کہا تھا مگر وہ مسکرایا بھی نہی اور کوٸ جواب دیے بغیر ہی چلا گیا۔

”اسے کیا ہوا ہے؟“

حسن نے تشویش سے سارا سے پوچھا۔ یوں اچانک اس کا چلے جانا اور سنجیدہ صورت کسی اور ہی جانب اشارہ کر رہی تھی۔

”کوٸ ضروری کام ہو گا ورنہ اس طرح تو نہی جاتا۔“

سارا نے بہانہ گڑھا تھا۔ وہ محسوس کر چکی تھی کہ ان دونوں کہ بیچ کچھ چل رہا ہے۔ اس نے الماس سے بات کرنے کا سوچا تھا۔ الماس اپنی جگہ اداسی کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔ سکندر کو اس کے ساتھ ایک پل بھی رہنا برداشت نہی ہو رہا تھا اور شادی کی رات سے وہ اس سے دور رہ رہا تھا۔ الماس ایسا سوچ رہی تھی لیکن اسے اپنے کہے ہوۓ لفظوں کاخیال نہی آ رہا تھا۔

سکندر ناشتے کے کچھ دیر بعد ہی سب کو اجتماعی خدا حافظ کہہ کر چلا گیا تھا۔ سارا اور بچوں نے حسن کے ساتھ گھومنے کا پلان بنایا ہوا تھا۔ نینی بھی ساتھ تھیں۔ الماس گھر پہ ہی رُکنا چاہ رہی تھی مگر سارا اسے زبردستی اپنے ساتھ لے آٸ۔

الماس نے سب کو ہنستے مسکراتے دیکھا۔ وہ سب لوگ ایک ساتھ ایک فیملی لگ رہے تھے اور کتنے خوش تھے۔ الماس نے انھیں ایک دوسرے سے ہنستے بولتے باتیں کرتے دیکھ کر سوچا تھا۔ وہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے اور وہ یوں ہی بیچ میں آ گٸ۔ سکندر کتنا خوش تھا اپنے بھاٸ کے آنے سے۔ مگر اس کی وجہ سے وہ اب ان کے ساتھ نہی آیا تھا۔ الماس کو اپنی قسمت پر غصہ آنے لگا۔ اس کے نصیب میں خوشیاں تھی ہی نہی۔

۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

❤ براۓ مہربانی اگر آپ کو کہانی اچھی لگی ہو تو کمنٹ کر کے ضرور بتاٸیں اور ہر قسط کو ووٹ بھی کر دیں۔ نیچے دیے گۓ سٹار کو کلک کر کے۔
شکریہ ❤

Continue Reading

You'll Also Like

68.4K 4.9K 20
𝐏𝐚𝐚𝐤 - پاک /pure/ 𝙎𝙖𝙧𝙩𝙖𝙖𝙟 𝙎𝙖𝙡𝙖𝙪𝙙𝙙𝙞𝙣 𝘼𝙡𝙖𝙢 : 𝘛𝘩𝘦 𝘧𝘶𝘵𝘶𝘳𝘦 𝘩𝘦𝘪𝘳 𝘰𝘧 𝘈𝘭𝘢𝘮 𝘬𝘰𝘩𝘴𝘢𝘢𝘳, 𝘈 𝘳𝘶𝘵𝘩𝘭𝘦𝘴𝘴 𝘭...
169K 9.7K 9
Hamdaani Heirs #3 The story of Furqaan and Aamaal. How fate brings them together in bleak circumstances. The storms they brave. How a lover's wait i...
273K 7.7K 74
قصه بقلم : هند محمد ( ازيس محمد ) قصه رومانسيه اجتماعيه بين ريم وكريم وتدور الاحداث حولهم من مصاعب ومشاكل وكيف نجاح قصة حبهم بالزواج فى الاخر قصه ك...