Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum S...

By Tisha_Gohar

23.4K 1K 113

زندگی میں کبھی کبھی اندھیرے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان اندھیروں کا مقصد ہمیں وہ چاند دکھانا ہوتا ہے جو ہم دن کی روشن... More

Episode 1.
Episode 2.
Episode 3.
Episode 4.
Episode 5.
Episode 6.
Episode 7.
Episode 8.
Episode 9.
Episode 10.
Episode 11.
Episode 12.
Episode 13.
Episode 15.
Episode 16.
Episode 17.
Episode 18.
Episode 19.
Episode 20.
Episode 21.
Episode 22.
Episode 23.
Episode 24.
Episode 25.
Episode 26.
Episode 27.
Episode 28.
Episode 29.
Episode 30.
Episode 31.
Episode 32.
Episode 33.
Episode 34.
Episode 35.
Episode 36.
Episode 37.

Episode 14.

547 28 2
By Tisha_Gohar

# "محبت کچھ یوں ہے تم سے"
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 14

ولیمے سے دو دن بعد شاہ زیب الماس کی خیریت پوچھنےگھر آیا تھا۔ وہ اب بہتر محسوس کر رہی تھی۔ شاید نظر ہی لگی تھی جو اتارنے کے بعد الماس کی طبیعت ایک دم ہلکی ہوٸ تھی۔

سارا سکندر سے فون پہ بات کر رہی تھی جب زینب نےاسے آ کر شاہ زیب کے آنے کی اطلاع دی۔ سارا نے عجلت میں شاہ زیب کی آمد کا بتا کر فون رکھا اور زینب کے ساتھ ہی ڈراٸنگ روم میں آ گٸ۔ شاہ زیب اسے دیکھتے ہی احتراماً کھڑا ہو گیا۔

"اسلام و علیکم۔ کیسی ہیں آپ؟"

شاہ زیب نے سارا کا حال پوچھا۔

"و علیکم سلام۔ میں تو ٹھیک ہوں۔ آپ سناٸیں؟ خیرت؟"

سارا نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گٸ۔

"جی خیریت ہی ہے۔ آپ نے بتایا تھا آپ کی کزن کی طبیعت کچھ ٹھیک نہی تھی تو میں نے سوچا خیریت ہی معلوم کر لوں۔"

شاہ زیب نے اپنے برابر پڑا سُرخ گلاب کے پھولوں سے سجا چھوٹا سا بُکے میز پر رکھا۔

"یہ میں ان کے لیے لایا تھا۔ اب کیسی طبیعت ہے ان کی؟"

سارا نے زینب سے کہا کہ الماس کو بُلا لاۓ اور خود شاہ زیب سے باتیں کرنے لگی۔ زینب الماس کو بلانے آٸ تو وہ پیروں میں جوتے پہن کر اور سر پہ دوپٹہ اوڑھ کر ڈراٸنگ روم میں آ گٸ۔ شاہ زیب اسے دیکھ کر کھڑا ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ عورتوں کی بہت عزت کرنے والا شخص تھا اور اچھی ویل مینرڈ فیملی سے تھا۔

شاہ زیب سے دو چار باتیں کرنے کے بعد وہ چاۓ کے بہانے اٹھ کر کچن میں آ گٸ۔ شاہ زیب نے چند باتیں کی اور چاۓ پی کر زیادہ دیر نہی رکا اور واپس چلا گیا۔

۔۔۔

اسپیشل ٹاسک فورس کے ڈیپارمنٹ میں کسی نے خفیہ کال کر کے ٹِپ دی تھی کہ ایک قریبی علاقے کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد بم بلاسٹ کیا جاۓ گا۔ بم نسب کیا جا چکا ہے۔ اگر وہ وقت پہ نہ پہنچے تو بہت سی جانیں تباہ ہو سکتی ہیں۔ سکندر نے فوراً اپنی ٹیم کو تیار کیا اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ماہر کارکنوں کو اپنے ساتھ لے کر مشتبہ مسجد پہنچا تھا۔ ان کی بلڈنگ سے وہ جگہ تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈراٸیو پر تھی۔ تیز رفتاری کے باعث وہ بیس منٹ میں پہنچ گٸے تھے۔

فوراً سے مسجد سیل کر دی گٸ تھی اور نمازِ جمعہ میں آۓ لوگوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ سکندر نے سب ٹیم ممبرز کو بم ڈھونڈنے پر لگا دیا۔ نمازِ جمعہ کا وقت شروع ہو گیا تھا اور بم کی تلاش جاری تھی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے سکندر کو اما صاحب کی نشست کے نیچے کچھ مشکوک چیز نظر آٸ۔ اس نے نشست کو ہٹایا تو بم مل گیا۔ اس نے اپنے اسکواڈ کو فوراً بلایا۔ اس پر ٹاٸمر سیٹ کیا گیا تھا اور اس وقت کے مطابق ان کے پاس صرف دس منٹ تھے اس بم کو ڈسپوز کرنے کے لیے۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کے دو جوان صادق اور وزیر اس بم کو اچھی طرح چیک کرنے لگے۔ دو منٹ اسی چیکنگ میں نکل گے۔ پھر انھوں نے بم کو کھول لیا۔ کچھ دیر وہ تاریں چیک کرتے رہے اور صرف پانچ منٹ کا وقت بچا۔ سب کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔ اگر پانچ منٹ میں بم ڈفیوز نہ کیا گیا تو سب یہیں دھماکے میں ختم ہو جاتے۔

سکندر کو اپنی فکر نہی تھی مگر وہ اپنے ساتھیوں کے لیے پریشان تھا۔ تھوڑی دیر میں بم ڈفیوز کر دیا گیا۔ اب بھی ٹاٸمر پر تین منٹ باقی تھے اور سب کی جیسے سانس میں سانس آٸ۔ سکندر نے سب کو شاباش دی اور وہ سب واپس روانہ ہوۓ۔ سکندر کو کام فی الحال ختم تھا اس ہفتے کی رپورٹ بھی وہ لکھ آیا تھا۔

اس نے وہیں سے گھر کا رخ کیا اور ٹیم کو واپس کام کی جگہ پر بھیج دیا۔ ان کے ذمہ اس بم کی تحقیقات کرنے کا کام لگایا گیا تھا۔ سکندر نے نوید کو اسے اس کیس کی رپورٹ سے آگاہ کرنے کا کہا تھا۔ ان کے کام کا اصول تھا۔ سب ایک ساتھ چھٹی نہی کرتے تھے باری باری کرتے تھے جب جس کا کام ہوتا وہ بلڈنگ میں موجود ہوتا تھا اور کس کا کام مکمل ہو جاتا وہ چھٹی کر سکتا تھا۔ فی الحال سکندر کا کام ختم تھا تو وہ گھر روانہ ہو گیا۔ دو گھنٹے اسے لگنے تھے گھر پہنچنے میں۔

۔۔۔

وہ لان میں آمنہ کو گود میں بٹھاۓ خود جھولے میں بیٹھی فروٹ سیلیٹ کھا رہی تھی جب لگڑی کا گیٹ کھلا اور سامنے سے سکندر کی گاڑی ڈراٸیو وے پر آ کر رکی۔ وہ ڈراٸیونگ سیٹ سے اترا۔

آج وہ جیٹ بلیک فُل سلیو شرٹ اور پینٹ میں ملبوس تھا۔ یوں لگتا تھا کسی مِشن سے سیدھا گھر آیا ہو۔ شرٹ اس کے جسم سے چپکی ہوٸ تھی اور اس کا کسرتی سینہ اور بازو صاف نمایاں ہو رہے تھے۔ سر پر اس نے پی کیپ پہن رکھی تھی اور آنکھوں پر کالے گلاسز۔ ایک ہاتھ میں گھڑی بھی تھی جو اسمارٹ واچ لگ رہی تھی۔

وہ بالکل مختلف سا لگ رہا تھا۔ اگر وہ اپنی گاڑی میں نہ آیا ہوتا تو الماس کو لگتا کوٸ اور ہے۔

وہ جیسے ہی گاڑی سے اترا آمنہ اس کی گود سے چھلانگ لگا کر نیچے اتری۔ گرتے کرتے بچی تھی اور سیدھا سکندر کی گود میں چڑ گٸ۔

"چاچو۔ آج آپ بالکل ہیرو لگ رہے ہیں۔"

اس نے انگریزی میں کہا تھا۔ الماس اس کو دیکھے گٸ۔ وہ آمنہ کے کملیمنٹ پر ہلکا سا ہنسا تھا۔ اس کے ہونٹ مخصوص انداز میں ایک کونے سے اوپر کو ہلکے سے اٹھے ہوۓ تھے۔ وہی اس کی ازلی فاتحانہ مسکراہٹ۔ سکندرکی سیگنیچر سماٸل۔

"اچھا؟ مجھے تو لگا تھا میں ہمیشہ ہی ہیرو لگتا ہوں۔"

وہ اب آمنہ کو گود میں اٹھاۓ اندر جا رہا تھا۔ الماس وہیں بیٹھی رہی۔ وہ سکندر کے پیچھے نہی آمنہ کے پیچھے جانا چاہتی تھی۔ مگر اسے یہی لگتا کہ وہ سکندر کے پیچھے ہی آٸ ہے۔ اس لیے وہیں بیٹھنا مناسب سمجھا تھا۔

وہ اپنے خیالوں میں گم ہو گٸ۔ اس گھر میں اسے کتنی چاہت، کتنا سکون اور مان ملا تھا۔ حالانکہ یہ اس کے سگے نہی تھے۔ سگے تو وہ بھی نہی تھے جن کے ساتھ اس نے زندگی گزاری تھی۔ اسے نہی معلوم تھا اس کے والدین کون تھے؟ اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، مسٹر اور مسز ہمایوں کے گھر میں ہی پرورش پاٸ تھی۔ انھوں نے کبھی اس کے ساتھ برا سلوک نہی کیا تھا۔ تھوڑی بہت ناانصافی تو ہوتی رہتی تھی مگر ان کے آخری فیصلے نے جیسے اس سے ساری زندگی کا بدلہ ایک ساتھ ہی لے لیا تھا۔

کیا ہوتا اگر سارا اس دن اسے نہ بچاتی؟ کیا وہ عزت سے اس وقت اس گھر میں بیٹھی ہوتی؟ یا اس کے ساتھ کچھ اور ہو جاتا؟ وہ مر جاتی، یا کہیں بیچ دی جاتی؟۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں کچھ خوفزدہ ہوٸ مگر خدا کا شکر ادا کیا کہ جس نے اس کی حفاظت کی۔ اس کی عزت کی لاج رکھی۔

اس نے اپنے آپ کو بہت کوشش سے نارمل کیا۔ جو زندگی اللہ نے اسے سکون اور امن والی عطا کر دی تھی وہ سوگوار رہ کر ضاٸع نہی کرنا چاہتی تھی لیکن دل پہ کس کا اختیار رہا ہے؟ یہ اپنی مرضی سے خوش یا اداس ہوتا ہے۔ دل کے ساتھ زبردستی نہی کی جا سکتی۔

تھوڑی دیر میں مغرب ہونے والی تھی اور اندھیرا ہونے لگا تھا۔ وہ اپنے خیالوں سے باہر آٸ اورجھولے سے اٹھ کر اندر آ گٸ۔ سارا آرام کر رہی تھی۔ سکندر نے سارا کو نہی جگایا تھا بلکہ لاٶنج میں ہی بیٹھ گیا تھا اور بلال اور آمنہ سے پتا نہی کون سی خفیہ گفتگو کر رہا تھا۔ اس کے کپڑے بھی بدلے ہوۓ تھے۔ اب اس نے ڈارک براٶن کلر کی شرٹ اور میرون کلر کی پینٹ پہن رکھی تھی۔

الماس بچوں کے کمرے میں جا رہی تھی۔ اسے دیکھ کر سکندر نے ذرا سی اونچی آواز میں کہا۔

"بلال۔ گھر میں پانی پوچھنے کا رواج ختم ہو گیا ہے کیا؟"

وہ کہہ بلال سے رہا تھا مگر سنا اِسے رہا تھا۔
الماس نے چپ چاپ پانی کا گلاس بھر کے اس کے آگے رکھا اور جانے کے لیے مڑی۔ سکندر نے پھر سے پہلے سے ذرا آہستہ آواز میں کہا۔

"بلال تمھیں بھوک نہی لگ رہی؟"

پوچھا بلال سے تھا مگر سنایا الماس کو ہی تھا۔

بلال چپ چاپ منہ نیچے کر کے ہنس رہا تھا۔ جیسے اسے سمجھ آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

الماس کو ہلکا سا غصہ آیا۔ اگر بھوگ لگی تھی یا کچھ چاہیے تھا تو بول دیتا۔ اس طرح اِن ڈاٸریکٹ بات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

"آپ کچھ کھاٸیں گے؟"

اس نے مڑ کر سنجیدہ تاثرات سمیت اس سے خود ہی پوچھ لیا۔

"جی۔ بہت شکریہ۔"

اس نے کچھ ایسے انداز میں کہا کہ وہ سمجھ نہ سکی اس نے ہاں کہا ہے یا ناں۔

وہ کشمکش میں کھڑی سوچتی رہی اس کے جواب کا کیا مطلب ہوا۔ اس کی ہمت نہی ہوٸ کہ دوبارہ پوچھے۔ کیا معلوم وہ اس بات پر بھی اسے کم عقل یا کچھ اور کہہ دے۔ شام کاوقت تھا اور رات کا کھانا سارا نے بنانا تھا۔ اور کچھ نظر نہی آیا تو اس نے فروٹ کاٹ کر اس کے آگے رکھ دیے۔ جلدی جلدی میں یہی ہو سکتا تھا۔

"بلال۔ اپنی ماما سے کہو مجھے کچھ بنا دیں۔ ان فروٹس سے تو میرا کچھ نہی ہونے والا۔"

اس نے نارمل والیوم میں کہا بلال کو تھا اور سنایا بھی بلال کو ہی تھا مگر وہ جو سارا کے پاس جا رہی تھی، ایک دم پلٹی تھی۔

"آپ سیدھے سیدھے مجھ سے بات کریں۔ کیا چاہیے آپ کو؟"

اس کے یوں دو ٹوک بولنے پر سکندر کچھ حیران اور تھوڑا محظوظ ہوا تھا۔ اسے امید نہی تھی کہ وہ یوں اس سے ڈاٸیرکٹ بات کرے گی۔ وہ جب بھی گھر پہ ہوتا تھا الماس اس کے سامنے نہی آتی تھی۔ اس نے آنکھیں ذرا سی چھوٹی کر کے الماس کو غور سے دیکھا۔ اس کے ماتھے پہ ہلکے سے بَل پڑے تھے۔ آواز نارمل ہونے کے باوجود ہلکی سی غصیلی لگ رہی تھی۔

"کچھ بھی۔ لیکن پکا ہوا۔ اَن کُکڈ نہی۔"

سکندر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

وہ مڑی اور کچن ایریا میں آ گٸ۔ وہ چکن پاستا بنانے لگی۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا۔ سارا بھی کمرے سے باہر آگٸ تھی اور سکندر کو دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوٸ۔

"تمھارے نہ تو آنے کا پتا چلتا ہے نہ جانے کا۔"

وہ بلال کے پاس ہی بیٹھ گٸ۔

"لاسٹ ٹاٸم بتا کر تو گیا تھا۔"

وہ ایک ہفتہ پہلے کی بات کر رہا تھا جب اسے جانا تھا اور اس نے ان کے لیے کیب منگوا دی تھی۔

"ہاں بس تبھی بتایا تھا۔ ورنہ تو یوں ہی چپ چاپ نکل جاتے ہو۔"

"اچھا۔۔۔۔ اسی لیے مجھ سے کوٸ کھانے پینے کا نہی پوچھتا۔ اب میں سمجھا۔"

اس نے مشکوک ہونے کے سے انداز میں کہا اور دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔

"اب ایسی بھی بات نہی ہے۔ کب تمھیں نہی کھانے پینے کا پوچھا میں نے؟"

سارا نے سمجھا وہ اسے کہہ رہا ہے۔ وہ تو الماس کو سنا رہا تھا جو سامنے کچن میں کھڑی پاستا بنا رہی تھی۔

"چھوڑیں بھابھی۔ جب سے آپ کے میکے والے آۓ ہیں آپ مجھے بھول گٸ ہیں۔"

وہ مصنوعی ناراضگی سے کہہ رہا تھا۔ الماس نے چکن پاستا پلیٹ میں نکالا او اس کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ رکھا کیا تھا پٹخا ہی تھا مگر ذرا آرام سے۔ یہ اس کے غصے کا اظہار تھا۔ ماتھے پر ہلکی سی تیوری چڑھی ہوٸ تھی۔ وہ اس کی شکایت لگا رہا تھا جبکہ وہ اس کے لیے اتنی محنت سے پاستا بنا کر لاٸ تھی۔

"لو۔ میرے میکے والوں سے خدمت کروا کر بھی ایسی ناشکری سکندر؟"

سارا نے اسے شرم دلانے کی کوشش کی تو وہ جھینپ کر پاستا کھانے لگا۔ الماس نے بھی دل ہی دل میں اسے ایک دو چار صلواتوں سے نوازا تھا۔ بدتمیز ۔ اکڑو۔ چالاک آدمی۔

سارا نے کچھ دیر بعد رات کا کھانا بھی بنا لیا۔ اس نے پلاٶ بنا تھا گوشت کا۔ سکندر نے یوں کھایا تھا جیسے کافی دنوں کا بھوکا ہو۔ حالانکہ ایک گھنٹہ پہلے ہی اس نے پاستا کی پوری بھری ہوٸ پلیٹ کھاٸ تھی۔

"خیریت ہے نا سکندر؟"

سارا نے اس کے انداز نوٹ کرتے ہوۓ تشویش سے پوچھا۔

"جی۔ کیوں کیا ہوا؟"

وہ کھاتے کھاتے لاپرواہی سے بولا۔

"کچھ نہی۔"

سارا نے بات ٹال دی۔ الماس البتہ باہر نہی آٸ۔ اس نے سردرد کا بہانہ بنا دیا اور اندر ہی لیٹی رہی۔ زینب اس کے لیے کھانا ڈال کر اندر کمرے میں دے آٸ۔

کھانے کے بعد سارا نے سکندر سے کہا۔

"سکندر مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"

"مجھے بھی آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔"

سکندر نے جواباً کہا تھا۔

"ٹھیک ہے تم لان میں چلو میں کچھ دیر میں آتی ہوں۔"

وہ سر ہلا کر باہر لان میں چلا گیا۔ رات کا وقت تھا اور لان کا بلب جل رہا تھا۔ وہ جھولے پر بیٹھ گیا جیسے الماس بیٹھی تھی۔ اس نے پہلے شاید ہی کبھی جھولا جھولتے ہوۓ اس طرح محسوس کیا ہو۔ انوکھا سا احساس تھا جیسے ساتھ کوٸ اور بھی ہو۔

تھوڑی دیر میں سارا برتن وغیرہ سمیٹ کر اور دھو کر باہر آٸ تھی۔ سکندر جب بھی گھر آتا تھا۔ الماس کا کرفیو شروع ہو جاتا تھا۔

"ہاں بولو کیا بات کرنی تھی؟"

سارا جھولے کے پاس کھڑی تھی۔ وہ بھی جھولے سے اٹھ گیا اور کھڑکی سے زرا دور ہو کر کھڑا ہوا۔ وہ نہی چاہتا تھا کوٸ بھی یہ بات سنے۔ الماس اس وقت بچوں کے کمرے میں تھی مگر پھر بھی۔

"پہلے آپ بتاٸیں۔ آپ کی بات زیادہ ضروری ہو گی۔"

"ہاں ہے تو۔ اچھا چلو میں ہی بتا دیتی ہوں۔"

سارا نے کہنا شروع کیا۔

"وہ اس دن ہم گۓ تھے نا مومل کی شادی میں؟ وہ مسز سمیع کی بیٹی۔ کونے والے گھر میں جو رہتی ہیں۔۔"

سارا نے اسے حوالہ دیا۔ اس نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلایا۔

"جب وہ انواٸٹ کرنے آٸ تھیں تو انھوں نے الماس کو دیکھا تھا۔ پھر شادی میں انھوں نے اپنے بھتیجے شاہ زیب سے مجھے ملوایا۔"

سکندر کو کچھ کچھ سمجھ آ گٸ تھی کہ سارا کیا کہنے والی ہے۔ شاہ زیب کا نام سُن کر اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی تھی۔

"وہ شاہ زیب کے لیے الماس کا ہاتھ مانگ رہی ہیں۔ تم بتاٶ میں کیا کروں؟

سکندر ایک دم سنجیدہ ہو گیا تھا۔ اس کے ماتھے کے ہلکے سے بَل ایک دم غاٸب ہوۓ۔ وہ بے دھیانی میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگا۔ تھوڑی دیر تک تو اسے سمجھ ہی نہی آیا کہ کیا بولے۔ الفاظ جیسے ایک دم سار کے سارے کہیں اُڑ گۓ، ختم ہو گۓ تھے۔ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھنے اور خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرنے کے بعد وہ بولا تھا۔

"آپ کیا چاہتی ہیں؟"

"میں چاہتی ہوں اس کی اچھی جگہ شادی ہو جاۓ مگر اس کے نکاح کا سوچتی ہوں تو عجیب عجیب سے وہم آنے لگتے ہیں۔ میں ملی ہوں شاہ زیب سے۔ اچھا لڑکا ہے۔ فیملی بھی اچھی ہے ایک ماں ہے اور ایک بہن۔ بہرین میں اچھی جاب ہے۔ اور مسز سمیع کافی عرصے سے ہماری نیبر بھی ہیں۔ اکثر ملنا ملانا ہوتا رہتا ہے۔ مجھے تو اس رشتے میں کوٸ خامی نظر نہی آتی اور پھر شاہ زیب کی نظروں میں مَیں نے الماس کے لیے پسندیدگی بھی دیکھی ہے۔ وہ اسے خوش رکھے گا۔ مگر ایک تو یہ مسٸلہ ہے کہ اس کا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ اگر میں انھیں بتاۓ بغیر اس کی شادی کر دیتی ہوں اور بعد میں یہ بات ان کو پتا چلی تو کیا ہو گا؟ پتا نہی وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک رکھیں پھر؟ اور اگر میں رشتہ ہونے سے پہلے انھیں بتاتی ہوں تو شاید وہ لوگ رشتے سے انکار ہی کر دیں۔ لیکن پھر سب کو پتا چل جاۓ گا اور میں نہی چاہتی الماس کو کسی بھی طرح سے ایسی کوٸ سچویشن فیس کرنی پڑے۔
پہلے ہی وہ اتنی مشکل سے اس ٹراما سے نکلی ہے۔ تمھاری باتیں بھی وہ بہت مشکل سے بھولی ہے۔ میں اسے صرف بہن کہتی ہی نہی، سمجھتی بھی ہوں۔"

سکندر کا دل ایک دم خالی ہوا۔ وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے وہ کسی دکان پر ایک چیز پسند کر چکا ہو مگر قیمت پوچھنے پر معلوم ہوا ہو کہ وہ پہلے ہی کسی خریدار کے نام ہو چکی ہو۔

"تو آپ کیا چاہ رہی ہیں؟"

ساری بات غور سے سننے کے بعد سکندر نے پھر سے سنجیدگی سے اپنا سوال دہرا دیا۔

"میں اسے ساری زندگی اپنے پاس بٹھا کر تو نہی رکھوں گی۔ کچھ عرصے تک ویسے بھی مجھے اس کی شادی تو کرنی پڑے گی۔ میں جانتی ہوں وہ ابھی شادی کے لے نہی مانے گی۔ مگر جب تک اس کی شادی نہی ہوگی، اپنی فیملی نہی ہو گی وہ اس ٹراما سے پوری طرح باہر نہی آۓ گی۔ پھر اگر اس کی شادی میں نے کرنی ہی ہے تو شاہ زیب کا پرپوزل بیسٹ ہے۔ لیکن پھر وہی اس کے نکاح والی بات۔ میں پریشان ہوں سمجھ نہی آ رہا کیا کروں؟ دو ہفتے ہو گٸے مجھ سے مسز سمیع جواب مانگ رہی ہیں۔ وہ باقاعدہ رشتہ لے کر آنا چاہتی ہیں۔"

سارا نے پریشانی سے سکندر کی طرف دیکھا۔

"آپ نے الماس سے بات کی؟ اس کا کیا جواب ہے؟"

سکندر نے کس قدر بے چین ہوتے دل کے ساتھ پوچھا تھا۔ وہ بہت زیادہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔

"نہی۔ ابھی نہی کی۔ پہلے میری تسلی تو ہو جاۓ۔ میں چاہ رہی تھی کہ تم سے پوچھ لوں۔ کیا بہتر رہے گا۔ ہاں کروں یا نہ کروں؟ ہاں کر بھی دوں تو نکاح والی بات بتاٶں یا نہی؟ اگر نہی بتاٸ تو بھی ساری عمر یہ تلوار میرے بھی اور الماس کے سر پہ بھی لٹکتی رہے گی کی اگر انھیں کبھی پتا چل گیا تو؟ پھر کیا ہوگا؟ میں چاہتی ہوں اس کا فیوچر سیکیور ہو۔ کم از یہ نہ ہو کہ ہر وقت اس کا گھر ٹوٹ جانے کا دھڑکا ہی لگا رہے۔۔ میں نہی چاہوں گی وہ پھر سے اسی تکلیف سے گزرے۔ بتاٶ کیا کروں؟"

سکندر نے گہرا سانس لیا۔ وہ نجانے گھاس کو گھورتے ہوۓ کیا سوچ رہا تھا۔ سارا نے اس کے چہرے کو دیکھا۔ وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ سارا کو یاد آیا اس نے بھی کوٸ ضروری بات کرنی تھی۔

"اچھا، تم بتاٶ کیا بات کرنی تھی تم نے؟"

سارا نے اسے یاد دلایا تو اس نے نظریں سارا کے چہرے پر ٹکا دیں۔ سارا محسوس کر رہی تھی کہ وہ کشمکش میں تھا کہ بولے یا نہی۔

"سکندر؟" سارا نے اسے پکارا۔

"بھابھی وہ۔۔۔۔دراصل۔۔۔میں۔۔۔۔۔رہنے دیں۔۔۔اتنی ضروری بات بھی نہی تھی"

اسے سمجھ نہی آیا کیسے بتاۓ تو سر جھٹک کر ٹال دیا۔

"اچھا تم شاہ زیب کے پرپوزل والی بات بھول جاٶ۔ تم بتاٶ کیا بات کرنا چاہتے تھے؟"

سارا نے اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔ سارا کو لگا وہ اس بات کو لے کر کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا ہے۔

"چھوڑیں بھابھی۔۔۔۔اتنی اہم نہی تھی"

اس نے ٹالنے کی کوشش کی۔ سارا جیسے سمجھ گٸ تھی کہ اب وہ کیوں ایسے کہہ رہا ہے۔

"تم نے تو کہا تھا ضروری بات ہے۔ اب ضروری نہی رہی؟؟ کیا بات ہے سکندر بتاٶ مجھے"

سارا نے سنجیدگی سے اصرار کرنے والے انداز میں کہا۔

"اصل میں۔۔۔۔۔" اس نے گہرا سانس لے کر سارا کو دیکھا، پھر ایک سانس میں ہی کہہ دیا۔

"میں الماس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"

۔۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

❤ براۓ مہربانی اگر آپ کو کہانی اچھی لگی ہو تو کمنٹ کر کے ضرور بتاٸیں اور ہر قسط کو ووٹ بھی کر دیں۔ نیچے دیے گۓ سٹار کو کلک کر کے۔
شکریہ ❤

Continue Reading

You'll Also Like

158K 10.2K 80
Sazaye ishq 1 ( completed✔️) Sazaye ishq 2 ( completed)✔️) Sazaye ishq ,jazaaye shabaab hasti asst Nigaar e yaar , figaar e jigro masti asst Visaal...
1.3K 78 12
Ishra remake
60.4K 3.2K 15
✔ COMPLETED Ranked #2 in Romance... 14/05/2017