Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum S...

By Tisha_Gohar

23.5K 1K 113

زندگی میں کبھی کبھی اندھیرے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان اندھیروں کا مقصد ہمیں وہ چاند دکھانا ہوتا ہے جو ہم دن کی روشن... More

Episode 1.
Episode 2.
Episode 3.
Episode 4.
Episode 5.
Episode 6.
Episode 7.
Episode 8.
Episode 9.
Episode 10.
Episode 11.
Episode 13.
Episode 14.
Episode 15.
Episode 16.
Episode 17.
Episode 18.
Episode 19.
Episode 20.
Episode 21.
Episode 22.
Episode 23.
Episode 24.
Episode 25.
Episode 26.
Episode 27.
Episode 28.
Episode 29.
Episode 30.
Episode 31.
Episode 32.
Episode 33.
Episode 34.
Episode 35.
Episode 36.
Episode 37.

Episode 12.

561 26 2
By Tisha_Gohar

# "محبت کچھ یوں ہے تم سے"
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 12

اگلی صبح سب دیر سے اٹھے تھے۔ ایک تو اتوار تھا اور رات مہندی سے دیر سے واپس آنے کی وجہ بھی تھی۔ ناشتہ بنانے سارا اور الماس کچن میں کھڑی تھیں۔ بچوں کے فرماٸشی پروگرام چل رہے تھے جو الماس اور سارا پورے کرنے میں لگی ہوٸ تھیں۔ کسی کو فلیکس کھانے تھے اور کسی کو میٹھے ٹوسٹ تو کسی نے چکن ویجی سینڈوچ کا آرڈر دے رکھا تھا۔ الماس نے strawberries کاٹ کر ایک پیالے میں whipped cream ڈالی اور سویٹ ڈش کے طور پر میز پر رکھ دی۔ بچوں کی بے حد بے تابی کے باوجود انھیں اس کو ناشتے کے بعد کھانے کی تلقین کی گٸ تھی اور وہ بار بار داٶ لگانے کی کوشش کرنے لگے تو الماس نے باٶل فریج میں رکھ دیا۔

میز پہ سارا الماس اور تینوں بچے بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر میں ناشتہ بن چکا تھا۔ سارا میز سجا رہی تھی جب سکندر باہر سے آتا دکھاٸ دیا۔ وہ ٹریک سوٹ میں ملبوس تھا اور جاگنگ کر کے آ رہا تھا۔ الماس کی نگاہ بے ساختہ اٹھی تھی اور سکندر کی آنکھوں نے الماس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔

ایک لمحے کا فسوں تھا۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں بس ایک سیکنڈ کے لیے۔ الماس کی پلکیں ایک دم بھاری ہوٸیں۔ اس نے تیزی سے نگاہیں جھکاٸ تھیں۔ اسے ایک دم گھبراہٹ ہونے لگی۔ دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہوٸ تھی۔ سکندر کے اپنی جانب گھورنے پر الماس کام کرتی جز بز ہو ری تھی۔ وہ ماتھے پہ بل ڈالے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتا رہا پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

کچھ دیر میں وہ نہا کر آ گیا تھا۔ بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ الماس نے اب اس کی طرف غلطی سے بھی نہی دیکھا تھا مگر اس کی خوشبو محسوس کی تھی۔ بہت ہلکی سی اور میٹھی سی خوشبو اس کے جسم سے پھوٹتی تھی جیسے فریش مِنٹ یا لیموں۔

اس نے آمنہ کے برابر والی کرسی پر بیٹھتے بالوں کو ہاتھوں سے جھٹکا دیا تو کٸ بوندیں آمنہ پر گری تھیں۔

"چاچو آپ نے مجھے گیلا کر دیا"

آمنہ نے منہ پھلایا تو سکندر ہنسنے لگا۔ وہ اس وقت بہت اچھے موڈ میں لگ رہا تھا۔

سارا ساتھ ساتھ سکندر سے بات کر رہی تھی۔ اور سکندر بات کرتے کرتے بچوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔ کبھی بچوں کی ہنسنے کی آواز آتی کبھی کھلکھلانے کی۔ آمنہ کو وہ گدگدی کر رہا تھا۔

"چاچو نہی کریں نا۔" آمنہ کھلکھلاتے ہوۓ سکندر سے بولی تھی۔

"چاچو آج آپ فری ہیں نا؟"

بلال کو یاد آ گیا۔

"شام تک فری ہوں۔ رات کا کچھ کہہ نہی سکتا۔"

سکندر نے جواب دیا۔ الماس نے پراٹھا اس کے سامنے رکھا۔ پراٹھا صرف سکندر اور سارا کھاتے تھے۔ الماس کبھی کھاتی تھی کبھی نہی۔

"بھاٸ کے آنے کا کیا ارادہ ہے؟"

اب سکندر ناشتے کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ وہ سارا سے پوچھ رہا تھا۔ ساتھ پراٹھے سے انصاف کر رہا تھا۔ سارا نے اسے آملیٹ بنا کر دیا تھا۔

"میری بات ہوٸ تھی۔ کہہ رہے تھے دو مہینے تک آ رہے ہیں۔"

سارا نے بچوں کے آگے باری باری ان کے فلیکس اور سینڈوچز رکھے۔ بلال اور زینب تو شروع ہو گۓ مگر آمنہ یونہی بیٹھی رہی۔

"کیا ہوا آمنہ کھا کیوں نہی رہی ہو؟"

سارا نے اسے یونہی بیٹھے دیکھا تو اس سے بولی۔

"آپی کھلاٸیں گی۔" وہ اور بچی بن گٸ۔

"آپ بڑی ہو گٸ ہو۔
you should eat yourself"

سکندر نے اسے کہا تو وہ منہ بنا کر بولی۔

"I like it when she feed me."

(مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے کھلاتی ہیں۔)

الماس چپ چاپ آ کر آمنہ کے برابر بیٹھ گٸ تھی۔ اب الماس کے ساتھ آمنہ تھی اور آمنہ سے اگلی سیٹ خالی تھی اور اس سے اگلی پر سکندر بیٹھا تھا۔ الماس آمنہ کو کھلانے لگی ساتھ خود بھی سلاٸس پر مکھن لگا کر کھانے لگی تھی۔

"بھابھی ایک پراٹھا اور ملے گا؟"

وہ الماس سے ڈاٸیرکٹ مخاطب نہی ہوا۔ اس کی بات پر سارا نے الماس کو دیکھا تو وہ بغیر کچھ کہے پھر سے اٹھ کر چولہے کے پاس چلی گٸ۔ سکندر نے نوٹ کیا تھا وہ اس کی موجودگی میں بہت کم بولتی تھی یا بولتی ہی نہی تھی۔ شاید ابھی تک ناراض ہی تھی۔

ایک اور پراٹھا اس کے سامنے رکھ کر وہ واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گٸ اور اپنا ناشتہ کرنے لگی۔

ناشتے کے بعد الماس نے اسٹرابیریز ور وپڈ کریم والاپیالہ نکال کر۔میز پر رکھا۔ بچوں نے منٹوں میں صاف کر دیا۔دیا الماس انھیں دیکھ کر مسکراٸ جب وہ تینوں آپس میں اس کے لیے لڑ رہے تھے۔

سکندر نے بہت غور سے یہ منظر دیکھا تھا۔

ناشتے سے فارغ ہو کر وہ اور سارا برتن سمیٹنے لگیں۔ سارا نے تھوڑا سا گھر سمیٹا اور وہ برتن دھونے لگی۔ سکندر ناشتے کے بعد اٹھ کر کہیں باہر چلا گیا تھا۔ تقریناً ایک گھنٹے بعد وہ آیا تھا۔

بلال سے اس نے تیار ہونے کو کہا۔ وہ انھیں گھمانے لے جا رہا تھا۔ بچے خوش ہو گۓ۔ سارا نے الماس سے کہا کہ وہ بھی ساتھ چلے۔ پہلے تو وہ مانی نہی مگر آمنہ ضد کرنے لگی۔

”اتنا مزہ آۓ گا۔ آپی چلیں نا پلیز۔ آپ نہی جاٸیں گی تو میں بھی نہی جاٶں گی اور آپ سے ناراض ہو جاٶں گی میں جیسے آپ چاچو سے ہوٸ تھیں۔“

آمنہ کی یہ گل افشانی سب کے درمیان ہوٸ تھی۔ صد شکر کہ سب نے نہی سُنا مگر سکندر کے کان کھڑے ہوۓ تھے۔ اس کے کان میں جو آلہ لگا تھا اس سے آوازیں یوں بھی عام کان کے مقابلے میںزیادہ تیز سُناٸ دیتی تھیں۔

اس سے پہلے کہ آمنہ کوٸ اوربات اُگلتی، مجبوراً الماس کو ماننا پڑا۔

اب کی بار بلال اور آمنہ آگے بیٹھے تھے اور الماس سارا اور زینب پیچھے۔

"جلدی واپس آ جاٸیں گے۔ شام کو شادی میں جانا ہے۔"

سارا نے سب کو بتایا تھا۔ بچے اسی میں خوش تھے کہ وہ گھومنے جا رہے ہیں۔ حسن زیادہ تر یہاں نہی ہوتا تھا اور سکندر بھی کم کم آتا تھا۔ اس لیے وہ کبھی کبھار جب وہ بچوں کو گھمانے لے جاتا تھا تو بچے بہت خوش ہوتے تھے۔

راستے میں بچے کافی ادھم مچاتے رہے تھے اور سکندر سے باتیں بھی کرتے رہے۔ الماس خاموش بیٹھی کھڑکی سے باہر ہی دیکھتی رہی۔

اس نے گاڑی ایک بڑے سے سینیما کی پارکنگ میں روکی اور سارا سے کہا وہ بچوں کو لے کر جاۓ وہ ٹکٹس لے کر آتا ہے۔

سارا الماس اور تینوں بچے اس کا انتظار کرنے لگے اور کچھ منٹوں میں وہ مووی کے ٹکٹس لے کر آ بھی گیا۔ مووی شروع ہونے میں تھوڑا ہی ٹاٸم تھا اس لیے سب اندر چلے گۓ۔

اس نے آمنہ کو کاٹن کینڈی لے کر دی اور باقی سب کے لیے پپ کارنز۔ اس نے ایک ڈبہ بلال اور زینب کو پکڑایا اور دوسرا سارا کے ہاتھ میں۔ کولڈ ڈدنکس اس نے سب کو دی تھیں سواۓ الماس کے۔ سب سیٹوں پر بیٹھ گۓ تھے اور الماس اب تک کھڑی تھی۔ کسی نے الماس کو بیٹھنے کا بھی نہی کہا۔ الماس کو لگ رہا تھا وہ اسے جان بوجھ کر نظرانداز کر رہا ہے۔ پتا نہی کس بات کا بدلہ لےرہا تھا۔

قطار میں باہر کی جانب سب سے پہلی سیٹ پر سارا بیٹھی تھی اور اس کے ساتھ بلال اور اس کے برابر زینب اور پھر آمنہ۔ اس سے اگلی سیٹ چھوڑ کر سکندر خود ہی بیٹھ گیا۔ مووی شروع ہونے لگی تھی اس لیے سب جلدی جلدی بیٹھ گۓ۔ وہ پہلی مرتبہ سینیما آٸ تھی اسی لیے کچھ کشمکش کاشکار تھی۔ وہ ہنوز اسی طرح کھڑی رہی تو پیچھے والوں نے شور ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ ان کا ویو روک رہی ہے۔ چاروناچار اسے سکندر اور آمنہ کے درمیان والی سیٹ پر بیٹھنا پڑا۔

اسے سکندر پہ غصہ آنے لگا تھا۔ اس نے جان بوکھ کر سب کو آگے کر دیا اور الماس کو جگہ نہی دی تاکہ وہ آخر میں بیٹھے۔ یہ الماس کا خیال تھا۔ سکندر نے ایسا کچھ نہی سوچا تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ رش کی وجہ سے پیچھے رہ گٸ تھی اور اب سکندر کے برابر والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔

مووی شروع ہو گٸ تھی اور اب نے توجہ سکرین کی طرف مبذول کر لی۔ سکرین پر
"The Lion King"
شروع ہو چکی تھی اور بچے بڑے شوق سے دیکھنےمیں مگن تھے۔ سکندر نے اپنے پاپ کارن کا ڈبہ ان دونوں کے درمیان رکھاتا کہ وہ بھی کھا سکے۔ اسے غصہ تھا سکندر پہ نجانے س بات کا، اس نے پاپ کارن  کو ہاتھ بھی نہی لگایا۔ دل میں بار بار خیال آ رہا تھا کہ تھوڑے سے ہی لے لے مگر لحاظ رکھا۔ سکندر اور آمنہ کے پاپ کارن چٹخنے کی آواز اسے فلم پر دھیان دینے سے روک رہی تھی اور پاپ کارن کی طرف اسے ماٸلکر ماٸل کررہی تھی۔ اوپر سے پاپ کارن کی خوشبو، الماس کو شروع سے ہی پاپ کارنز پسند تھے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ ان کی دیوانی تھی۔

جب الماس کا صبر جواب جواب دے گیا تو اس نے اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے سکندر کو غصے سے دیکھا لیکن سکندر کی کرسی خالی تھی۔ وہ کس وقت نکلا پتا ہی نہی چلا کسی کو۔ درمیان درمیان میں الماس کو بار بار اس کی خالی کرسی نظر آتی رہی۔ سیٹ پر پاپ کارنز ابھی بھی درمیان میں پڑے تھے جیسے وہ جلدی میں نکلا ہو۔
جب کافی دیر تک وہ نہی آیا تو الماس کو لگا کہ اب واپس نہی آنا اس نے۔ الماس نے پاپ کارنز اٹھا لیے اور اپنی گود میں رکھ لیے۔ اس کا دھیان اب پوری طرح مووی میں تھا۔

مووی ختم ہو گٸ تو الماس نے گہرا سانس لے کر گردن پوری گھماٸ مگر ایک دم ٹھٹھک کر رکی۔ وہ کسی جن کی طرح نمودار ہوا تھا۔

یہ کب آیا؟ پہلا سوال الماس کے ذہن میں یہی آیا تھا۔

”آٸ تھنک آپ کو مووی بہت پسند آٸ ہے؟ کافی انجواۓ کیا آپ نے۔۔۔۔“

وہ سنجیدہ تھا اور ماتھے پہ ہلکے سے بل ڈالے جانچتی نگاہوں سے الماس کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اسے اس کا سوال سمجھ نہی آیا۔

”جی۔ اچھی تھی۔۔“

اس نے مختصر کہا اور چہرہ سامنے موڑ لیا۔

”پتا چل گیا ہے مجھے، جس طرح آپ میرے پاپ کارنز کھاتے ہوۓ مووی دیکھ رہی تھیں، ارد گرد کا ہوش بھی نہی تھا آپ کو“

الماس کو لگا سکندر نے طنز کیا ہے۔ کتنا بد تمیز انسان تھا۔ الماس کو سُبکی محسوس ہوٸ۔ایک پاپ کارنز کے پیچھے اسے سُنا گیا تھا۔ وہ اس آدمی سے بات بھی نہی کرنا چاہتی تھی۔ الماس نے سختی سے اپنے ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست کیے اور اپنا والٹ کھول کر کچھ پیسے نکالے اور سکندر کے ہاتھ پہ دھرے۔

”ضاٸع ہو رہے تھے اس لیے کھا لیے میں نے“

وہ اٹھنے لگی تو پیچھے سے سکندر کی آواز اس اسکے کانوں میں پڑی۔

”یہ والا فلیور مہنگا تھا“

الماس نے غصے سے اپنا والٹ اس کی طرف اچھال دیا۔

”یہ لیں۔۔۔جتنے چاہیے نکال لیں۔“

وہ کہہ کر رکی نہی اور سارا سارااور باقیوں کا انتظار کیےبغیر باہر نکل آٸ۔ اس دن تو جوتوں کے پیسے نہی دینے دیے اور آج پاپ کارن کے مابگتے ہوۓ شرم بھی نہی آٸ۔ اماس کو اندر ہی اندر سکندر پہ اور غصہ آنے لگا۔ کتنا ڈبل فیس انسان تھا۔ کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔

سارا نے اسے یوں منہ پھلاۓ دیکھا تو پوچھ لیا۔

”کیا ہوا الماس؟ کچھ ہوا ہے کیا؟“

وہ اسکے لیے فکر مند تھی۔ بچوں کے پیچھے سےسکندر کو نمودار ہوتے دیکھ کر الماس کو اور غصہ آ گیا تھا۔

”نہی۔ ایسی تو کوٸ بات نہی ہے“

الماس نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ نفی میں سر ہلایا۔ سکندر اس کے قریب آیا اور اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا۔ وہ اس کا والٹ اسے واپس کر رہا تھا۔

”یہ آپ اندر گرا کر آ گٸیں۔ اپنی چیزوں کا دھیان رکھا کریں۔“

سنجیدگی سے کہہ کر وہ اسے والٹ پکڑاتا باہر نکل گیا۔ پہلے اس کے جھوٹ پر الماس کا منہ حیرت سے کھلا پھر سختی سے ہونٹ اور مُٹھیاں بھینچ لیں۔

”او ہو ۔۔اس لیے پریشان تھی تم۔ چلو شکر ہے اب مل تو گیا۔ چلو آ جاٶ باہر۔“

سارا کو لگا وہ اس وجہ سے پریشان تھی۔ اس نے نےالماس اور بچوں کو باہرچلنے کا کہا اور پھر وہ سب گاڑی میں بیٹھ گۓ۔

سکندر کنکھیوں سے شیشے میں الماس کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا پھولا ہوا غصیلا چہرہ اسے نظر آ رہا تھا۔ وہ اب بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ گھر کے اندر جب گاڑی رکی تو الماس نے زور سے دروزہ بند کیا۔

اسے معلوم تھا وہ غصے میں ہے مگر سکندر کا غصہ وہ اس کی گاڑی پر اتار رہی تھی۔ سکندر نے اسے کچھ نہی کہا تھا۔ اس کی نگاہوں نے الماس کا دور تک پیچھا کیا تھا۔

سب کے اندر جانے کے بعد وہ لان میں لگے سوٸینگ سیٹ  پر آکر بیٹھا۔ اس کے لبوں پر بے ایک دم مسکراہٹ عیاں ہو گٸ جو اس نےکب سے روک کر رکھی تھی۔

۔۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

❤ براۓ مہربانی اگر آپ کو کہانی اچھی لگی ہو تو کمنٹ کر کے ضرور بتاٸیں اور ہر قسط کو ووٹ بھی کر دیں۔ نیچے دیے گۓ سٹار کو کلک کر کے۔
شکریہ ❤

Continue Reading

You'll Also Like

18.2K 1.6K 53
Abhi to ishq main aisa bhi haal hona hay K ashq rokna tum se mohaal hona hay Har aik lab pe hay meri wafa k afsanay Tere sitaam ko abhi lazawal hona...
176K 10K 9
Hamdaani Heirs #3 The story of Furqaan and Aamaal. How fate brings them together in bleak circumstances. The storms they brave. How a lover's wait i...
88.9K 4.2K 74
Aab e hayat in roman Urdu. All rights are reserved to the authors. I am just trying to make the novels reach the audience who'll love to read this no...
670K 15.1K 26
بقلم / الشيماء محمد ( شيموووو)