Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum S...

By Tisha_Gohar

23.5K 1K 113

زندگی میں کبھی کبھی اندھیرے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان اندھیروں کا مقصد ہمیں وہ چاند دکھانا ہوتا ہے جو ہم دن کی روشن... More

Episode 2.
Episode 3.
Episode 4.
Episode 5.
Episode 6.
Episode 7.
Episode 8.
Episode 9.
Episode 10.
Episode 11.
Episode 12.
Episode 13.
Episode 14.
Episode 15.
Episode 16.
Episode 17.
Episode 18.
Episode 19.
Episode 20.
Episode 21.
Episode 22.
Episode 23.
Episode 24.
Episode 25.
Episode 26.
Episode 27.
Episode 28.
Episode 29.
Episode 30.
Episode 31.
Episode 32.
Episode 33.
Episode 34.
Episode 35.
Episode 36.
Episode 37.

Episode 1.

1.9K 45 20
By Tisha_Gohar


# "محبت کچھ یوں ہے تم سے"
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 1

بے سروسامانی کی حالت میں وہ ریلوے اسٹیشن پر چلتی جا رہی تھی۔ بہت سی نظریں اس کا پیچھا بھی کر رہی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ اب اس کی زندگی کا ایک خوشگوار آغاز ہونے والا تھا مگر یہ خیال، محض خیال ہی رہ گیا۔ اس کا شوہر، اس کا محافظ اسے یوں بیچ راستے چھوڑ گیا بِنا کوئی اَتا پتا دیے۔ وہ اسے ڈھونڈتی بھی تو کیسے؟ وہ ابھی صرف ایک دن کی دلہن تھی۔ ابھی تو اس کے شوہر نے اس کے ساتھ دو گھڑی بات بھی نہ کی تھی۔ ابھی تو اسے منہ دکھائی تک نہ دی تھی۔ اور وہ اسے اس شادی کا پہلا اور آخری تحفہ دے گیا تھا۔ اس کے پاس کچھ نہیں تھا سوائے ایک چھوٹے سے کلَچ کے، جو اس کے عروسی جوڑے کے ساتھ کا تھا۔ اس میں ایک کاغذ تھا جس پر طلاق اور اس کے شوہر کے دستخط تھے۔ اب اس کے دستخط کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑنا تھا۔ مگر جو چیز اسے سنبھال کر رکھنی تھی وہ یہ طلاق نامہ تھا جو اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے تو ابھی تک اپنے گھر میں قدم بھی نہ رکھا تھا، جو اس کا اور اس کے شوہر کا گھر تھا، جس میں وہ اس کے ساتھ رہنے جا رہی تھی۔ زندگی خوشگوار سے ایک دم اندھیر کیسے ہو گئی تھی؟ ریلوے اسٹیشن پر بہت سے لوگوں نے سرخ لباس پہنے، زیورات کے نام پر بس ایک ٹیکا ماتھے پہ سجائے اس بوکھلائی سی لڑکی کو دیکھا جو شاید کچھ ڈھونڈ رہی تھی یا کسی سے چھپ رہی تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شادی کے جوڑے میں اپنے گھر سے بھاگی ہے، اور جس کے لیے بھاگی ہے وہ ابھی تک نہیں آیا۔ ہر ایک نے اپنا اپنا اندازہ لگانا ضروری سمجھا تھا۔ کئی ایک لڑکوں نے آوازیں کَسنی شروع کر دی تھیں۔ کچھ نے اسے چھوا بھی تھا اور چھوتے چھوتے گزر گئے۔ وہ بچتی بچاتی اس بھیڑ سے نکلتی ریلوے اسٹیشن سے باہر آ گئی مگر اس کا یہ روپ اسے بھیڑ میں بھی نمایاں کر رہا تھا۔ وہ رو دینے کو تھی مگر رونا نہیں چاہتی تھی۔ آنسو ضبط کیے وہ اب بازار میں سے گزر رہی تھی۔ نجانے کس چیز کی تلاش تھی۔ کوئی سمت بھی تو متعین نہیں تھی کہ وہ کہاں جاتی۔ بس جدھر کو قدم اٹھتے گئے، چلتی رہی۔ اسے کس سے گلہ تھا، قسمت سے؟ یا پھر خود سے؟ پہلے ماں باپ نہیں تھے۔ پھر منہ بولے ہی سہی، ماں باپ ملے تو تھے۔ مگر ان کی زندگی پر بھی اس کا سایہ پڑنے لگا۔ انھیں لگا اس کے رہتے ان کی اولاد کی شادی نہ ہوسکے گی۔ جو بھی رشتہ آتا وہ اسے پسند کر جاتا تھا۔ انھوں نے اسے سامنے لانا ہی چھوڑ ریا۔ اور پھر ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ ان کی بیٹی کی شادی بھی طے ہو گئی مگر عین نکاح کے وقت یہ سامنے آ گئی اور لڑکا اڑ گیا کہ اسی سے شادی کرے گا۔ انھوں نے اسے دھکے دے کر تو نہیں نکالا مگر اسے چپ چاپ جو پہلا رشتہ ملا تھا، اس سے نکاح کر کے سادگی سے رخصت کر دیا تھا۔ اور خود وہ لوگ ایران چلے گئے۔ اس سے کسی بھی قسم کا تعلق نہ رکھنے کے لیے رابطہ بھی نہ رکھا تھا۔ وہ اسی میں خوش تھی کی چلو اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزارے گی مگر وہ ایک ہی دن میں پھر سے بالکل بے آسرا ہو گئی تھی۔ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور خود نجانے کہاں اتر گیا تھا۔ وہ بھرے بازار میں سے گزر رہی تھی۔ کتنی دیر سے وہ یہاں گھوم رہی تھی اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ اندازہ تھا تو بس اتنا کہ اندھیرا پھیل چکا ہے۔ سوچوں کا ایک طوفان تھا جو اسے گرانے کے درپے تھا۔ چلتے چلتے وہ کسی سے ٹکرا گئی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک مرد تھا جس کہ چہرے پہ خباثت کے آثار تھے۔ وہ ٹکراتے ٹکراتے گِرنے لگی تو اس نے اپنی آہنی گرفت میں لے لیا۔ اس شخص کے منہ سے سگریٹ کی باس آ رہی تھی جیسے بہت زیادہ سگریٹ نوش ہو۔ شکل سے جواری بھی لگ رہا تھا۔
"اے چڑیا! کہاں کی تیاری ہے؟" وہ شخص اس کا ہاتھ سختی سے پکڑے اسے اپنے ساتھ لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے زور سے چلانا شروع کر دیا مگر نہ تو کوئی اس کی مدد کو آیا تھا اور نہ ہی اُس نے اِسے چھوڑا۔
"اے چپ کر! عزت کا خیال تھا تو گھر سے کیوں بھاگی تھی؟" اس آدمی نے جیسے اسے دھمکانے کی کوشش کی اور غرا کر کہا۔
"مجھے جانے دو! میں بے قصور ہوں, میں نے کچھ نہیں کیا۔ چھوڑو مجھے۔۔۔" وہ اپنا پورا زور لگا رہی تھی مگر اس خبیث آدمی کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے اس کے ہاتھ پہ کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ اسے گھن آ رہی تھی اس آدمی سے۔ اس کے کاٹنے سے اس آدمی کی گرفت اس پر ڈھیلی پڑی تو اس نے بھاگنا چاہا مگر وہ زیادہ شاطر تھا۔ اسے بالوں سے پکڑ کر کھینچا اور زور دار تھپڑ اس کے گال پر مارا۔ اس کے ہونٹ کا کنارہ پھٹ گیا۔
"بے غیرت! جب گھر سے بھاگی تھی تب عزت یاد نہیں آئی؟ اب عزت کے لالے پڑے ہیں۔ گھر سے نکلنے والی عورت کو ہمارے معاشرے میں طوائف ہی سمجھا جاتا ہے اور تو بھی وہی ہے۔ چل۔۔۔"
وہ اسے بالوں سے پکڑ کر کھینچتا ہوا آگے لے جا رہا تھا۔ وہ مزاحمت بھی کر رہی تھی مگر بے سود۔ اسے پتا بھی نہیں چلا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ تکلیف کی شدت تھی یا بے عزتی کا احساس؟ وہ سمجھ نہیں سکی، مگر وہ اب بھی خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ سارا اور اس کی نینی بازار سے کچھ خریداری کرنے آئی تھیں۔ انھیں گھر اور بچوں کے لیے کچھ چیزیں لینی تھیں۔ وہ دونوں گھر پہ تینوں بچوں کو اکیلا چھوڑ کر آئی تھیں اور جلدی جلدی خریداری کر رہی تھیں۔ کچھ راشن لینا تھا اور کچھ گھر کے استعمال کی چیزیں۔ چلتے چلتے انھیں ایک دکان میں لگی بیڈ شیٹ پسند آ گئی۔ سارا نے وہ خرید لی اور خرید کر دکان سے باہر نکل رہی تھی جب ایک طرف سے کسی لڑکی کی چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ سارا تقریباً بھاگتی ہوئی اس تک پہنچی تھی۔ ایک آدمی، دلہن کا جوڑا پہنے اس لڑکی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ لڑکی "چھوڑو مجھے۔۔۔۔کوئی ہے۔۔۔۔بچاؤ مجھے۔۔۔" چلّا رہی تھی اور رو بھی رہی تھی۔ لوگ دیکھ رہے تھے مگر کسی نے آگے بڑھ کر اسے چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ سارا تیز تیز قدموں سے اس کے پاس گئی اور ایک جھٹکے سے اس آدمی کو روکا تھا۔
"ہاتھ چھوڑو اس کا۔" کافی رعب سے کہا تھا۔ مگر وہ شاید بہت ڈھیٹ تھا یا عادی مجرم۔ اسے گھور کر دیکھنے لگا۔
"تم بیچ میں نہ پڑو۔ پرائی لڑکی ہے تمھارا اس سے کوئی واسطہ نہیں!" اس نے سارا سے کہا اور پھر سے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آگے بڑھا۔
"پلیز میری مدد کریں۔ یہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہا ہے۔" لڑکی نے اپنے بال چھڑانے کی کوشش کرتے کرتے ہچکی لے کر کہا تھا۔
"رک جاؤ! چھوڑ دو اسے ورنہ بہت پچھتاؤ گے۔ تم مجھے جانتے نہیں ہو۔" اس کی دھمکی پر وہ مڑا تھا مگر اس نے اس لڑکی کو نہیں چھوڑا تھا۔
"کون ہو تم؟ وزیرِاعظم کی بیوی ہو یا کہیں کی تھانیدارنی ہو؟" سارا دو قدم آگے آئی اور اس آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
"سکندر شیراز خان کی بہن ہوں میں۔" اس کا اتنا کہنا تھا کہ اس آدمی کی گرفت ایک دم ڈھیلی ہوئی اور اس کی آنکھوں میں ایک واضع خوف در آیا۔ وہ لڑکی ہاتھ اور بال چھڑا کر ایک دم سارا کے پیچھے آکر چھپ گئی تھی جیسے سارا اب اس کو بچا لے گی۔
"چھوڑ رہا ہوں۔ ویسے اس طرح کی لڑکیاں بدنامی کی کالک ہی لاتی ہیں۔ گھر سے بھاگی ہے یہ۔" اس نے جیسے سارا کو وارن کرنے کی کوشش کی تھی۔
"یہ تمھارا مسئلہ نہیں ہے۔ اس طرح راہ چلتے کسی بھی لڑکی کو اپنے ساتھ گھسیٹو گے تو تمھیں کیا لگتا ہے ایسے ہی بچ جاؤ گے؟ میں سکندر شیراز خان کی بہن ہوں۔ تمھارا تو میں وہ حشر کر واؤں گی کہ یاد رکھو گے۔" سارا نے اسے انگلی اٹھا کے وارننگ دی تھی۔ وہ جیسے آپے سے باہر ہو گیا۔
"اچھا؟ میں کیسے مان لوں کہ تم واقعی سکندر شیراز خان کی بہن ہو؟ کیا پتا تم مجھے بس ڈرا رہی ہو؟" وہ خباثت سے ہنستا سارا کی طرف بڑھا جیسے وہ پیچھے کو ہٹے مگر وہ ڈٹ کر کھڑی تھی۔ اس کے قریب آنے پر بھی وہ نہ ڈری اور نہ پیچھے ہوئی۔ بلکہ انگلی سے اس کو مذید آگے بڑھنے سے روکا۔
"اگر واقعی ایسا ہے جو تم کہہ رہے ہو تو ہاتھ لگا کے دکھاؤ اس لڑکی کو۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اگر تمھارا پوسٹ مارٹم نہ ہوا تو آکر مجھے بھی ساتھ لے جانا۔" سارا نے اسے یوں دھمکایا تھا کہ وہ آگے آنے کی ہمت نہ کر سکا۔
"جاؤ جاؤ! میں تم جیسی عورتوں کے منہ نہیں لگتا۔" وہ ہاتھ جھلاتا وہاں سے چلا گیا۔ سارا نے اپنے پیچھے مڑ کر اس ڈری سہمی سی لڑکی کو دیکھا جو تیئس چوبیس سال کے لگ بھگ دلہن بنی اور خوفزدہ سی لگ رہی تھی۔
"تم واقعی گھر سے بھاگی ہو؟" سارا نے نرمی سے پوچھا تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ سارا نے نینی کو اشارہ کیا اور کچھ شاپر انھیں پکڑا دیے۔
"آپ یہ لے کر گھر جائیں، میں آرہی ہوں۔" بازار ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔
"تم کہاں جا رہی تھی؟" نینی کو بھیج کر سارا نے اس لڑکی سے پوچھا۔
"میں؟" اسے ایکدم یاد آیا کہ وہ کہاں جا رہی تھی۔ اس کے پاس تو کوئی جگہ نہیں تھی۔
"تم شادی سے بھاگی ہو؟" سارا اسے ایک طرف لے آئی تھی۔ بازار میں بہت سے لوگ انھیں دیکھ رہے تھے۔
"نہیں!" اس سے مزید بولا نہیں گیا۔ آنسووں کا گولا حلق میں اٹک گیا تھا۔
"کہاں جانا ہے تمھیں؟ میں چھوڑ آتی ہوں۔" سارا نے نرمی سے اسے تسلی دیتی ہوئے کہا۔
"میرا کوئی گھر نہیں ہے!" وہ رونے لگی۔ کس مشکل سے وہ یہ بات کہہ پائی تھی، وہی جانتی تھی۔ سارا نے اس کے ویران چہرے اور پریشان حالی کو بہت غور سے دیکھا اور چند لمحے سوچ کر ایک فیصلہ کیا۔
"اچھا! پھر تم میرے ساتھ چلو۔ ابھی ویسے بھی تم کہیں جا نہیں سکتی۔ یہ جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔"
اسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے۔ وہ ضرورت مند تھی اور کسی پہ اس طرح اعتبار بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ سارا کو جانتی تو نہیں تھی نا۔ مگر پھر کوئی ٹھکانہ نہ ہونے کا سوچ کر وہ سارا کے ساتھ چل پڑی۔ وہ بازار سے گزر کر اب ایک کشادہ سڑک پر چل رہی تھیں۔ سڑک کے ارد گرد سبزہ تھا اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گھر بنے تھے۔ پرُسکون ماحول تھا۔ اسی سڑک پہ چلتے چلتے، قطار میں کچھ آگے وہ لکڑی کا ایک درمیانہ سا گیٹ عبور کر کے ان کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔ اندر ایک طرف کو ڈرائیو وے تھا اور دوسری طرف لان تھا جس میں سفید رنگ کا زنجیر سے بندھا کرسی نما جھولا بھی لگا تھا۔ پاس ہی کچھ فاصلے پر ایک میز اور تین کرسیاں تھیں۔ وہ راستے سے چلتے اندرونی دروازے سے اندر داخل ہوئی تو دائیں طرف کو ایک کمرہ بنا تھا جس کی ایک کھڑکی باہر لان میں کھلتی تھی۔ وہ پہلا کمرہ تھا۔ اس کے بعد ایک اور کمرہ تھا جو پہلے کمرے کے ساتھ ہی تھا اور اس کی کھڑکی باہر کو کھلتی تھی۔ بائیں جانب کو کمروں کے آگے کھلا سا لاؤنج تھا جس کے درمیان میں ڈائننگ ٹیبل اور آٹھ کرسیاں رکھی تھیں اور اس کے سامنے اوپن کچن تھا۔ کچن کے آگے کی جانب ایک اور کمرہ تھا۔ ایک کمرہ پہلے کمرے کے بالکل سامنے تھا۔ وہ یقیناً ڈرائنگ روم تھا۔ سارا نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اسے پانی لا کر دیا۔ پانی پی کر کچھ دیر تک اس نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ تھوڑی دیر میں نینی چائے اور کچھ دوسری چیزیں بھی رکھ کر ساتھ میں لے آئیں۔ وہ کل سے بھوکی تھی۔ اس کے شوہر نے بھی اسے کچھ نہیں کھلایا تھا۔ پورا دن سفر میں رہی تھی اور اب شام ہونے کو تھی۔ تھوڑا سا کھا کر اس نے چائے پی تھی۔ اب وہ کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ سارا نے اس سے پوچھا تو اس نے مختصر بتایا کہ وہ ایک فیملی کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے ماں باپ نہیں تھے۔ اور جن کو وہ ماں باپ سمجھتی تھی انھوں نے اس کی شادی ایک فارن نیشنل لڑکے سے کر کے اپنی جان چھڑائی تھی۔ مگر وہ لڑکا اس کا سامان اور ساری چیزیں لے کر نجانے کہاں اتر گیا اور وہ جب سوتے سے اٹھی تو اس کے کلچ میں بس اس کا آئی ڈی کارڈ اور طلاق نامہ تھا۔ وہ اس کے پرس میں موجود پیسے بھی لے گیا تھا۔ سارا اس کی بات سن کر افسوس کرنے لگی تھی۔ اس کے بتانے پر کہ اب اس کا اپنے ماں باپ سے بھی رابطہ نہیں، سارا نے اسے اپنے ساتھ ہی رہنے کا کہہ دیا۔ وہ حیران ہوتی، سارا کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ اسے لگا تھا ابھی زندگی اس پر اتنی تنگ نہیں ہوئی ہے۔ سارا کی عادت اسے اچھی لگی تھی۔ نہ بھی لگتی تب بھی وہ ان کے ساتھ رہنے پہ مجبور تھی۔ پہلے سوچا تھا کسی ہوسٹل یا دارالامان میں رہ لے گی مگر اسٹیشن پر ہونے والے واقعے کے بعد سے وہ اندر سے ڈر گئی تھی۔ اس کے پاس نہ تو پیسے تھے نہ ہی کچھ اور۔ وہ ابھی تک دلہن کے ہی لباس میں بیٹھی تھی۔ سارا نے اسے اپنا ایک سادہ سا سوٹ لا دیا تھا کہ وہ اسے رات کو پہن کر سو جائے۔ اس کے پاس کپڑے تک نہیں تھے۔ کیسی زندگی تھی اس کی بھی۔ سارا نے اگلے دن نینی کے ساتھ جا کر بازار سے اسے کچھ سلے سلائے کپڑے لا دیے تھے۔ اسے بھی ساتھ چلنے کو کہا تھا مگر وہ خوفزدہ تھی۔ گھر پر ہی رہی۔ گھر پر تین بچے تھے۔ ایک گیارہ سال کی لڑکی تھی زینب ایک آٹھ سال کا لڑکا تھا بلال اور سب سے چھوٹی چار سال کی آمنہ۔ تینوں بچے انتہائی تمیزدار تھے۔ مختصر سے وقت میں ہی الماس کی ان سے اچھی دوستی ہو گئی تھی، خاص طور پہ آمنہ سے۔ وہ تو ہر وقت اس کی گود میں ہی چڑی رہتی تھی۔ سارا کے گھر کاماحول اسے اچھا لگا تھا۔ گھر جیسا اور اپنائیت بھرا۔ وہ اپنائیت، جو اسے کبھی اپنی اڈاپٹڈ فیملی میں بھی نہیں ملی تھی۔ شروع میں کچھ دن وہ بچوں کے ساتھ ان کے ہی کمرے میں سوئی تھی۔ مگر پھر چونکہ سارا کو معلوم تھا کہ اس کا اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ اب سے وہ یہیں، ان کے ساتھ ہی رہے تو اسے الگ کمرہ بھی دے دیا تھا۔ الماس کو لگا وہ کمرہ پہلے سے کسی کے استعمال میں تھا، مگر اس کے لیے سارا نے اتنا سیٹ کر دیا تھا کہ وہ آرام سے رہ سکے۔ وہ ڈرائنگ روم کے سامنے والا سب سے پہلا کمرہ تھا۔ کمرے میں دو الماریاں تھیں۔ ایک لاکڈ تھی۔ دوسری میں الماس نے اپنے کپڑے اور دوسری ضرورت کی چیزیں رکھ دی تھیں۔ گھر میں پہلے سے پانچ افراد تھے۔ اس کے آنے سے چھے ہو گئے۔ سارا، نینی اور سارا کے تین بچے۔ اس کے پوچھنے پر سارا نے بتایا تھا کہ اس کے شوہر کا زیادہ تر کام اٹلی میں ہوتا ہے۔ وہ سال میں دو مرتبہ آتے ہیں فیملی سے ملنے۔ سارا کی نینی جن کو وہ امی بھی کہا کرتی تھی اور بچے بھی انھیں امی ہی کہتے تھے۔ وہ ان کے گھر کا ہی فرد سمجھی جاتی تھیں۔ گھر کا آخری کمرہ بچوں کے استعمال میں تھا اور سارا بھی زیادہ وقت انھی کے ساتھ رہتی تھی۔ الماس کو اس نے جو پہلا کمرہ دے دیا تھا فی لالحال وہ کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ اس کمرے میں ایک ڈبل بیڈ تھا جس کے ساتھ سائیڈ ٹیبل بھی تھا۔ ایک بڑے سے آئینے والا ڈریسنگ ٹیبل، ایک طرف دیوار کے ساتھ نرم سا بڑا صوفہ بھی رکھا تھا۔ ایک بندے کے لیے اچھا خاصا کمرہ تھا۔ نفیس اور صاف ستھرا۔ اس کمرے کی ایک کھڑکی لان میں کھلتی تھی جہاں کھڑے ہو کر لان کا نظارا کیا جا سکتا تھا۔ کھڑکی میں ایک لکڑی کا دروازہ تھا اور دوسرا گرل کا۔ لوہے کی گرل میں بھی لاک تھا جو صرف اندر سے کھولا یا بند کیا جا سکتا تھا۔ کھڑکی اتنی بڑی تھی کی ایک موٹا آدمی بھی آرام سے پھلانگ سکتا تھا۔
۔۔۔

الماس کو ان کے ساتھ رہتے تین ہفتے ہو گئے تھے۔ وہ گھر سے باہر نہیں جاتی تھی۔ گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، کپڑے اور برتن دھونا، کپڑے استری کرنا یہ سب تو اسے پہلے سے آتا تھا اس لیے وہ ان کاموں میں سارا کا ہاتھ بٹانے لگی۔ کبھی بچوں کو ہوم ورک بھی کروا دیتی تھی۔ سارا کو اس کے آنے سے سہارا بھی ہو گیا تھا اور ایک بہن بھی مل گئی تھی۔ وہ کبھی لان میں جا کر جھولے پر بیٹھ جاتی تھی۔ کبھی پودے اور پھولوں کو دیکھتی رہتی تھی۔ اسے یہ سب اچھا لگنے لگا تھا۔ زندگی خوبصورت ہونے لگی تھی۔ صبح کے وقت زیادہ کام نہیں ہوتا تھا۔ بچے سکول چلے جاتے تھے اس لیے زیادہ مصروفیت ان کے آنے کے بعد ہی ہوتی تھی۔ اس روز وہ رات کا کھانا کھا کر، بچوں کو کہانی سنا کر، سب کو سلا کر اپنے کمرے میں سونے چلی گئی۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا جب اس کی آنکھ کھلی۔ شاید کمرے میں کچھ کھٹکنے کی آواز آئی تھی جبھی اس کی نیند ٹوٹی تھی۔ اس نے آہستہ سے آنکھیں مل کر کھولیں اور اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کی۔ کھڑکی سے ہوا کے ساتھ ہلکی سی روشنی بھی آ رہی تھی۔ اس نے مطمئن ہو کر دوبارہ سونا چاہا تو دروازے کے پاس کھڑے ہیولے کو دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔
"

کون ہو تم؟" مردانہ غصیلی آواز پر اس کی جان میں جان آئی۔ شکر کیا کہ وہ کوئی بھوت نہیں تھا، انسان ہی تھا۔ لیکن پھر ایک اور پریشانی نے آ گھیرا۔ ایک مرد؟ اس وقت اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا؟ وہ ایکدم بدک کر پیچھے ہوئی۔
"ت۔۔تم۔۔کون ہو اور یہاں میرے کمرے کیا کر رہے ہو؟ باجی۔۔۔۔باجی۔۔۔" اس نے زور زور سے آوازیں لگانا شروع کر دیں۔ وہ ہیولہ ہلکا سا ہنسا۔
"میرا کمرہ؟" پوچھا تھا یا بتایا تھا، الماس کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔
"باجی جلدی آئیں۔ چور ۔۔۔چور۔۔۔"
"بلاؤ۔۔سب کو بلاؤ۔۔ہم بھی تو دیکھیں کہاں ہے چور؟" وہ سینے پہ بازو لپیٹے یوں اطمنان سے کھڑا تھا جیسے اس گھر کا مالک ہو۔ الماس کی جان ہوا ہونے لگی۔ اسی لمحے سارا آ گئی اور اس نے اندر گھستے ہی کمرے کی لائٹ آن کر دی۔
"کیا ہوا الماس؟" سارا نے فکرمندی سے اس کو دیکھا۔ وہ کمبل کھینچ کر سینے سے لگائے بستر پر بیٹھی تھی اور چہرے سے خوفزدہ لگ رہی تھی۔ پھر سارا نے اس ہیولے کو دیکھا جو روشنی میں اب صاف نظرآ رہا تھا۔ وہ پُر کشش نقوش والا مغرور اور غصیلے تاثرات لیے دروازے کے پاس کھڑا تھا اور الماس کو گھور رہا تھا۔ الماس نے اس کی جانب اشارہ کیا۔
"یہ یہ۔۔۔یہ آدمی میرے کمرے میں گھس آیا پتا نہیں کیسے۔۔۔۔"
"سیریسلی؟ میرا کمرہ؟" وہ استہزایہ سا ہنسا اور انھی مغرورانہ تیوروں کے ساتھ اسے گھورا پھر گردن موڑ کر سارا کو دیکھا جو ایک دم کچھ گڑ بڑا گئی تھی۔
"تمھارے آنے جانے کا بھی تو کچھ پتا نہیں چلتا۔ میں نے اسے دے دیا تھا یہ کمرہ۔ ویسے بھی تو خالی ہی رہتا ہے۔" سارا نے اس مغرور سے آدمی سے کہا۔ پھر جیسے الماس کا خیال آیا۔
"الماس یہ۔۔۔۔ میرا دیور ہے سکندر۔۔گھر پر کم ہی ہوتا ہے۔ دراصل یہ پہلے اس کا کمرہ تھا۔۔اس لیے۔۔۔" اس نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ جو بھی غلط فہمی تھی دور ہو گئی۔ وہ کوئی چور نہیں تھا۔ مگر وہ اندر آیا کیسے؟ اس نے تو دروازے اور کھڑکی کو لاک کیا تھا۔
"اور یہ محترمہ کون ہیں؟" وہ اسے جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ پتا نہیں کیوں گھور رہا تھا۔ الماس کو اس کی نظروں سے الجھن ہونے لگی تھی۔ وہ یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کے اندر تک جھانک رہا ہو۔ الماس نے کمبل مزید کھینچ کر اوپر کر لیا۔
"یہ میری دوست ہے۔ کچھ دن یہاں رہنے آئی ہے۔"سارا نے جلدی سے جو جواب بن پڑا، دے دیا۔
"آپ کب سے اپنے سے چھوٹی عمر کی لڑکیوں سے دوستی کرنے لگیں؟ کم از کم بھی دس سال چھوٹی ہے آپ سے۔" اس کے درست اندازے پر الماس کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ وہ اس کی عمر کیسے جانتا تھا؟
"تم آؤ میرے ساتھ۔" سارا نے سکندر کو باہر کھینچا تھا اور الماس سے کہا کہ وہ سو جائے۔
"تم مجھے بتاؤ، یوں اچانک آ دھمکے ہو۔ کبھی بتا کر نہیں آ سکتے تم؟" سارا کو رہ رہ کر الماس کا خوفزدہ چہرہ یاد آ رہا تھا۔
"میں تو ہمیشہ ہی ایسے آیا ہوں۔ پہلے تو کبھی آپ کو برا نہیں لگا۔" وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا تھا۔
"برا نہیں لگا۔ مگر تم بتا کر آ جاتے تو کیا حرج تھا۔ خواہ مخواہ بے چاری لڑکی کو ڈرا دیا تم نے۔"
"مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے ہی کمرے میں ایک عدد بے چاری لڑکی میرے ہی بیڈ پر مزے سے سو رہی ہو گی۔ ورنہ دروازہ کھٹکھٹا کر، اجازت لے کر اندر جاتا۔" سارا نے گہرا سانس لے کر اسے دیکھا۔
"اچھا اب تم اسے سونے دو۔ کچھ کھاؤ گے یا تم نے بھی آرام کرنا ہے؟" اب وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
"نہیں۔ بس سونا ہی تھا۔ اب کہاں سوؤں میں؟ آپ کی سہیلی نے تو میرے کمرے پر قبضہ کر لیا ہے۔ ویسے کب تک رہیں گی محترمہ؟" سکندر نے اپنے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
"صبح بات کریں گے اس بارے میں۔ ابھی تم ڈرائنگ روم میں سو جاؤ یا میرے کمرے میں۔ مَیں بچوں کے پاس جا رہی ہوں۔" سکندر نے سر ہلایا اور اپنے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔ جو سارا اور اس کے میاں حسن کا کمرہ تھا۔
۔۔۔
ناشتے کی میز پر سب موجود تھے سوائے سکندر کے۔ بچوں نے سکول جانا تھا اس لیے ان کا ناشتہ صبح ہی بنانا تھا۔ بچوں کو سکول بھیج کر وہ برتن سمیٹ رہی تھی۔
"رات کو ٹھیک سے سو گئی تھی تم؟" سارا نے اس سے پوچھا۔
"جی! بس تھوڑی دیر بعد آنکھ لگ گئی تھی۔" وہ اب برتن سنک میں رکھ رہی تھی اور سارا آج دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔
"دراصل سکندر کے آنے جانے کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ کبھی تو ایک ایک ہفتے بعد چکر لگاتا ہے کبھی دو دو مہینے نہیں آتا۔ میرے بھی ذہن سے نکل گیا تمھیں اس کے بارے میں بتانا۔"
"کوئی بات نہیں!" الماس اب اور کیا کہہ سکتی تھی۔ وہ برتن دھونے لگی تھی اور سارا چاول صاف کر رہی تھی۔
"تم برا مت منانا۔ وہ ایسا ہی ہے۔" سارا نے کہا تھا۔ اور تھوڑی دیر میں "وہ" بھی آگیا۔ بالوں میں نمی تھی۔ شاید باتھ لے کر نکلا تھا۔ گرے رنگ کے ٹراؤزر شرٹ میں وہ الماس کو مغرور کم اور پر کشش زیادہ لگ رہا تھا۔ مگر تھوڑی دیر کے لیے۔
"بھابھی ناشتہ۔" کہہتے ہوئے وہ ڈائننگ کے گرد رکھی ایک کرسی پر کچھ یوں بیٹھ گیا کہ اسے الماس بالکل سامنے نظر آ رہی تھی۔ الماس سنک میں برتن دھو رہی تھی اور اس کی سکندر کی جانب پشت تھی۔ اسے اپنی پشت پر کسی کی گہری نظروں کا احساس ہوا۔ اس نے وہم دور کرنے کو یونہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اور کیا کمال کی نظریں تھیں، پکڑے جانے پر بھی اس نے نگاہیں نہیں ہٹائی تھیں بلکہ اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ الماس نے ایک دم رخ آگے کو موڑا۔ کیسا عجیب انسان تھا۔ کس ڈھٹائی سے اسے گھور رہا تھا، وہ بھی اپنی بھابھی کے سامنے۔
"الماس تم پراٹھا بنا دو میں آملیٹ پھینٹ دیتی ہوں۔" سارا نے الماس کو مخاطب کیا تو اس نے نہایت فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔
"جی"
"بھابھی! آپ مہمانوں سے کب سے کام کروانے لگیں؟" اب کی بار سکندر بولا تھا مگر نظریں اب بھی الماس پر ٹکی تھیں جیسے وہ اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا ہو۔
"الماس بہت اچھے پراٹھے بناتی ہے۔" سارا نے بات بدلنا چاہی تھی۔ وہ جانتی تھی سکندر کی بات کا کیا مطلب تھا۔
"ویسے آپ کا نام کیا ہے؟ بھابھی نے تو بتایا نہیں!" سکندر نے اب اسے ہی مخاطب کر لیا۔ سارا کی گھوریوں کے باوجود۔
"الماس!" اس نے بغیر مڑے آہستہ سے کہا۔ وہ برتن دھو چکی تھی۔ اب توا رکھ کر پیڑا بنا رہی تھی۔
"اچھا نام ہے۔ کس نے رکھا؟ امی نے یا ابا نے؟" اب کی بار سارا نے ناراضی سے سکندر کو دیکھا۔ وہ رکنے والا نہیں تھا۔
"پتا نہیں!" الماس نے مختصر سا جواب دیا۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اچھا کہاں سے آئی ہیں آپ؟ پہلے کبھی بھابھی نے آپ کا ذکر نہیں کیا۔" الماس نے ملتجی نگاہوں سے سارا کو دیکھا۔
"تم ناشتہ کرو۔ بعد میں انٹرویو لے لینا اس کا۔" سارا کی بات تھی یا گھوری، وہ واقعی خاموش ہو گیا تھا۔ الماس نے پراٹھے کی پلیٹ اس کے آگے رکھی تو اب بھی اس کی نظریں الماس پر جمی تھیں۔ پتا نہیں وہ اسے کیوں گھور رہا تھا۔ جب تک الماس اس کے سامنے رہی وہ اسکی نظریں خود پر محسوس کرتی رہی تھی۔
۔۔۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

❤ براۓ مہربانی اگر آپ کو کہانی اچھی لگی ہو تو کمنٹ کر کے ضرور بتاٸیں اور ہر قسط کو ووٹ بھی کر دیں۔ نیچے دیے گۓ سٹار کو کلک کر کے۔
شکریہ ❤

Continue Reading

You'll Also Like

670K 15.1K 26
بقلم / الشيماء محمد ( شيموووو)
33.8K 2K 31
اذا وقعت في حب شخصين وعليك الاختيار بينهم ف اختار الثاني لان لو قلبك يحب الاول لما دق للثاني بين نارين
4.7K 335 25
وہ ساگر جیسا تھا۔ ساری زندگی اس نے لوگوں کی بھیڑ میں بھی تنہا گزاری تھی۔ اسے کبھی محبت نہی ملی مگر اسے محبت ہو گٸ تھی۔ کیا زندگی میں اس کے لیے محبت ت...
15.3K 1.1K 44
« A Spiritual Romance , Sequel to Deewaar » **Maahrit Azaan aur Huzbaan ki beti, kiss tarah follow kregi apne dreams ko aur kya woh kbhi ye jaan pay...