Episode 14

1.5K 127 2
                                    


اپنی تمام تر سوچوں کو جھٹکتے ہوئے وہ کمرے میں چلا آیا اور دروازہ کھول کر آہستگی سے اندر داخل ہوا۔ سامنے ہی اسے اپنے کمرے اور اپنی زندگی میں رونما ہونے والی بہت بڑی تبدیلی نظر آگئی تھی۔
وہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا بیڈ تک آیا اور بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔
"اصولاً تو مجھے تمہاری تعریف کرنی چاہیے جیسے کہ سب دلہے اپنی دلہنوں کی کرتے ہیں لیکن کیا ہے نا ان سب کی دلہنیں خوبصورت بھی ہوتی ہیں اور ان سے چھوٹی بھی ہوتی ہیں لیکن وہ کیا ہے نا تم مجھ سے پانچ سال بڑی بھی ہو اور خوبصورت بھی نہیں ہو تو تمہاری تعریف کرنے کا تو کوئی جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔ "
اس کا ہاتھ تھامے وہ اس کہ چہرے پر نظریں جمائے بڑے آرام سے کہہ رہا تھا۔ جبکہ بریرہ نظریں جھکائے کھڑی تھی۔
"ویسے کوشش تو تم نے بہت کی ہے کہ میرا دل جیت سکو لیکن وہ کہتے ہیں نا دلہن وہی جو پیا من بھائے۔۔۔ اور تم تو میرے دل کو کبھی نہیں بھا سکتی اس لیے اس سارے ڈرامے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ "
تلخی سے کہتا اس کا ہاتھ چھوڑ کر وہ ڈریسنگ میں چلا گیا جبکہ وہ وہیں سن کھڑی رہی۔ جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا اس کہ ساتھ۔ اس کہ دل میں بہت سے سوالات تھے جو وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی۔ وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ اگر وہ اسے اتنی ہی بری لگتی تھی تو اس سے رشتہ کیوں جواڑا؟ وہ اتنی ہی بری تھی تو کیوں اپنی مرضی سے اس سے شادی کی۔۔؟ لیکن فلحال وہ یہ سارے سوالات اپنے دل میں دبا گئی کیونکہ اس وقت اس کے لیے یہی کافی تھا کہ جہاں کسی نے اسے قبول نہیں کیا وہاں مصطفی نے اسے اپنا نام دیا۔ جہاں سب نے اسے دھتکارا وہاں زبردستی ہی سہی لیکن مصطفی نے اسے اپنایا تو سہی۔ فلحال اس کے لیے یہی کافی تھا۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب مصطفی کیژول ٹراؤزر شرٹ پہنے باہر آیا۔
"اب یہاں کھڑی مراقبے کرنا بند کرو اور جاکر بدلو یہ سب مجھے الجھن ہورہی ہے۔ "
وہ اکتاہٹ سے بولا تو بریرہ ڈریسنگ روم میں چلی گئی جبکہ مصطفی گہری سانس لے کر رہ گیا۔
بریرہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ مصطفی کو اس سے نظریں ہٹانا مشکل لگ رہا تھا اس لیے وہ جھنجھلاہٹ میں اسے جانے کا کہہ گیا ورنہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بیٹھی رہے اور وہ اسے دیکھتا رہے۔
بریرہ باہر آئی تو مصطفی آنکھیں بند کیے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ صرف لیٹا ہوا تھا یا پھر سو رہا تھا وہ سمجھ نہیں پائی اس لیے خاموشی سے آکر دوسری سائڈ پر لیٹ گئی۔
اپنے پاس آہٹ محسوس کرکہ مصطفی کی ساری حسیات اپنے ساتھ لیٹے وجود کے ساتھ جڑ گئی اور وہ اپنی زندگی میں ہونے والی اس تبدیلی کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا لہ اسے یہ ہونے والی تبدیلی اچھی لگ رہی تھی یا بری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح مصطفی کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر سامنے پڑی جہاں بریرہ تیار ہورہی تھی۔ مصطفی کو کچھ عجیب سا لگا لیکن پھر خاموشی سے اٹھ کر وہ بھی فریش ہونے چلا گیا۔ وہ باہر آیا تو وہ ہنوز شیشے کے سامنے کھڑی لپسٹک لگا رہی تھی۔ اس نے لائٹ پنک کلر کی کرتی کے ساتھ کیپری پہن رکھی تھی اور چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ کر رکھا تھا جبکہ بال یونہی کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔
وہ بھی اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا اور برش اٹھا کر بالوں میں پھیرنے لگا ۔
آج پہلی بار اس نے غور کیا تھا کہ بغیر ہیل کے وہ بس اس کے کندھے تک آتی ہے۔
اپنے پیچھے مصطفی کی موجودگی محسوس کرکہ بریرہ جھجک کر پیچھے ہوئی اور صوفے سے اپنا دوپٹہ اٹھایا۔
"صبح صبح تمہاری شکل دیکھ لی اب پورا دن خراب گزرے گا۔ "
وہ منہ بناتے ہوئے اسے کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے بولا
"عادت ڈال لو پھر اب کیونکہ یہ شکل تو تمہیں روز دیکھنی ہے۔ "
وہ برش اٹھا کر ایک بار پھر اپنے بالوں میں پھیرتی ہوئی بولی
"جتنا مرضی سنور لو۔۔۔ مجھ سے اچھی تو پھر بھی نہیں لگو گی۔ "
"مجھے شوق بھی نہیں ہے تم جیسا لگنے کا۔"
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی تو مصطفی خاموش ہوگیا۔ صبح صبح وہ اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
بریرہ کمرے سے باہر نکلنے لگی تو مصطفی نے اسے آواز دی۔
"رکو"
وہ جیسے کچھ یاد آتے ہوئے بولا تو بریرہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"یہ لو پہن لینا باہر جانے سے پہلے۔ "
الماری سے ایک بریسلیٹ نکال کر اس کی ہتھیلی میں رکھتے ہوئے بولا
"تھینک یو۔ "
وہ اسے پہنتے ہوئے بولی
"اپنی پسند سے نہیں دے رہا۔ امی نے کہا تو تمہیں۔دینے کو۔ "
وہ جتاتے ہوئے بولا تو وہ سر جھٹک کر باہر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتے کے ٹیبل پر وہ مصطفی کا رویہ دیکھ کر حیران تھی۔ وہ بالکل ایسے ایکٹ کر رہا تھا جیسے بہت کوئی محبت کرنے والا شوہر ہو۔ کبھی اس کی پلیٹ میں کوئی چیز ڈال دیتا کبھی مسکرا کر اس کی طرف دیکھنے لگتا۔ وہ اس کہ رویے پر حیران تھی اور اس کی ایکٹنگ دیکھ کر بھی حیران تھی۔
گھر میں سب ان دونوں کے لیے بہت خوش تھے خاص کر بریرہ کے والدین اپنی بیٹی کا گھر بسا دیکھ کر نہایت خوش تھے۔
تھوڑی دیر بعد بریرہ ریسپشن کے لیے تیار ہونے کے لیے پارلر چلی گئی جبکہ مصطفی واپس کمرے میں آگیا اور بیٹھ کر اپنا موبائل چلانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا سات بجے اسے بریرہ کی کال آئی اور وہ نیند سے جاگا۔ اسے پتا ہی نہیں چلا تھا کہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
اب وہ کال پر اسے لینے آنے کا کہہ رہی تھی جبکہ مصطفی اپنے رف حلیے کو دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ جلدی سے اٹھ کر اس نے باتھ لیا اور سٹیل گرے کلر کا ڈنر سوٹ پہنا۔
بال جیل سے سیٹ کرتے ہوئے جلدی جلدی میں بھی اسے ایک گھنٹہ لگ ہی گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارلر کے باہر پہنچ کر اس نے بریرہ کو کال کی تو وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے بولنا شروع ہوگئی۔
"ابھی بھی نا آتے۔ بیٹھے رہتے گھر ہی۔۔ حد ہوگئی پورا گھنٹہ پہلے میں نے تمہیں کال کی تھی اور تم اب آرہے ہو۔ "
وہ غصے سے بول رہی تھی جب مصطفی نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ بریرہ نے بھی گرے میکسی پہنی ہوئی تھی اور ساتھ بلو کامدار دوپٹہ سر پر ٹکا تھا۔ یہ ڈریس بھی مصطفی کا ہی پسند کردہ تھا۔ اپنی پسند کے لباس میں وہ اسے کل سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔
"منہ بند کرکہ بیٹھو ورنہ یہیں اتار دوں گا۔ "
وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
"اتار دو۔۔۔ پھر سارے خاندان کے سامنے جواب دہ تو تم نے ہی ہونا ہے۔ "
وہ لاپرواہی سے بولی
"کہہ دو گا سب سے چھوڑ آیا ہوں آپ کی بہو کو راستے میں۔۔۔ مجھ سے بدتمیزی کر رہی تھی۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولا
"بدتمیزی کہ بجائے اگر تم یہ کہو کہ مجھے ڈانٹ رہی تھی تو زیادہ اچھا لگے گا۔ "
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی
"ہاں بالکل یہ زیادہ سوٹ کرے گا آخر کو تم مجھ سے پانچ سال بڑی جو ہو۔ "
وہ پھر اسے عمر کا طنع دے گیا تھا۔ اس کی بات پر بریرہ کی مسکراہٹ سکڑی۔۔ اور باقی کا سارا راستہ وہ خاموش بیٹھی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ لوگ ہال پہنچے تو ان کہ استقبال کے لیے سب دونوں طرف کھڑے تھے جبکہ درمیان سے ان کے گزرنے کا راستہ تھا۔
مصطفی نے بریرہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور چہرے پر مسکراہٹ سجا کر چلنے لگا۔ بریرہ کو بھی مجبوراً مسکراتے ہوئے اس کا ساتھ دینا پڑا۔
ان کہ آس پاس سب لوگوں کی نظروں میں ستائش تھی لیکن بریرہ جانتی تھی کہ یہ سب مصطفی کے لیے ہی ہیں کیونکہ بریرہ کے لیے تو سب کی نظروں میں حسد اور طنز ہی تھا۔
سٹیج پر بیٹھے ان دونوں پر سب کی نظریں مرکوز تھیں۔ جہاں سب مصطفی کی ستائشی انداز میں تعریف کر رہے تھے وہاں سب بریرہ کی قسمت پر رشک بھی کر رہے تھے۔
سٹیج پر ان سے بہت سے لوگ ملنے آئے تھے لیکن شاید کوئی ایک بھی ایسا نا تھا جو ان کہ ایج ڈفرنس پر طنز نا کرکہ گیا ہو۔
بریرہ کا بہت جلدی ہی اس سب سے دل اچاٹ ہوگیا تھا ۔  وہ جلد از جلد یہاں سے جانا چاہتی تھی جبک مصطفی شاید سب بہت انجوئی کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آکر وہ بے دلی سے جیولری اتار رہی جب مصطفی اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اور اپنی تھوڑی اس کہ کندھے پر ٹکاتے ہوئے بولا
"ویسے کیا قسمت پائی ہے تم نے بریرہ۔۔ آج وہی سب لوگ تمہاری قسمت پر رشک کر رہے تھے جو پہلے تمہاری صورت میں ہزار کیڑے نکالتے تھے۔ "
وہ اس کے بے حد قریب کھڑا تھا جبکہ اس کہ اتنا قریب آنے پر بریرہ کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
"دور ہٹو مصطفی۔۔ "
وہ غصے سے بولی
"ویسے رشک تو تمہیں بھی ہوتا ہوگا خود پر کہاں کوئی بڑی عمر کا شخص بھی تمہیں نہیں مل رہا تھا اب کہاں تم اپنے سے پانچ سال چھوٹے اور کافی خوبصورت لڑکے کی بیوی ہو۔۔۔ عجیب سا نہیں لگتا ویسے تمہیں؟ حیرانی تو ہوتی ہوگی کہ کیسے قسمت بدل گئی تمہاری۔ "
اس کی بات کو نظر انداز کیے وہ اپنی بولے جارہا تھا۔
بریرہ نے زور سے مصطفی کا ہاتھ جھٹکا اور اس سے دور ہوتے ہوئے ڈریسنگ میں چلی گئی۔ بریرہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی اگر وہ کچھ بھی بولتی تو اس کہ آنسو اس کا ساتھ نا دیتے۔۔ اس کہ لاکھ چھپانے پر بھی مصطفی اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ چکا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ کپڑے تبدیل کرکہ واپس روم میں آئی تو مصطفی اس کی شکل دیکھ کر آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ وہ اندر کافی دیر روتی رہی ہے۔
ایک لمحے کو مصطفی کو اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ندامت ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن بعد سے ہی ان کی دعوتوں کا سلسہ شروع ہوگیا ۔ ابھی بھی وہ کسی دعوت پر جانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔ مصطفی بریرہ کو تیار ہونے کا کہہ کر خود کہیں باہر چلا گیا تھا جب وہ واپس آیا تو بریرہ آئینے کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی۔
مصطفی نے سر سے پیر تک گھور کر اسے دیکھا۔
"یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے؟ "
اندر آتے ہی اس نے غصے سے پوچھا
"اندھے ہو؟ نظر نہیں آرہا ساڑھی پہنی ہے۔"
وہ اپنے بال آگے کرتے ہوئے بولی
"مجھ سے تمیز سے بات کیا کرو اور بدل کر آؤ یہ لباس۔ "
وہ اسے گھور کر بولا
"کیوں اس میں کیا برائی ہے؟ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
"بریرہ میں نے تم سے دلائل نہیں مانگے۔ جو کہا ہے بس اتنا کرو۔ "
وہ غصے سے بولا
"میں تو نہیں بدل رہی۔  اتنی اچھی تو لگ رہی ہے پتا نہیں تمہیں کیا مسئلہ ہے۔ "
وہ نا سمجھی سے بولی اور درحقیقت وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی بلیک کلر کی ساڑھی میں وہ واقعی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ 
"اس طرح کا لباس پہن کر تو میں تمہیں کمرے سے باہر نہیں جانے دوں گا گھر سے باہر جانا تو بہت دور کی بات ہے۔ "
وہ اٹل لہجے میں بولا
"آخر برائی کیا ہے اس میں؟ بالکل ٹھیک تو ہے اور اچھی طرح سے کور بھی ہے پھر کیا مسئلہ ہے۔ "
وہ بھی ضد پر آگئی تھی۔
"میں کچھ نہیں سن رہا تم بس اسے بدل کر آؤ ورنہ ہم کہیں نہیں جارہے۔ "
"میں نہیں بدلوں گی۔ اتنی محنت سے میں تیار ہوئی ہوں اب تمہارے پیچھے بدل آؤ جاکر۔ "
"ابھی اور اسی وقت اسے بدل کر آو۔ "
وہ اس کی بازو دبوچتے ہوئے بولا
"نہیں بدلوں گی۔ "
بریرہ کے جواب پر مصطفی نے اسے اپنے قریب کیا اور اپنے ہاتھوں سے اسے کمر سے پکڑا۔
"اگر اتنا ہی شوق ہے تمہیں ساڑھی پہننے کا تو میرے سامنے پہن لیا کرو لیکن کسی اور کہ سامنے میں تمہیں یہ نہیں پہننے دوں گا۔ اور یہ میک اپ اور لپسٹک بھی تھوڑی ہلکی کرو اس طرح میں تمہیں کہیں نہیں لے کر جاؤں گا۔ "
"تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ پہلے اماں یہ کہہ کر یہ سب پابندیاں لگاتی تھیں کہ سب شوق شادی کہ بعد پورے کرنا اب جب شادی ہوگئی ہے تو شوہر محترم کو یہ سب پسند نہیں۔ "
وہ منہ بناتے ہوئے بولی
"تمہیں کس نے کہا ہے تمہارے شوہر کو یہ سب پسند نہیں؟ انفیکٹ مجھے تو یہ سب بہت پسند ہے۔۔۔ اگر تم میرے لیے روز ایسے ہی تیار ہو اسی طرح کا لباس پہنو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن دوسروں کا دکھانے کے لیے کی گئی تمہاری یہ ساری تیاری میں برداشت نہیں کروں گا۔ اس لیے بہتر ہوگا تم چینج کر آؤ۔ اور جہاں تک رہی شوق پورے کرنے والی بات تو وہ سب شوق تم کمرے کی حدود میں رہ کر پورے کرسکتی ہو باہر سج سنور کر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ "
وہ اسے اچھا خاصا لمبا لیکچر دے کر آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا اور وہ غصے سے ڈریسنگ میں چلی آئی۔
"منہ بھی دھو کر آنا ۔ "
اپنے پیچھے سے اسے مصطفی کی آواز سنائی دی تو اس نے غصے سے الماری کا پٹ بند کیا۔
جب وہ دوبارہ باہر آئی تو پلمپ کلر کے لمبے فراک میں ملبوس تھی جس کہ ساتھ چوڑی دار پجامہ تھا اور آستین بھی چوڑی دار تھے۔
"اب ٹھیک لگ رہی ہو۔۔۔ "
اس کو دیکھ کر مصطفی تسلی سے بولا تو بریرہ نے اسے غصے سے گھورا۔
"پہلے بھی بہت لش لگ رہی تھی لیکن کیا ہے نا تمہیں دیکھنے کا حق صرف مجھے ہی ہے۔۔ اس لیے صرف میرے لیے ہی سجا سنورا کرو۔ "
وہ پھر اسے جتاتے ہوئے بولا
"زہر لگ رہے ہو تم مجھے اس وقت۔۔ "
وہ اسے غصے سے گھورتے ہوئے بولی
"چلو اب جھوٹ تو نا بولو۔۔۔ اچھے سے پتا ہے مجھے بغیر تیار ہوئے بھی کتنا ڈیشنگ لگ رہا ہوں میں۔ "
وہ ستائش سے بولا تو بریرہ نے سر جھٹکا۔
"ہنہ"
"اب میرے سر پر کیوں کھڑے ہو تیار ہو جاکر۔ "
مصطفی کو ہنوز ڈریسنگ ٹیبل سے ٹیک لگائے کھڑا دیکھ کر وہ غصے سے بولی
"دیکھ رہا ہوں کہیں پھر ریڈ لپسٹک لگا کر نا بیٹھ جانا۔۔ پھر میں منہ دھونے کا کہوں گا تو تم غصہ کروں گی۔ "
وہ مزے سے بولا تو بریرہ نے ہاتھ میں پکڑا لائنر زور سے اسے دے مارا۔
"دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔ "
"جارہا ہوں جارہا ہوں تشدد کیوں کر رہی ہو۔ "
وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے ڈریسنگ روم میں چلا گیا جبکہ بریرہ اپنی آئیندہ زندگی کے بارے میں سوچتی رہ گئی۔ یہ تو طے تھا کہ وہ اسے ساری زندگی یا تو عمر کے طعنے مارتا رہے گا یا اس کی صورت کو نشانہ بنائے گا یا پھر اسے اس طرح سے ذہنی ٹارچر کرتا رہے گا۔
اس شخص کے ساتھ زندگی کیسے گزرے گی وہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon