"تین بیلوں پر بھی فون نہیں اٹھایا۔۔۔تبھی تو حیدر کو کال کررہی ہوں۔"آٸرہ کو مرحا پر بے حد غصہ آ رہا تھا پریشانی الگ تھی یہ لڑکی سکون سے بیٹھ جائے ایسا ہو سکتا ہے بھلا آٸرہ نے خود کو بڑبڑاتے پایا۔

"زکوٹے جن کا زنانہ ورژن ہے مرحا سفیان کسی کی نہ سننے والی نڈر بےخوف آج گھر آئے ذرا بی جان یہ لڑکی اچھے سے اس کی کلاس لیتی ہوں۔"

"میری بچی پریشان نہ ہوں حیدر کا نمبر ملاؤ
یہ بہتر ہے ساری صورتحال اسے بتاؤ دیکھے انہیں باہر مارکیٹ تک ہی گئے ہیں یا کہیں اور۔۔"
اس صورت میں بھی انہی تحمل مزاجی سے حل نکالنا تھا چوتھی کال پر آخر حیدر نے فون اٹھایا۔
" واٹ۔؟؟ رات کو وہ لوگ اکیلے باہر نکل پڑھے" ساری بات سننے کے بعد وہ گویا چنیخا تھا۔
اسٹریٹ کراٸمز آئے دن پیش آتے تھے ایسے میں بچوں کا یوں اکیلے باہر جانا پریشانی کی بات تھی۔

"آپ فکر نہ کریں میں بھائی سے رابطہ کرتا ہوں اور خود فوراً نکلتا ہوں۔"
"دیکھتا ہوں یہی پاس میں ہی کہیں گئے ہوں گیں۔" "ہوں۔۔اچھا ٹھیک ہے۔" آئرہ فون رکھتی صوفے پر بی جان کے پاس ٹک گئی۔
پونا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا مگر ان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔
یہ یقینا کل والے واقعے کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔ہاں بس مارکیٹ تک گئے ہونگے پیزا لینے۔ اُف
آٸرہ کے ذہن میں کل کی بات آٸی۔ او مرحا!

ایک روز پہلے:
مرحا لاٶنچ کے صوفے پر بیٹھی تھی۔
ماحول بے حد کشیدہ تھا وہ سانس روکھے اپنے سامنے ہوتے اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ اچانک فضا میں اللّٰہ اکبر کی آواز بلند ہوئی یکدم نہ تھمنے والی تلواروں کی گرج نے فضا میں ارتعاش پیدا کردیا۔ مرحا کی روکی ہوئی سانس اب بحال ہوئی تھی۔اس سب میں وہ پہلی دفعہ مسکرائی
جب ارتغرل بابر اور روشان سے انکی العزیز کے قافلے کے پاس موجودگی کا سبب پوچھ رہا تھا۔
"میں نے منع کیا تھا میرے پیچھے آنے سے پھر تم لوگ یہاں کیسے۔؟"

"وہ بھائی ہم تو یہاں سے گزر رہے تھے شور سنا تو اس طرف آ گئے مگر سامنے آئے تو معلوم ہوا آپ کی آواز تھی۔" بابر نے معصومیت سے کہا
ان کا جوش دیکھ کر مرحا کھل کر ہنسی۔۔۔۔
فہد نے اس کا کندھا ہلایا۔

جب وہ لوگ گھوڑوں پر سفر کرتے قاٸی قبيلے روانہ ہوئیں تھے۔۔۔۔واقع وہ لوگ اپنے بھائی اور بھابھی کو لے جانے میں کامیاب رہے تھے۔مرحا یونہی بیٹھی دیکھتی جارہی تھی۔ جوش سے۔۔۔۔خوشی سے۔۔۔

"آپی بس کرے شام سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی ہے حیدر بھائی نے بتا تو دیا ہے آگے کیا ہونا ہے۔"
فہد کے کہنے پر مرحا نے موبائل کی سکرین سے نظریں ہٹاٸی۔ واقع اس کی ٹانگیں تھکنے لگی تھی مگر سب بھلا کر وہ ارتغرل کی قسط دیکھنے میں مصروف تھی۔ حیدر اس سے آگے نکل گیا تھا۔
ان لوگوں نے اکٹھے ڈریلس ارتغرل دیکھنے کا آغاز کیا تھا۔
ارتغرل ایک ایسا نشہ تھا جو انہیں لگ چکا تھا۔۔۔۔۔
اب دن رات کام کے ساتھ اسے دیکھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

یوں ہم ملے از نازش منیر(completed)Where stories live. Discover now