باب:۶

318 21 16
                                    

بارش شرابِ عرش ہے یہ سوچ کر عدم
بارش کے قطروں کو الٹا پی گیا

"ارے لڑکیو بس بھی کرو ڈھولک بجانا لڑکے والے آ گۓ ہیں "- عیشہ کی امّی نے سب کو اٹھایا آج عیشہ اور ارحم کا نکاح تھا جب کہ عیشہ نے رو رو کر برا حال کردیا تھا -
"زمل ! زمل ! " آنٹی زمل کو آوازیں دیتی اوپر آیئں جب اس کو دیکھتے ہی ان کے لبوں سے بے اختیار ماشااللہ نکلا تھا -
زمل نے نے جامنی دنگ کا شرارہ اور اوپر پیلی رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی - نیٹ کا ڈوپٹا ایک کاندھے پر ڈالا ہوا تھا - چونکہ فنکشن الگ الگ تھا اس لیے اس نے اپنے سنہری رنگ کے بال کھولے ہوۓ تھی جن پر موتیے کے پھول لگے ہوۓ تھے - اتھوں میں گجرے اور سوٹ کے ہم دنگ چوڑیاں تھیں -
" بیٹا وہ حسان کا فون آیا ہے وہ گھر پر ہے - تم ذرا چھوٹو کے ساتھ اسے لے آو یہاں کا س کو نہیں پتا - اور دیکھ لینا اسے کسی چیز کی ضرورت نہ ہو "۔
" مگر ۰۰ آنٹی وہ انکل " اس نے بہانہ بنانے کی کوشش کی -
" تم ان کی فکر نہ کرو - شام کا بھولا جب گھر آۓ تو اسے ٹھکرانا نہیں چاہیے - وہ تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر خوش ہو جائیں گے - جاؤ شاباش - اللہ تمہیں خوش رکھے "
وہ زمل کو حیران و پریشان چھوڑ کر چلی گئیں - عیشہ اپنا رونا دھونا بھول کر اس کے پاس آئ -
" جاؤ زمل کہیں حسان بھائ پھر نہ کھو جائیں " وہ شرارت سے بولی -
"اب کیا لینے آے ہیں وہ ؟ میں کہیں نہیں جا رہی !"

زمل اپنے آنسو روکتے ہوۓ بولی -
کبھی غم کی آگ میں جل اٹھے
کبھی داغِ دل نے جلا دیا
اے جنونِ دہشت بتا ذرا
مجھے کیوں تماشا بنا دیا ؟

شدتِ ضبط سے اس کے گال گلابی ہو رہے تھے جو اسے اور بھی حسین بنا رہے تھے -
" اگر تم نہ گئ تو میں خود چلی جاؤں گی - "
عیشہ نے صرف دھمکایا ہی نہیں تھا بلکہ اپنا لہنگہ سنبھالتی اٹھی تھی -
زمل نے حیران ہو کر اسے دیکھا -
" عیشہ تم سے مکھے یہ امید نہیں تھی - تم تو میرے ہر تکلیف دہ پل کی ساتھی ہو - تم اتنی آسانی سے بھول گئ کے اس نے میرے ساتھ کیا کِیا ہے ؟ اب میں مزید اس کے سامنے جا کر اپنے آپ کو بے مول نہیں کر سکتی ۔"
اس بار آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر گرے تھے -
" زمل میری بات سنو - جب ہم اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں تو اس امید پر کہ وہ ہمیں ضرور معاف کریں گے - یہی امید ہمیں بار بار اللہ کے سامنے جھکاتی ہے - اور ہم اللہ کے لوگوں کو معاف نہیں کر سکتے تو اپنے گناہوں کی معافی کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں -
تمہیں یاد ہے جب پھوپھو مجھے اتنی باتیں سنا کر گئیں تھیں جبکہ میری کوئ غلطی بھی نہیں تھی تب ان کے ہمارے گھر آنے پر میں اپنی روم سے نہیں نکل رہی تھی کیوکہ مجھے غصّہ تھا - تب میں بہت ڈسٹرب تھی - اور تم نے ہی مجھے کہا تھا کے اللہ سے بات کرو -
میں نے پھر قران پاک پکڑا - اللہ سے اپنے دل میں سوال کیا کے مجھے کیا کرنا چاہیے جبکہ میرا دل نہیں مانتا کے میں ان سے ملوں - زمل تم یقین کرو - میں نے قران پاک کھولا اور اس کا ترجمہ پڑھا - اللہ تعالیٰ نے کہا تھا
"اور سلام کرو ۰۰۰۰" ابھی میرے ذہن میں آیا ہی تھا کے کیوں کروں جب انھوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ برا ہی کیا تھا تو پتا ہے اللہ نے کیا کہا -
"اور یہ میرا حکم ہے " - پھر میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کسے کرتی - اب تم بھی حسّان بھائ کے پاس جاؤ نہیں تو میں جا رہی ہوں - "
آجر میں وہ اٹھ کھڑی ہوئ تو زمل سکتے سے باہر آئ -
"اچھا میری ماں میں جا رہی ہوں -" اس نے سیاہ چادر اپنے گرف لپیٹی اور اسی سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا -
پریشانی اور گھبراہٹ میں وہ اکیلی ہی اپنے گھر سے نکلی جو کے اسی گلی میں تھا -
_________________________
"گھر کی اندر داخل ہو کر اس نے چہرے پر سے چادر ہٹائ - اندر آنے پر اسے کچن میں میں سے کچھ آوازیں آئیں تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ آگے بڑھی - کچن کے دروازے پر پہنچ کر وہ منجمد ہوگئ - سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ گویا زلزلوں کی زد میں آگئ - حسّان جو کے اپنے لیے چاۓ رکھ رہا تھا اپنی پشت پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کر کے اپنا رخ دروازے کی طرف موڑا -
وہ ایک پل کو حیران رہ گیا -
کسی معصوم لمحے میں کسی مانوس چہرے سے
محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے

وہ انتظار کا موسم ✅Where stories live. Discover now