باب:۵

164 18 10
                                    

"واٹ ربش میٹنگ شروع ہونے والی ہے اور مس زمل ابھی تک آفس نہیں آئیں -" تانیہ کی بات سن کر وہ غصّے میں بولا اور گاڑی کی چابی لے کر اس کے گھر کی طرف چل پڑا - وہ کبھی بھی ایسے منہ اٹھا کر اپنے کسی سٹاف ممبر کے گھر نہ جاتا مگر میٹنگ کے سارے پوائنٹس زمل کی پاس تھے - اسے حیرت ہوئ کی زمل اسی کی محلّے میں رہتی ہے - اس سے پہلئ وہ کچھ اور سوچتا اس نے ایک دم گاڑی روکی - پھر ریورس کی- زمل چھتری زور سے تھامے ایک دم رُکی -
"سِٹ " - اس نے عجلت میں کہا - اس نے گھبراتے ہوۓ پیچھے کا دروازہ کھولا -
"میں آپ کا ڈرائور نہیں ہوں آگے آ کر بیٹھیں مس۔" اس نے جھنجھلا کر کہا - اسے اس وقت صرف میٹینگ کی فکر تھی - وہ اپنے آپ پر حیران بھی ہوا کے اس نے زمل کو نقاب میں بھی پہچان لیا تھا - وہ فوراً آگے بیٹھی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی - وہ جو اس کی اچھی خاصی کلاس لینے کا ارادہ کیے ہوۓ تھا اس کی سرخ متوازن آنکھیں دیکھ کر چپ ہوگیا جو کہ اس بات کا ثبوت تھیں کہ وہ روتی رہی ہے -
بادل اونچی آواز میں گرجا ،بارش نے زور پکڑا اور بجلی کی کڑک ایسی تھی جیسے ابھی پوری گاڑی کو جھلسا دے گی - زمل جو پہلے ہی دروازے سے لسی بیٹھی تھی مزید چپک گئ - اس نے زمل کو آنکھیں مینچے دیکھا تو سمجھ گیا کے وہ ایسے موسم سے ڈرتی ہے -
"زمل اٹس اوکے تم گاڑی میں سیف ہو کچھ نہیں ہوتا - " وہ آسانی سے آپ سے تم تک کا سفر طے کرتا قدرے نرمی سے بولا-کوئ اور لڑکی اسے اس برح دیکھ لیتی تو یقینً بے ہوش ہو جاتی - کتنی ہی لڑکیوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاۓ ، کتنی ہی اس پر مر مٹنے کو تیار تھیں مگر اس نے کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا - اس لیے وہ صنف نازک سے خار کھاتا تھا مگر نہ جانے ان بھوری آنکھوں میں کیا تھا جو وہ دیوانہ ہو گیا تھا -

راہ آسان ہوگئ
جان پہچان ہوگئ
پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئ
تم پہ قربان ہوگئ

اس وقت اس کا شدت سے جی چاہا تھا کی وہ زمل کا چہرا دیکھے - مگر اس نے اپنے نام کی لاج رکھتے ہوۓ اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا - زمل وہ نام تھا جو کہ قرانِ پاک میں اس طرح ہے "یَاَیُّھَاالمزمل" یعنی اے اپنے آپ کو ڈھانپنے والی -
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی اور دونوں تیزی سے میٹنگ روم کی طرف چل پڑے -

________________________

"اف ! شکر ہے میٹنگ اچھے سے ہوگئ نہیں تو تمہارے باس نے تانے مار مار کے برا حال کر دینا تھا - " زمل اپنی کیبن میں آتے ہی تانیہ سے مخاطب ہوئ - ان کچھ دنوں میں دونوں کی اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی -
"ویسے زمل آپی ایک بات تو بتائیں حجاب تک تو ٹھیک تھا لیکن آپ نقاب کیوں کرتی ہیں ؟
تانیہ کے اس سوال پر وہ مسکراۓ بنا نہ رہ سکی -
"حجاب تک اس لیے ٹھیک تھا کیوں کے ہم نے حجاب کو آج کل ایک فیشن بنا لیا ہے - جب اس سے اکتا گۓ تو اتار دیا جب کہ قران پاک کی سورہ نور میں اللّہ تعالی نے حکم دیا ہے "
" اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کے اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائ کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دیکھایئں بس جتنا خود ظاہر ہو اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالیں اور اپنا سنگار نہ ظاہر کریں "
تانیہ میں ایک بات سوچتی ہوں لڑکی جب اسکول کالج جاتی ہے تو اس کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کے اس کے اچھے نمبر آئیں - کیوں وہ چاہتی ہیں کے ان کے ماں باپ کو ان کی وجہ سے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے - پھر جب وہ لڑکی اپنے سسرال جاتی ہے تو اس کی کوشش ہوتئ ہے کہ اس سے کسی کو شکایت نہ ہو - کوئ یہ کہنے والا نہ ہو کہ اس کی ماں نے اس کو کچھ نہیں سکھایا ، کوئ یہ نہ کہے کے باپ نے تربیت اچھی نہیں کی ! اور یہ سب کچھ avoid کرنے کے لیے وہ اپنی خوشیوں کی قربانی دے دیتی ہے "
وہ ایک پل سانس لینے کو رکی ۔
" - لیکن یہ تو دنیاوی باتیں ہیں - جب قیامت والے دن اللّہ تعالی ہمارے باپ ، بھائ ، شوہر یا بیٹے سے پوچھیں گے کہ تمہاری عورت پردہ کیوں نہیں کرتی تھی ؟ تمہاری عورت کو نا محرم کیوں دیکھتی تھے ؟ تو کیا اس بھرے مجمے میں ہم ان کی جھکی گردنیں دیکھ سکتے ہیں ؟ تم نے مجھ سے سوال کیا کے میں حجاب کیوں کرتی ہوں ؟ میں اس لیے کرتی ہوں کیوں کہ میں اپنے سے منسلک مردوں سے بے حد پیار کرتی ہوں اور میں ایسے اللہ کو اچھی لگتی ہوں "
اس کی باتوں میں ایک سحر تھا جس میں تانیہ کے ساتھ ساتھ باہر کھڑا شخص بھی جکڑا گیا تھا -
"تو آپی میں بھی آج سے حجاب لوں گی " تانیہ نے جوش سے کہا -
"آج سے کیوں ابھی سے کیوں نہیں !" اس نے تانیہ کا ڈوپٹا سکارف کی صورت میں باندھ دیا -
وہ جو کسی کام سے آیا تھا اس کی دل میں گڑھ جانے والی باتیں سن کے مسکراتے ہوۓ واپس چلا گیا - اسے اپنے انتخاب پر فخر تھا -
_________________________

وہ انتظار کا موسم ✅Where stories live. Discover now