آخری باب؛ چُھپا ہمدم (پارٹ تھرڈ)

916 77 7
                                    

جزیل اپنے موبائل پر روز کا میسج دیکھ کر حیران ہوا تھا۔۔جس نے اسے چھت پے آنے کا کہا تھا
"ہاں روز بولو ؟"
اس کے آواز دینے پر روز نے اپنا رخ اس کی طرف کیا تھا اس کی آنکھیں آج پھر رونے کی وجہ سے سرخ ہوئی تھیں اور آنکھوں میں سرخ لکیریں صاف واضح تھیں۔۔مگر جزیل نے پھر سے محسوس تو بہت گہرائی سے کیا تھا لیکن روز پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا
"آج تو خیر ہو آج تو تم نے مجھے چھت پر بلایا ہے کوئی خاص بات کرنی تھی کیا؟"
جزیل نے شوخ ہوتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔۔
"جزیل مجھے تم سے ایک چیز چاہیے اور مجھے پوری امید ہے تم بغیر کوئی سوال کیے مجھے وہ دے دو گے۔۔"
روز نے ہمت کرتے ہوئے اسے کہا تھا اور آج اسے بہت مجبور ہو کر یہ فیصلہ کرنا پڑا تھا کیونکہ آج پھر ممی نے اسے فون کرکے اپنے آپ کو دماغی طور پر حذیفہ سے نکاح کے لئے تیار ہونے کو کہا تھا۔۔وہ اس وقت اپنے آپ کو بہت تنہا اور بہت لاچار محسوس کر رہی تھی لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کا چھپا ہمدم اس کے لئے جو بھی کرے گا وہ بہترین ہوگا اس کے حق میں۔۔۔اس نے اپنے آپ سے وہ مشکل سوال پوچھا تھا جو دنیا کی ہر لڑکی کے لیے سب سے مشکل ترین سوال ہوتا ہے ماں باپ یا محبت اور اس نے بھی تمام اچھی لڑکیوں کی طرح ماں باپ کو چن کر اپنی محبت کو قربان کر دیا تھا۔۔
"ہاں بولو ایسی بھی کیا بات ہے جو تمہیں اتنی تمہید باندھنے میں مجبور کر رہی ہے"
جزیل تو نارمل انداز میں بولا تھا اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کچھ سیکنڈ بعد روز اس سے کس چیز کا مطالبہ کرنے والی ہے۔۔
"مجھے۔۔۔ تم سے۔۔۔۔"
وہ ہکلاتے ہوئے بولی تھی مسلسل کئی گھنٹے روتے رہنے کی وجہ سے اس کی آواز بھی بہت بھاری ہوئی جا رہی تھی۔۔۔
"ہاں بولو روز مجھے نہیں لگتا میرے سامنے کچھ کہنے سے پہلے تمہیں اتنا سوچنا چاہیے"
جزیل اس کے غیر معمولی انداز پر حیران ہو رہا تھا۔
"مجھے۔۔۔۔ تم سے۔۔۔ طلاق۔۔۔۔ چاہیے۔۔۔"
وہ بہت ہمت کرکے بولی تھی۔۔اس نے تڑپ کر خود ہی اپنی نظریں جھکا دی تھیں کیونکہ جس دل سے اور جتنی ہمت کرکے وہ یہ الفاظ بول پائی تھی وہ صرف اور اس کا چھپا ہمدم ہی جانتے تھے۔۔دوسری طرف جزیل بھی شاک میں آگیا تھا وہ تو کوئی بات جانتا ہی نہیں تھا جانتا تھا تو بس یہ کہ اسے روزینہ انور سے عشق تھا اور عشق بھی وہ جو سب سے آگے والے درجے کا ہوتا ہے اور وہ تو روز کی بھی محبت سے اچھی طرح واقف تھا پھر روز ایسا مطالبہ کر رہی تھی یہ بات سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹنے والا ہو گیا تھا وہ انتہائی شاک کے عالم میں روز کو دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں میں سے آنسو نکلنے کو بے اختیار ہو رہے تھے۔۔۔
"تم نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے؟"
جزیل نے اس کو جانچتی ہوئی نظروں سے دیکھا تھا وہ جانتا تھا کہ روز بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتی ہے جتنا جنونی عشق جزیل اس سے کرتا ہے لیکن پھر بھی جزیل اس سے ایک دفعہ دوبارہ پوچھ لینا چاہتا تھا
"ہاں اور اگر ایسا نہ ہوتا میں کبھی تم سے ایسی بات نہ کہتی "
وہ آنکھ کا نم کنارہ صاف کرتے ہوئے بولی تھی سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا اور اس نے جزیل کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے آنسو جزیل دیکھ لے۔ ۔۔ جزیل اسی کی طرف پیار سے دیکھ رہا تھا جو اس وقت اسے بہت زیادہ مظلوم دکھائی دے رہی تھی مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ روز کس وجہ سے مجبور ہوکر یہ مطالبہ کر رہی تھی۔۔۔
"اوکے جیسا تم چاہو"
روز کو تو یہ سن کر مزید غمزدہ ہو گئی تھی۔۔۔ وہ کیسے اس کے ساتھ اتنا ظلم اتنی زیادتی کر سکتا تھا۔۔۔اور جزیل نے جس طرح یہ الفاظ ادا کیے تھے وہ بھی وہی جانتا تھا اور اس کا خدا مگر یہ بات بھی وہ اور اس کا خدا جانتے تھے کہ وہ روز کو کبھی بھی خود سے جدا نہیں کرے گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔
روز جزیل کے الفاظ سن کر سیدھا اپنے کمرے میں آئی تھی اور کمرے میں آکے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور روز وہ تو غم و غصے سے نڈھال تھی اسے یہ امید جزیل سے نہیں تھی کہ وہ اتنی آسانی سے کہہ دے گا کہ جیسا تم چاہو کیا اس کی کسی طرح کی بھی کوئی اٹیچمینٹ نہیں تھی روز کے ساتھ یہی سوچ سوچ کر روز کو بار بار غصہ آ رہا تھا۔۔وہ مسلسل کتنی ہی دیر بیٹھی روتی رہی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں صوفیہ روز بھی بہت خوش ہے اس رشتے سے تو ایسا کرو عید کے فوراً بعد ہی ڈن کرو میں نے روز سے پوچھ لیا ہے اسے بھی کوئی اعتراض نہیں"
کلثوم نے ہاتھوں پر مساج کرتے ہوئے کہا تھا اس کا فون سپیکر پر لگا ہوا تھا اور وہ اس کے بیڈ پر اس کے پاس ہی پڑا ہوا تھا۔۔
"ہاں چلو ٹھیک ہے اچھا کلثوم میرے گھر ذرا مہمان آگئے ہیں تو میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں ہاں"
صوفیہ نے کہا تھا۔۔
"ہاں چلو ٹھیک ہے"
کلژوم نے فون اپنی طرف سے تو بند کر دیا تھا مگر وہ فون دراصل بند نہیں ہوا تھا کیونکہ کلثوم کے ہاتھوں پر کریم لگی ہوئی تھی اس لیے اس سے اپنا اینڈرائڈ فون پر انگلی پھیر کر ٹچ نہیں کیا جا رہا تھا اس نے انتظار کیا کہ انور واشروم سے آ جائیں اور خود آکر فون بند کر دیں کیونکہ صوفیہ نے بھی دوسری جانب سے فون بند نہیں کیا تھا۔۔اس کی بہن کے آنے پر وہ جلدی جلدی میں اٹھ کر چلی گئی تھی اور اسے فون بند کرنا یاد ہی نہیں رہا تھا۔۔صوفیہ کے ساتھ کلثوم کی بہت گہری دوست تھی جسے وہ اپنی بہن ہی سمجھا کرتی تھی اور انور کو اس کی یہ نام نہاد دوست بالکل بھی پسند نہیں تھی۔۔
" تم کیوں فکر کرتی ہو؟؟ دیکھ لینا روز جیسی لڑکی ہے نا میں جانتی ہوں اس کو اچھی طرح اور وہ چپ چاپ ساری زندگی یوں ہی گزار لے گی"
"لیکن کیا صوفی تمہیں یقین ہے وہ واقعی گزار لے گی کیونکہ نیویارک میں پلی بھری لڑکی کیسے یوں ایسے فضول کے بندے کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے۔۔؟"
فون کے دوسری جانب سے صوفیا کی اور اس کی دوست ماریہ کی آوازیں آرہی تھیں جوکہ بالکل ویسے ہی کلژوم کو بھی سنائی دے رہی تھیں۔ انور واشروم سے آ تو گئے تھے لیکن کلثوم نے انہیں فون بند کرنے سے منع کردیا تھا وہ بڑی حیرت سے ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی اور اسے یہی لگ رہا تھا کہ باتوں کا مرکز اس کی اپنی بیٹی روزینہ انور ہے۔۔۔
"اب میرے بیٹے کو فضول نہ بولو صرف ڈرنک ہی تو کرتا ہے اور اکثر اتنا کرلیتا ہے کہ اسے کسی بھی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔۔۔۔ خیر ہے بچہ ہے بچے تو کرتے ہی ہیں نا ایسے اور ویسے بھی روز کی فکر تمہیں نہیں ہونے چاہیے اسے تو بس ایک اچھا بھلا لڑکا چاہیے نا۔۔"
"نہیں صوفیہ میں اس معاملے میں تمہارا ساتھ نہیں دینا چاہتی ہم نے کل کو خدا کو بھی تو منہ دکھانا ہے اور تمہیں شرم آنی چاہئے تم کیسے کسی کی بیٹی کے ساتھ اتنا بڑا کھیل کھیلنا چاہ رہی ہو تم سوچو تو کل کو خدا کی پکڑ بھی ہونی ہے۔۔"
"پھر کیا ہوا اگر میرا بیٹا گندی خصلتوں میں پڑا ہوا ہے اور اسے شراب کی اور جوئے کی لت لگی ہوئی ہے پھر کیا ہوا ہے تو اچھا بھلا نہ اور اس کا فیوچر بھی بہت روشن ہے۔۔"
صوفیہ بے شرمی اور ڈھٹائی کی آخری حد بھی پار کر دینا چاہتی تھی
"شرم کرو صوفیہ بھلا تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ اس کا فیچر بہت روشن ہے اس کا فیوچر تو مجھے گندی نالیوں میں ڈوبتا ہوا ہی نظر آرہا ہے۔۔۔"
"دیکھو ماریہ اگر تم چپ چاپ میرا ساتھ دو تو ٹھیک ہے نہیں تو مجھے بھی ضرورت نہیں ہے تمہاری ان فضول سی باتوں کی اچھا اور خبردار تم نے میرے بیٹے کے بارے میں یا اس کی کسی بھی عادت کے بارے میں کچھ کہا تو میں یہ حق کسی کو بھی نہیں دیتی اور روز کی تمہیں اتنی فکر نہیں ہونی چاہیے ٹھیک ہے نا اس کا کیا ہے گزار لے گی ساری زندگی۔۔ساری لڑکیاں اپنے سسرال کو لے کر کمپرومائز کرتی ہیں نہ تو پھر کیا ہوا اگر روز بھی کمپرومائز کر لے گی۔۔"
"پر تم تو جانتی ہو اس کا ذہن بھی کتنا خراب ہے ۔۔"
"تو اسے کیا فرق پڑتا ہے ہاں ویسے بھی۔۔۔ پھر کیا ہوا جو لوگ اپنے اپنوں کو لے کے زیادہ پوسیسیو ہوتے ہیں وہی تو شک وغیرہ بھی کرتے ہیں اگر اس نے روز پزشک کیا یا کبھی کبھار مارپیٹ بھی کرلی تو کیا فرق پڑے گا۔۔۔"
"شرم کرو صوفیہ تم اتنی بے حس ہو سکتی ہو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ایک عورت ہو کر تم ایک عورت کے ساتھ اتنے بڑے ظلم کرنے کا سوچ رہی ہو سوری ٹو سے تمہارا ضمیر مر چکا ہے اور میں تمہارے ساتھ تمام طرح کے تعلقات آج ہی توڑ رہی ہوں مجھے تو شرم آ رہی ہے سوچ سوچ کر کہ تم کیسے کسی چھوٹی سی لڑکی کی زندگی برباد کرنے پر تلی ہوئی ہو۔۔۔"
اسے آگے نہ کلثوم سے سنا گیا اور نہ انور سے  انہوں نے آگے بڑھ کر فون ہی بند کر دیا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کتنی دیر وہ مسلسل روتی رہی تھی اپنی ضد پر اڑے رہنے کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی کو کتنے بڑے عذاب سے دوچار کرنے والی تھیں یہی سوچ سوچ کر کلثوم کو مزید رونا آتا جا رہا تھا اور انور اسے روتا ہوا دیکھتے جارہے تھے اب تو ان کی بھی بس ہوگئی تھی۔۔
"انور مجھے معاف کردیں میں نے اپنی ضد کی وجہ سے آپ کو بھی بہت ہرٹ کیا ہے میں آپ کبھی بھی کبھی بھی ایسے لوگوں کا اعتبار نہیں کروں گی میری بچی یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے میری بچی کی زندگی تباہ ہونے سے بچ گئی۔۔۔"
کچھ دیر بعد جب وہ تھوڑا حوصلہ کر پائیں تب وہ انور سے مخاطب ہوئیں انور مسکرا دیئے کہ فائنلی انہیوں نے بھی عقل کا دامن تھام ہی لیا تھا۔۔
"آپ کو میں ہمیشہ سے کہتا تھا نہ کلثوم کے آپ کسی بھی غیر پر اتنا بھروسہ کبھی بھی مت کریں کیونکہ غیر کبھی بھی اپنوں سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے۔۔"
انور مسکرا کر بولے تھے
"لیکن اب میری بیٹی کا کیا ہوگا؟"
کلثوم پریشانی سے بولی تھیں
"ارے بھئی میری نظروں میں ایک اچھا بھلا حسین سا رشتہ ہے اگر تم مانو تو۔۔"
انور نے شرارت سے کہا تھا
"بتائیں نا اور میں نے تو روز کو بھی فورس کرکے کہہ دیا تھا حالانکہ وہ کبھی بھی خوش دکھائی نہیں دی تھی اس رشتے پر ۔۔۔"
کلثوم بھی پریشانی سے بولی تھی جو رشتہ
"میں بتانے والا ہوں اس پر روز بھی خوش ہوگی اور تم بھی۔۔۔"
"اب بتائیں گے تو پتہ لگے گا نا مجھے۔۔"
کلثوم روٹھے انداز میں بولی تھیں
"ارے بھئی میرا بھانجا جزیل اور کون؟ ؟  اچھا ہے خوبصورت بھی ہے پڑھا لکھا بھی ہے اور اچھی خاصی ماشااللہ اپنے باپ کی فیکٹری چلاتا ہے اور ہمیں کیا چاہیئے اور میں تمہیں خود اس بات کی گارنٹی دینے کو تیار ہوں کہ وہ میری بیٹی کو ہمیشہ خوش رکھے گا۔"
انور مسکرا کر بولے تھے
"کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟"
کلثوم بہت پریشانی سے بولی تھی۔۔
"میں گرانٹی دیتا ہوں آپ کو اب تو یقین کر لیں"
انور سنجیدگی سے بولے تھے۔
"لیکن۔۔۔"
کلثوم نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔۔
"کلثوم ایک بات میری ہمیشہ یاد رکھیں زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو اور کسی بھی نوعیت کا ہو ہمیشہ قدر ہمیں محبتوں کی کرنی چاہیے اپنوں کی کرنی چاہیے پیسے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔۔۔"
انور نے انہیں مسکرا کر سمجھایا تھا
"جی مجھے یقین ہے آپ کی بات پر اور انشاءاللہ ہماری بیٹی کے لئے جزیل ہی سب سے بہتر انسان ہوگا۔۔"
کلثوم نے بھی مسکرا کر کہا تھا اور پھر وہ دونوں سونے کے لئے لیٹ گئے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت تو وقت تھا پر لگا کے اڑ گیا تھا اور دن اتنی جلدی سے گزر رہے تھے کہ پتا ہی نہیں چل رہا تھا آخری عشرہ اختتام کو تھا آج فرحت کے گھر میں خوشیوں کا سماں تھا انور اور کلثوم انہیں سرپرائز دے کر پاکستان آگئے تھے اور گھر میں تو آج مانو کتنے عرصے بعد خوشیاں چھائی ہوئی تھیں۔۔ابھی بھی افطار کے بعد سب لوگ محفل لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ہاں اس محفل میں روز اور جزیل شامل نہ تھے۔۔
"جی باجی میں تو خود ہی کہہ رہی تھی کہ جتنی جلدی ہو ٹکٹ کروائیں گے نہ میں نے تو اتنی ہی دیر سے آنا ہے یہاں پر کیونکہ عرصہ ہوا اب تو مل بیٹھ کر باتیں ہی نہیں ہوئیں۔۔۔"
کلثوم بھی مسکرا کر فرحت سے باتیں کر رہی تھی فرحت بھی خوشدلی سے ان سے ملی تھی۔۔وہ لوگ باتیں کر رہے تھے جب جزیل اندر داخل ہوا۔۔اس کے چہرے سے ہی پریشانی جھلک رہی تھی
"کیا بات ہے جزیل بیٹا پریشان لگ رہے ہو؟؟"
انور نے اس کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"دراصل مجھے آپ سب سے ایک ضروری بات کرنی ہے اور وہ بات بہت اہم ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ سنجیدگی سے میری بات سنیں گے۔۔"
جزیل کے غیرمعمولی سنجیدہ انداز پر سب لوگ حیران ہوئے تھے اور پھر سنجیدگی سے اس کو دیکھ رہے تھے اور اس کے بات کہنے کے منتظر تھے۔۔۔وہ کافی دنوں سے روز کی بات پر پریشان تھا اور آج اس نے فیصلہ کیا تھا کہ بس آج تو بس فیصلہ ہو ہی جائے اور سب سے بغیر کسی تمہید کے یا الٹی سیدھی بات کے سیدھی اور صاف بات کر لی جائے۔۔۔۔۔۔

چُھپا ہمدم (COMPLETED)Where stories live. Discover now