باب سوم؛ آغازِ اظہارِ محبت

1.1K 104 10
                                    

بڑا دعوا کرتے ہو نا تم کہ روزینہ انور کو بہت اچھے سے جانتے ہو۔۔ اس کے دل اور اس کے جذبات کو اس سے زیادہ اچھے سے جانتے ہو؟؟ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندے ہوئے بیٹھی دل ہی دل میں جزیل سے مخاطب تھی۔
کتنا عرصہ ہو گیا ہے ہماری دوستی کو جزیل مصطفیٰ۔۔ مگر آج تک تم دوستی کے پیچھے چھپی ہوئی میری محبت نہیں سمجھ سکے۔ تم شاید یہ بھی نہیں جان پاۓ کے حذیفہ ہو یا کوئی بھی میرے لیے کوئی اتنا خاص نہیں ہو سکتا۔۔ جتنے تم ہو۔۔تم کبھی میری یک طرفہ محبت محسوس نہیں کر سکے۔ تمہیں کبھی میرے لڑائی جھگڑوں کے پیچھے چھپا ہوا میرا ڈھیر سارا پیار نظر نہیں آیا۔۔۔ پھر تو تمہارے سارے دعوے جھوٹے نکلے نا۔۔ تم تو آج تک اتنی چھوٹی سی بات نا سمجھ سکے۔۔۔میں جتنی بھی ماڈرن ہو جاؤں اتنی بے باک کبھی نہیں ہو پاؤں گی کہ تمہیں میری اس خاموشی کے پیچھے چھپا ہوا گہرا راز بتا سکوں۔ بلا شبہ وہ راز رازِ محبت ہے۔۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔۔ جب سنی اس کے کمرے میں ہامپتا ہوا داخل ہوا۔
"کیا بات ہے سنی؟"
وہ جس انداز میں آیا تھا روز تو اسے دیکھتے ہی پریشان ہو گئی تھی۔
"آپی وہ جزیل بھائی آئس کریم کھلانے لے کر جا رہے ہیں"
وہ جلدی جلدی بولا۔
"تو اس میں اتنا سانس پھلانے کی کیا ضرورت تھی؟"
وہ اس کے تیز تیز سانس لینے پر نا گواری سے بولی تھی۔
"آپی وہ کنجوس ہیں بہت بڑے۔۔ اور کھلے دل سے آفر کیا ہے انہوں نے میں تو شاک کے بعد اب پر جوش ہو گیا ہوں"
سنی نے اس کے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"افو سنی اس میں اتنی بھی حیران ہونے والی کیا بات ہے؟ موڈ اچھا ہو گا اس چوہے کا"
روز نے اپنا موبائل اٹھا لیا گویا یہ اس بات کا اظہار تھا کہ اب وہ مزید جزیل کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی۔
"چلیں آپی ہم آئس کریم کھانے چلتے ہیں نا"
سنی نے اسے پیار سے منانے کی کوشش کی۔
"نہیں بھئی۔۔ مجھے نہیں کھانی اس چوہے کی آفر والی آئس کریم"
روز نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
"آپی دیکھیں میری بات سنیں"
سنی اپنے پروفیشنل انداز میں بولا جس پر روز نے اسے گھوری سے نوازا۔
"پھوٹو"
روز نے ابرو اچکاتے ہوئے اسے کہنے کی عجازت دی۔
"آپی میری پیاری آپی۔۔ ہمیں آئس کریم سے غرض ہونی چاہیے نا کہ لانے والے یا کھلانے والے سے اگر آپ یہ کہیں کہ ہم پھپھو سے منگوا لیں گیں تو لا کر دینے والے تو جزیل بھائی ہی ہوں گیں نا۔۔ تو ہمیں یہ موقع ہی نہیں گنوانا چاہیے۔"
سنی نے بڑی سمجھداری کی بات کی تھی۔ معصوم سی روز کو تو یہی لگا تھا۔
"ہاں ٹھیک کہتے ہو تم"
روز نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
"چلیں پھر دیر کس بات کی ہے۔"
سنی جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
"بس میں پانچ منٹ میں آئی"
روز کہہ کر واشروم میں گھس گئی۔
سنی مسکرا کر باہر چلا گیا۔ اس کے نزدیک دنیا کا سب سے آسان کام روز کو بیوقوف بنانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ناجانے یہ روز میڈم کے پانچ منٹ کب ختم ہوں گیں"
جزیل بے صبری سے سوچتے ہوئے بولا۔
"موٹے تیری بہن کب آئے گی یار؟"
وہ انتظار کر کر کے اکتا سا گیا تھا۔
"وہ دیکھیں آ گئیں ہیں"
اس کی بات پر اس نے مڑ کر سیڑھیوں کی جانب دیکھا تھا۔
بلیک کلر کی گھٹنوں تک آتی فراک اور لال رنگ کے پاجامے میں وہ جزیل کے بے قرار دل پر بجلیاں ہی تو گرا رہی تھی۔ اسے دیکھ کر جزیل کو یوں لگا جیسے اس کا دل دھڑکنا بھول جاۓ گا۔۔ ابھی وہ مکمل طور اور محو ہی نہیں ہو پایا تھا جب وہ سنہری آنکھوں میں چمک لیے براہ راست جزیل کو دیکھتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی۔
"جلدی کرو مجھ سے اور انتظار نہیں ہو رہا"
جزیل تو اس کی خوبصورت سنہری آنکھوں ہی میں کہیں کھو سا گیا تھا۔
ہیں آنکھوں میں کمال اس کے۔۔
جب کلام کرتی ہیں تو دل دھڑک دیتے ہیں۔۔۔😻😻
"انتظار تو مجھ سے بھی نہیں ہو گا میری جان"
وہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھا۔
"اوہ ہیلو مسٹر یوں غور سے دیکھنا بند کرو مجھے ناراض تو میں ابھی بھی ہوں پر صرف آئس کریم کے لیے کمپرومائز کر رہی ہوں۔"
جزیل نے بھی فوراً خود کو سمبھالا تھا۔
"ہیں کون سی ناراضی ہاں؟"
وہ انجان بنتے ہوئے بولا۔
"بعد میں بتاؤں گی ابھی چلو نا"
روز اس کا بازو کھینچتے ہوئے باہر لے گئی
گاڑی میں وہ تینوں ابھی بیٹھے ہی تھے کے سنی بولا۔
"دو منٹ جزیل بھائی میں واش روم سے ہو کر آیا۔"
سنی گاڑی سے نکل کر بولا۔
"موٹے تجھے ہمیشہ غلط ٹائم ہی کیوں ایسے کام یاد آتے ہیں؟"
جزیل اکتاتے ہوئے بولا۔ جب کہ سنی اس کی بات کا اثر لیے بغیر گھر کے اندر چلا گیا تھا۔ جزیل نے اس وقت گاڑی ان کے گھر کے دروازے کے بلکل باہر کھڑی کئی ہوئی تھی۔ سنی نے اندر جاتے ساتھ دروازہ لاک کر دیا تھا۔ ابھی روز اس کی حرکت پر ٹھیک سے حیران بھی نہیں ہو پائی تھی کہ جزیل نے زن سے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔
"جزیل یہ سب چل کیا رہا ہے سنی وہاں ہی ہے اور تم نے گاڑی چلا دی؟"
روز نے شدید حیران ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
"سب پلان کے مطابق ہو رہا ہے تم ٹینشن نہیں لو"
وہ اس کی حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے بولا۔
"کون سا پلان؟"
پلان کا نام سن کر اس کی حیرت میں اضافہ ہوا۔
"کچھ نہیں چلو ہمیں یہاں ہی اترنا ہے"
اس نے گاڑی کا لاک کھولتے ہوئے کہا تھا۔ وہ آئس کریم بار ان کے گھر کے قریب ہی واقع تھا۔
روز معصوم ان کی پلاننگ سمجھ نہیں سکی تھی۔
"تم کونسا فلیور لو گی؟" جزیل نے آئس کریم بار کے ایک ٹیبل میں بیٹھ کر فلیورز دیکھتے ہوئے کہا۔
"جو تم کھلاؤ گے"
روز دھیرے سے مسکرائی۔ جزیل بھی مسکرا کر کاؤنٹر کئی جانب چلا گیا تھا۔
"چلو میں نے دو چاکلیٹ آئس کریم آرڈر کر دیں ہیں۔"
کچھ دیر بعد جزیل کاؤنٹر سے آ کر بولا۔
"تمہیں میری پسند کا کیسے پتا؟"
روز نے چاکلیٹ فلیور کا سن کر خوشگوار حیرت سے کہا۔
"مجھے تمہاری پسند کا اچھے سے پتا ہے"
جزیل نے زومعنی بات کہہ ڈالی تھی مگر روزینہ نادان کچھ سمجھ نا سکی۔۔۔
"خوشفہمی ہے تمہاری۔۔ میری زندگی کی سب سے بڑی پسند کا تو پتا ہی نہیں ہے تمھیں"
روز نے دل میں سوچا تھا۔
"خیر ناراضی کے بارے میں تو بتاؤ کیوں ناراض ہو؟"
جزیل انجان بن کر پوچھ رہا تھا۔
"جیسے تمہیں نہیں پتا۔۔"
روز مزید خفا ہوئی۔۔
"اوہ کیا زرافہ والی بات پر؟"
جزیل نے پھر سے وہی سارا قصہ دوبارہ شروع کر دیا تھا۔
"جزیل پلیز۔۔۔"
وہ التجا کرتے ہوئے بولی۔
"اوکے اوکے سوری لو آئس کریم کھاؤ"
ویٹر نے آئس کریم لا دی تھی وہ دونوں اب آئس کریم کھانے میں مشغول ہو گئے تھے۔ اس دوران روز گہری نگاہوں سے جزیل مصطفیٰ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کے ذہن میں برسوں پہلے کا پڑھا ہوا شعر یاد آ رہا تھا۔
تیرے دل پے میرا اختیار ہو جاۓ
رب کرے تجھ کو بھی پیار ہو جاۓ💕
دوسری طرف جزیل خود پر اس کی نگاہیں محسوس تو کر رہا تھا مگر اس نے ایک بار بھی سر نہیں اٹھایا تھا۔ اس نے روز پر یہی ظاہر کیا تھا کہ وہ بس آئس کریم کھانے میں توجہ دیے ہوئے ہے۔۔۔ اور ہماری معصوم سی روز یہی سمجھے ہوئی تھی۔
"روز؟"
جزیل نے اسے یوں مخاطب کیا جیسے سرگوشی کر رہا ہو۔
"ہاں کہو"
روز تھوڑا آگے ہو کر بیٹھی۔
"روز وہ ہمارے بلکل دائیں طرف جو کپل بیٹھا ہے۔۔۔ وہ ڈیٹ پر آئیں ہیں"
جزیل نے اسے بہت بڑی معلومات دی تھی۔
"کیا؟؟ تمہیں کیسے پتا؟"
روز نے حیران ہوتے ہوئے اپنے دائیں جانب بیٹھے ہوئے کپل کو دیکھا۔
"جس طرح وہ لڑکا لوفروں والی حرکتیں کر رہا ہے صاف ظاہر ہے"
جزیل نے ناگواری سے کہا۔
"بڑا گہرا مشاہدہ ہے تمہارا۔۔"
روز نے اس کے مشاہدے سے متاثر ہوتے ہوئے کہا۔
"میں تو بہت حیران ہوں پاکستان جیسے اسلامک کنٹری میں بھی یوں غیر اخلاقی حرکتیں ہوتی ہیں۔۔"
روز واقعی حیران دکھائی دے رہی تھی۔
"یہاں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے روز تمہیں ابھی پتا نہیں"
جزیل نے مسکرا کر کہا تھا۔
"مجھے پتا کرنے کی ضرورت بھی نہیں"
وہ سنجیدگی سے بولی۔
"اچھا سنو تو؟"
جزیل نے اسے پھر بلایا۔
"ہاں؟"
"ان کو سبق سیکھائیں؟"
جزیل نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"ہاں سیکھانا تو چاہیے مگر تم کیسے سیکھاؤ گے؟"
روز نے حیران ہوتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
"وہ تم مجھ پر چھوڑ دو"
جزیل اپنے پلان پر خودی ہنس دیا۔۔ روز تو بہت پر جوش ہو کر دیکھ رہی تھی کے اب جزیل صاحب کیا نیا کارنامہ کرنے والے ہیں۔۔۔جزیل یوں گھوم کر اٹھا جیسے واش روم جا رہا ہو مگر اس کے ارادے اس کپل کے حق میں کتنے خطرناک تھے یہ تو بس وہی جانتا تھا۔ وہ آئس بار کافی بڑا تھا اس لیے ٹیبلز کافی فاصلے میں لگاۓ گئے تھے۔ وہ آرام سے چلتا چلتا اس ٹیبل کے تھوڑی دور کھڑا ہوا تھا۔۔ ان کے درمیان فاصلہ اتنا ضرور تھا کہ جزیل اگر کچھ بولتا تو اس کپل کے کانوں کو آسانی سے سنائی دے جاتا۔
"ہاں ہاں یار تیری بہن ہی ہے۔۔۔۔۔ اس دن دیکھا تھا میں نے تیرے ساتھ جوتی کی شاپ پر۔۔۔۔ہاں کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھی ہے۔۔۔۔۔ اوہ تو بھی کمال کرتا ہے یار لڑکا ہی ہے۔۔۔ نہیں۔۔میں نے تو اس لڑکے کو کبھی تیرے ساتھ نہیں دیکھا۔۔ نہیں یار تیرا کزن نہیں ہے۔۔۔ میں نے تیرے سارے کزن دیکھے ہوئے ہیں۔۔ہاں کالا دوپٹہ اور نیلی شلوار کمیز۔۔ہاں ظاہر ہے بھائی ہوں تیرا۔۔ ابھی ماں بہن ایک کرتا ہوں بے غیرت کی۔۔ہاں تو بندے لے کر پہنچ اس لڑکے کو تو عبرت کا نشان بنائیں"
جزیل نے اپنی پینٹ کی جیب سے موبائل نکالا اور کان کے ساتھ لگا کر سنجیدگی سے بولا جیسے واقعی اس لڑکی کے بھائی کے ساتھ بات کر رہا ہو۔۔ لڑکے اور لڑکی کے رنگ تو فق ہو گئے تھے۔۔۔ لڑکی کے تو باقاعدہ ہاتھ بھی کامپنے لگ گئے تھے۔
"بھائی بات سنیں"
وہ ڈرتے ڈرتے جزیل کے نزدیک آ کر بولی تھی۔ چونکہ جزیل کی پشت اس کی جانب تھی اس لیے جزیل کو اپنے چہرے پر چھائی ہوئی شرارتی مسکراہٹ چھپا کر اس کی جانب مڑنا پڑا۔
"جی؟"
وہ فون اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے سینے پر ہاتھ باندھ کر بولا۔
"بھائی دیکھیں غلطی ہو گئی ہے مجھ سے پلیز۔۔ میرے بھائی کو مت بتائیں۔۔۔ پلیز بھائی۔۔۔"
وہ لڑکی روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔ اس کی اس حرکت سے باقی کے لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو رہے تھے۔ اس لیے جزیل کو یہ مذاق کرنا بند کرنا ہی مناسب لگا۔۔
"پہلے وعدہ کریں آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گیں"
جزیل سنجیدگی سے بولا تھا۔
"بھائی پکا وعدہ۔۔ اللہ‎ کی قسم آئندہ ایسا کرنے کا سوچیں گیں بھی نہیں"
لڑکی سے پہلے وہ لڑکا اس کے آگے آیا تھا۔۔ جو پہلے اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔
"چلو یقین کر لیتا ہوں مگر میں اب تمہارے بھائی کو کیا کہوں؟"
جزیل کی تو اب بس ہونے والی تھی۔
"کچھ بھی کہہ دیں بھائی پلیز۔۔۔ وہ ہماری لاشیں یہیں گرا دیں گیں پلیز۔۔۔"
وہ لڑکی ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔۔۔
"چلیں آپ رو مت۔۔ میں ہینڈل کر لوں گا۔۔ مگر آئندہ یوں ہوا تو اس سے زیادہ برا ہو گا"
جزیل نے اس لڑکی کے سر پے ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔
"اور تم اس کے ساتھ یا کسی کے ساتھ بھی ایسی حرکتیں کرتے نظر آئے نا تو یاد رکھنا"
جزیل نے اس لڑکے کو انگلی دکھاتے ہوئے کہا۔
"جی بھائی اب نہیں کروں گا پکا"
وہ بھی بہت شرمسار لگ رہا تھا۔ اور ساتھ ہی دونوں وہاں سے نکل گئے تھے۔ جزیل نے بھی وہاں سے جانا ہی مناسب سمجھا کیوں کے وہاں موجود لوگ مڑ مڑ کے دیکھ رہے تھے۔ جزیل نے وہاں سے سیدھا بل پے کیا اور روز کو لے کر گاڑی تک لے آیا۔ باہر آتے ہی دونوں کے فلک شگاف قہقہے نکلے تھے۔
"ہاہا جزیل کے بچے آج تو حد کر دی تم نے"
روز مسلسل ہنستے ہوئے بولی تھی۔
"قسم سے میں نے تو اتنی مشکل سے ہنسی ضبط کی ہوئی تھی تمہیں کیا بتاؤں"
جزیل بھی ہنستے ہوئے بولا تھا۔
کچھ دیر تک وہ دونوں مسلسل ہنستے رہے تھے۔ چپ کرتے اور ان دونوں کی شکلیں یاد آتیں اور پھر ہنس دیتے۔۔ خاموش ہوتے ایک دوسرے کو دیکھتے پھر ہنس پڑتے۔۔۔ یہاں تو میں نے مزاح میں سین لکھ دیا مگر ان لڑکیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے ماں باپ کی عزت کو پامال کرتی ہیں اور ان کی آبرو کو داؤ پر لگا کر ایسے آوارہ لڑکوں پر بھروسہ کر کے ان کے ساتھ چلی جاتی ہیں۔۔۔افسوس کہ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو۔۔ قصور ہمیشہ عورت ذات کا مانا جاتا ہے۔۔
"میرے ساتھ یوں ہی میری کرائم پارٹنر بن کے رہو۔۔ زندگی حسین ہو جاۓ گی"
جزیل نے ہنستے ہوئے کہہ کر ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی تھی۔
"کاش تم کرائم کے ساتھ لائف پارٹنر کہہ دیتے"
روز نے اسے چاہت سے دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
"ہاہا پر میں پوری زندگی تو نہیں یہاں رہ سکتی نا"
روز نے اسے ہنستے ہوئے اسے دیکھ کر کہا تھا۔
"ہاں بھئی باقی کی تو زرافہ کے ساتھ گزارنی ہو گی"
جزیل کی زبان میں پھر کھجلی ہوئی تھی۔
"جزیل"
روز کا دل ٹوٹا تھا اس کے الفاظ سن کر۔۔ جس کے ساتھ زندگی وہ گزارنا چاہتی تھی جس کی سنگت کے خواب اس نے دیکھے تھے۔۔ وہ کتنی آسانی سے اس کے نام کے ساتھ کسی اور کا نام لیتا تھا۔۔ اس نے ناراض ہو کر چہرہ ہی دوسرے جانب کر لیا تھا۔۔
کاش کے تم جان سکو میرا حالِ دل۔۔
کاش کے تم میرے پوشیدہ جذبات جان سکو۔۔۔
کاش کے تم میری آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ سکو۔۔
کاش کے تم مجھے۔۔ میرے احساسات کو سمجھ سکو۔۔
"روز اچھا سنو"
جزیل اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر سنجیدہ ہوا تھا۔۔ وہ ہر گز اسے ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
"روز سوری نا"
جزیل لب کاٹتے ہوئے بولا۔۔
روز نے کسی قسم کا کوئی اظہار نہیں کیا تھا۔۔
"روز"
جزیل نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔روز تو بس اس کی حرکت پر ہی سن ہو گئی تھی۔۔۔
میری سب حسرتوں میں اول ہے ۔۔۔💜
تیرے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہونا۔۔۔❤
"سوری"
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔۔
"اٹس اوکے"
روز نے دھیرے سے مسکرا کر کہا۔۔
اس کا تو دل ہی خوش ہو گیا تھا جیسے بھی سہی جس بھی مقصد کے لیے سہی جزیل مصطفیٰ نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔آج روزینہ انور کی حسرتوں میں سے ایک حسرت تو پوری ہو گئی تھی۔۔وہ دل سے خوش تھی یا اس کا دل خوش تھا۔۔بات تو ایک ہی تھی نا۔۔
#tobecontinued
#zohaasif
Review den gen to agli aae gi❤

چُھپا ہمدم (COMPLETED)Where stories live. Discover now