باب اول؛ آغاز سفر

3.2K 139 25
                                    

رات کا اندھیرا امریکہ کے شہر نیو یارک میں چاروں طرف اپنے پر پھیلا چکا تھا۔ پر اس اندھیرے یا اجالے سے انور حبیب کے گھر والوں میں سے انور کے علاوہ اور کسی کو کوئی فرق نا پڑتا تھا۔ انور نے  چونکہ علی الصبح اپنے آفس کے لیے روانہ ہونا ہوتا تھا اس لیے وہ جلد ہی سو جایا کرتے تھے۔ باقی ان کے اہل و عیال آج کل تمام تر وقت گھر ہی میں گزارا کرتے تھے۔ ابھی بھی کلثوم انور کے کمرے میں ایک پنچایت لگائے روزینہ اور سنی بیٹھے ہوئے تھے۔ 
"ممی میں آپ سے کہہ رہی نا مجھے صوفی آنٹی کے ہاں نہیں جانا۔ بس مجھے پاکستان جانا ہے۔"
روزینہ نے اپنی بات منوا کر رہنے کی ٹھانی ہوئی تھی۔
"روز میں چاہتی ہوں کہ تم میرے ساتھ صوفی کے گھر چلو۔  تمہیں حذیفہ کے ساتھ وقت گزارنے کا اچھا موقع مل رہا ہے۔"
کلثوم بھی آخر اس کی ماں تھیں۔ اتنی جلدی کیسے مان جاتیں۔
"ممی مجھے نہیں کرنا اس کے ساتھ کوئی ٹائم سپینڈ۔ مجھے پاکستان جانا ہے"
وہ ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولی۔
"حذیفہ تمہارا منگیتر ہے۔ اور تمہیں اس کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا ہو گا پھر ہی تو تم لوگوں کی انڈرسٹنڈنگ بڑھے گی۔"
کلثوم نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"اوکے ممی جو ڈن ہو گا وہ مجھے بتا دینا میں جا رہا ہوں اپنے روم میں سونے۔ بہت نیند آ گئی مجھے"
سنی روزینہ کے لمبے چوڑے پلان کو دیکھ کر ہاتھ کو منہ کے قریب کر کے جمائی روکتا ہوا بولا۔
"تم تو نکلو یہاں سے"
روزینہ نے اسے کمرے سے باہر  دھکیلا۔
اب کمرے میں صرف وہ اور کلثوم تھے۔ انور صاحب بیڈ کے دوسرے جانب سوۓ ہوئے تھے۔
"ممی پلیز مجھے اس دفع پاکستان جانے دیں۔ میں اگلی دفع پکا صوفی آنٹی کی طرف آپ کے ساتھ جاؤں گی۔"
وہ التجایا لہجے میں بولی تھی۔ آنکھوں میں امید کے دیے بھر کے اس نے اپنی ماں کو دیکھا تھا۔
"مگر بیٹا میں پھر صوفی کو کیا بتاؤں گی"
وہ نیم رضامندی ظاہر کرتے ہوئے بولیں۔
"اوہ ہو ممی یہ کونسا اتنا بڑا مسلہ ہے کچھ بھی کہہ دیجیے گا۔"
روز نے ماں کو راضی ہوتا دیکھ کر مسکرا کر کہا تھا۔
"پر بیٹا یہ فرسٹ اینڈ لاسٹ ٹائم ہے میں پہلے بتا رہی ہوں"
کلثوم نے اس کے حسین چہرے پر سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا تھا۔
"اوکے ممی ڈن ہے پر اس یہ اگر میرا فرسٹ اینڈ لاسٹ ٹوور ہے پاکستان کا تو آپ کو مجھے ایک چیز کی سہولت تو دینی ہو گی نا"
روز نے ان کے قریب ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"وہ کیا؟"
کلثوم نے تیوری چڑھائی۔
"یہ کے میں جتنی دیر چاہوں وہاں رہ سکتی ہوں"
روزینہ نے پر جوش ہوتے ہوئے کہا۔
"ہر گز نہیں"
کلثوم کے بولنے سے پہلے ہی انور کی نیند سے بھری ہوئی آواز آئی تھی۔
"کیوں بابا جان؟"
وہ دونوں پہلے تو ان کے یوں اچانک بولنے پر حیران ہوئیں اور بعد میں روز نے اداسی سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"کیوں کے تم صرف عید تک ہی رہ سکتی ہو۔ منظور ہے تو ہم تمہیں اجازت دے دیں گیں"
انور اب اٹھ کے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ چکے تھے۔
"ٹھیک ہے بابا جان"
وہ اداس ہو کر وہاں سے جانے لگی تھی پر انور کی آواز نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔
"روز سنو؟"
"جی بابا جان؟"
وہ وہیں کھڑے کھڑے بولی تھی۔
"تم عید تک رہ سکتی ہو۔ عید پر ہم لوگ بھی آئیں گیں اور پھر جب میری بیٹی کہے گی تبھی ہماری واپسی ہو گی۔"
انور مسکراتے ہوئے بولے تھے۔ اور روز جو دم سادھے ان کی بات سن رہی تھی ایک ہی پل میں خوشی سے اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا وہ بھاگ کر اپنے بابا جان کے سینے سے لگی تھی۔
"اوہ بابا جان یو آر دی بیسٹ"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔
"اینڈ مائے سویٹ ڈاٹر اس آلسو دی بیسٹ"
وہ بھی اپنی جان سے عزیز بیٹی کو خوش دیکھ کر خوشی سے بولے تھے اور اس کا ماتھا چوما تھا۔
"اوکے بابا جان گڈ نائٹ"
وہ کہتے ہوئے ان کے کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔
"یہ کیا کہا ہے آپ نے ہاں؟"
کلثوم ناراض لہجے میں بولی۔
"جو تم سن چکی ہو اور میں اپنی بات دوہرایا نہیں کرتا"
وہ مطمعین لہجے میں بولے۔
"پر ہمیں کیا ضرورت ہے پاکستان جانے کی؟"
کلثوم شاید ابھی بھی پاکستان جانے کے لیے رضامند نہیں تھی۔
"جب تم بچوں کو لے کر  غیروں کے گھر جا سکتی ہو تو میں اپنے بچوں کو لے کر اپنی بہن کے گھر کیوں نہیں جا سکتا؟"
وہ اپنی بیوی کے اس غیر متوقع بات پر برہم دکھائی دے رہی تھے۔
"صوفی غیر نہیں ہے انور"
وہ مدھم لہجے میں بولی تھیں۔
"تم اسے جو بھی سمجھو مگر۔۔۔ کوئی غیر کبھی اپنوں سے بھر کر نہیں ہو سکتا۔"
کلثوم نے مزید بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اس لیے وہ اپنے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا لیمپ آف کر کے لیٹ گئی۔ انور بس لب بھینچ کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں آئی تو یوں محسوس کر رہی تھی جیسے کوئی جنگ کا محاذ فتح کر لیا ہو۔ ابھی وہ خوشی سے پورا ڈانس بھی نہیں کر پائی تھی کے اس کا فون بج اٹھا۔ فون کی سکرین پر چمکتا ہوا نمبر دیکھ کر مسکراہٹ خود بخود اس کے ہونٹوں پر رقص کرنے لگی تھی۔
ہیلو" روز نے فون اٹھاتے ہی کہا۔
"جلدی بتاؤ کیا کہا ہے ماموں نے؟"
اس کی آواز سنتے ہی جزیل بولا۔
"بڑے ہی کوئی بے مروت ہو تم دوست کا حال نا پوچھنا تم۔۔ اور بندہ اخلاقاً ہی حال احوال پوچھ لیتا ہے پر نہیں جی جزیل مصطفیٰ سے تو بس مطلب ہی فون کرواتا ہے۔"
روزینہ بھی ہمیشہ کی طرح جزیل کی ٹانگ کھینچنے سے بعض نا آئی۔
"ہو گیا ہو تمہارا لیکچر تو بولو اب"
وہ اس کے اتنے تفصیلی جواب پر کان نا دھرتے ہوئے بولا۔
"جاؤ نہیں بتا رہی میں بھی"
روز کو اسے تنگ کرنے میں مزہ آ رہا تھا۔
"روز جلدی بولو ورنہ تم سے ناراض ہو جاؤں گا۔"
جزیل نے کہا جب کے دوسری جانب مکمل سکوت چھایا ہوا تھا۔
"روز جلدی بتاؤ ورنہ میں تمہاری کیا تمہارے پر پوتوں کی شادی میں بھی نہیں آؤں گا"
جزیل نے شرارت سے کہا تھا۔ اس کی بات پر روز نے بڑی مشکل سے اپنے قہقہے کا گلہ گھونٹا تھا۔ پر جزیل کی بات کا جواب دینا اب بھی گوارا نا کیا تھا۔
"ہاں مس روزینہ انور اب کہاں تم مجھے کچھ بتاؤ گی۔ تمہارا منگیتر ہے نا وہ کیا نام تھا اس کا۔۔۔ ہاں زرافہ اس کو بتاؤ گی تم"
جزیل نے روزینہ کو جذباتی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
"اس کا نام زرافہ نہیں حذیفہ ہے جزیل کے بچے"
روز برا مانتے ہوئے بولی۔
"اوہ ہو چیک کرو ذرا۔۔ کتنی بدتمیز ہو تم منگیتر کا نام اتنے تمیز سے لیا ہے اور میرا۔۔"
وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولا۔
"جزی بعض آ جاؤ تم ورنہ جاؤ نہیں بتاؤں گی میں بھی اور ہاں پلیز اس حذیفہ کا ذکر کر کے میرا موڈ مت خراب کیا کرو"
روز نے کہا۔
"اچھا سب چھوڑو اس زرافہ کو بھی۔۔ بس مجھے بتاؤ نا کیا تم آ رہی ہو؟"
جزیل نے پر امید لہجے میں اس سے پوچھا۔ اس کے لہجے کی بے قراری کو محسوس کر کے روز کا دل خوش ہو گیا تھا۔
"سچ بتانا ہے؟"
روز نے شرارت سے اس سے پوچھا۔
"نہیں جیسے پہلے سارے سچ بولنے سے پہلے میری اجازت لیتی ہو تم"
وہ اس کے ڈراموں سے تنگ آتے ہوئے بولا۔ بیچاری روز کو کیا معلوم تھا کہ جزیل مصطفیٰ اس سے بھی کئی گنا بڑا ڈرامے باز تھا۔
"میں تو بولتی ہی سچ ہوں"
روز نے اسے مزید چڑانا ضروری سمجھا۔
"روز میں کہہ رہا ہوں بتا دو نہیں تو پکا لڑائی۔"
روزینہ کو اگر پتا ہوتا کہ جزیل مصطفیٰ پہلے ہی سنی کے میسج سے اس کے آنے کی خوشخبری سن چکے ہیں اور اب ڈرامے نہیں بلکہ پوری کی پوری فلم بنے ہوئے ہیں تو اس کا کیا حال ہوتا نا۔۔ بس یہی سوچ کر جزیل نے روز کو بےخبر رکھا تھا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں جانتا ۔ ہاں آپ کی اطلاح کے لیے یہ بات بتا دیتے ہیں کہ سنی بھی کم ڈرامے باز نہیں ہے وہ سونے کے لیے تب گیا تھا جب روز ک قدم کمرے سے باہر آنے کے لیے بڑھے تھے۔ اس سے پہلے تو وہ دروازے سے کان لگا کر ہمہ تن گوش ہو کر  سن رہا تھا کے اس جنگ میں کون بنتا ہے ارتغرل غازی۔۔
"اچھا پھر کان گردے پھیپھڑے سب کھول کر سنو کے میں پرسوں صبح تمہارے پاس ہوں گی۔ سو تم اب بیٹھ کر میرا انتظار کرتے ہوئے تارے گنو۔ میں ابھی ہی پیکنگ شروع کرنے والی ہوں سو بائے"
روز نے کہتے ساتھ ہی فون بند کر کے سوئچ آف کر دیا۔ اب تو موصوف سے مل کر ہی بات ہو گی۔ وہ مسکرا کر سوچتے ہوئے اپنا سوٹ کیس نکالنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"چلیں بابا جان میں اور میرا سامان ریڈی ہے"
پنک کلر کا کرتا اور نیچے بلیک کلر کی کھلے گھیر والی شلوار زیب تن کیے ہوئے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ پاؤں کو اس نے درمیانی ہیل والی سینڈل میں قید کیا ہوا تھا۔ بالوں کو کرل کر کے اس کا چہرہ مزید پر کشش بن گیا تھا۔ اس کا چہرہ بہت پر کشش تھا۔ بس ذرا سی تبدیلی سے اس کے قدرتی حسن کو چار چند لگ جاتے تھے۔ لمبی گھنی پلکوں کی جھالر میں سنہری آنکھیں جو دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتی تھیں ستواں ناک اور گلاب کی پنکھڑی جیسے گلابی نازک ہونٹ۔ اور اس کے گال تو قدرتی ہی قندھاری انار کی طرح سرخ رہتے تھے۔وہ واقعی بہت خوبصورت تھی۔ سلیقے اور نفاست سے تیار ہو کر لاؤنج میں آئی تھی جہاں کلثوم اور انور پہلے ہی ریڈی ہو کر بیٹھے ہوئے تھے۔
"چلیں بابا جان میں بھی ریڈی ہوں"
روز نے حیرت سے آواز کے تعقب میں دیکھا تھا۔
سنی میاں بھی اس کی طرح مکمل تیار نظر آئے تھے۔روز کو اسے دیکھ کر اتنی حیرت نہیں ہوئی تھی جتنی حیرت اسے اس کے ہاتھ میں تھامے سوٹ کیس کو دیکھ کر ہوئی تھی۔
"تم کہاں چلے؟"
وہ اپنی حیرت اور غصہ ضبط کرتے ہوئے بولی تھی۔
"ظاہر ہے آپی آپ کے ساتھ ہی جا رہا ہوں"
سنی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا جس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا تو ایک جا رہا تھا۔
"تو یہ ہینڈ کیری؟؟"
وہ سنی کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہینڈ کیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی۔
"آپی آپ اکیلے ڈر جائیں گیں اس لیے میں آپ کا بہادر بھائی آپ کے ساتھ ساۓ کی طرح رہوں گا۔"
سنی اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ڈرامائی انداز میں گویا ہوا۔
"سنی کے بچے یہ کیا ڈرامہ ہے؟"
وہ ممی اور بابا جان سے نظریں چھپا کر اس کو گھورتے ہوئے دانت پیس کر آہستگی سے بولی۔
"آپی کیا کہا؟؟ کچھ سنائی نہیں دیا تھوڑا اوبچا بولیں۔"
سنی اس کی حالت سے محظوظ ہوتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا۔
"یا اللہ کہاں پھنس گئی ہوں میں"
وہ منہ میں بڑبڑائی۔
"آپی جلدی کریں ہماری فلائٹ نہ مس ہو جائے"
سنی روز کو بازو سے کھینچتے ہوئےباہر لوبی میں لے گیا۔ انور اور کلثوم ان دونوں نٹ کھٹ بھائی بہن کی گفتگو پر ہنستے ہوئے ان کے پیچھے لوبی کی جانب بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہیلو ہاں نظر آگیا چاند؟"
جزیل شائستہ کے فون اٹھاتے ہی جلدی سے پوچھ رہا تھا۔
"ہاں ہاں آ گیا ہے نظر۔ رمضان مبارک"
شائستہ نے دوسری جانب سے رمضان کی مبارک دی تھی۔
"آپ کو بھی رمضان مبارک ہو شائستہ باجی"
وہ بھی خوشی سے مبارک دے رہا تھا۔
"خیر مبارک۔ خیر تم یہ تو بتاؤ کہ تمہارا چاند نظر آ گیا کہ نہیں؟"
شائستہ شرارت سے بولی تھی۔
"کیا مطلب آپی؟؟ آپ کے چاند نے کیا میرا چاند بننے پر انکار کر دیا؟"
جزیل نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
"بکو مت اور بتاؤ آگئے وہ دونوں؟"
شائستہ نے بے صبری سے پوچھا تھا۔
"نہیں ابھی تک تو نہیں پر اناؤنسمینٹ ہو رہی ہے مجھے لگتا ہے ان کی فلائٹ آ گئی ہے۔ اوکے باجی آپ سے آ کر ملاقات ہوتی ہے"
جزیل نے سپیکر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے جلدی سے فون بند کر دیا۔ کچھ دیر بعد اسے روزینہ اور سنی آتے دکھائی دیے۔ وہ انتظار گاہ سے ذرا ہٹ کے کھڑا ہو گیا تھا تا کہ اس پر ان دونوں کی نظر نا پڑے اور وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گیا تھا روزینہ اب بے صبری سے ادھر ادھر جاتے لوگوں میں جزیل مصطفیٰ کو تلاش رہی تھی۔ اور یہ بات جزیل کے دل میں ہزاروں پھول کھلا گئی تھی۔
"جی سر ٹارگٹ مل گیا ہے لڑکی اور اس کا دس بارہ سال کا بھائی بھی اس کے ساتھ ہی ہے"
کچھ دیر کے بعد جزیل نے روزینہ کے قریب جا کر اپنی پشت روز کی طرف کی اور اتنی اونچی آواز میں فون پر مخاطب ہوا کے آواز صرف روز تک ہی جا سکے۔ روز جو منتظر نگاہوں سے جزیل کی راہ تک رہی تھی۔ اپنی پشت پر کسی کی غیر معمولی بات سن کر اسے دھچکا لگا تھا۔
"جی سر ٹارگٹ نے پنک اینڈ بلیک کے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ جی سر سنہری آنکھیں ہیں۔ جی سر اٹھا لیتے ہیں۔ اوکے سر اگر وہ آرام سے نہیں مانیں گی تو ہمارے ساتھی انھیں شوٹ کر دیں گیں۔ یس سر"
اپنی پشت پر دوبارہ اس طرح کے الفاظ سن کر اس کی تو بس ہو گئی تھی۔ وہ گھبرا کر پیچھے مڑی تھی۔
"ایکسکیوز می" 
اس نے ہمت جمع کرتے ہوئے اس آدمی سے کہا تھا۔
"آپ میرے بارے میں کس سے بات کر رہے ہیں اور بار بار ٹارگٹ کیوں کہہ رہے ہیں؟"
اس کی بات پر سنی نے اپنے ہونٹوں پر آ جانے والی جاندار مسکراہٹ چھپانے کے لیے چہرہ دوسری جانب کر لیا تھا اور وہ شخص بھی پیچھے مڑا تھا۔ روزینہ کو اس شخص کا جانا پہچانا شناسا سا چہرہ دیکھ کر پہلے سے بڑا دھچکا لگا تھا۔
"تم بدتمیز انسان"
روز نے اپنی حالت پر قابو پاتے ہوئے جزیل کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"بس بدتمیز ہی؟"
جزیل نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔ اس کا مسکرانا روز کی چڑ میں اضافہ کر گیا تھا۔ ساتھ ہی جزیل سنی کے گلے لگا تھا۔
"باقی کی گالیاں گھر جا کر دوں گی۔ ویسے جاہل نکمے انسان تم نے تو میرا سانس ہی سکھا دیا تھا۔"
اس نے اپنا بیگ زمین سے اٹھاتے ہوئے جزیل کے کندھے پر چت لگائی تھی۔ جس پر وہ دلفریب انداز میں ہنس پڑا تھا۔
"لاؤ سوٹ کیس ادھر"
اب وہ ایئر پورٹ سے باہر آ گئے تھے۔ جزیل نے سامان گاڑی میں رکھتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
"یہاں سے کتنا دور ہے گھر؟"
ابھی ان کی گاڑی چلی ہی تھی کے روز نے سوال کیا۔
"یہاں سے تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے تم چاہو تو تھوڑی دیر سو سکتی ہو"
جزیل نے بیک ویو مرر سے اس کے چہرے پر نظر جماتے ہوئے کہا تھا۔
"ویل اوکے گھر آنے سے دس منٹ پہلے اٹھا دینا۔مجھے سنی"
اس نے تقریباً سوۓ ہوئے سنی کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔
"اوکے آپی مجھے بھی سونے دیں"
وہ منہ بگاڑ کر کہتا ہوا دوسری جانب رخ کر کے بیٹھ گیا۔ روز کی نظر سامنے مرر پر پڑی تو جزیل کو اسے
ہی محویت سے دیکھتا پایا۔ روز نے اس کی طرف جاندار مسکراہٹ اچھالی تھی۔ جس پر جزیل نے بھی مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
"میرا چاند بھی آ گیا ہے شائستہ باجی"
اس نے دل میں شائستہ کو کہا تھا۔
"تم سے ایئر پورٹ والا بدلہ تو میں بعد میں لوں گی"
روز بھی دل ہی دل میں جزیل سے مخاطب تھی۔
"میں انتظار کروں گا کب تم بدلہ پورا کرو گی اپنا"
جزیل نے بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہوئی روز کو مرر سے دیکھ کر سوچا تھا۔ اور پھر اس نے اپنا سارا  دھیان ڈرائیونگ پر کر دیا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ سوتی ہوئی روز پر بھی نظریں ڈالتا رہا تھا جو سوتے ہوئے بھی اسے اتنی ہی حسین اور معصوم لگی تھی جو جاگتے ہوئے لگا کرتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما"
شائستہ نے فرحت کے کمرے میں آ کر انہیں پکارا تھا۔
"جی بیٹا"
وہ بیڈ پر بیٹھ کر تسبیح کر رہی تھیں۔
"آپ نے بلایا تھا؟"
شائستہ بھی ان کے قریب ہی بیٹھ گئی تھی۔
"ہاں وہ میں نے تم سے جزیل کا پوچھنا تھا۔ کہاں رہ گیا ہے یہ لڑکا کہہ رہا تھا کے دوست کی طرف جا رہا ہوں اور اب اتنا ٹائم ہو گیا ہے اب تک نہیں آیا"۔
شائستہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی گھر کے مین دروازے پر گاڑی کا ہارن بجا تھا۔
"آئیں ماما دیکھتے ہیں"
شائستہ انہیں زبردستی لے کر لوبی میں آ گئی۔
"آ بھی جاؤ جزیل"
شائستہ نے دروازے کے باہر کھڑے ہوئے جزیل کو گرین سگنل دیا تھا۔
"السلام عليكم ماما"
وہ ہمیشہ کی طرح گھر آتے ساتھ ہی ماں کے گلے لگا تھا۔ ابھی جزیل سائیڈ پر ہوا ہی تھا کے فرحت نے دو اور شناسا چہروں کو اپنے گھر کی دہلیز پر دیکھا۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
"روزینہ؟؟؟؟"
وہ حیرت کی زيادتی کی وجہ سے بول نہیں پا رہی تھیں۔
"جی پھپھو جان یقین کر لیں میں ہی ہوں آپ کی روزی"
روزینہ نے خود آگے بڑھ کے گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔
"ہاں میری بچی کیسی ہو؟ انور نہیں آیا؟ اور کلثوم وہ بھی آ جاتی۔۔ اور سنی بھی آ جاتا"
وہ احساس مسرت میں زیادہ ہی پوچھ بیٹھی تھیں۔
"پھپھو جان میں یہاں ہی ہوں اگر آپ روزی آپی سے نظریں ہٹا کر دیکھیں تو"
روز کے بولنے سے پہلے ہی سنی بول اٹھا۔سنی بھی مسکین شکل بناۓ ان کے توجہ دینے کا منتظر تھا۔
"اوہ میرا بیٹا آیا ہے"
وہ خوشی سے اس سے ملنے کے لیے آگے بڑھیں۔
"جائیں میں ناراض ہوں آپ سے"
وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر نروٹھے انداز میں بولا۔
"کیوں میرے چندہ"
پھپھو نے آگے بڑھ کے اسے گلے سے لگایا اور اس کا گال بھی چوم ڈالا۔
"پھپھو آپ ابھی تک مجھے بچوں کی طرح پیار کرتی ہیں"
وہ ہنستے ہوئے بولا تھا۔ ان کے پیار کرنے کے انداز پر اس کی ناراضی تو ویسے ہی ختم ہو گئی تھی۔
"تو میرے لیے بچہ ہی ہے"
وہ بھی مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔
"اوہ شائستہ باجی آپ تو پہلے سے زیادہ موٹی ہو گئی ہیں۔"
روزی کے ملنے کے بعد وہ شائستہ سے ملتے ہوئے شرارت سے بولا تھا۔ اس کے رازدارانہ انداز پر سب ہنس دیے تھے۔
"اور تم پہلے سے زیادہ شریر ہو گئے ہو"
شائستہ سنی کا گال کھینچتے ہوئے بولی تھی۔
"یہ میرے گال آپ دونوں کی وجہ سے ہی اتنے بڑے ہوئے ہیں"
وہ اپنے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے خفگی سے بولا تھا۔
"اچھا اب ہم جناب کو پیار بھی نا کریں؟"
شائستہ نے سنی کے سلکی بال خراب کرتے ہوئے کہا تھا۔ سنی ابھی اس حرکت کا جواب دینے ہی والا تھا کہ جزیل بول اٹھا۔
"بس بھائی اب سب اندر چلیں۔ باقی کا میل ملاپ اندر کریں "
جزیل شرارت سے کہہ کر اندر بھاگ گیا۔
"یہ کبھی نہیں سدھر سکتا۔"
شائستہ اور روزینہ ایک ہی بات سوچتے ہوئے اندر بڑھ گئیں۔ سنی بھی پھپھو کے ساتھ گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Is episode ke comment box mein comments ki bharmaar  ho gi to agli aye gi😜😜❤❤
#ZohaAsif.
Fb @zohaasifnovels
Insta @zohaasifnovels

چُھپا ہمدم (COMPLETED)Where stories live. Discover now