پہلا حصّہ

80 3 0
                                    

شام کے 4 بجے کا وقت تھا. صحرا کی شدید گرمی
میں بھی مزار پر لوگوں کا جم غفیر لگا ہوا تھا. یہ
مزار عین صحرا کے وسط میں واقع تھا. شدیدگرمی میں جب ہوا کے تھپیڑے چلتے تو وہ یہاں آنے والے لوگوں کے جسموں کو جھلسا دیتے تھے لیکن پھر
بھی یہاں آنے والے عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا. سائل دور دور سے اپنی منتیں مرادیں پوری کرنے کے لیے اس مزار پر حاضری لگانے کے لیے آتے انہیں نہ صحرا کی سخت گرمی متاثر کرتی اور نہ طویل سفر. یہاں ہر قسم کے لوگ آتے تھے کوئ منتیں مراد کے لیے ، کوئی دعاکرنے کے لیے آتا تو کوئی لنگر
تقسیم کرنے. الغرض کوئی بھی دن ایسا نہ گزرتا جب لوگوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہو.
یہ مزار درویشوں، مجذوبوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا.
مزار کی ایک خاص وجہ اُس مائی کا بھی وہاں پر مستقل موجود ہونا تھا جو کافی عرصے سے وہاں پر سکونت پذیر تھی. وہ خاموشی سے آنے جانے والوں کو تکا کرتی یا منہ ہی منہ میں کچھ بدبداتی رہتی جو بھی عقیدت مند مزار پر حاضری لگانے آتا وہ جاتے جاتے اس مائی کو سلام کرنا نہ بھولتا. اور چپکے سے دعا کی درخواست بھی کر دیتا. وہ ایک نظر آنے والے کو دیکھتی اور پھر آسمان کی طرف دیکھ کر ہولے ہولے کچھ کہنے لگتی. سائلین آتے ، اپنی دعائیں اس کے سامنے رکھتے اور دعا کی درخواست کرتے. حیرت انگیز طور پر اس مائی کی دعائیں بھی قبول ہو جاتی. اسے نہ کسی لنگر کی طلب تھی اود نہ پیسوں کی. لوگ اپنی من مرضى سے جو بھی رکھ دیتے وہ اسی جگہ پڑا رہتا. مزار کے رکھوالوں نے اس چیز کو بھانپ لیا تھا یوں ایک بوڑھا ملازم مستقل طور پر اس مائی کے اردگرد رہنے لگا.جو نئے آنے والوں لوگوں کو اس مائی کے پاس گھیر گھار کر لاتا اور لنگر اور پیسوں میں سے حصہ لینا اپنا حق سمجھتا. لیکن اس کا یہ بھی فائدہ ہوا تھا کہ اب مزار پر آنے والے بچے اس مائی کو بلا وجہ تنگ نہیں کرتے تھے.
اس مائی کی بھی عجیب کہانی مشہور تھی. کون تھی، کب آئی ، کہاں سے آئی کچھ پتا نہیں تھا. کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ شروع شروع میں جب یہ یہاں آکر بیٹھی تو مزار کے رکھوالوں نے اسے بہت بھگانے کی کوشش کی.وہ کچھ عرصے کے لیے غائب ہو جاتی پھر کچھ دنوں بعد واپس آجاتی. اب تو مزار والوں نے بھی سمجھوتہ کر لیا تھا کیونکہ وہ ان کی اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بن گئ تھی.
مزار کے احاطے میں موجود برگد کے پیڑ تلے وہ رہائش پذیر تھی. وہیں پر سارا دن بیٹھی رہتی اور رات کو وہیں پر سو جاتی. وہ برگد کا پیڑ ہی اس کی کل کائنات تھا. برگد کے پیڑ پر جگہ جگہ منتوں کے دھاگے لگے ہوئے تھے جو لوگوں نے لگاۓ ہوۓ تھے اور منت پوری ہونے پر اُتار دیتے.مختلف منتوں کے لیے مختلف رنگوں کے دھاگے تھے.
یکدم گاڑی کے پہیوں کی چرچراہٹ سے ماحول کا سناٹا ٹوٹا جو مزار کے بیرونی دروازے میں آ کر رکی تھی. دروازہ کیا تھا ٹین کے ڈبے کچھ کچھ فاصلے پر رکھے ہوئے تھے جو کہ مزار کی حد بندی کو ظاہر کرنے کے لیے ایک بیریئر کا سا کام دے رہے تھے. ساتھ ہی چھوٹی چھوٹی دکانیں بنی ہوئی تھی جن میں پھول،بتاشے، اسلامی کتابیں ، مزار کی تاریخ کو بیان کرنے والے کتابچے بِک رہے تھے. یکے بعد دیگرے دو گاڑیاں آکر رکیں تھی. پہلی گاڑی سے آنے والا کوئ پچاس سال کاسوٹڈ بوٹڈ بندہ تھا. جبکہ پیچھے آتی گاڑی میں لنگر موجود تھا. غالباً کوئی امیر سیٹھ لنگر تقسیم کرنے آیا تھا. لنگر کی گاڑی دیکھتے ہی ارد گرد سے لوگ لنگر کے لیے آنے لگے. اس نے اپنے ملازمین کو اشارہ کیا اور خود مزار کے اندر چلا گیا. بخشو ملازم نے جب موٹی آسامی دیکھی تو اس کے پیچھے پیچھے چل دیا. کچھ دیر بعد وہ مزار کے اندر سے آیا تو بخشو اس کے پیچھے پیچھے تھا اور اسے کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ بخشو کو مسلسل نظر انداز کیے گاڑی کی سمت بڑھ رہا تھا. بخشو کی دیکھا دیکھی کچھ اور لوگ بھی اس کے پاس آکر اپنی اپنی حاجتیں بیان کرنے لگے تھے. اچانک وہ ٹھٹک کے رکا. اس نے اس مائی کو دیکھا جو ملگجے سے حلیے میں ایک بڑی سی کالی چادر لپیٹے اپنے اردگرد سے بے نیاز آنکھیں جھکائے بیٹھی تھی اور منہ ہی منہ میں کچھ بدبدارہی تھی.اس نے ایک نظر لنگر والی گاڑی کی طرف دیکھا جہاں ابھی بھی لوگ لنگر لینے کے لیے ایک دوسرے سے دھکم پیل کر رہے تھے اور کچھ لوگ لنگر کھانے میں مصروف تھے.لیکن یہ عجیب مائی تھی جس کا کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں تھا. اس نے اپنے ایک ملازم کو لنگر لانے کے لیے کہا. ملازم بھاگ کر لنگر لایا اور اس مائی کو دینا چاہا. لیکن اس مائی نے لینا تو درکنار ایک نظردیکھنا تک بھی گوارا نہیں کیا.
نہیں لے گی صاحب جی! میں نے کہا تھا نہ، یہ کوئی عام مائی نہیں ہے.یہ بہت الله والی مائی ہے آپ اس سے جو بھی دعا کرواؤ گے وہ ضرور پوری ہوگی. بخشو نے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوۓ کہا.
پھر بخشو اس مائی کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا.یہ اپنے علاقے کا نیا ایس پی ہے.کل ہی اپنے علاقے میں ٹرانسفر ہو کے آیا ہے. یہ جو بھی دعا کہیں تم اس کے لیے لازمی مانگنا. ایس پی نے بخشو کی طرف گھور کر دیکھا تو وہ وہاں سے رفو چکر ہو گیا ویسے بھی اس کا کام نئے آنے والے لوگوں کو مائی تک لانا تھا جو وہ کر چکا تھا.
ایس پی اس مائی کے سامنے دو زانو ہو کے بیٹھ گیا. مجھے کبھی بھی مائیوں، پیروں، فقیروں پر بھروسہ نہیں رہا. ہاں لیکن جس بھی شہر میں ٹرانسفر ہو کے جاتا ہوں سب سے پہلے اُس شہر کے مزار پر حاضری لگانے جاتا ہوں. پھر یہاں کیوں نہ آتا یہ تو میرے اپنے علاقے کا مزار ہے. میرے آبائی علاقے کا مزار. جہاں پر میں نے اپنا سارا بچپن گزارا ہے. اس مزار کے احاطے میں ہم کھیلا کرتے تھے بہت ساری یادیں وابستہ ہیں اس مزار سے، اس علاقے سے.
پتہ نہیں وہ مائی اس کی باتوں کو سن بھی رہی تھی یا نہیں. ہاں لیکن اس نے بدبدانا بند کر دیا تھا. ایس پی کے لیے یہی بہت تھا. وہ مزید گویا ہوا. مجھے مائی، پیر فقیر پر بھروسہ نہیں ہے. یہ بس لوگوں کو لوٹتے ہیں. لیکن آپ مجھے تھوڑی سی الگ لگی ہو اس لیے آپ سے دعا کی درخواست کرتا ہوں. میرے حق میں دعا کیجئیے کہ مجھے سکون مل جائے. جس سکون کی تلاش میں میں پچھلے پچیس سال سے ہوں اب وہ مجھے نصیب ہو جائے.

مائیWhere stories live. Discover now