شیزا تو اپنی دوستوں کے سامنے کھلے عام آئمہ کو بھابھی بھی کہہ جاتی تھی۔ اور آئمہ کا بس نہیں چلتا تھا شیزا کا منہ کسی طرح بند کر دے۔

"ایمی۔۔اُس سے شادی؟" شاہ کی جذبات سے عاری آواز گونجی۔

پھر جیسے ہوش میں آیا اور آئمہ کو اتنی زور سے لفظوں کے تیر برسا کر زمین پر پٹکا کہ اُسے سنبھلتے سنبھلتے کئی سال لگ گئے۔

"خیر تو ہے آپ لوگوں نے سوچ بھی کیسے لیا؟" شاہ کی اونچی آواز فون سے گونجی اور آئمہ کو سوچوں سے واپس ہوش میں لائی۔

جہاں شیزا سکتے میں آئی تھی وہیں آئمہ کی مسکراہٹ ماند ہوئی تھی۔

"آرام سے شاہ، کیا کمی ہے ایمی میں،، گھر کی دیکھی بھالی لڑکی ہے۔" اموں نے شاہ کو ٹھنڈا کرنا چاہا جو یک دم بھڑک اُٹھا تھا۔

"اتنا گرا پڑا نہیں ہوں جو کسی کو بھی پکڑ کر میرے سر پر مسلط کر دیں آپ لوگ۔" شاہ غصے لیکن ضبط کرتے ہوئی نیچی آواز میں بولا۔

"شاہ کیا غلط کہہ دیا میں نے،، اتنی معصوم اور پیاری بچی ہے۔" اموں اُسے سمجھاتے بولیں۔

"معصوم اور پیاری؟ پاگل ہے وہ پوری۔۔ عجیب سائکو۔۔ حد ہے،، میرا اتنا دماغ نہیں خراب کے اُس سے شادی کر لوں۔" شاہ کا غصّہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔

"اموں میں ابھی پڑھ رہا ہوں، اور جب شادی کرنی ہوگی آپکو بتا دونگا۔پر وہ لڑکی یقیناً آئمہ نہیں ہوگی۔۔مجھے بخشیں۔" فون میں شاہ کی آواز آنا بند ہوگئی تھی۔۔اور اموں نے خاموشی سے کال کاٹ دی۔

شیزا کو سمجھ نہیں آئی کیسے آئمہ کا سامنا کرے اب،، جب کے آئمہ نے شیزا کی طرف ہلکی سی مسکراہٹ لیے دُکھ بھری آنکھوں سے دیکھا اور اُسکے کمرے سے نکل آئی۔

کاش، یہ سب نہ ہوا ہوتا۔۔ کاش، میں شیزا کی باتوں میں نہ آئی ہوتی، کاش یہ دل لگی نہ ہوئی ہوتی۔۔ کاش شیزا مجھے ساتھ بیٹھا کر نہ سناتی وہ کال۔۔ کتنے کاش تھے اُسکی زندگی میں اور سکون،،،وہ پتہ نہیں کہاں کھو جاتا تھا بار بار۔۔

کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے پکڑے ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ سوچیں بے انتہا تھیں،، وہ چاہ کر بھی ان سوچوں سے نہیں نکل پاتی تھی۔
اور وقت، وہ بس بیتتا جا رہا تھا۔ وہ کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔پر یادیں، ان یادوں کا کیا جائے جو پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تھیں۔

"یاداشت بھی کیا عجیب چیز ہے, کچھ یاد کرنے کی کوشش کرو تو یاد نہیں آتا، اور کچھ بھولنے کی کوشش کرو تو وہ بھلائے نہیں بھولتا"

نا جانے اور کتنی دیر وہ اسی طرح بیٹھی رہتی اگر شیزا اُسے بلانے نا آتی۔ حال میں لوٹتی وہ فوراً سنبھلی۔

"سن۔۔۔ شام ہورہی،، چل آ سمندر پر چلیں۔پھر واپسی ہے۔۔پتہ نہیں کب دوبارہ چکر لگے۔" شیزا اپنے آدھے بالوں کو کیچر میں مقید کرتے بولی۔

بے ربط موتیWhere stories live. Discover now