bölüm numarası (5)

Start from the beginning
                                    

چپ ہوجائیں اپ!جب دیکھو میری ماں کے پیچھے پڑے رہتے،چلی گئی ہیں وہ اب تو جان چھوڑ دیں اپ!یہ بات سننی تھی کہ شاہ سعید غصے میں دروازہ پٹختے ہوئے چلے گئے۔

                          ***********
جب وہ ایا تو وہ سسکیاں لے لے کر نڈھال ہوچکی تھی۔اسکی حالت قابل ترس تھی۔

یہ لے پانی پی لے!

نہیں پینا!اس نے زور سے گلاس کو ہاتھ مارا کے پانی تو گرا سو گرا گلاس بھی دور جاکر گرگیا۔گلاس گرنے کی اواز پورا ہال نے سنی تھی۔ایک شور سا مچ گیا تھا۔

ائے تو باز ائے گی نہیں ائے گی!سمجھتی کیا ہے خود کو؟بال اتنی زور سے نوچے گئے تھے کہ انکھیں کھل گئ تھیں۔وہ پوری طاقت لگائے اسکے بال نوچ رہا تھا۔

اہ!میرے بال!چھوڑو مجھے درد ہورہا ہے!زونی نے پہلی بار اس شخص کی انکھوں میں جھانکا تھا۔وہ یک دم سے اس دنیا سے کسی اور دنیا میں جاچکی تھی۔جھیل سی نیلی انکھیں،گندمی رنگ چہرے پر ہلکی سی داڑھی جو اسکی خوبصورتی کو بڑھا رہی تھی۔گردن تک اتے گھنگریالے بال لگتا تھا کافی عرصہ سے ان پر کینچی نہ چلائی گئی ہو۔لیکن پھر بھی وہ خوبصورت ہی تھا۔درمیانہ قد جو جھک کر بال نوچنے سے چھوٹا لگ رہا تھا۔

تم!

کیا میں؟لگتا ہے تم مجھے پہچان گئی؟وہ بال چھوڑ کر پیچھے مڑا تھا۔

نہیں تو!اس پر اس انسان نے ٹھنڈی اہ بھری۔

تو پھر کیا میں؟

تم؟ااا۔۔۔میں کہہ رہی تھی کہ تم مجھے چھوڑو مجھے درد ہورہا ہے۔کچھ تھا جس نے اسے سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔

تیری تو!اس نے اس ادا سے ہتھوڑا اس کرسی کو مارا جس پر وہ بندھی بیٹھی تھی کہ کرسی کا ایک پایا ٹوٹ گیا۔اور وہ بری طرح ایک طرف سے نیچے گری تھی۔اسکا درد باآسانی محسوس کیا جاسکتا تھا۔لیکن وہ انسان خودغرضی کی حدیں پار کرکے بیٹھا ہوا تھا۔وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی۔شاید زندگی میں پہلے وہ کبھی اتنا نہ روئی ہو جتنا وہ ابھی کچھ دنوں سے رو رہی تھی۔

ائے!اواز بند کر!

نہیں کروں گی،کیا کرلوگے!وہ کمر سہلا رہی تھی۔

میں تیرا سر پھاڑ دوں گا!اس نے کچھ گولیاں نکالی اور ایک ساتھ بغیر پانی کے نگل لی۔زونی اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔اسکی اس حرکت پر زونی کا رونا ختم ہوگیا تھا۔زونی کو اس پر بلاوجہ ترس ارہا تھا۔

                               ***********

ہم کڈنیپنگ کا کیس ڈیل نہیں کرسکتے!

کیا مطلب کڈ نیپنگ کا کیس ڈیل نہیں کرسکتے؟کس کام کی پولیس ہے یہ؟

جس بھی کام کی ہے وہ اپ کا مسئلہ نہیں ہے،کڈ نیپنگ کیس میں بڑے لفڑے ہوتے ہیں۔

Wth!

اب اپ جاسکتے ہیں!ہمیں اور بھی کام ہیں!

اپکو تو میں اچھی طرح بتاتا اگر میری بیٹی مشکل میں نہیں ہوتی تو!وہ دائیں ہتھیلی سے بائیں انکھ سے نکلتا انسو پونچھتے ہوئے نکل گئے۔اگر شاہ سعید کے علاوہ کوئی اور،کوئی ان سے زیادہ طاقت ور یا مالدار انسان بھی ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔زیادہ طر باپ بیٹیوں کے معاملے میں کمزور پڑھ جاتے ہیں۔شاہ سعید بھی تو ایک بیٹی کے باپ تھے!

                                  *******

ایک بات پوچھ لوں!اگلی طرف خاموشی تھی۔

بس ایک بات!

پوچھ؟

یہ گولیاں وہ بھی اتنی ساری ایک ساتھ کیوں کھائیں تم نے؟وہ اب زمین پر بیٹھی زنجیروں سے بندھی تھی۔وہ چلاتے چلاتے بھی تھک گئی تھی۔اس نے گھر جانے کی ضد چھوڑ دی تھی۔اس نے ہار مان لی تھی۔

تجھ سے مطلب؟

نہیں پھر بھی۔۔۔۔تمھیں غصہ ایا کرے تو جیسے مارتے ہو ویسے مار لیا کرو،مجھے عزیت دے دیا کرو مگر یہ گولیاں۔۔۔۔۔

تجھے پتا بھی ہے یہ میں کیوں کھاتا ہوں؟وہ اس کے قریب ہوتے ہوئے اسکے بالوں کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے بولا۔

ہاں۔۔اممم ائی تھنک اینٹی ڈپریسنٹ ہونگی؟

جو بھی ہوں تجھے کیا؟

بس پتا نہیں کیوں ترس ارہا تم پر!وہ بناوٹی ہمدردی جتا رہی تھی۔شاید ہمدردی کا سہارا لے کر ازادی چاہتی تھی۔

تیرے ترس کی تو!اس نے بالوں کے ذریعے زونیہ کا سر دیوار پر دے مارا۔خون کی ایک لڑی بہہ نکلی۔وہ اہیں لیتی،سسکیاں لیتی رہ گئی۔انکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔وہ وہاں سے جاچکا تھا۔

                       **********

کمرا سنسان تھا۔یک دم کمرا ایک شور سے،کسی کے چلانے سے گونج اٹھا۔وہ جو اپنی اکڑ کہیں کھو چکی تھی اٹھ بیٹھی۔وہ ڈر گئی تھی۔کوئی تھا جو زخمی ہوا اسکے سامنے اگرا تھا۔

کیا ہوا تمھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ چوٹ؟وہ بندھی یوئی تھی اس لئے بے بس تھی۔وہ ظالم شخص زخمی ہوا اوندھے منھ اسکے سامنے پڑا تھا۔اس شخص کےسر سے خون بہہ رہا تھا۔زونیہ ایسی ہی تھی جس پر ایک بار ترس کھالے پھر وہ اسے دنیا کا معصوم انسان لگنے لگتا۔اسکی یہ حالت جر کمزور دل زونیہ سہم گئی تھی۔اسکی انکھیں ایک بار پھر بھر ائی تھیں۔

دیکھا تم نے ایسا ہوں میں!

                        ************

امید ہے کہ یہ قسط اپ لوگوں کو پسند ائی ہوگی!

zorla aşk🥀Where stories live. Discover now