bölüm numarası (3)

13 2 2
                                    

یار!یار!تم لوگوں کو کچھ پتا چلا؟عاشی اور زونی بیٹھ کے چنےکھا رہی تھی تب ہی سنیہ نے اکر ایک شور مچا دیا۔

تم لوگوں کو کسی کی کمی محسوس نہیں ہورہی،ایسا نہیں لگ رہا کہ دو دن سے کچھ کمی سی ہے؟

کیوں یار کیا ہوگیا ہے؟کس کی کمی محسوس کرنی ہے؟

عاشی تو بھی اس کی طرح اوور ریکٹ نہ کر،یہ ڈمبو کی بات کر رہی ہے!

ایکسیکٹلی!کوئی اتنا لمبا چوڑا گروپ تو ہے نہیں جو تمھیں اس کی کمی محسوس نہ ہو!

اگے بتا ہوا کیا ہے؟

یار اج صبح اسکے پیرنٹس کی ڈیتھ ہوگئی!ان دونوں کے چنے ادھے ہاتھ میں اور ادھے منھ میں رہ گئے۔یہ ان کیکئے قابل شاک بات تھی۔وہ لوگ بچپن سے ہی ایک دوسرے کے گھر اتے جاتے رہتے تھے،اسی نسبت سے گھر والوں سے بھی ٹھیک ٹھاک دوستی تھی۔

ہمیں چلنا چاہیے یار،ڈمبو کو ہماری ضرورت ہے،خاص طور پر زونی تیری!تیرے کافی کلوس ہے وہ!

بکواس نہ کر!

چل یار چلتے ہیں!

ہاں چل!تینوں ارادہ کرتے ہوئے لیوو دے کر سکول سے نکل گئیں۔
**********

ہر طرف وحشت ناک ماحول تھا۔گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی بڑا سا لان تھا جس میں مرد حضرات بیٹھے ہوئے تھے۔تھوڑا سا چل کر لاونج تھا جہاں خواتین کا انتظام کیا گیا تھا۔گھر خاصا بڑا تھا۔بھلا مرنے والوں نے سوچا تھا کل تک جو نوشین اور اقبال ہیں اج انھیں میت کا کہا جائے گا۔انھوں نے کہاں سوچا تھا کہ وہ اتنے بڑے گھر کو چھوڑ کر چھوٹی سی قبر میں رہائش پذیر ہوجائیں گے۔وہ کیا،کوئی بھی نہیں سوچتا۔اچھا بھلا چلتا پھرتا بندہ مرنے کے بعد غسل کیلئے بھی کسی کا محتاج ہوجاتا ہے۔پہلے وہ خود نماز پڑھتا ہے پھر اسکی نماز پڑھائی جاتی ہے۔چار دن کا سوگ اور پھر وہی ہلا گلا۔اصل امتحان تو جانے والے کا ہوتا ہے۔

بہرحال میتیں غسل کیلئے گئی ہوئی تھیں۔تینوں لاونج سے ہوتی ہوئی کمرے میں داخل ہوگئیں کیونکہ ان کو احمد کہیں نہیں دکھ رہا تھا۔کمرے میں داخل ہوئیں تو زیادہ گھبراہٹ ہونے لگی۔احمد کے والدین کے بغیر وہ کمرہ،کمرہ نہیں لگ رہا تھا،اس میں گھٹن بآسانی محسوس کی جاسکتی تھی۔

احمد!!!وہ بیڈ پر بیٹھا اپنے والدین کی تصاویر لئے رورہا تھا۔والدین کو کھونا کوئی اسان بات نہیں۔اپ اپنی ادھی دنیا کھو چکے ہوتے ہو۔کامیابی کا ذریعہ،ان کی دعائیں کھوچکے ہوتے ہو۔

ان کی اواز پر یک دم مڑا۔

شکر ہے تم لوگ اگئے!یہ دیکھو،یہ مما بابا کی تصاویر!جب ہم لوگ مری گئے تھے۔اور یہ دیکھو یہ ابھی میری گزشتہ برتھ ڈے کی ہیں۔کتنے پیارے لگتے تھے نہ ساتھ میں،دیکھو کتنا پیار تھا دونوں میں مردہ بھی ساتھ کہلائے۔م م م ۔۔۔میں کیا کروں گا ان دونوں کے بغیر،کہاں جاوں گا،میرے تو سارے مزے،ساری خوشیاں یہ لوگ اپنے ساتھ لے گئے۔میں تو کچھ بھی نہیں ہوں ان کے بغیر!میں مر جاوں گا!وہ زاروقطار بچوں کی طرح رورہا تھا۔اسکی حاکت قابل ترس تھی،اسی لئے زونی نے اسے حوصلہ دیا،کندھا سہلا کر،اسکا ہاتھ تھام کر۔وہ اسکا ہاتھ تھامے اسکے قدموں میں بیٹھی تھی۔

zorla aşk🥀Where stories live. Discover now