" واہ سمع تمھارا کام زبردست ہے۔۔۔"سامنے موجود ہستی نے مسکراتے ہوۓ ستاٸشی نظروں سے ہادی کے پیش کردہ تجزیہ اور مواد کو دیکھتے سمع اکرام سے کہا۔۔۔وہ آگے سے خباثت سے ہنسا۔۔۔"بس آج ڈیل فاٸنل ہوتے ہی بیرون ملک روانہ ہوجاٶ گا۔پھر پاکستان جاۓ بھاڑ میں۔۔۔اسے تباہی سے کون بچاسکے گا۔۔۔"سمع اکرام نے مشروب کا گلاس لبوں سے لگایا۔
یکدم بتی چلی گٸی۔ہادی تیز قدم اٹھاتا کمرے سے نکلا۔
سمع اکرام نے پہلو بدلہ۔۔۔"ہادی۔۔۔۔خورشيد ۔۔۔" اسنے آواز لگاٸی۔۔۔دو منٹ بعد بتی روشن ہوٸی۔۔۔سامنے مہمان جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوۓ۔۔۔سمع اکرام کی چھٹی حس اسے بار بار کوٸی سگنل دے رہی تھی۔وہ مسکراتا ہوا کھڑا ہوا۔۔۔ان سے ہاتھ ملاتا باہر تک چھوڑنے آیا۔۔۔

دور جنگل کے درمیان واقع اس فارم ہاٶس کے وسیع لاٶنج میں بےفکر چہرے کھڑے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوۓ۔۔۔۔مہمان گاڑی میں بیٹھتے اس سے پہلے فضا میں دھواں پھیلا۔۔۔"یہ کیسی گیس ہے۔۔۔؟" وہ لوگ کھانسنے لگے۔۔۔۔دیکھتے دیکھتے ہر طرف سیاہ ماسک والے چہرے چھانے لگے۔۔۔۔سیکنڈ کے دسویں حصے میں سارے گھر کو رینجرز انڈر کنٹرول لے چکے تھے۔احد نے بندوق مہمان خصوصی کی کنپٹی پر رکھی۔
"آہ شہریار صاحب ملک کی معمور ہستی۔۔۔بڑی دیر کردی مہربان آتے آتے۔۔۔" سیٹی پر دھند بجاتا وہ انکے چہروں کے رنگ اڑا گیا۔

"کون ہو تم لوگ۔۔۔؟" سمع اکرام دہاڑا۔

"مابدولت کو بگ باس کہتے ہیں۔۔۔" بےنیازی سے اپنا تعارف کرواتے اسنے ایک تھپر سمع اکرام کو رسید کیا۔۔۔۔"تم گھٹیا آدمی اندر کیسے آۓ۔۔۔" وہ چیخنے لگا۔۔۔۔"لو ابھی سے دیوانے ہوگٸیں۔۔۔"شیردل نے شہریار کو ہتگھڑی لگاتے انکے سامنے ثبوت رکھے جس میں وہ اور سمع اکرام آمنے سامنے بیٹھے بڑے فخر سے اپنے کرتوت بیان کررہے تھے۔ شیر دل کے جملے پر شہریار نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔۔"شاہ میر تم۔۔۔۔۔" اسے سمجھ نہیں آرہی تھی یہ سب کیسے ہوگیا۔۔۔اسکا مافیا آدھی دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔۔۔اسکے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے والا اگلے دن کا سورج نہیں دیکھ سکتا تھا اور یہاں یہ لوگ اسے گرفتار کرکے تحمل سے کھڑے تھے۔کیا یہ سب اتنا آسان تھا۔۔۔۔

مسٹر شہریار بہت بنا لیا بیوقف عوام کو اور آفیسرز کو۔۔۔۔۔تم ہمارے ساتھ گیم کھیل سکتے ہو۔۔۔کیا ہم تھمارے ساتھ نہیں کھیل سکتے۔۔۔" شاہ میر نے کلستے ہوۓ حرم کے ہاتھ میں ثبوت پکڑاتے شہریار کو دکھا دیتے باہر کی سمت بڑھا۔بیوٹی صاحبہ مسکراتے ہوۓ انکے پیچھے ہو لی۔

ہر طرف سرخ روشنی پھیلی تھی۔۔سمع اکرام کا تنفس بگڑا ہوا تھا۔ سمع اکرام اندر کی طرف بھاگا تھا۔۔۔۔ہادی اور خورشيد کہی نہیں تھے۔۔۔احد اور اے ایچ ایم آہستہ سی چال چلتے اسکے پیچھے آۓ۔۔۔"کوٸی فاٸدہ نہیں منڈلانے کا تمھارے بندے پکڑے جاچکے ہیں۔۔۔" ہماس خورشيد کے سر پر بندوق تانے سامنے آیا۔۔۔۔سمع اکرام کا بس چلتا وہ ان سب کو شوٹ کردیتا لیکن اس بھول بھلیاں میں اسکا ذہن ماٶف ہوتا جارہا تھا۔

یوں ہم ملے از نازش منیر(completed)Where stories live. Discover now