Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)

By UrduWORLD

1.2K 8 1

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" مولوی صاحب کی آواز گونجی۔ اس نے نظر اٹھا کر سامنے سرخ جوڑے میں ملبوس ہاتھ مسلتی... More

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 7
Episode 8
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 13
Episode 14
Episode 15
Episode 16
Episode 17

Episode 9

52 0 0
By UrduWORLD


گاڑی حریم کے گھر کے باہر رکی ہوئی تھی۔

حریم نے ایک نظر احمد پر ڈالی۔

معمول کے برعکس وہ مسکرا رہا تھا۔

"احمد تم مجھے تنہا تو نہیں چھوڑو گے نہ؟"

حریم کے دل میں ہزاروں وسوسے جنم لے رہے تھے۔

"میں کیوں تم سے جھوٹ بولوں گا؟"

احمد آبرو اچکا کر بولا۔

حریم خاموش ہو گئی۔

"اچھا اب تو بتا دو تمہارا گھر کہاں ہے؟"

حریم منہ بناتی ہوئی بولی۔

احمد چہرہ جھکا کر مسکرانے لگا۔

"نہیں آتی میں تمہارے گھر ڈاکہ ڈالنے۔۔۔"

حریم خفا خفا سی بولی۔

"تمہارا کیا بھروسہ کب کہاں پہنچ جاؤ۔۔۔"

احمد بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔

"اور تمہارا کیا بھروسہ؟ اگر تم واپس نہ آےُ؟"

حریم یکدم سنجیدہ ہو گئی۔

"میرے واپس آنے تک یہ فضول بولنے کی عادت ختم کر لینا۔۔۔"

احمد کا مطلب تھا اب وہ جاےُ۔

"اور تم کریلے کھانا بند کر دینا۔۔۔"

حریم جل کر بولی۔

احمد نفی میں گردن ہلانے لگا۔

"صاف صاف بولو نہ جاؤ یہاں سے۔‍۔"

حریم منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"اچھا صاف صاف بول رہا ہوں جاؤ ماحد میرا انتظار کر رہا ہے۔۔۔"

احمد بے چارگی سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔

حریم ناک پر غصہ سجاتی باہر نکل گئی۔

احمد زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔

حریم نے گھر کے اندر قدم رکھا تو اسد کے پرفیوم نے اس کا استقبال کیا۔

وہ حریم کی جانب پشت کیے کھڑا تھا۔

حریم اسے عجیب نظروں سے دیکھتی آگے بڑھنے لگی۔

قدموں کی آہٹ پر اسد نے گردن گھمائی۔

حریم کو سامنے دیکھ کر آنکھوں میں بے یقینی سمٹ آئی۔

اسد کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی۔

وہ حریم کی جانب قدم اٹھانے لگا۔

اسد کی خوشی دیکھ کر حریم کے قدم بھاری ہو گئے۔

یہ چند قدم کا فاصلہ صدیوں پر محیط ہو گیا۔

"مجھے نہیں معلوم تھا تم اتنی جلدی آ جاؤ گی۔۔۔"

اسد کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

"مطلب واپس چلی جاؤں؟"

حریم الٹے قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔

"پاگل ہو کیا؟"

وہ حریم کی نازک کلائی پکڑتا ہوا چلنے لگا اور اپنے سامنے حریم کو بٹھا لیا۔

"تم ٹھیک ہو؟"

اسد بغور اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

"ہاں۔ مجھے کیا ہونا؟"

حریم نیچے دیکھتی ہوئی بولی۔

"اس بار تم بہت لیٹ آئی ہو۔۔۔"

اسد منہ بناتا ہوا بولا۔

"ہاں چھٹی مل نہیں رہی تھی۔۔۔"

حریم سیکرٹ سروس میں ہے اس بات سے کوئی واقف نہیں تھا۔ وہ آرمی میں ہے سب یہی سمجھتے تھے۔

"اب تم واپس نہیں جاؤ گی سمجھی۔۔۔"

اسد ہلکا سا مسکرایا لیکن حریم مسکرا نہ سکی۔

"میں فریش ہو جاؤں؟"

حریم سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"ہاں جاؤ آرام کرو ویسے بھی تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔۔۔"

اسد اسے دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔

حریم صوفے سے اٹھی اور زینے چڑھنے لگی۔

"ھان؟"

اسد نے اسے پکارا۔

ہمممم؟"

حریم رک کر اسے دیکھنے لگی۔

"آئسکریم لاؤں؟"

وہ جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔

"بارش والا موسم ہے رہنے دو بھیگ جاؤ گے۔۔۔"

حریم کہہ کر رکی نہیں اور اوپر چلی گئی۔

"تم نے آئسکریم سے منع کر دیا ناممکن۔۔۔"

اسد نفی میں سر ہلاتا باہر نکل گیا۔

************

"دو گھنٹے بعد وہ لوگ روانہ ہوں گے۔۔۔"

"سر ہم انہیں وہیں پر پکڑ لیں گے تاکہ افشاء کو گرفتار کر لیں اور یہاں سے یہ گندگی ختم ہو جاےُ۔۔۔"

احمد نقشے پر انگلی رکھتا ہوا بولا۔

"ٹھیک ہے تم تیار ہو کر نکلو تب تک اریسٹ وارنٹ جاری ہو جائیں گے۔۔۔"

وہ گھڑی پر نظر ڈالتے ہوۓ بولے۔

احمد سر ہلاتا نکل گیا۔

احمد، ماحد اور ان کی ٹیم وہاں سے نکل گئے۔

افشاء کے اڈے کے باہر وہ سب پھیل گئے۔

اندھیرے میں معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہاں کوئی نفس موجود ہے۔

"ماحد چوکی پر ٹرک نمبر دے دیا ہے نہ تم نے؟"

احمد کی نگاہیں سامنے بنگلے پر مرکوز تھیں۔

"ہاں میں یہیں پر ہوں تم فکر مت کرو بس تم افشاء پر نظر رکھو فرار کا کوئی راستہ نہ ملے اسے۔۔۔"

ماحد کی آواز سنتے ہی احمد نے اردگرد نگاہ دوڑائی۔

چاروں طرف سے انہوں نے بنگلے کو گھیر رکھا تھا۔

پولیس بھی آ چکی تھی۔

ماحد کی جانب سے میسج ملتے ہی احمد آگے بڑھ گیا۔

ٹانگ مار کر دروازہ کھولا۔

پولیس سامنے موجود لڑکی اور لڑکے کو گرفتار کرنے لگی۔

اندر موجود دنیا جو ہر شے سے بے نیاز تھی اس اچانک افتاد پر بوکھلا گئی۔

احمد تیزی سے زینے چڑھتا افشاء کے کمرے کی جانب بڑھا۔

افشاء آوازیں سن کر باہر نکل رہی تھی جب احمد اسے دروازے پر نظر آیا۔

"ہاےُ ڈئیر!"

احمد اس کی پیشانی پر گن رکھتا ہوا بولا۔

پورے گھر میں پولیس اور احمد کی ٹیم پھیل چکی تھی اور ایک ایک کمرے کی تلاشی لے کر وہاں موجود افراد کو باہر نکال رہی تھی۔

"احمد تم؟"

افشاء پھٹی پھٹی نگاہوں سے احمد کو دیکھتی ہوئی بس اتنا ہی بول پائی۔

"بلکل تم نے کیا سوچا تھا اتنی آسانی سے بچ جاؤ گی؟"

احمد دانت پیستا ہوا بولا۔

ہتھکڑی پکڑی اور افشاء کے ہاتھ پشت پر لے جا کر باندھ دئیے۔

"سر اعجاز؟"

احمد گاڑی میں آ کر بیٹھ چکا تھا۔

"کام ہو گیا؟"

ان کے لہجے میں بےقرار تھی۔

"یس سر۔لیکن مجھے ان کا کراچی والا اڈا بھی ختم کرنا یے آپ کی پرمیشن چائیے؟"

احمد بول کر خاموش ہو گیا۔

"پہلے میں وہاں کی رپورٹ بنواتا ہوں اس کے بعد تم یہ مشن سٹارٹ کرنا۔۔۔"

"ٹھیک یے سر۔ ماحد بتا رہا تھا صدیق لغاری کراچی والے اڈے پر ہوتا ہے۔ جانا مانا سیاستدان۔ اسے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔۔۔"

احمد نے چینی سے بولا۔

"میں سمجھ رہا ہوں لیکن تم تھوڑا تحمل سے کام لو صدیق لغاری پر ہاتھ ڈالنا خطرے سے خالی نہیں اور اس کے ساتھ باقی شخصیات بھی ہوں گیں یہ مشن کامیاب ہو جاےُ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔ صبح میں مصطفی کو کراچی بھیجتا ہوں تب تک تم انتظار کرو۔۔۔"

"جی سر۔۔۔"

احمد نے فون جیب میں ڈال لیا اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔

دماغ میں جھماکا سا ہوا۔

احمد نے ہینڈ فری لگائی اور کال ملا کر فون واپس جیب میں ڈال لیا۔

حریم اوندھے منہ بیڈ پر لیٹی تھی جب فون کی رنگ ٹون نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

ہاتھ مار کر اس نے فون ٹٹولا۔

کمرے میں نیم تاریکی تھی۔

احمد کا نام دیکھ کر آنکھیں چمکنے لگیں۔

"مس پاٹنر کیسی ہو؟"

احمد کی ہشاش بشاش آواز سرسرائی۔

بے ساختہ حریم کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

"مجھے کیا ہونا ہے تم بتاؤ مشن کا؟"

حریم کشن پر سر رکھتی ہوئی بولی۔

"جو کام شروع کرتے ہیں اسے اختتام تک پہنچاتے ہیں۔۔۔"

احمد تفاخر سے بولا۔

"گڈ۔۔۔"

حریم کہہ کر خاموش ہو گئی۔

"ویڈیو کال کروں؟"

نجانے احمد کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔

"کرو۔۔۔"

حریم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔

بالوں میں ہاتھ پھیر کر انہیں درست کرنے لگی۔

احمد کا چہرہ واضح نہیں تھا اندھیرے کے باعث۔دوسری جانب حریم کا چہرہ بھی نیم تاریکی میں تھا۔

حریم ہلکا سا مسکرائی۔

احمد کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔

"مسکرا بھی لیا کرو ہمیشہ سڑی ہوئی شکل بناےُ رکھتے ہو۔۔۔"

حریم اسے گھورتی ہوئی بولی۔

"یہ سڑی ہوئی تو نہیں ہے۔۔۔"

احمد داڑھی پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"تمہارے منہ پر کچھ لگا ہے۔۔۔"

حریم کی آنکھوں میں شرارت تھی۔

"کیا؟"

احمد آنکھیں چھوٹے کئے اسکرین کو دیکھنے لگا۔

"اچھا تمہاری آنکھیں ہیں! "

حریم لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔

"کیا کر رہی تھی؟"

احمد فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"کچھ نہیں بس ایسے ہی بیٹھی تھی۔ اچھا اب تو بتا دو کہاں ہے تمہارا گھر؟"

حریم منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"تمہیں میرے بارے میں جاننے کا اشتیاق کیوں ہے؟"

احمد آبرو اچکا کر بولا۔

"نہیں ہونا چاہئے کیا؟ پہلی بار زندگی میں اتنا کھڑوس انسان دیکھا ہے اب کچھ تو معلوم ہونا چائیے نہ۔۔۔"

حریم کو دروازے کے پار آہٹ محسوس ہوئی۔

اس سے قبل کہ احمد کچھ بولتا حریم نے فون بند کر دیا۔

دروازہ پر دستک ہوئی۔

"یس۔۔۔"

اسد دروازہ کھول کر اندر آ گیا۔

"تم جاگ رہی ہو؟"

حریم اثبات میں گردن ہلانے لگی۔

"تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟"

حریم نے اس کے ہاتھ دیکھنے کی سعی کی جو کہ اس کی پشت پر تھے۔

"یہ لو۔۔۔"

اسد اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔

"میں نے تمہیں منع کیا تھا موسم ٹھیک نہیں پھر کیوں گئے؟"

حریم پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی۔

"تم بھول گئی ہو شاید جب بھی تم واپس آتی ہو ہماری پہلی ڈیٹ آئسکریم کی ہوتی ہے۔۔۔"

اسد آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہا تھا۔

"میں کچھ بھی نہیں بھولی۔۔۔"

حریم اس کے ہاتھ سے آئسکریم لیتی ہوئی بولی۔

اسد مسکراتے ہوۓ اپنی آئسکریم کھولنے لگا۔

"تائی امی سے ملی ہو؟"

اسد سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"نہیں۔۔۔"

حریم کی آواز مدھم ہو گئی۔

"کتنی بری بات ہے ھان۔ تم تائی امی سے ملنے کیوں نہیں گئی؟"

اسد خفگی بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا جو آئسکریم کھانے میں محو تھی۔

"اسد تم جانتے ہو نہ جب میرا دل کرے گا میں چلی جاؤں گی۔۔۔"

حریم اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔

"اچھا پھر ایک گڈ نیوز سنو عید پر ہماری شادی ہے۔۔۔"

خوشی اسد کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔

حریم کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔

آنکھیں پھیلاےُ وہ اسد کو دیکھنے لگی۔

"مجھ سے پوچھے بغیر کیسے؟"

حریم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسا رد عمل ظاہر کرے۔

"اس میں اتنی حیرانی والی کون سی بات ہے؟"

اسد بغور اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

"لیکن اسد اتنی جلدی نہیں۔۔۔"

حریم اسے ٹالنا چاہتی تھی۔

"ھان یہ جلدی ہے؟"

اسد حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکا۔

"ٹھیک ہے بٹ یو شاڈ گیو می سمو ٹائم۔۔۔"

حریم کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔

"اوکے نو پرابلم۔۔۔"

اسد مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

حریم نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔

اسد نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بال بکھیر دئیے اور چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ کمرے سے باہر نکل گیا۔

حریم کا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔

آئسکریم اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔

اس مشن نے بہت کچھ بدل دیا تھا۔

اس سے قبل وہ دو مشن کر چکی تھی لیکن وہاں سے ویسی ہی لوٹی تھی جیسی گئی تھی۔

"احمد! "

حریم نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑ لیے۔

"سب خراب کر دیا ہے تم نے۔۔۔"

حریم کی آنکھیں نمکین پانیوں سے تر تھیں۔

"کاش مجھے سر اعجاز اس مشن پر نہ بھیجتے تو یہ سب نہیں ہوتا۔ اسد ٹوٹ جاےُ گا۔ جس نے زندگی کے ہر موڑ پر میرا ساتھ نبھایا میں کیسے اسے انکار کروں گی؟"

حریم آنسو بہاتی بول رہی تھی۔

نہ وہ آگے جا سکتی تھی نہ ہی پیچھے۔

زندگی عجیب دوراہے پر لے آئی تھی۔

حریم نے تکیے پر سر رکھا اور چھت کو گھورنے لگی۔

آنسو اس کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔

کب آس کی آنکھ لگی وہ خود بھی نہ جان سکی۔

ایمن بلی کے جلے پیروں کی مانند یہاں سے وہاں چل رہی تھی جب سے اسے ھان کی واپسی کی خبر ملی تھی۔

"ھان آ گئی ہے مطلب اب اسد کی شادی ہو جاےُ گی۔ میں اسد کو کھو دوں گی؟"

ایمن منہ پر ہاتھ رکھے اپنی آواز دبانے لگی۔

آنسو اس کے رخسار پر گرے رہے تھے۔

"جسے کبھی پایا ہی نہیں اسے کھونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔"

ایمن تلخی سے مسکرائی۔

"آج اسد نے چاےُ بھی نہیں بنوائی مجھ سے۔۔۔"

ایمن سوں سوں کرتی بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گئی۔

کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا جس کے باعث مدھم سی روشنی تھی۔

یکطرفہ محبت سے بڑا کوئی روگ نہیں۔

کیونکہ یہ آگ ہم خود جلاتے ہیں اور اکیلے اس آگ میں جلتے ہیں۔

نہ آپ اظہار کر سکتے ہیں نہ ہی اپنی قسمت پر مطمئن ہو سکتے ہیں۔

"کیوں مجھے ان سے محبت ہوئی؟"

ایمن چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"انہوں نے تو کبھی مجھ سے ایسا رویہ نہیں رکھا پھر کیوں میرا دل ان کی جانب مائل ہوا؟ بچپن سے جانتی تھی ھان اور اسد کی شادی ہو گی پھر کیوں اپنے دل میں جگہ دی انہیں؟"

ایمن تکلیف میں تھی۔

نہ وہ کسی کو بتا سکتی ہے نہ ہی ضبط کر سکتی تھی۔

"اس سے بہتر ہے موت آ جاےُ مجھے کم از کم انہیں ھان کے ساتھ۔۔۔"

ایمن کی ہچکیوں نے اس کے الفاظ کا دم توڑ دیا۔

***********

"بابا کیسے ہیں آپ؟"

احمد سفیر صاحب کے گلے لگتا ہوا بولا۔

"میرا شیر آ گیا؟"

وہ احمد کی پشت تھپتھپاتے ہوۓ بولے۔

"آپ کی طبیعت کیسی ہے؟"

احمد نے پھر سے سوال دہرایا۔

"تمہیں دیکھ لیا ہے نہ اب بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔"

وہ مسکراتے ہوۓ بولے۔

"زویا آئی تھی کیا؟"

احمد کمرے کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔

"ہاں۔ تمہیں کیسے معلوم ہو جاتا ہے؟"

وہ حیرت سے بولے۔

"یہ کمرہ دیکھ رہے ہیں جب وہ آتی ہے تب ایسی سیٹنگ ہوتی ہے اور خالہ چینج کر دیتی ہیں۔۔۔"

احمد مسکراتا ہوا بولا۔

"اچھا تم نہا لو پھر مل کر ناشتہ کریں گے اور ہاں زویا کو بھی فون کر دو۔ بار بار پوچھ رہی تھی تمہارا۔۔۔"

وہ احمد کو دیکھتے ہوۓ بولے۔

"بابا زویا میرے لئے درست انتخاب ہے نہ؟"

احمد دروازے میں کھڑا گردن گھما کر بولا۔

"کیوں تمہارا ارادہ بدل گیا ہے کیا؟"

وہ جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔

"نہیں میرا ارادہ کیوں بدلے گا میں تو آپ سے پوچھ رہا تھا۔۔۔"

احمد کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔

سفیر صاحب مسکراتے ہوۓ اثبات میں سر ہلانے لگے۔

************

حریم اسد کو دیکھ رہی تھی جو تایا ابو کی ساتھ محو گفتگو تھا۔

"ھان تم استعفیٰ دے دو اب۔ ماشاءاللہ اسد کی جاب اتنی اچھی ہے تمہیں ضرورت نہیں جاب کرنے کی۔۔۔"

تایا ابو حریم کو دیکھتے ہوۓ بولے۔

"لیکن تایا ابو؟"

حریم کچھ کہنا چاہتی تھی۔

"تمہیں اپنی بیٹی کہتے نہیں مانتے ہیں ایمن سے بڑی ہو تم اور اب ہم اس فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں۔۔۔"

وہ حتمی انداز میں بولے۔

حریم اسد کو دیکھنے لگی۔

"تایا ابو ٹھیک ہے نہ ابھی عید میں بھی وقت ہے۔۔۔"

اسد حریم کی نظروں کا مفہوم سمجھ چکا تھا۔

"ایمن تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟"

حریم اس کی جانب متوجہ ہوئی۔

"جی اچھی جا رہی ہے۔۔۔"

ایمن وہاں موجود افراد میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔

"میں نے ثمینہ کو فون کیا ہے تم کہیں جانا مت ھان۔۔۔"

لبنا حریم کو مخاطب کرتی ہوئی بولیں۔

"جی ٹھیک ہے جب پھوپھو آئیں مجھے بتا دینا میں اپنے کمرے میں ہوں۔۔۔"

حریم کہتی ہوئی چل دی۔

اسد حریم کو ہی دیکھ رہا تھا۔

حریم میں ہونے والی واضح تبدیلی کم از کم اسد سے مخفی نہیں رہ سکتی تھی۔

اسد الجھ گیا تھا۔

وجہ جاننے سے وہ قاصر تھا۔

حریم سے پوچھتا تو وہ کبھی نہ بتاتی۔

"تایا ابو میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے۔۔۔"

اسد مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

حریم کمرے میں آئی تو فون جگمگا رہا تھا۔

اسکرین پر نظریں جماےُ اس کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"احمد مجھے میسج کر رہا ہے؟ سٹرینج!"

حریم حیران تھی۔

Continue Reading

You'll Also Like

92.8K 9.2K 85
In the face of the powerful, young and roguishly handsome landlord Choudhary Shah-Nawaz Qureshi, only Mehar-Bano was the one to oppose his patriarcha...
7.7K 958 11
Mehrbano is a kind enthusiastic girl entrapped in a loveless marriage with a cold man Ehan Haider. She had fully invested herself in her marriage but...
12.2K 815 16
كاتبة مبتدئة أول رواية لي واتمّنى ان تنّال إلى اعجابكم كُتِبت بقلم الكاتبة:جنى الفيصل✍🏻
342K 15.1K 37
𝑇𝒉𝑒 𝑠𝑡𝑜𝑟𝑦 𝑜𝑓 17 𝑦𝑒𝑎𝑟'𝑠 𝑜𝑙𝑑 𝑅𝑢𝑏𝑎𝑎𝑏, 𝑤𝒉𝑜'𝑠 𝑙𝑖𝑓𝑒 𝑤𝑎𝑠 𝑠𝑢𝑑𝑑𝑒𝑛𝑙𝑦 𝑐𝒉𝑎𝑛𝑔𝑒𝑑 𝑎𝑓𝑡𝑒𝑟 𝑡𝒉𝑒 𝑑𝑒𝑎𝑡𝒉 𝑜�...