Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)

Von UrduWORLD

1.2K 8 1

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" مولوی صاحب کی آواز گونجی۔ اس نے نظر اٹھا کر سامنے سرخ جوڑے میں ملبوس ہاتھ مسلتی... Mehr

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 13
Episode 14
Episode 15
Episode 16
Episode 17

Episode 7

48 1 0
Von UrduWORLD


"رات تو کچھ بتایا نہیں اب بتا دیں گے؟"
افشاء بولتی ہوئی پاشا کے ہمراہ چل رہی تھی۔

"امید ہے بتا دیں لیکن مجھے لگتا ہے پرانے عاشق ہیں۔۔۔"
پاشا پرسوچ دکھائی دے رہا تھا۔

افشاء اثبات میں سر ہلانے لگی۔
پاشا نے تالا کھول کر دروازہ اندر دھکیلا تو اندر کا منظر دیکھ کر اپنی بینائی پر یقین نہ آیا۔

"کہاں گئے دونوں؟"
وہ بمشکل بول پایا۔

افشاء پیشانی پر بل ڈالتی اندر داخل ہوئی۔
"تم نے تو کہا تھا دونوں نڈھال پڑے ہیں یہاں؟"
افشاء طیش میں چلائی۔

"میڈم رات دونوں کی دھلائی کی تھی ایسے کیسے نکل سکتے ہیں؟"
وہ آس پاس دیکھتا ہوا بولا۔

پاشا نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا اور وہ سرنگ میں چلا گیا۔
"ستیاناس ہو تم سب کا۔ دونوں ہاتھ سے نکل گئے۔۔۔"
افشاء انہیں غیظ و غضب سے دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔

پاشا الجھن کا شکار تھا۔
دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا وہ زمین کو گھور رہا تھا۔

"باس دروازہ کھلا پڑا ہے اور خان زمین پر گرا ہے۔۔۔"
وہ ہانپتا ہوا بولا۔

"شٹ۔۔۔"
پاشا دیوار پر مکہ مارتا ہوا بولا۔

پاشا کا دماغ برق رفتاری سے چل رہا تھا۔
"مجھے سمجھ آ گیا میڈم آئیں۔۔۔"
پاشا دروازے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

افشاء جو سب کو گھور رہی تھی پاشا کی بات پر ہنکار بھرتی باہر نکل گئی۔
پاشا اور افشاء ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے۔

"کس کا کام ہے یہ؟"
افشاء نے بےچینی سے پہلو بدلا۔

"تمہاری کسی لڑکی کا کام یے۔۔۔"
پاشا کے لہجے میں ٹہراؤ تھا۔

"ناممکن۔۔۔"
افشاء بے یقینی سے نفی میں گردن ہلانے لگی۔

"تمہاری کسی لڑکی نے انہیں باہر کے تالے کی چابی دی ہے تبھی وہ دونوں فرار ہو گئے۔۔۔"
پاشا پرسکون انداز میں بولا۔

افشاء کو ایک لمحہ لگا تھا جاننے میں۔
"آرزو کو بھیجو اندر۔۔۔"
افشاء فون کان سے لگاےُ بولی۔

پاشا صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر افشاء کو دیکھنے لگا جس کا سفید رنگ اس لمحے غصے کے باعث سرخ پڑ رہا تھا۔
آرزو بنا ڈرے سہمے اندر آئی۔

"جی میڈم ؟"
وہ تابعداری سے بولی۔

"کمینی احمد کو تو نے چابی دی تھی نہ؟"
افشاء اسے بالوں سے دبوچتی ہوئی چلائی۔

آرزو درد سے کراہنے لگی۔
"میڈم میں ایسا کیوں کروں گی؟"
آرزو معصومیت سے بولی۔

"جھوٹ بھی بولے گی اب؟"
افشاء نے کہتے ہوۓ اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔

آرزو آنکھوں میں نمی لئے دائیں رخسار پر ہاتھ رکھے افشاء کو دیکھنے لگی۔
"میڈم آپ کی قسم میں نے کوئی چابی نہیں دی احمد کو۔۔۔"
آرزو اشک بہاتی ہوئی بولی۔

"دفعہ ہو یہاں سے۔۔۔"
افشاء اسے باہر دھکیلتی ہوئی بولی۔

"پھر ان لڑکیوں کا کیا کرنا ہے اب؟ صدیق لغاری بار بار کال کر رہا تھا مجھے"
پاشا نے موضوع بدلا۔

"تمہیں یقین ہے یہ احمد کوئی آفیسر نہیں تھا؟"
افشاء مطمئن نہ ہوئی تھی۔

"آفیسر ہوتا تو اپنے دفاع میں لڑتا ہم سے لیکن وہ دونوں ہم سے مار کھاتے رہے۔مجھے نہیں لگتا وہ کوئی آفیسر تھا۔تم ہی بتا رہی تھی کہ وہ لڑکی احمد کے پاس جا کر خاموش ہو گئی تو اس کا کیا مطلب ہوا؟"
پاشا آبرو اچکا کر بولا۔

"ہمممم۔ مطلب وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے اسی لئے احمد اسے یہاں سے نکالنا چاہتا تھا۔۔۔"
افشاء اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔

"بلکل۔۔۔"
پاشا تائیدی انداز میں بولا۔

"میں لڑکیاں تیار کرواتی ہوں تم صدیق سے بات کر لو۔۔۔"
افشاء کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔
پاشا فون نکال کر نمبر ملانے لگا۔
**********
"تم دونوں نے یہ ظاہر تو نہیں کیا کہ تم آفیسرز ہو؟"
وہ حریم اور احمد کو دیکھتے ہوۓ بول رہے تھے۔

"نو سر۔ ہم نے یہی ظاہر کیا کہ میں حریم کو لینے آیا ہوں بس۔۔۔"
حریم خاموش انہیں سن رہی تھی۔

"ٹھیک ہے۔ماحد بتا رہا تھا افشاء نے بدھ کی رات کو دس لڑکیوں کا سودا کیا ہے جنہیں کراچی بھیجنا ہے۔۔۔"
"تو ہمیں الرٹ رہنا چائیے جیسے ہی وہ نکلیں گے ہم انہیں گرفتار کر لیں۔۔۔"
احمد کے چہرے پر خوشی کی ہلکی سی رمق تھی۔

"بلکل اگر انہیں تم پر شک نہیں ہوا تو وہ اپنا کام جاری رکھیں گے۔۔۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔

"حریم تم دو دن بعد گھر چلی جانا تب تک تمہارے زخم مندمل ہو جائیں گے۔۔۔"
وہ کھڑے ہوتے ہوۓ بولے۔

حریم اور احمد بھی کھڑے ہو گئے۔
"اوکے سر۔۔۔"
حریم سر ہلاتی ہوئی بولی۔

احمد حریم کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت بلکل مختلف معلوم ہو رہی تھی خاموش اور سنجیدہ۔
احمد نے جھرجھری لی اور نظروں کا زاویہ موڑ لیا۔

"یہ تم دونوں کے سیل فونز مجھے کال کر لینا جب ضرورت پڑے۔۔۔"
وہ کہتے ہوۓ باہر نکل گئے۔
حریم شرارتی نظروں سے احمد کو دیکھنے لگی۔

"ناٹ اگین۔۔۔"
احمد فون اٹھا کر کہتا زینے چڑھنے لگا۔

شام کے کسی پہر حریم جمائی روکتی باہر نکلی۔
وہ متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھتی چل رہی تھی۔
ٹیرس کا دروازہ کھلا تھا۔

حریم زینے چڑھنے لگی۔
احمد ریلنگ پر ہاتھ رکھے سموکنگ کر رہا تھا۔
حریم کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"تم ایسے کام بھی کرتے ہو؟"
حریم اس کے ہاتھ سے سیگرٹ لیتی ہوئی بولی۔

احمد سلگتی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے ہاتھ سے لینے کی؟"
وہ سرخ نگاہیں اس پر گاڑھنا ہوا غرایا۔

"ہاتھ سے اور کیسے؟"
حریم پر اس کے غصے کا رتی بھر اثر نہیں ہوتا تھا۔
احمد دانت پیستا دوسری جانب دیکھنے لگا۔

"تم اتنے کھڑوس اور بد دماغ کیوں ہو؟"
حریم اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔

احمد اس کی اس حرکت پر ششدر رہ گیا۔
حریم اس کی زخمی ہتھیلی دیکھ رہی تھی۔

"تم نے ابھی تک پٹی نہیں کی؟"
حریم افسردگی سے بولی۔

"تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ کیوں مجھے پیچھے آ جاتی ہو؟"
"پیچھے تو نہیں تمہارے سامنے ہوں۔۔۔"
حریم منہ بناتی ہوئی چلنے لگی۔

"حریم یہ کیا بدتمیزی یے؟"
احمد اپنا ہاتھ نکالنے کی سعی کر رہا تھا۔

مجبوراً حریم کو رکنا پڑا۔
نگاہیں چھوٹی کیے وہ گردن گھما کر احمد کو دیکھنے لگی۔
کچھ تھا اس کی نگاہوں میں جسے احمد بخوبی سمجھ گیا۔

"تمہارا کام ختم ہو چکا ہے سو اب تم مجھ سے دور رہو تو یہی بہتر ہے۔۔۔"
احمد اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالتا ہوا بولا۔
احمد کی سرد مہری پر حریم کا دل ٹوٹ گیا۔

"کیا سمجھتے ہو تم خود کو؟"
حریم اس کا گریبان پکڑتی ہوئی چلائی۔

آنکھوں میں نمی چہرہ پر غصہ۔
احمد اس کی حالت سمجھنے سے قاصر تھا۔

"تمہارا دماغ پھر گیا ہے۔۔۔"
وہ حریم کے ہاتھ جھٹکتا ہوا بولا۔

حریم اثبات میں سر ہلاتی نیچے چلی گئی۔
احمد بالوں میں ہاتھ پھیرتا ریلنگ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔

حریم مسلسل اسے تنگ کر رہی تھی۔
احمد کے چہرے پر جھنجھلاہٹ تھی۔

"حریم اتنا جذباتی کیوں ہو رہی ہے؟"
احمد نیلگوں آسمان کو دیکھتا ہوا استفسار کرنے لگا۔

حریم کی نظروں میں پسندیدگی وہ سمجھ چکا تھا لیکن اس کا یہ برتاؤ احمد کی سمجھ سے بالا تر تھا۔
"یہ لڑکی کسی مصیبت میں ڈال دے گی مجھے۔۔۔"
احمد بول رہا تھا۔

حریم جو اس کے عقب میں کھڑی تھی اپنا ذکر سن کر مسکرانے لگی۔
حریم چلتی ہوئی اس کے سامنے آئی اور پھر سے احمد کا ہاتھ پکڑ لیا۔

احمد اس کی جرأت پر جتنا حیران ہوتا کم تھا۔
وہ پورے استحقاق سے اس کا ہاتھ پکڑے زخم دھونے لگی۔

"کس حق سے کر رہی ہو یہ سب؟"
احمد تیکھے تیور لئے بولا۔

"میں تمہیں جواب دینے کی پابند نہیں۔۔۔"
حریم مصروف انداز میں بولا۔

"آہ۔تو تم جواب دینے کی روادار نہیں؟"
احمد کو ہنسی بھی آ رہی تھی اور غصہ بھی۔

"احمد تم کہاں رہتے ہو؟"
حریم کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔

احمد نے اپنا سر پیٹ لیا کہ وہ پھر سے شروع ہو گئی۔
"کہیں نہیں۔۔۔"
وہ بیزاری سے کہتا بائیں جانب دیکھنے لگا۔

"ہااا تم سب سڑک پر رہتے ہو؟"
حریم منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔

"تم خاموش کیوں نہیں رہ سکتی؟"
احمد دانت پیستا ہوا بولا۔

"خاموش رہنے سے ہمارے جسم میں ایک خاص قسم کے سیلز ہیں وہ مر جاتے ہیں اس لیے۔۔۔"
حریم نے اپنی جانب سے لاجک بنائی۔

"یہ کیا بکواس ہے؟"
احمد اسے گھورتا ہوا بولا۔

"تم بائیو پڑھتے تو تمہیں معلوم ہوتا نہ۔میں چاہتی ہوں تمہارے اندر وہ ایک زندہ رہیں۔۔۔"
حریم رازداری سے بولی۔

"شٹ اپ۔۔۔"
احمد اکتا کر بولا۔

"کھانے میں کریلے اور میرے سر کے علاوہ کیا پسند ہے تمہیں؟"
حریم لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔

احمد نے اسے گھوری سے نوازا۔
"احمد تمہارا دل چاہتا ہے مجھ سے بات کرنے کا میں جانتی ہوں بس تم نخرے کرتے ہو۔ویسے تمہیں بتا دوں یہ صفت لڑکیوں کی ہے تم غلط ٹریک پر چل رہے ہو۔۔۔"
حریم مسلسل مسکرا رہی تھی۔

"حریم اپنی بکواس بند کر لو۔۔۔"
احمد ضبط کرتا ہوا بولا۔

"یہ بکواس نہیں ہے آئی سمجھ۔۔۔"
حریم اس کی ہتھیلی پر ناخنوں چبھاتی ہوئی بولی۔

"سی۔۔۔"
احمد ہاتھ کھینچتا ہوا اسے گھورنے لگا۔

"تم مرد ہو نہ؟ پھر درد کیوں ہو رہا ہے؟"
حریم معصومیت سے بولی۔

"یا اللہ! کس غلطی کی سزا مجھے مل رہی ہے؟"
احمد مانو ابھی رو دینے کو تھا۔

"توبہ توبہ اتنے جرم کئے ہیں کہ تمہیں خود بھی یاد نہیں۔۔۔"
حریم کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی۔

"حریم اگر تم ابھی کہ ابھی نیچے نہ گئی تو میں تمہیں ٹیرس سے نیچے پھینک دوں گا۔۔۔"
احمد کا صبر جواب دے دیا۔

حریم نے جھانک کر نیچے دیکھا۔
چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ احمد کو دیکھنے لگی۔

"ابھی کہ ابھی میں نیچے نہیں گئی اب پھینکو مجھے نیچے۔۔۔"
حریم جلانے والی مسکراہٹ لئے بولی۔

احمد نے ہاتھ بڑھا کر اس کا گلا دبانا چاہا لیکن رک گیا۔
حریم کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔

"اوہ میرے شیر کو غصہ آ رہا ہے؟"
حریم اسے پچکارنے لگی۔

"مر جاؤ تم۔۔۔"
احمد کہتا ہوا نیچے چلا گیا۔

حریم کھل کر مسکرا دی۔
احمد کا سکون برباد کر کے اسے سکون ملتا تھا۔
***********
"ہیلو اسد؟"
اسد جو گاڑی سے نکلنے لگا تھا ھان کی آواز سن کر دروازہ بند کر لیا۔

"ھان کیسی ہو تم؟"
اسد کے لہجے میں بے قراری تھی۔

"میں بلکل ٹھیک ہوں اور تم کیسے ہو؟ مجھے مس کر رہے ہو؟"
ھان کے لہجے میں تجسس تھا۔

اسد کے چہرے پر شرارت ابھری۔
"نہیں میں کیوں مس کرنے لگا تمہیں؟ تم تو یاد نہیں کرتی مجھے۔۔۔"
اسد خفا خفا سا بولا۔

"اچھا جی۔ تم جانتے ہو نہ مجھے؟"
ھان اس کی بات کا مفہوم سمجھ چکی تھی۔

"مجھ سے بڑھ کر کوئی تمہیں جان سکتا ہے کیا؟"
اسد نے الٹا سوال داغا۔

"بلکل بھی نہیں۔ یار آئسکریم کھانے کا دل کر رہا ہے۔۔۔"
ھان اداسی سے بولی۔

"ھان تم بس واپس آ جاؤ۔ میں مزید دوری برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔"
اسد غمزدہ تھا۔

"ابھی تو کہہ رہے تھے میری یاد نہیں آ رہی؟"
ھان کے چہرے ہر دلکش مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا۔

"تم میری جان ہو تمہیں یاد نہیں کروں گا تو اور کسے کروں گا؟"
اسد کا موڈ فریش ہو چکا تھا۔

"کیا پتہ سیکرٹری کو سیٹ کیا ہو تم نے؟"
ھان لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔

"خدا کا خوف کرو۔میرے لئے بس ھان ہی بہت ہے۔۔۔"
اسد مسکراتا ہوا بولا۔

Weiterlesen

Das wird dir gefallen

144K 6.5K 62
What to do when it would get betrayed by its own blood but then again, Does was she their own blood. Lies, Heartbreaks, Misunderstandings and then f...
378K 16.2K 37
𝑇𝒉𝑒 𝑠𝑡𝑜𝑟𝑦 𝑜𝑓 17 𝑦𝑒𝑎𝑟'𝑠 𝑜𝑙𝑑 𝑅𝑢𝑏𝑎𝑎𝑏, 𝑤𝒉𝑜'𝑠 𝑙𝑖𝑓𝑒 𝑤𝑎𝑠 𝑠𝑢𝑑𝑑𝑒𝑛𝑙𝑦 𝑐𝒉𝑎𝑛𝑔𝑒𝑑 𝑎𝑓𝑡𝑒𝑟 𝑡𝒉𝑒 𝑑𝑒𝑎𝑡𝒉 𝑜�...
40.5K 3.5K 64
Her life has never been more busy. On the verge of a global business expansion and raising eight royal kids, Futhi is hit with the surprise of a life...
100K 9.7K 89
In the face of the powerful, young and roguishly handsome landlord Choudhary Shah-Nawaz Qureshi, only Mehar-Bano was the one to oppose his patriarcha...